عسکریت پسندوں سے مذاکرات‘ ابہام دور ہونا چاہیے
وزیراعظم میاں نواز شریف نے 19اگست کو قوم سے خطاب کے دوران عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی دعوت دی تھی۔۔۔۔
KUALA LUMPUR:
وزیراعظم میاں نواز شریف نے 19اگست کو قوم سے خطاب کے دوران عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی دعوت دی تھی' پھر دو روز قبل وفاقی کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس ہوا' جس کی صدارت وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے کی تھی' اس موقع پر یہ بات سامنے آئی کہ جو عسکریت پسند گروپ ہتھیار ڈالے گا' اس سے مذاکرات ہوں گے' اب اگلے روز وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ہتھیار ڈالنے سے مشروط نہیں، ماضی میں کیے گئے مذاکرات ایک حکمت عملی کے تحت تھے جن میں دھوکے کا عنصر بھی تھا۔ طالبان سے مذاکرات موجودہ حکومت کی پہلی ترجیح ہے۔وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ہم13 سال سے یہ موقف اپنائے ہوئے ہیں، ہمارے ساتھ دیگر پارٹیاں اور اسٹیک ہولڈرز ہیںاور ہم نے خاموشی سے کام کیا ہے، اب یہ ہمارا وسیع تر موقف بن چکا ہے جو اے پی سی کے بعد سامنے آئے گا۔ہم غیر مشروط مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، اگر دونوں طرف سے پیشگی شرائط آنا شروع ہوئیں تو مذاکرات نہیں ہو سکیں گے۔
ہماری حکومت طالبان سے نیک نیتی سے مذاکرات کرکے مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے۔ اس سے قبل جب بھی مذاکرات ہوئے ایک فریق راضی ہوتا تو دوسرا نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے افواج پاکستان سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ہے۔ وفاقی زیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے حکومت صرف ایک ہی آپشن پر غور کر رہی ہے اور وہ ہے' مذاکرات۔ حکومت اور فوج اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کو درپیش دہشت گردی اور انتہا پسندی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مذاکرات ہی بہترین اور واحد راستہ ہیں۔ حکومت اور فوج دونوں ہی مذاکراتی عمل کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ ادھر طالبان حلقوں سے جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں' اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت سے مذاکرات کے بارے میں دو دھڑوں میں تقسیم ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پنجابی طالبان رہنما عصمت اللہ معاویہ کو فارغ کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ تحریک طالبان کے امیر حکیم اللہ محسود کی زیر صدارت ہفتہ کو خفیہ مقام پر ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔عصمت اللہ معاویہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے وزیراعظم نواز شریف کی مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کیا تھا۔میڈیا کی اطلاعات کے مطابق عصمت اللہ معاویہ نے ٹی ٹی پی کے فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کی ایگزیکٹو کونسل کو مجھے معزول کرنے کا کوئی اختیار نہیں' پنجابی طالبان علیحدہ گروپ ہے اور اس کی علیحدہ مجلس شوریٰ ہے۔ میڈیا میں ایسی اطلاعات بھی آرہی ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ تحریک طالبان نے حکومت کی مذاکرات کی پیشکش مسترد کر دی ہے' یوں دیکھا جائے تو صورتحال خاصی پیچیدہ اورمبہم ہے۔اس صورت حال سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ حکومت کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت اگر سمجھتی ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے تحریک طالبان پاکستان کو ہتھیار ڈالنے اور اسے مین اسٹریم میں لانے میں کامیاب ہو سکتی ہے تو اسے مذاکرات ضرور کرنے چاہئیں۔ اب تک جو صورت حال سامنے آئی ہے 'اس سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مذاکرات کی منزل ابھی خاصی دور ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ غیر مشروط مذاکرات ہونے چاہئیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ فریقین اپنے اپنے موقف سے ہٹے بغیر مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے۔ ایسی صورت میں مذاکرات کا انجام ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اگر حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی نادیدہ گروپ کام کر رہا ہے تو پھر ممکن ہے کہ حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی نے ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے لیکن یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ابھی تک کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے حوصلہ افزا اشارے سامنے نہیں آئے۔ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت میں شامل بعض بااثر شخصیات ابھی تک یہ سمجھ رہی ہیں کہ یہ جنگ ہماری نہیں بلکہ مسلط کی گئی ہے۔ وہ اسے محض 13سال پرانا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اس قسم کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا خاصا مشکل نظر آتا ہے۔
دہشت گردی محض بم دھماکوں یا خود کش حملوں کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جو سیاسی عزائم کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ جب تک اس نقطے کا ادراک نہیں کیا جاتا 'دہشت گردی کی جڑ تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت نے جو عمل شروع کیا ہے 'اس کا اختتام کہاں ہوتا ہے۔ ملک کے فہمیدہ حلقے یہ چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت اپنے اہدا ف میں کامیاب ہواور ملک کو درپیش مسائل کا کوئی حل سامنے آئے۔ دہشت گردی کے حوالے سے حکومت نے جو بھی کرنا ہے اسے جلد کیا جائے اور اس سلسلے میں جو ابہام ہیں انھیں دور کیا جائے'اس معاملے میں جتنی زیادہ تاخیر ہو گی 'اتنا ہی حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔
