چاند اور سائنس
فواد چوہدری نے سائنس کے ذریعے اس اہم مسئلے کو حل کرنے کی تجویز دے کر اپنی ذمے داری پوری کی ہے۔
سائنس اور ٹیکنالوجی کے وزیر بیرسٹر فواد چوہدری نے رویت ہلال کمیٹی کی افادیت کو چیلنج کردیا۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کمیٹی کے ہر اجلاس پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں مگر چاند دکھائی دینے پرکبھی اتفاق رائے نہیں ہوتا۔ ہر سال ملک کے مختلف علاقوں میں الگ الگ عیدیں ہوتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سائنس کی ترقی سے فائدہ اٹھایا جائے توقمری کیلنڈر تیار ہوسکتاہے۔اس کیلنڈرکے ذریعے اسلامی مہینوں کی تاریخوں کا پہلے ہی تعین ہوجاتا ہے۔ مصر میں اس کیلنڈر پر برسوں سے عملدرآمد ہورہا ہے۔
ان کی ہدایت پر وزارت سائنس،کامسیٹس اور اسپارکو کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بھی قائم ہوگئی۔ یہ کمیٹی آیندہ پانچ سال کے لیے قمری کیلنڈر تیارکرے گی، وزیر موصوف کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگلے ہفتے یہ کلینڈر تیار ہوجائے گا اور چاند کے لیے ایپ بھی تیار ہوجائے گی۔ وفاقی وزیر کے بیان کے ساتھ ہی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمنٰ جلال میں آگئے۔
انھوں نے فواد چوہدری کو تنبیہ کی کہ جنھیں مذہبی معاملات کا علم نہیں، انھیں ان پر نہیں بولنا چاہیے۔ رویت ہلال کا مسئلہ پاکستان میں ہمیشہ سے متنازعہ رہا۔ خیبر پختون خواہ ( ہندکو ہزارہ کو چھوڑ کر)، قبائلی علاقوں، بلوچستان کے پشتون علاقوں میں ہمیشہ سے افغانستان اور سعودی عرب کے چاند نظر آنے کے اعلان کے ساتھ عید منائی جاتی رہی ہے۔ باقی ملک میں ایک ہی دن روزہ ایک ہی دن عید منائی جاتی ہے۔
جب پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے اقتدار کو طوالت ملی تو ان کے خلاف سیاسی جماعتوں کی مزاحمتی تحریک بھی مضبوط ہوتی چلی گئی۔ اس زمانے کے کئی معروف علمائے کرام مختلف وجوہات کی بناء پر ایوب حکومت کے مخالفین کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ یہ علماء ایوب خان کے عائلی قوانین سے نالاں تھے۔ ان قوانین میں نکاح اور طلاق کو دستاویزی شکل دینے اور دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی منظوری کی شرط عائد کی گئی تھی ۔ اچانک یہ خیال عام ہوا کہ اس دفعہ جمعہ کو عیدالفطر منائی جائے گی۔ کچھ لوگوں نے یہ شوشا چھوڑ دیا کہ جمعہ کی عید جنرل ایوب خان کے اقتدار پر بھاری ہوگی۔ اس دفعہ پورے ملک میں اندھیرا ہونے تک چاند نہیں نظر آیا لیکن رات گئے راولپنڈی پہنچنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوا کہ خیبرپختون خواہ اور قبائلی علاقوں میں چاند دیکھا گیا۔
60ء کی دہائی کے آخری عشرے تک ملک میں مواصلات کی سہولتیں بہت کم تھیں '' لوگوں کے پاس محدود ٹیلی فون تھے۔ شاید اسی وجہ سے اطلاع دیر سے پہنچی۔ کراچی کے سرکاری ملازمین کی آبادی سرکاری جیکب لائن کی مسجد کے پیش امام اور جید عالم مولانا احتشام الحق تھانوی نے راولپنڈی سے جاری ہونے والے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کیا اور فتویٰ جاری کیا کہ جمعرات کو عید منانا غیر شرعی ہے۔ عید جمعتہ المبارک کو ہی منائی جائے گی، یوں کراچی سمیت کئی شہروں میں دو عیدیں منائی گئیں۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکے دور میں دو عیدوں کا تنازعہ پیدا ہوا ۔ بھٹو صاحب ایک ذہین سیاستدان تھے۔ انھوں نے اپنے مذہبی امور کے وزیر مولانا کوثر نیازی کے ذریعے مولانا احتشام الحق تھانوی کو اس بات پر تیارکیا کہ حکومت ایک مرکزی رویت ہلال کمیٹی قائم کرنا چاہتی ہے، آپ اس کمیٹی کی سربراہی قبول کریں۔ مولانا احتشام الحق تھانوی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ بننے پر تیار ہوگئے۔
