قبائلی اضلاع کی انتخابی نشستوں میں اضافے کا بل منظور
سیاسی جماعتوں کو اب قبائلی اضلاع میں بلدیاتی انتخابات کے لیے تیاریاں کرنی ہوں گی۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے جب قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے پہلے انتخابات کے انعقادکے لیے شیڈول کا اعلان ہوا تو اس کے ساتھ ہی قبائلی اضلاع میں جوش وخروش پیدا ہو گیا اور وہاں سے امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔
ادھر انتخابی شیڈول آیا اور ساتھ ہی قبائلی اضلاع کے لیے صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کا بل سامنے آگیا اور وہ بھی پی ٹی ایم کے محسن داوڑ کے ذریعے کہ جن کی تنظیم کے حوالے سے حال ہی میں پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے جو کچھ کہا گیا اس کے بعد تو ایسا کوئی امکان نہیں تھا کہ حکومت، پی ٹی ایم کے ساتھ کسی قسم کے رابطے میں رہے گی یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت نے پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات کا جو اعلان کیا تھا وہ بھی اعلان تک ہی محدود رہا، تاہم حیران کن طور پر قومی اسمبلی میں پی ٹی ایم اور تحریک انصاف ایک ہوگئیں اور بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ دیگر پارٹیوں کو بھی اس معاملے میں ہمنوا بنا لیا گیا اور ان کی مدد سے ترمیمی بل کی منظوری حاصل کر لی جائے گی ۔
پچیسویں آئینی ترمیم کے مطابق قبائلی اضلاع کے لیے صوبائی اسمبلی کی21 نشستیں رکھی گئی تھیں جن میں16جنرل،4 خواتین اور ایک اقلیتی نشست شامل ہے تاہم اب ان نشستوں کی تعداد کو بڑھا کر24 کیاجا رہا ہے جس کا فائدہ کچھ قبائلی اضلاع کو اضافی نشستیں ملنے کی صورت میں تو ضرور ہو گا تاہم اس بل کی آمد سے لگ یہی رہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان قبائلی اضلاع میں2 جولائی کو منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے پر مجبور ہو جائے گا کیونکہ قبائلی اضلاع کے لیے اضافی نشستیں آنے کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو ازسرنو حلقہ بندیاں کرنی پڑیں گی جس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ شیڈول کے مطابق 2 جولائی کو انتخابات کا انعقاد کیا جا سکے، مذکورہ انتخابات ملتوی ہونگے اور قرائن بتا رہے ہیں کہ یہ انتخابات اب شاید سال، چھ ماہ بعد ہی منعقد ہو پائٰیں، مذکورہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے قبل صوبہ بھر سمیت قبائلی اضلاع میں بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا جس کے لیے حلقہ بندیاں بھی تیار ہیں۔
قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی انتخابات پچیسویں آئینی ترمیم کا تقاضا پورا کرنے کے لیے25 جولائی سے قبل منعقد کرنا لازمی تھے اور یہ بات سب پر آشکارا تھی تاہم اس حقیقت کو جاننے کے باوجود قبائلی اضلاع میں اسمبلی نشستوں میں اضافہ سے متعلق بل جان بوجھ کر ایسے مرحلے پر لایا گیا کہ جب شیڈول جاری اور امیدوار میدان میں تھے جس کے حوالے سے اس وقت کئی تھیوریز زیر گردش ہیں، چونکہ اب تک قبائلی اضلاع کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز وہاں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز اور اراکین قومی اسمبلی کے ہاتھوں ہی استعمال ہوتے آئے ہیں اس لیے یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ اراکین پارلیمنٹ یہ ترقیاتی فنڈز اب بھی اپنے ہاتھوں ہی میں رکھنے اور کسی دوسرے کے ساتھ شیئر نہ کرنے کے خواہاں ہیں اس لیے آئینی ترمیمی بل کا سہارا لیتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو ملتوی کرانے کی راہ ہموار کی گئی ہے جبکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ قبائلی علاقوں میں مشکلات اور مسائل زیادہ ہونے کی وجہ سے اس وقت صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد تحریک انصاف کے لیے سود مند نہ رہتا اس لیے پی ٹی آئی اور پی ٹی ایم اس معاملے میں ایک ہوگئیں ۔
