جماعت اسلامی۔۔۔۔ کامیاب یا ناکام
جماعت اسلامی ایک سیاسی پارٹی ہے۔ اگریہ کہاجائے کہ اتنے طویل عرصے میں یہ پاکستان کی واحد پارٹی ہےجس کانہ نام بدلااور...
26 اگست کو جماعت اسلامی قائم ہوئی تھی۔ یہ پاکستان بننے سے چھ سال پہلے کی بات ہے۔ سید ابوالاعلیٰ مودودی کی دعوت پر پورے ہندوستان سے 75 لوگ آئے تھے۔ ''اﷲ کی سرزمین پر اﷲ کا نظام'' کے نعرے پر رکھی گئی بنیاد کو آٹھواں عشرہ لگ چکا ہے۔ دلچسپ اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نہ جماعت کوئی بڑی انتخابی کامیابی حاصل کرسکی ہے اور نہ دشمن وقت اسے ختم کرسکا ہے۔ اس بات نے اس سوال کو جنم دیا ہے کہ جماعت کو کامیاب قرار دیا جائے یا ناکام؟
جماعت اسلامی ایک سیاسی پارٹی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اتنے طویل عرصے میں یہ پاکستان کی واحد پارٹی ہے جس کا نہ نام بدلا اور نہ مقاصد اور نہ ہی اس میں کوئی گروہ بندی پیدا ہوئی۔ پاکستان کی کوئی سیاسی پارٹی اوپر سے نیچے تک انتخابات کروانے کا اتنا طویل ریکارڈ نہیں رکھتی۔ مسلم لیگ، جمعیت علمائے اسلام، اے این پی، پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ سے جماعت کا موازنہ کیا جائے تو نام، مقصد، گروہ بندی اور پارٹی الیکشن کی حقیقت واضح ہوجائے گی۔ آئیے! ہم پانچ سیاسی پارٹیوں کو اس کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔
مسلم لیگ کو بنگال میں پہلے عوامی مسلم لیگ اور بعد میں عوامی لیگ میں ڈھالا گیا۔ ایوب دور میں اس کے ساتھ کونسل اور کنونشن لگا۔ ضیا دور میں جونیجو لیگ تو مشرف کے زمانے میں (ق) لیگ بنائی گئی۔ آج بھی نصف درجن پارٹیوں کو مسلم لیگ کہا جاتا ہے۔ جمعیت علمائے ہند کو تقسیم کے بعد جے یو آئی کہا گیا۔ یہ پارٹی آج بھی فضل الرحمن اور سمیع الحق کی قیادت میں رجسٹرڈ ہے۔ اے این پی کی ابتدا کانگریس سے ہوتی ہے پھر ری پبلکن سے نیپ اور شیرباز مزاری کی این ڈی پی سے آج کی عوامی نیشنل پارٹی۔ ہندوستان کی آزادی سے پختون حقوق مقاصد قرار پائے اور اب وفاق پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد۔ پیپلزپارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے اسکندر مرزا اور ایوب خان کی سرپرستی میں سیاست کا آغاز کیا۔
کئی لیڈروں نے گروہ بندی کی کوشش کی لیکن مقبولیت اسے ملی جسے عوام نے بھٹو کا وارث سمجھا۔ مہاجر قومی موومنٹ سے الطاف حسین کی قیادت میں کام کرنے والی پارٹی متحدہ کے روپ میں ڈھل گئی۔ نام کے ساتھ مقصد بھی تبدیل ہوا۔ ایجنسیوں نے گروہ بنانے کی کوشش کی لیکن مہاجر کے نام پر اٹھنے والا سندھ کا شہری ووٹر اگر کسی ایم کیو ایم کے ساتھ ہے تو وہ ہے جس کی قیادت الطاف حسین کر رہے ہیں۔ یہ مختصر جائزہ تھا پانچ پارٹیوں کا۔ جماعت اپنے نام اور مقصد پر آج بھی قائم ہے۔ نہ اس میں گروہ بندی نظر آئی اور نہ کبھی پارٹی انتخابات رکتے دیکھے گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی مستقل مزاجی اور اصول پسندی کے باوجود اب تک بڑی انتخابی کامیابی جماعت کا مقدر کیوں نہ بن سکی۔ پہلے ہم جماعت کی انتخابی تاریخ بیان کریں گے اور پھر کامیابی کا دو نکاتی فارمولا۔