اس کمیٹی میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو نمائندگی دی گئی۔ جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو مولانا احتشام الحق تھانوی پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے حامیوں میں شامل تھے، یوں وہ دباؤ کا شکار ہوئے اور اچانک انتقا ل کرگئے۔ رویت ہلال کمیٹی نے کبھی چاند نظر آنے کے بارے میں سائنس کی مدد لینے کے بارے میں نہیں سوچا، البتہ اس کے اجلاس محکمہ موسمیات کے دفتر میں منعقد ہونے لگے اور علماء کرام کی ایک دوربین کے ذریعے چاند دیکھنے کی تصاویر اخبارات کے صفحات پر شائع ہونے لگیں اور ٹی وی چینلز مولانا منیب الرحمن کے اعلان ہلال کو براہِ راست نشر کرنے لگے۔ مگر پشاور کی قدیم تاریخی مسجد قاسم جان کے پیش امام مولانا پوپلزئی نے کبھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو قبول نہیں کیا۔ یوں یہ تنازعہ برسوں سے جاری ہے۔ حکومت اور علماء کرام نے کبھی اس تنازعہ کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔
سائنس و ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبہ میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بناء پر دنیا سمٹ گئی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے 70ء کی دھائی میں جب امریکی خلا باز نیل آرم اسٹرانگ نے چاند پر قدم رکھا تو امریکا اور یورپ کے شہریوں نے یہ منظر اپنے اپنے ٹی وی سیٹ کے اسکرین پر دیکھا، پھر سوویت یونین ، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ماہرین چاند پر جانے لگے۔ اب یہ ماہرین چاند سے لاکھوں میل دور مریخ کی طرف طبع آزمائی کررہے ہیں۔ پھر انٹرنیٹ کے آسان اور سستا ہونے سے اطلاعات کی رسائی کا عمل جو کبھی دنوں اور مہینوں میں مکمل ہوتا تھا اب چند سیکنڈ میں منتقل ہوجاتا ہے۔
دنیا بھر میں محکمہ موسمیات پورے سال کے دوران موسم کی صورتحال کے بارے میں پہلے سے اطلاعات فراہم کردیتا ہے۔ اب ہر شخص اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے اپنے دوستوں اور دشمنوں کی حرکات و اسکنات پر نظر رکھتا ہے۔ خود مسلمان ممالک نے سائنس کی تیز رفتار ترقی سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا ہے۔ مصر اور ترکی میں سائنسی کیلنڈر کے ذریعے تمام تہواروں کا تعین ہوتا ہے۔ ملک میں دو عیدوں پر شرمندگی کا عنصر زیادہ محسوس نہیں ہوتا مگر یورپ اور امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے بڑی شرمندگی کا باعث ہوتا ہے۔
وہاں مسلمان دوسروں کو یکجہتی کا درس دیتے ہیں مگر اپنے تہواروں پر یہ تقسیم ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی عجب ستم ظریفی ہے کہ جب بھی کوئی حکومت جدید ٹیکنالوجی کے اصولوں کو اپنانے کی کوشش کرتی ہے تو رجعت پسندوں کا واویلا شروع ہو جاتا ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں میں جب ایک رکن قومی اسمبلی جو مذہب کے حوالے سے ہندومت سے تعلق رکھتے ہیں نے 18 سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا تو خود تحریک انصاف میں پھوٹ پڑگئی۔ ایک وزیر مملکت نے اس موقع پر ایسے ریمارکس دیے کہ ہندوؤں کی توہین کا پہلو نمایاں ہوگیا۔ اس بل کی مخالفت کرنے والوں نے عورتوں اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کے بارے میں نہیں سوچا۔ اسی طرح سندھ اسمبلی میں زبردستی تبدیلی مذہب کو روکنے کے لیے ایک دفعہ پھر قانون سازی کا مسودہ پیش ہوا تو لاہور میں جمع ہونے والے مولویوں نے حکومت سندھ کو الٹی میٹم دے دیا۔