واقفان حال کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر یہ بحث کافی دیر سے جاری تھی کہ قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیاجائے جس سے پی ٹی آئی کو اپنی خوبیوں کے ساتھ خامیوں کا بھی پتا چل جائے گا اور ساتھ ہی نچلی سطح پر جو نمائندے منتخب ہوکر آئیں گے وہ صوبائی اسمبلی انتخابات میں معاون و مدد گار ثابت ہوں گے تاہم پہلے بلدیاتی یا پھر صوبائی انتخابات؟ اس معاملے پر تحریک انصاف کے اندر اتفاق رائے پیدا نہیں ہو پا رہا تھا جس کی وجہ سے بال الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کورٹ میں چلا گیا جہاں سے شیڈول آگیا تاہم اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اس موقع پر آئینی ترمیمی بل کی آمد خاص مقصد کے لیے ہی ہے اور اگر اس بل اور حلقہ بندیوں کی وجہ سے قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات سال ، چھ ماہ کے لیے ملتوی ہوتے ہیں تو اس عرصے میں صوبائی حکومت صوبہ کے بندوبستی کے ساتھ قبائلی اضلاع میں بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرا سکے گی، صوبہ کے بندوبستی اضلاع میں کام کرنے والے منتخب بلدیاتی ادارے ماہ اگست میں اپنی مدت پوری کر رہے ہیں اور امکان ظاہر کیاجا رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات اکتوبر، نومبر میں منعقد ہو سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے بعض حلقوں اور شخصیات کی خواہشات کے مطابق اگر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد پہلے ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں صورت حال نہ صرف یہ کہ پی ٹی آئی کے لیے بڑی واضح ہو جائے گی بلکہ دیگر پارٹیوں کو بھی معلوم پڑ جائے گا کہ وہ کہاں کھڑی ہیں؟،کچھ ذہنوں میں پلنے والی کہانیوں کے مطابق اگر یہ سال بلدیاتی انتخابات کا سال رہتا ہے تو اس صورت میں قبائلی اضلاع میں عام انتخابات کا انعقادآئندہ سال 2020 ء ہی میں ممکن ہو پائے گا کیونکہ یہ بات بھی واضح ہے کہ اس مرتبہ قبائلی اضلاع سے خیبرپختونخوا اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے نمائندے نہ تو وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ووٹ ڈال سکیں گے اور نہ ہی تحریک اعتماد کا حصہ بن پائیں گے ،ان کی حیثیت نمائشی ہی ہوگی اس لیے اسمبلی میں ان کی آمد میں قدرے تاخیر سے فرق نہیں پڑتا جو اس سال کی بجائے آئندہ سال بھی آئیں تو انہوں نے ایوان میں بیٹھ کر اپنے حلقوں اور قبائلی اضلاع کی نمائندگی ہی کرنی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جب قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہوگا اور وہاں سے نمائندے منتخب ہوکر آئیں گے تو ان میں سے کچھ وزراء بھی بنیں گے اور مشیروں یا معاونین خصوصی کی صورت حکومتی ٹیم کا حصہ بھی اور لگ یہ رہا ہے کہ شاید یہ بات کچھ لوگوں سے ہضم نہیں ہو پا رہی۔