مولانا مودودی کی قیادت میں 70 کا انتخاب لڑنے والی جماعت پورے ملک سے صرف چار نشستیں حاصل کرسکی۔ یہ سچ ہے کہ عوامی لیگ اور پیپلزپارٹی کے سوا کوئی پارٹی دو ہندسے والی سیٹیں نہ جیت سکی تھی۔ میاں طفیل کے دور میں 77 میں قومی اتحاد سے مل کر اور 85 کے غیر جماعتی انتخابات تاریخ کا حصہ ہیں۔ قاضی حسین احمد کے دور میں دو انتخابات آئی جے آئی کی شکل میں پھر ''پاکستان اسلامک فرنٹ'' قائم کرکے عوام کے دل پر دستک دینے کی ناکام کوشش۔ 97 میں بائیکاٹ کے بعد نئی صدی میں متحدہ مجلس عمل کی شکل میں بڑی انتخابی کامیابی اور دو صوبوں میں حکومت۔ 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ قاضی صاحب کی قیادت میں جماعت کا آخری انتخابی فیصلہ تھا۔ سید منور حسن کی سربراہی میں جماعت نے تنہا پرواز کی لیکن نتیجہ 70 سے مختلف نہ نکلا۔ یہ ہے جماعت کی انتخابی تاریخ۔ ایک مرتبہ غیر جماعتی، دو مرتبہ بائیکاٹ، تین مرتبہ سولو فلائٹ اور چار مرتبہ اتحاد۔ یوں دس انتخابات میں جماعت نے ہر انداز آزما کر دیکھ لیا لیکن کامیابی نہ ملی۔ وجہ؟ اب کیا کامیابی جماعت کے دروازے پر دستک دے رہی ہے؟ مصر اور ترکی میں اسلام پسندوں کو وسیع تر عوامی حمایت کی جھلک پاکستان میں دکھائی دے گی؟
انتخابی کامیابی کے دو تقاضے ہوتے ہیں۔ ''پیٹ کا مسئلہ اٹھانا اور اس پر لات مارنے والے کی نشاندہی کرنا''۔ جماعت اب تک ان تقاضوں کو پورا نہیں کرسکی ہے۔ آئیے ذرا جناح، مجیب، بھٹو اور الطاف کی کامیابیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو اسی لیے کامیابی ملی کہ مسلمان سمجھتے تھے کہ انگریز کے جانے کے بعد ہندو کو ان کا معاشی استحصال کرنے کا موقع ملے گا۔ یہاں روزی کا مسئلہ بھی تھا اور اس میں رکاوٹ بننے والا بھی۔ مجیب کے چھ نکات خالصتاً بنگالیوں کی معاشی آزادی کے گرد گھومتے تھے اور اس میں رکاوٹ مغربی پاکستانیوں کو بنایا گیا۔ بھٹو کا روٹی، کپڑا مکان کا نعرہ اور مزدوروں کسانوں کے لیے اس میں روڑے اٹکانے والے سرمایہ دار اور جاگیردار۔ الطاف حسین کا کوٹہ سسٹم کے خلاف آواز اٹھانا، داخلوں و نوکریوں کی بات کرنا سندھ کی شہری آبادی کو متاثر کرگیا۔