فواد چوہدری نے سائنس کے ذریعے اس اہم مسئلے کو حل کرنے کی تجویز دے کر اپنی ذمے داری پوری کی ہے مگر فواد چوہدری کا المیہ یہ ہے کہ ان کی قیادت کسی قسم پر ٹھوس مؤقف اختیارکرنے کو تیار نہیں۔ اس بات کے امکانات ہیں کہ فواد چوہدری کی تجویز تحریک انصاف کے کلچرکی نظر نہ ہوجائے۔
ان کی ہدایت پر وزارت سائنس،کامسیٹس اور اسپارکو کے ماہرین پر مشتمل ایک کمیٹی بھی قائم ہوگئی۔ یہ کمیٹی آیندہ پانچ سال کے لیے قمری کیلنڈر تیارکرے گی، وزیر موصوف کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگلے ہفتے یہ کلینڈر تیار ہوجائے گا اور چاند کے لیے ایپ بھی تیار ہوجائے گی۔ وفاقی وزیر کے بیان کے ساتھ ہی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمنٰ جلال میں آگئے۔
انھوں نے فواد چوہدری کو تنبیہ کی کہ جنھیں مذہبی معاملات کا علم نہیں، انھیں ان پر نہیں بولنا چاہیے۔ رویت ہلال کا مسئلہ پاکستان میں ہمیشہ سے متنازعہ رہا۔ خیبر پختون خواہ ( ہندکو ہزارہ کو چھوڑ کر)، قبائلی علاقوں، بلوچستان کے پشتون علاقوں میں ہمیشہ سے افغانستان اور سعودی عرب کے چاند نظر آنے کے اعلان کے ساتھ عید منائی جاتی رہی ہے۔ باقی ملک میں ایک ہی دن روزہ ایک ہی دن عید منائی جاتی ہے۔
جب پہلے فوجی آمر جنرل ایوب خان کے اقتدار کو طوالت ملی تو ان کے خلاف سیاسی جماعتوں کی مزاحمتی تحریک بھی مضبوط ہوتی چلی گئی۔ اس زمانے کے کئی معروف علمائے کرام مختلف وجوہات کی بناء پر ایوب حکومت کے مخالفین کی صفوں میں شامل ہوگئے۔ یہ علماء ایوب خان کے عائلی قوانین سے نالاں تھے۔ ان قوانین میں نکاح اور طلاق کو دستاویزی شکل دینے اور دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی کی منظوری کی شرط عائد کی گئی تھی ۔ اچانک یہ خیال عام ہوا کہ اس دفعہ جمعہ کو عیدالفطر منائی جائے گی۔ کچھ لوگوں نے یہ شوشا چھوڑ دیا کہ جمعہ کی عید جنرل ایوب خان کے اقتدار پر بھاری ہوگی۔ اس دفعہ پورے ملک میں اندھیرا ہونے تک چاند نہیں نظر آیا لیکن رات گئے راولپنڈی پہنچنے والی اطلاعات سے ظاہر ہوا کہ خیبرپختون خواہ اور قبائلی علاقوں میں چاند دیکھا گیا۔
60ء کی دہائی کے آخری عشرے تک ملک میں مواصلات کی سہولتیں بہت کم تھیں '' لوگوں کے پاس محدود ٹیلی فون تھے۔ شاید اسی وجہ سے اطلاع دیر سے پہنچی۔ کراچی کے سرکاری ملازمین کی آبادی سرکاری جیکب لائن کی مسجد کے پیش امام اور جید عالم مولانا احتشام الحق تھانوی نے راولپنڈی سے جاری ہونے والے اس فیصلے کو ماننے سے انکار کیا اور فتویٰ جاری کیا کہ جمعرات کو عید منانا غیر شرعی ہے۔ عید جمعتہ المبارک کو ہی منائی جائے گی، یوں کراچی سمیت کئی شہروں میں دو عیدیں منائی گئیں۔
وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹوکے دور میں دو عیدوں کا تنازعہ پیدا ہوا ۔ بھٹو صاحب ایک ذہین سیاستدان تھے۔ انھوں نے اپنے مذہبی امور کے وزیر مولانا کوثر نیازی کے ذریعے مولانا احتشام الحق تھانوی کو اس بات پر تیارکیا کہ حکومت ایک مرکزی رویت ہلال کمیٹی قائم کرنا چاہتی ہے، آپ اس کمیٹی کی سربراہی قبول کریں۔ مولانا احتشام الحق تھانوی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ بننے پر تیار ہوگئے۔