وزیراعظم میاں نواز شریف نے 19اگست کو قوم سے خطاب کے دوران عسکریت پسندوں کو مذاکرات کی دعوت دی تھی' پھر دو روز قبل وفاقی کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا اجلاس ہوا' جس کی صدارت وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے کی تھی' اس موقع پر یہ بات سامنے آئی کہ جو عسکریت پسند گروپ ہتھیار ڈالے گا' اس سے مذاکرات ہوں گے' اب اگلے روز وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات ہتھیار ڈالنے سے مشروط نہیں، ماضی میں کیے گئے مذاکرات ایک حکمت عملی کے تحت تھے جن میں دھوکے کا عنصر بھی تھا۔ طالبان سے مذاکرات موجودہ حکومت کی پہلی ترجیح ہے۔وفاقی وزیر داخلہ نے مزید کہا کہ ہم13 سال سے یہ موقف اپنائے ہوئے ہیں، ہمارے ساتھ دیگر پارٹیاں اور اسٹیک ہولڈرز ہیںاور ہم نے خاموشی سے کام کیا ہے، اب یہ ہمارا وسیع تر موقف بن چکا ہے جو اے پی سی کے بعد سامنے آئے گا۔ہم غیر مشروط مذاکرات کرنا چاہتے ہیں، اگر دونوں طرف سے پیشگی شرائط آنا شروع ہوئیں تو مذاکرات نہیں ہو سکیں گے۔
ہماری حکومت طالبان سے نیک نیتی سے مذاکرات کرکے مسئلہ حل کرنا چاہتی ہے۔ اس سے قبل جب بھی مذاکرات ہوئے ایک فریق راضی ہوتا تو دوسرا نہیں ہوتا تھا۔ ہم نے افواج پاکستان سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینا ہے۔ وفاقی زیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنے کے لیے حکومت صرف ایک ہی آپشن پر غور کر رہی ہے اور وہ ہے' مذاکرات۔ حکومت اور فوج اس بات پر متفق ہیں کہ ملک کو درپیش دہشت گردی اور انتہا پسندی کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے مذاکرات ہی بہترین اور واحد راستہ ہیں۔ حکومت اور فوج دونوں ہی مذاکراتی عمل کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ ادھر طالبان حلقوں سے جو اطلاعات سامنے آ رہی ہیں' اس سے یہ ظاہر ہو رہا ہے کہ حکومت سے مذاکرات کے بارے میں دو دھڑوں میں تقسیم ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے پنجابی طالبان رہنما عصمت اللہ معاویہ کو فارغ کر دیا ہے۔
یہ فیصلہ تحریک طالبان کے امیر حکیم اللہ محسود کی زیر صدارت ہفتہ کو خفیہ مقام پر ہونے والے اجلاس میں کیا گیا۔عصمت اللہ معاویہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھوں نے وزیراعظم نواز شریف کی مذاکرات کی پیشکش کا خیر مقدم کیا تھا۔میڈیا کی اطلاعات کے مطابق عصمت اللہ معاویہ نے ٹی ٹی پی کے فیصلے کو ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ٹی ٹی پی کی ایگزیکٹو کونسل کو مجھے معزول کرنے کا کوئی اختیار نہیں' پنجابی طالبان علیحدہ گروپ ہے اور اس کی علیحدہ مجلس شوریٰ ہے۔ میڈیا میں ایسی اطلاعات بھی آرہی ہیں جن میں کہا جا رہا ہے کہ تحریک طالبان نے حکومت کی مذاکرات کی پیشکش مسترد کر دی ہے' یوں دیکھا جائے تو صورتحال خاصی پیچیدہ اورمبہم ہے۔اس صورت حال سے یہ حقیقت بھی واضح ہوتی ہے کہ حکومت کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔ وفاقی حکومت اگر سمجھتی ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے تحریک طالبان پاکستان کو ہتھیار ڈالنے اور اسے مین اسٹریم میں لانے میں کامیاب ہو سکتی ہے تو اسے مذاکرات ضرور کرنے چاہئیں۔ اب تک جو صورت حال سامنے آئی ہے 'اس سے تو یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ مذاکرات کی منزل ابھی خاصی دور ہے۔
وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ غیر مشروط مذاکرات ہونے چاہئیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ فریقین اپنے اپنے موقف سے ہٹے بغیر مذاکرات کی میز پر بیٹھیں گے۔ ایسی صورت میں مذاکرات کا انجام ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اگر حکومت اور طالبان کے درمیان کوئی نادیدہ گروپ کام کر رہا ہے تو پھر ممکن ہے کہ حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہو جائے گی۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ دہشت گردی نے ملک کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے لیکن یہ بھی سوچنے کی بات ہے کہ ابھی تک کالعدم تحریک طالبان کی جانب سے حوصلہ افزا اشارے سامنے نہیں آئے۔ یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت میں شامل بعض بااثر شخصیات ابھی تک یہ سمجھ رہی ہیں کہ یہ جنگ ہماری نہیں بلکہ مسلط کی گئی ہے۔ وہ اسے محض 13سال پرانا مسئلہ سمجھتے ہیں۔ اس قسم کی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنا خاصا مشکل نظر آتا ہے۔
دہشت گردی محض بم دھماکوں یا خود کش حملوں کا نام نہیں بلکہ یہ ایک مائنڈ سیٹ ہے جو سیاسی عزائم کی بنیاد پر قائم ہوا ہے۔ جب تک اس نقطے کا ادراک نہیں کیا جاتا 'دہشت گردی کی جڑ تک پہنچنا ممکن نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت نے جو عمل شروع کیا ہے 'اس کا اختتام کہاں ہوتا ہے۔ ملک کے فہمیدہ حلقے یہ چاہتے ہیں کہ موجودہ حکومت اپنے اہدا ف میں کامیاب ہواور ملک کو درپیش مسائل کا کوئی حل سامنے آئے۔ دہشت گردی کے حوالے سے حکومت نے جو بھی کرنا ہے اسے جلد کیا جائے اور اس سلسلے میں جو ابہام ہیں انھیں دور کیا جائے'اس معاملے میں جتنی زیادہ تاخیر ہو گی 'اتنا ہی حکومت کے لیے مشکلات پیدا ہوں گی۔