سندھی وڈیروں اور پنجابی چوہدریوں کو ان کا ذمے دار قرار دیا گیا۔ گویا کوئی انتخابی کامیابی پیٹ کے مسئلے اور اس پر لات مارنے والے کی نشاندہی کے بغیر نہیں ملتی۔ حالات نے خودبخود جماعت کے ہاتھ یہ نعرے تھما دیے ہیں۔ اسلامی نظام اور اس کی برکتیں عوام کی سمجھ میں نہ آسکیں لیکن کرپشن اور اس کی وجہ سے غربت، بے روزگاری، افلاس، بھوک اور اندھیرے سمجھ میں آرہے ہیں۔ ایماندار اور قابل قیادت کی ضرورت بھی کچھ کچھ ذہنوں میں اتر رہی ہے۔ انتخابی کامیابی، عوامی مقبولیت اور اپنے آپ کو نجات دہندہ ثابت کرنے کے لیے جماعت کو ایک کام کرنا ہوگا۔ اپنی ایک خوبی اور ایک خامی پر نظر رکھنا ہوگی اور اسے تیز رفتاری کے ساتھ عوام کو سمجھانا ہوگا۔
جماعت کے کسی لیڈر پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگایا جاسکا۔ وزارتوں اور میئرشپ کے دوران اربوں کے بجٹ پر اختیار کے باوجود قیادت کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں۔ ضیا دور میں پیداوار کی وزارت پروفیسر غفور، اطلاعات محمود احمد فاروقی، پانی و بجلی چوہدری رحمت علی، منصوبہ بندی پروفیسر خورشید۔ کراچی کی میئرشپ ساڑھے سات سال تک عبدالستار افغانی کے پاس رہی لیکن ان کا جنازہ لیاری کے تین کمروں کے فلیٹ سے اٹھا۔ چار سال تک نعمت اﷲ خان اربوں کے بجٹ کے نگراں رہے لیکن بڑے سے بڑا دشمن کوئی چھوٹے سے چھوٹا الزام نہ لگا سکا۔ خیبر پختونخوا میں سراج الحق اور ان کے ساتھی پانچ سال ایم ایم اے کے دور میں وزیر رہے لیکن الزام کے کسی داغ یا دھبے کی نشاندہی نہ کی جاسکی۔ ایک طرف دوسروں کی کرپشن اور دوسری طرف جماعت کے لوگوں کی ایمانداری۔ اب کرنا کیا ہے۔ خوبی تو یہ ہوگئی، خامی کیا ہے؟
بزرگ قیادت۔ جی ہاں نظریاتی پارٹیوں میں وقت گزرنے کے ساتھ بڑے بڑے عہدوں پر بزرگ قیادت فائز ہوتی ہے۔ سوویت روس میں گورباچوف سے پہلے یہی تھا۔ ساٹھ سالہ لیڈر کو نوجوان سمجھا گیا۔ اس سے قبل کہ ایسے حالات پیدا ہوں، جماعت کی قیادت کو اپنے آئین میں ترمیم کرنی چاہیے۔ سیاسی اور تربیتی امور کو الگ الگ کرکے تمام تر اختیارات منتخب نائب امرا کو دے دیے جائیں۔ بزرگ تربیتی امور کے کرتا دھرتا تو سیاسی معاملات نوجوانوں کے حوالے۔ چالیس پچاس سال تک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، قابل، کمیٹیڈ اور تجربہ کار۔ ناموں کی ضرورت نہیں لیکن سمجھانے کے لیے لازمی ہے کہ سیاسی قیادت سراج الحق، ڈاکٹر معراج الہدیٰ، حافظ نعیم الرحمن، امیرالعظیم، شبیر احمد اور حالیہ برسوں میں فارغ ہونے والے جمعیت کے ناظمین اعلیٰ کے حوالے کردی جائے۔ حلقوں میں ساٹھ سال سے زائد عمر کے لوگوں کی بزرگ کمیٹی قائم کرکے تربیتی امور ان کے حوالے کیے جائیں۔ سیاست شباب کے حوالے تو تربیت تجربے کے سپرد۔
لوہا گرم ہے۔ عوام کرپشن سے تنگ ہیں اور ایماندار مسیحا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بزرگ قیادت میڈیا کی بھرمار اور تیز رفتار ایجادات و ٹیکنالوجی کو نہ سمجھ کر یہ موقع کھودے گی۔ پندرہ منٹ میں دو مرتبہ کالم پڑھنے والے جماعت کے ارکان کو ہاں یا ناں کا فیصلہ پندرہ سیکنڈ میں کرلینا چاہیے، پھر بے شک غور کے لیے پندرہ ہفتے میں پندرہ اجلاس ہوجائیں۔ اگر پندرہ ماہ یعنی دو ہزار پندرہ تک ہوسکنے والے کام کو پندرہ سال تک پھیلا کر آج کی نوجوان قیادت کو بوڑھا کردیا گیا تو پندرہویں صدی تک بھی جماعت وہیں کی وہیں کھڑی ہوگی، چاہے اس کے قیام کو پندرہ عشرے ہی کیوں نہ بیت جائیں۔ وقت جی ہاں وقت جماعت کی موجودہ قیادت کی طرف دیکھ رہا ہے۔ رضاکارانہ دستبرداری طے کرے گی کہ آنے والے دنوں میں جماعت کو کامیاب ہونا ہے یا ناکام۔
