فوج اور رینجرز کی طرح خواتین پولیس کو بھی سراہا جانا چاہیے اسٹیلا صادق

قائداعظم میڈل حاصل کرنے والی پہلی خاتون پولیس اہلکار سے ملاقات

قائداعظم میڈل حاصل کرنے والی پہلی خاتون پولیس اہلکار سے ملاقات۔ فوٹو: فائل

ریاست کی طرف سے معاشرے کو منضبط رکھنے کے لیے مختلف قوانین بنائے جاتے ہیں۔ ان قوانین کی خلاف ورزیوں کو روکنے کے لیے پولیس کا ادارہ خاصا اہم کردار ادا کرتا ہے۔

جن افراد پر ان قوانین کو پامال کرنے کا الزام ہو، وہ ملزم کہلاتے ہیں اور پولیس کا محکمہ ان ملزمان کے حوالے سے قانونی کارروائی کرتا ہے۔ ان میں جہاں ایک بڑی تعداد مردوں کی ہوتی ہے، وہیں بعض اوقات خواتین بھی اس کی مرتکب ہو جاتی ہیں، یا کسی الزام کی زد میں آجاتی ہیں۔ ایسے میں ضرورت ہوتی ہے کہ ان کے حوالے سے تمام کارروائی کرنے والی بھی خواتین ہوں۔ اسی طرح بہت سی دوسری کارروائیوں میں بھی خواتین پولیس کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے، تاکہ زیادہ بہتر طریقے سے معاملے کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے، لیکن اگر کوئی خاتون اس ضمن میں اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی سے بھی بڑھ کر کارکردگی کا مظاہرہ کرے تو یہ ایک خاصے کی بات ہے۔ اسٹیلا صادق کا شمار بھی پولیس کی ایسی ہی خواتین میں ہوتا ہے، جنہوں نے اپنی معمول کی ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے اپنی جان دائو پر لگا کر بہت سی دوسری قیمتی جانیں بچالیں اور اس دلیرانہ کارنامے پر انہیں قائداعظم پولیس میڈل سے نوازا گیا۔ اس طرح وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون بن گئی ہیں۔

اسٹیلا صادق 16 ستمبر کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ تین بہنوں اور دو بھائیوں میں سب سے چھوٹی ہیں۔ کم عمری میں والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا، بڑی بہنوں کی شادی کے بعد گھریلو ذمہ داریوں کا بوجھ بھی ان کے کندھوں پر آگیا،جس کے باعث تعلیم کا سلسلہ باقاعدگی سے جاری نہ رہ سکا۔ یاور میموریل اسکول، قائد آباد سے میٹرک کے بعد پرائیوٹ انٹر کیا ۔ والدہ کی خواہش تھی کہ فوج میں بہ حیثیت ڈاکٹر جائیں، لیکن مزاج کچھ ایسا تھا کہ پولیس میں آگئیں۔ جس گھر میں ملازمت کی اجازت نہ ہو، وہاں سے پولیس میں آنا بظاہر ناممکن تھا، لیکن مکمل مخالفت کے باوجودکوشش جاری رکھی۔ اس موقع پر والد نے بہت ساتھ دیا۔ ان کی محنت، لگن اور کام یابی کو دیکھتے ہوئے اب گھر والے بھی بہت خوش ہیں۔ 2009ء میں بطور سپاہی پولیس میں بھرتی کر لی گئیں۔ پہلی تقرری بوٹ بیسن تھانے، کلفٹن میں ہوئی۔ اب وہ ڈیفنس تھانے میں متعین ہیں۔ دوران ملازمت گریجویشن مکمل کیا اور اس کے بعد سندھ پبلک سروس کمیشن کے امتحان میں بھی کام یابی حاصل کی۔

عوامی سطح پر پولیس کی بدنامی کے باوجود اس شعبے کے انتخاب کرنے کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتی ہیں کہ تھانے کے ذریعے لوگوں کے مسائل پتا چلتے ہیں اور معاشرے کو حقیقت کی نظر سے دیکھنے کے لیے اس طرف آنا ضروری تھا۔ پولیس کی بدنامی کو وہ حقیقت سے زیادہ ہوّا سمجھتی ہیں اور کہتی ہیں کہ اب تو پولیس میں بہت پڑھے لکھے لوگ آرہے ہیں۔ بات اگر بدعنوانی کی ہے تو اچھے برے لوگ ہر جگہ ہوتے ہیں۔

