شام پر جارحیت نہیں ہونی چاہیے
مغربی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق شام کی بشار الاسد حکومت پر مخالفین کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کے الزامات لگانے۔۔۔۔
مغربی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق شام کی بشار الاسد حکومت پر مخالفین کے خلاف کیمیاوی ہتھیاروں کے الزامات لگانے کے بعد اب امریکا نے شام پر براہ راست حملے کے انتظامات شروع کر دیے ہیں اور اس مقصد کے لیے طیارہ بردار بحری بیڑا شام کی طرف روانہ کر دیا ہے جب کہ امریکی صدر بارک اوباما نے اپنے سیکیورٹی معاونین کے ساتھ شام پر حملہ کرنے کے حوالے سے تبادلہ خیال بھی کیا۔ مشورے میں چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل مارٹن ڈیمپسی بھی شامل تھے جنہوں نے حملہ کرنے کے مختلف زاویوں پر روشنی ڈالی۔
امریکا شام پر یہ حملہ بشار الاسد حکومت پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے جب کہ ایران نے کہا ہے کہ اس کے پاس اس امر کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال بشار حکومت کے مخالفین کیطرف سے کیا گیا ہے جنھیں امریکا اور اس کے حواری یورپی ملکوں کی طرف سے جدید ترین ہتھیاروں اور لاجسٹکس کی امداد دی جا رہی ہے۔ اب ان مخالفین نے کیمیاوی ہتھیار استعمال کر کے اس کا الزام بشار حکومت پر عاید کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔مغربی میڈیا کے مطابق شام پر امریکی حملے کی حکمت عملی طے کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ شامی فوجی کمانڈر زکے بنکرو ںکو سب سے پہلے نشانہ بنایا جائے گا اور اس مقصد کے لیے سمندر سے کروز میزائل چلائے جائیں گے۔
یوں دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ شام میں کیمیاوی ہتھیار استعمال ہوئے ہیں ۔ ایرانی ذرایع ابلاغ بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہتھیار کس نے استعمال کیے۔ صورت حال خاصی پیچیدہ ہو گئی ہے۔ اگر مغربی میڈیا کی یہ اطلاعات درست ہیں کہ امریکا شام پر حملے کی تیاریاں کر رہا ہے تو یہ زیادتی ہو گی۔ اس سے عالمی سطح پر مسائل مزید بڑھیں گے۔
مشرق وسطی کا بحران بھی گہرا ہو گا۔ امریکی انتظامیہ اور مغربی ممالک کو شام پر حملے کی تائید کرنے کے بجائے وہاں فریقین کو کسی قابل قبول حل پر قائل کرنا چاہیے تاکہ شام میں خون ریزی بند ہو ۔ یہی طریقہ زیادہ بہتر ہے۔ اگر شام پر حملہ ہوا تو جس طرح عراق اور لیبیا میں امن قائم نہیں ہو سکا اسی طرح شام بھی مسلسل بدامنی کا شکار رہے گا۔ افغانستان پر بھی امریکا نے فوج کشی کی تھی 'وہاں انتخابات بھی ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجودافغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ امریکی اعلیٰ شخصیات بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہیں۔ لہٰذا دور اندیشی کا تقاضا یہی ہے کہ امریکا شام پر جارحیت نہ کرے۔
امریکا شام پر یہ حملہ بشار الاسد حکومت پر کیمیاوی ہتھیاروں کے استعمال کی بنیاد پر کرنا چاہتا ہے جب کہ ایران نے کہا ہے کہ اس کے پاس اس امر کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں کہ شام میں کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال بشار حکومت کے مخالفین کیطرف سے کیا گیا ہے جنھیں امریکا اور اس کے حواری یورپی ملکوں کی طرف سے جدید ترین ہتھیاروں اور لاجسٹکس کی امداد دی جا رہی ہے۔ اب ان مخالفین نے کیمیاوی ہتھیار استعمال کر کے اس کا الزام بشار حکومت پر عاید کرنے کی راہ ہموار کر دی ہے۔مغربی میڈیا کے مطابق شام پر امریکی حملے کی حکمت عملی طے کرتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ شامی فوجی کمانڈر زکے بنکرو ںکو سب سے پہلے نشانہ بنایا جائے گا اور اس مقصد کے لیے سمندر سے کروز میزائل چلائے جائیں گے۔
یوں دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ شام میں کیمیاوی ہتھیار استعمال ہوئے ہیں ۔ ایرانی ذرایع ابلاغ بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ہتھیار کس نے استعمال کیے۔ صورت حال خاصی پیچیدہ ہو گئی ہے۔ اگر مغربی میڈیا کی یہ اطلاعات درست ہیں کہ امریکا شام پر حملے کی تیاریاں کر رہا ہے تو یہ زیادتی ہو گی۔ اس سے عالمی سطح پر مسائل مزید بڑھیں گے۔
مشرق وسطی کا بحران بھی گہرا ہو گا۔ امریکی انتظامیہ اور مغربی ممالک کو شام پر حملے کی تائید کرنے کے بجائے وہاں فریقین کو کسی قابل قبول حل پر قائل کرنا چاہیے تاکہ شام میں خون ریزی بند ہو ۔ یہی طریقہ زیادہ بہتر ہے۔ اگر شام پر حملہ ہوا تو جس طرح عراق اور لیبیا میں امن قائم نہیں ہو سکا اسی طرح شام بھی مسلسل بدامنی کا شکار رہے گا۔ افغانستان پر بھی امریکا نے فوج کشی کی تھی 'وہاں انتخابات بھی ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجودافغانستان میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ امریکی اعلیٰ شخصیات بھی اس حقیقت کو تسلیم کرتی ہیں۔ لہٰذا دور اندیشی کا تقاضا یہی ہے کہ امریکا شام پر جارحیت نہ کرے۔