جماعت اسلامی ایک سیاسی پارٹی ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ اتنے طویل عرصے میں یہ پاکستان کی واحد پارٹی ہے جس کا نہ نام بدلا اور نہ مقاصد اور نہ ہی اس میں کوئی گروہ بندی پیدا ہوئی۔ پاکستان کی کوئی سیاسی پارٹی اوپر سے نیچے تک انتخابات کروانے کا اتنا طویل ریکارڈ نہیں رکھتی۔ مسلم لیگ، جمعیت علمائے اسلام، اے این پی، پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ سے جماعت کا موازنہ کیا جائے تو نام، مقصد، گروہ بندی اور پارٹی الیکشن کی حقیقت واضح ہوجائے گی۔ آئیے! ہم پانچ سیاسی پارٹیوں کو اس کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔
مسلم لیگ کو بنگال میں پہلے عوامی مسلم لیگ اور بعد میں عوامی لیگ میں ڈھالا گیا۔ ایوب دور میں اس کے ساتھ کونسل اور کنونشن لگا۔ ضیا دور میں جونیجو لیگ تو مشرف کے زمانے میں (ق) لیگ بنائی گئی۔ آج بھی نصف درجن پارٹیوں کو مسلم لیگ کہا جاتا ہے۔ جمعیت علمائے ہند کو تقسیم کے بعد جے یو آئی کہا گیا۔ یہ پارٹی آج بھی فضل الرحمن اور سمیع الحق کی قیادت میں رجسٹرڈ ہے۔ اے این پی کی ابتدا کانگریس سے ہوتی ہے پھر ری پبلکن سے نیپ اور شیرباز مزاری کی این ڈی پی سے آج کی عوامی نیشنل پارٹی۔ ہندوستان کی آزادی سے پختون حقوق مقاصد قرار پائے اور اب وفاق پاکستان کے دائرے میں رہتے ہوئے جدوجہد۔ پیپلزپارٹی کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے اسکندر مرزا اور ایوب خان کی سرپرستی میں سیاست کا آغاز کیا۔
کئی لیڈروں نے گروہ بندی کی کوشش کی لیکن مقبولیت اسے ملی جسے عوام نے بھٹو کا وارث سمجھا۔ مہاجر قومی موومنٹ سے الطاف حسین کی قیادت میں کام کرنے والی پارٹی متحدہ کے روپ میں ڈھل گئی۔ نام کے ساتھ مقصد بھی تبدیل ہوا۔ ایجنسیوں نے گروہ بنانے کی کوشش کی لیکن مہاجر کے نام پر اٹھنے والا سندھ کا شہری ووٹر اگر کسی ایم کیو ایم کے ساتھ ہے تو وہ ہے جس کی قیادت الطاف حسین کر رہے ہیں۔ یہ مختصر جائزہ تھا پانچ پارٹیوں کا۔ جماعت اپنے نام اور مقصد پر آج بھی قائم ہے۔ نہ اس میں گروہ بندی نظر آئی اور نہ کبھی پارٹی انتخابات رکتے دیکھے گئے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی مستقل مزاجی اور اصول پسندی کے باوجود اب تک بڑی انتخابی کامیابی جماعت کا مقدر کیوں نہ بن سکی۔ پہلے ہم جماعت کی انتخابی تاریخ بیان کریں گے اور پھر کامیابی کا دو نکاتی فارمولا۔