اس کمیٹی میں تمام مکاتب فکر کے علماء کو نمائندگی دی گئی۔ جب جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کیا تو مولانا احتشام الحق تھانوی پیپلز پارٹی کے چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کے حامیوں میں شامل تھے، یوں وہ دباؤ کا شکار ہوئے اور اچانک انتقا ل کرگئے۔ رویت ہلال کمیٹی نے کبھی چاند نظر آنے کے بارے میں سائنس کی مدد لینے کے بارے میں نہیں سوچا، البتہ اس کے اجلاس محکمہ موسمیات کے دفتر میں منعقد ہونے لگے اور علماء کرام کی ایک دوربین کے ذریعے چاند دیکھنے کی تصاویر اخبارات کے صفحات پر شائع ہونے لگیں اور ٹی وی چینلز مولانا منیب الرحمن کے اعلان ہلال کو براہِ راست نشر کرنے لگے۔ مگر پشاور کی قدیم تاریخی مسجد قاسم جان کے پیش امام مولانا پوپلزئی نے کبھی مرکزی رویت ہلال کمیٹی کے فیصلے کو قبول نہیں کیا۔ یوں یہ تنازعہ برسوں سے جاری ہے۔ حکومت اور علماء کرام نے کبھی اس تنازعہ کو حل کرنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی ۔
سائنس و ٹیکنالوجی نے زندگی کے ہر شعبہ میں حیرت انگیز ترقی کی ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی کی بناء پر دنیا سمٹ گئی ہے۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے 70ء کی دھائی میں جب امریکی خلا باز نیل آرم اسٹرانگ نے چاند پر قدم رکھا تو امریکا اور یورپ کے شہریوں نے یہ منظر اپنے اپنے ٹی وی سیٹ کے اسکرین پر دیکھا، پھر سوویت یونین ، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کے ماہرین چاند پر جانے لگے۔ اب یہ ماہرین چاند سے لاکھوں میل دور مریخ کی طرف طبع آزمائی کررہے ہیں۔ پھر انٹرنیٹ کے آسان اور سستا ہونے سے اطلاعات کی رسائی کا عمل جو کبھی دنوں اور مہینوں میں مکمل ہوتا تھا اب چند سیکنڈ میں منتقل ہوجاتا ہے۔
دنیا بھر میں محکمہ موسمیات پورے سال کے دوران موسم کی صورتحال کے بارے میں پہلے سے اطلاعات فراہم کردیتا ہے۔ اب ہر شخص اپنے اسمارٹ فون کے ذریعے اپنے دوستوں اور دشمنوں کی حرکات و اسکنات پر نظر رکھتا ہے۔ خود مسلمان ممالک نے سائنس کی تیز رفتار ترقی سے خاطر خواہ فائدہ اٹھایا ہے۔ مصر اور ترکی میں سائنسی کیلنڈر کے ذریعے تمام تہواروں کا تعین ہوتا ہے۔ ملک میں دو عیدوں پر شرمندگی کا عنصر زیادہ محسوس نہیں ہوتا مگر یورپ اور امریکا میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے بڑی شرمندگی کا باعث ہوتا ہے۔
وہاں مسلمان دوسروں کو یکجہتی کا درس دیتے ہیں مگر اپنے تہواروں پر یہ تقسیم ہوجاتے ہیں۔ یہ بھی عجب ستم ظریفی ہے کہ جب بھی کوئی حکومت جدید ٹیکنالوجی کے اصولوں کو اپنانے کی کوشش کرتی ہے تو رجعت پسندوں کا واویلا شروع ہو جاتا ہے۔ ابھی گزشتہ دنوں میں جب ایک رکن قومی اسمبلی جو مذہب کے حوالے سے ہندومت سے تعلق رکھتے ہیں نے 18 سال سے کم عمر کی شادی پر پابندی کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا تو خود تحریک انصاف میں پھوٹ پڑگئی۔ ایک وزیر مملکت نے اس موقع پر ایسے ریمارکس دیے کہ ہندوؤں کی توہین کا پہلو نمایاں ہوگیا۔ اس بل کی مخالفت کرنے والوں نے عورتوں اور نوزائیدہ بچوں کی شرح اموات کے بارے میں نہیں سوچا۔ اسی طرح سندھ اسمبلی میں زبردستی تبدیلی مذہب کو روکنے کے لیے ایک دفعہ پھر قانون سازی کا مسودہ پیش ہوا تو لاہور میں جمع ہونے والے مولویوں نے حکومت سندھ کو الٹی میٹم دے دیا۔
فواد چوہدری نے سائنس کے ذریعے اس اہم مسئلے کو حل کرنے کی تجویز دے کر اپنی ذمے داری پوری کی ہے مگر فواد چوہدری کا المیہ یہ ہے کہ ان کی قیادت کسی قسم پر ٹھوس مؤقف اختیارکرنے کو تیار نہیں۔ اس بات کے امکانات ہیں کہ فواد چوہدری کی تجویز تحریک انصاف کے کلچرکی نظر نہ ہوجائے۔