پولیس کے حوالے سے اپنے تجربے کو اطمینان بخش قرار دینے والی اسٹیلا کا خیال ہے کہ پولیس ایک اچھا شعبہ ہے اور خواتین کو اس طرف آنا چاہیے۔ مجھے یہاں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں کرنا پڑا، تاہم اعلا سطح پر ہمارے ہاں پولیس کی خواتین کو نظر انداز کیا جاتا ہے۔ فوج اور رینجرز کی خواتین کی خدمات کو جس طرح سراہا جاتا ہے، خواتین پولیس کے لیے اس کا فقدان ہے۔ اس رویے میں تبدیلی کی ضرورت ہے، تاکہ عوام میں مجموعی طور پر بھی پولیس کا تاثر بہتر ہو۔

خواتین پولیس اہلکاروں کو آمدورفت کی سہولت نہ ملنا اسٹیلا کے نزدیک ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہماری ذمہ داریاں وقت اور حالات کی قید سے بے نیاز ہیں اور بعض اوقات آنے جانے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فوج اور رینجرز کے علاوہ دیگر محکموں میں بھی کم سے کم خواتین کو تو آمدورفت کی سہولت دی جاتی ہے، جب کہ پولیس کے محکمے میں کٹھن ذمہ داریوں کے باوجود ایسا نہیں ہے۔کبھی ایک دن میں تین سے چار جگہوں پر ڈیوٹیاں بدلتی ہیں اور ناکافی تنخواہ میں سفری اخراجات بھی ہمیں خود کرنا پڑتے ہیں۔

اسٹیلا صادق سندھ پولیس میں چار سال سے بطور اہلکار اپنے فرائض ادا کر رہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب ماسٹرز کرنے والی لڑکیاں بھی پولیس میں آرہی ہیں، اس لیے پڑھی لکھی خواتین کو ترقیاں ملنی چاہئیں۔ اسٹیلا کو ابھی تک کسی پولیس مقابلے یا گولی چلانے کا اتفاق نہیں ہوا۔ بقول ان کے کہ جب بم کا مقابلہ کر لیا تو پھر گولی کے مقابلے کا کیا خوف۔ البتہ ایک مرتبہ آنسو گیس کے گولے داغتے ہوئے ان کی آنکھیں بھی سوج گئی تھیں۔ کچھ گرفتاریاں ضرور کیں، لیکن لاٹھی چارج اور پکڑ دھکڑ کا موقع نہیں آیا۔ گرفتاری کی مشکلات کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ گرفتاری کے موقع پر بہت سی ملزمائیں چھُریاں لے کر کھڑی ہو جاتی ہیں کہ اگر ہمارے گھر میں داخل ہوئے تو وہ ہم خود کوقتل کر لیں گے۔ ایسی صورت حال میں ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا ہوتا ہے۔


تھانوں میں کی جانے والی تفتیش میں وہ جسمانی تشدد کے حق میں نہیں۔ انہوں نے قتل، چوری اور اغوا کی ملزمائوں سے بغیر مارپیٹ کے کام یاب تفتیش کی۔ اسٹیلا کا کہنا ہے کہ تھانوں میں خواتین کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے۔ تھانے لائی جانے والی کسی بھی ملزمہ کے ساتھ خاتون پولیس اہلکار لازمی ہوتی ہے۔ اگر متعلقہ تھانے میں کوئی خاتون اہلکار نہ بھی ہو تو اس کے ساتھ ضرور لائی جاتی ہے۔ بہ صورت دیگر ملزمہ کو ویمن پولیس اسٹیشن لے جایا جاتا ہے۔

اسٹیلا پولیس کے کرخت برتائو کو فرائض کا حصہ قرار دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ہمیں براہ راست مجرموں سے واسطہ پڑتا ہے اور ایسے جرائم پیشہ لوگوں سے اس کے بغیر کیسے بات کی جا سکتی ہے۔ پولیس پر الزام تو لگا دیا جاتا ہے، لیکن جرائم پیشہ افراد آکر مغلظات بکیں تو پھر کیا کیا جائے؟ البتہ عام آدمی کے ساتھ پولیس ایسا نہیں کرتی۔

اسٹیلا کا کہنا ہے کہ پولیس کا محکمہ سخت محنت کے ساتھ ہر طرح کی صورت حال کا مقابلے کے لیے اعتماد اور عزم و حوصلے کا متقاضی ہے اور وہ اس کے لیے شروع سے ہی پُرعزم تھیں اور انہیں کوئی گھبراہٹ اور خوف نہیں تھا، جیسا کہ اکثر لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ پولیس میں آنے والی خواتین کو بھی بالکل مردوں کی طرح کی تربیت سے گزرنا پڑتا ہے۔ 7 ماہ کی تربیت کے بعد انہیں مرد اہلکاروں کی طرح ذمہ داریاں تفویض کی جاتی ہیں۔ رواں ماہ منگنی کے بندھن میں بندھنے والی اسٹیلا اس بات پر خاصی مطمئن ہیں کہ ان کے ہونے والے شریک حیات کو ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں پر کوئی اعتراض نہیں، بلکہ سسرال والوں کی طرف سے بھی رویہ خاصا حوصلہ افزا ہے۔