مولانا مودودی کی قیادت میں 70 کا انتخاب لڑنے والی جماعت پورے ملک سے صرف چار نشستیں حاصل کرسکی۔ یہ سچ ہے کہ عوامی لیگ اور پیپلزپارٹی کے سوا کوئی پارٹی دو ہندسے والی سیٹیں نہ جیت سکی تھی۔ میاں طفیل کے دور میں 77 میں قومی اتحاد سے مل کر اور 85 کے غیر جماعتی انتخابات تاریخ کا حصہ ہیں۔ قاضی حسین احمد کے دور میں دو انتخابات آئی جے آئی کی شکل میں پھر ''پاکستان اسلامک فرنٹ'' قائم کرکے عوام کے دل پر دستک دینے کی ناکام کوشش۔ 97 میں بائیکاٹ کے بعد نئی صدی میں متحدہ مجلس عمل کی شکل میں بڑی انتخابی کامیابی اور دو صوبوں میں حکومت۔ 2008 کے انتخابات کا بائیکاٹ قاضی صاحب کی قیادت میں جماعت کا آخری انتخابی فیصلہ تھا۔ سید منور حسن کی سربراہی میں جماعت نے تنہا پرواز کی لیکن نتیجہ 70 سے مختلف نہ نکلا۔ یہ ہے جماعت کی انتخابی تاریخ۔ ایک مرتبہ غیر جماعتی، دو مرتبہ بائیکاٹ، تین مرتبہ سولو فلائٹ اور چار مرتبہ اتحاد۔ یوں دس انتخابات میں جماعت نے ہر انداز آزما کر دیکھ لیا لیکن کامیابی نہ ملی۔ وجہ؟ اب کیا کامیابی جماعت کے دروازے پر دستک دے رہی ہے؟ مصر اور ترکی میں اسلام پسندوں کو وسیع تر عوامی حمایت کی جھلک پاکستان میں دکھائی دے گی؟
انتخابی کامیابی کے دو تقاضے ہوتے ہیں۔ ''پیٹ کا مسئلہ اٹھانا اور اس پر لات مارنے والے کی نشاندہی کرنا''۔ جماعت اب تک ان تقاضوں کو پورا نہیں کرسکی ہے۔ آئیے ذرا جناح، مجیب، بھٹو اور الطاف کی کامیابیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔ آل انڈیا مسلم لیگ کو اسی لیے کامیابی ملی کہ مسلمان سمجھتے تھے کہ انگریز کے جانے کے بعد ہندو کو ان کا معاشی استحصال کرنے کا موقع ملے گا۔ یہاں روزی کا مسئلہ بھی تھا اور اس میں رکاوٹ بننے والا بھی۔ مجیب کے چھ نکات خالصتاً بنگالیوں کی معاشی آزادی کے گرد گھومتے تھے اور اس میں رکاوٹ مغربی پاکستانیوں کو بنایا گیا۔ بھٹو کا روٹی، کپڑا مکان کا نعرہ اور مزدوروں کسانوں کے لیے اس میں روڑے اٹکانے والے سرمایہ دار اور جاگیردار۔ الطاف حسین کا کوٹہ سسٹم کے خلاف آواز اٹھانا، داخلوں و نوکریوں کی بات کرنا سندھ کی شہری آبادی کو متاثر کرگیا۔
سندھی وڈیروں اور پنجابی چوہدریوں کو ان کا ذمے دار قرار دیا گیا۔ گویا کوئی انتخابی کامیابی پیٹ کے مسئلے اور اس پر لات مارنے والے کی نشاندہی کے بغیر نہیں ملتی۔ حالات نے خودبخود جماعت کے ہاتھ یہ نعرے تھما دیے ہیں۔ اسلامی نظام اور اس کی برکتیں عوام کی سمجھ میں نہ آسکیں لیکن کرپشن اور اس کی وجہ سے غربت، بے روزگاری، افلاس، بھوک اور اندھیرے سمجھ میں آرہے ہیں۔ ایماندار اور قابل قیادت کی ضرورت بھی کچھ کچھ ذہنوں میں اتر رہی ہے۔ انتخابی کامیابی، عوامی مقبولیت اور اپنے آپ کو نجات دہندہ ثابت کرنے کے لیے جماعت کو ایک کام کرنا ہوگا۔ اپنی ایک خوبی اور ایک خامی پر نظر رکھنا ہوگی اور اسے تیز رفتاری کے ساتھ عوام کو سمجھانا ہوگا۔
جماعت کے کسی لیڈر پر کرپشن کا کوئی الزام نہیں لگایا جاسکا۔ وزارتوں اور میئرشپ کے دوران اربوں کے بجٹ پر اختیار کے باوجود قیادت کے دامن پر کوئی دھبہ نہیں۔ ضیا دور میں پیداوار کی وزارت پروفیسر غفور، اطلاعات محمود احمد فاروقی، پانی و بجلی چوہدری رحمت علی، منصوبہ بندی پروفیسر خورشید۔ کراچی کی میئرشپ ساڑھے سات سال تک عبدالستار افغانی کے پاس رہی لیکن ان کا جنازہ لیاری کے تین کمروں کے فلیٹ سے اٹھا۔ چار سال تک نعمت اﷲ خان اربوں کے بجٹ کے نگراں رہے لیکن بڑے سے بڑا دشمن کوئی چھوٹے سے چھوٹا الزام نہ لگا سکا۔ خیبر پختونخوا میں سراج الحق اور ان کے ساتھی پانچ سال ایم ایم اے کے دور میں وزیر رہے لیکن الزام کے کسی داغ یا دھبے کی نشاندہی نہ کی جاسکی۔ ایک طرف دوسروں کی کرپشن اور دوسری طرف جماعت کے لوگوں کی ایمانداری۔ اب کرنا کیا ہے۔ خوبی تو یہ ہوگئی، خامی کیا ہے؟
بزرگ قیادت۔ جی ہاں نظریاتی پارٹیوں میں وقت گزرنے کے ساتھ بڑے بڑے عہدوں پر بزرگ قیادت فائز ہوتی ہے۔ سوویت روس میں گورباچوف سے پہلے یہی تھا۔ ساٹھ سالہ لیڈر کو نوجوان سمجھا گیا۔ اس سے قبل کہ ایسے حالات پیدا ہوں، جماعت کی قیادت کو اپنے آئین میں ترمیم کرنی چاہیے۔ سیاسی اور تربیتی امور کو الگ الگ کرکے تمام تر اختیارات منتخب نائب امرا کو دے دیے جائیں۔ بزرگ تربیتی امور کے کرتا دھرتا تو سیاسی معاملات نوجوانوں کے حوالے۔ چالیس پچاس سال تک کے اعلیٰ تعلیم یافتہ، قابل، کمیٹیڈ اور تجربہ کار۔ ناموں کی ضرورت نہیں لیکن سمجھانے کے لیے لازمی ہے کہ سیاسی قیادت سراج الحق، ڈاکٹر معراج الہدیٰ، حافظ نعیم الرحمن، امیرالعظیم، شبیر احمد اور حالیہ برسوں میں فارغ ہونے والے جمعیت کے ناظمین اعلیٰ کے حوالے کردی جائے۔ حلقوں میں ساٹھ سال سے زائد عمر کے لوگوں کی بزرگ کمیٹی قائم کرکے تربیتی امور ان کے حوالے کیے جائیں۔ سیاست شباب کے حوالے تو تربیت تجربے کے سپرد۔
لوہا گرم ہے۔ عوام کرپشن سے تنگ ہیں اور ایماندار مسیحا کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بزرگ قیادت میڈیا کی بھرمار اور تیز رفتار ایجادات و ٹیکنالوجی کو نہ سمجھ کر یہ موقع کھودے گی۔ پندرہ منٹ میں دو مرتبہ کالم پڑھنے والے جماعت کے ارکان کو ہاں یا ناں کا فیصلہ پندرہ سیکنڈ میں کرلینا چاہیے، پھر بے شک غور کے لیے پندرہ ہفتے میں پندرہ اجلاس ہوجائیں۔ اگر پندرہ ماہ یعنی دو ہزار پندرہ تک ہوسکنے والے کام کو پندرہ سال تک پھیلا کر آج کی نوجوان قیادت کو بوڑھا کردیا گیا تو پندرہویں صدی تک بھی جماعت وہیں کی وہیں کھڑی ہوگی، چاہے اس کے قیام کو پندرہ عشرے ہی کیوں نہ بیت جائیں۔ وقت جی ہاں وقت جماعت کی موجودہ قیادت کی طرف دیکھ رہا ہے۔ رضاکارانہ دستبرداری طے کرے گی کہ آنے والے دنوں میں جماعت کو کامیاب ہونا ہے یا ناکام۔