اقلیت سے تعلق ہونے کی بنا پر مشکلات کے سوال پر اُن کی وضع داری آڑے آئی، کہتی ہیں کہ کئی دفعہ مشکلات ہوئیں، لیکن کہنا نہیں چاہتی۔ کچھ لوگ محض عیسائی ہونے کی وجہ سے باتیں بناتے ہیں۔ ان کے خیال میں ہمارے ملک میں اقلیتوں کو امتیازی سلوک کا سامنا ہے، جو کہ نہیں ہونا چاہیے۔ ان کی زندگی کا مشکل ترین وقت پولیس کے محکمے کا انتخاب تھا۔ تربیت کا وقت خاصا کٹھن رہا، کیوں کہ خود آتی جاتی تھیں، کوئی گھر والا اس وقت تک راضی نہ تھا۔ بے نظیر بھٹو کو مشعل راہ بنانے والی اسٹیلا ایس ایچ او بننے کا خواب رکھتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ ویمن پولیس اسٹیشن کے علاوہ عام تھانوں میں بھی خاتون ایس ایچ او کی گنجایش ہونی چاہیے۔ اپنی کام یابیوں کو وہ خدا کی مہربانی قرار دیتی ہیں۔ اس کے بعد اپنے والد کی شکر گزار ہیں۔

''جب خودکُش حملہ ہوا۔۔۔''

7 اکتوبر 2010ء کو وہ اپنی معمول کی ذمہ داریوں پر عبداللہ شاہ غازی کے مزار آنے والے زائرین کی حفاظت پر مامور تھیں۔ شام کے وقت ان کی ڈیوٹی تقریباً ختم ہونے کو تھی کہ انہوں نے لوگوں کے جم غفیر میں موجود خود کُش بمبار کو تلاشی کے لیے روکنے کی کوشش کی تو اس نے خود کو بارود سے اُڑا لیا، جس کی زد میں آکر وہ بھی شدید زخمی ہوگئیں۔ اس کے فوراً بعد قطار میں اس سے ذرا پیچھے موجود دوسرے خود کُش بمبار نے بھی دھماکا کر ڈالا۔ شدید زخمی حالت میں بھی خود چل کر باہر آئیں اور فون کر کے اطلاع دی۔ ان کی اس ہمت اور حوصلے کو افسران کی جانب سے بہت سراہا گیا۔ دوسری طرف انہوں نے حملہ آور کو اندر داخل ہونے سے روک کر بڑے جانی نقصان کو بچا لیا، کیوں کہ اگر بمبار اندر جا کر دھماکا کرتا تو زیادہ ہلاکتوں کا خدشہ تھا۔ اس واقعے کے بعد ایک بار پھر اہل خانہ کی طرف سے شدید ترین مخالفت زور پکڑ گئی اور بہن، بھائیوں نے ان پر پولیس چھوڑنے کے لیے دبائو ڈالا، لیکن دوسری طرف محکمہ جاتی سطح پر پذیرائی کے سہارے وہ اس مخالفت کا مقابلہ کرتی رہیں۔ 2012ء میں ان کے اس بہادرانہ کارنامے پر صدر آصف زرداری نے ان کے لیے قائداعظم میڈل کا اعلان کیا، جو انہوں نے 16 جولائی 2013ء کو آئی جی سندھ شاہد ندیم بلوچ کے ہاتھوں وصول کیا۔ اس واقعے کے تین سال گزر جانے کے باوجود اب بھی ادویات کا استعمال کرنا پڑتا ہے، تاہم اب وہ اپنی معمول کی ذمہ داریاں نبھا رہی ہیں۔

شاباشی کا انتظار

قائداعظم ایوارڈ ملنے پر مسرور اسٹیلا صادق کو یہ شکوہ بھی ہے کہ ''پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار کسی خاتون پولیس اہلکار کو قائداعظم میڈل ملا ہے، لیکن حکومتی سطح پر کسی اعلا شخصیت نے اس کام یابی پر ایک شاباشی تک نہیں دی۔ یہاں تک کہ وزیراعلا سندھ کی جانب سے جو بم دھماکے میں زخمیوں کو ایک لاکھ روپے امداد کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس سے بھی وہ محروم ہیں۔ اس حوالے سے جب انہوں نے معلوم کیا تو بتایا گیا کہ متاثرین کو دی جانے والی امداد کی سرکاری فہرست میں ان کا نام ہی موجود نہیں۔ محکمے سے باہر اپنی کام یابی کی پذیرائی نہ کرنے کی وجہ وہ لوگوں کے پولیس کے محکمے سے بے اعتنائی کو قرار دیتی ہیں اور چاہتی ہیں کہ فوج اور رینجرز کی طرح پولیس کو بھی سراہا جانا چاہیے۔
Load Next Story