سیاسی جماعتوں کو اب قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی انتخابات کی بجائے بلدیاتی انتخابات کے لیے تیاریاں کرنی ہوں گی جس کے لیے وہ پارٹیاں جن کا نچلی سطح پر سیٹ اپ موجود نہیں انھیں اس پر فوکس کرتے ہوئے نچلی سطح پر اپنا سیٹ اپ قائم کرنا ہوگا کیونکہ نئے بلدیاتی نظام میں سارا فوکس ہی نیبرہڈ، ویلیج کونسلوں اور تحصیلوں کی سطح پر مشتمل نظام پر ہو گا جس کے حوالے سے ان سیاسی پارٹیوں کو زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ جن کا سیٹ اپ نیچے وارڈ، یونین کونسلوں اور دیہات وگلی محلوں کی سطح تک موجود ہے جو اس کا فائدہ لیتے ہوئے سہولت کے ساتھ ہر سطح پر امیدوار سامنے لاسکتی ہیں تاہم جن سیاسی پارٹیوں کا انتہائی نچلی سطح پر سیٹ اپ موجود نہیں انھیں بہرکیف مشکل ہوگی اور وہ آگے بڑھنے اور نظام کا حصہ بننے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کی مدد لینے پر مجبور ہونگی کیونکہ اگر یہ حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو پھر ایسی جماعتیں اس نئے بلدیاتی نظام میں سامنے نہیں آپائیں گی اور وہ نچلی سطح سے قائم ہونے والے اس نئے بلدیاتی سیٹ اپ میں نمائندگی سے محروم رہ جائیں گی، چونکہ آنے والے بلدیاتی انتخابات کا تحصیلوں کی سطح پر انعقاد جماعتی بنیادوں پر ہوگا اس لیے بلدیاتی انتخابات کے لیے سیاسی اتحاد بھی بنیں گے اور ایک امکان یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جے یوآئی،اے این اپی اور پیپلزپارٹی ماضی کی طرز پر اکٹھی ہوکر سہ جماعتی اتحاد بھی بنا سکتی ہیں تاہم یہ سب کچھ تب ہوگا کہ جب بلدیاتی انتخابات کے لیے شیڈول جاری ہو جائے گا ۔
ادھر انتخابی شیڈول آیا اور ساتھ ہی قبائلی اضلاع کے لیے صوبائی اسمبلی کی نشستوں میں اضافے کا بل سامنے آگیا اور وہ بھی پی ٹی ایم کے محسن داوڑ کے ذریعے کہ جن کی تنظیم کے حوالے سے حال ہی میں پاک فوج کے ترجمان کی جانب سے جو کچھ کہا گیا اس کے بعد تو ایسا کوئی امکان نہیں تھا کہ حکومت، پی ٹی ایم کے ساتھ کسی قسم کے رابطے میں رہے گی یہی وجہ ہے کہ صوبائی حکومت نے پی ٹی ایم کے ساتھ مذاکرات کا جو اعلان کیا تھا وہ بھی اعلان تک ہی محدود رہا، تاہم حیران کن طور پر قومی اسمبلی میں پی ٹی ایم اور تحریک انصاف ایک ہوگئیں اور بات صرف یہیں تک محدود نہیں رہی بلکہ دیگر پارٹیوں کو بھی اس معاملے میں ہمنوا بنا لیا گیا اور ان کی مدد سے ترمیمی بل کی منظوری حاصل کر لی جائے گی ۔
پچیسویں آئینی ترمیم کے مطابق قبائلی اضلاع کے لیے صوبائی اسمبلی کی21 نشستیں رکھی گئی تھیں جن میں16جنرل،4 خواتین اور ایک اقلیتی نشست شامل ہے تاہم اب ان نشستوں کی تعداد کو بڑھا کر24 کیاجا رہا ہے جس کا فائدہ کچھ قبائلی اضلاع کو اضافی نشستیں ملنے کی صورت میں تو ضرور ہو گا تاہم اس بل کی آمد سے لگ یہی رہا ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان قبائلی اضلاع میں2 جولائی کو منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے پر مجبور ہو جائے گا کیونکہ قبائلی اضلاع کے لیے اضافی نشستیں آنے کی وجہ سے الیکشن کمیشن کو ازسرنو حلقہ بندیاں کرنی پڑیں گی جس کی وجہ سے یہ ممکن نہیں رہے گا کہ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ شیڈول کے مطابق 2 جولائی کو انتخابات کا انعقاد کیا جا سکے، مذکورہ انتخابات ملتوی ہونگے اور قرائن بتا رہے ہیں کہ یہ انتخابات اب شاید سال، چھ ماہ بعد ہی منعقد ہو پائٰیں، مذکورہ صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے قبل صوبہ بھر سمیت قبائلی اضلاع میں بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جائے گا جس کے لیے حلقہ بندیاں بھی تیار ہیں۔
قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی انتخابات پچیسویں آئینی ترمیم کا تقاضا پورا کرنے کے لیے25 جولائی سے قبل منعقد کرنا لازمی تھے اور یہ بات سب پر آشکارا تھی تاہم اس حقیقت کو جاننے کے باوجود قبائلی اضلاع میں اسمبلی نشستوں میں اضافہ سے متعلق بل جان بوجھ کر ایسے مرحلے پر لایا گیا کہ جب شیڈول جاری اور امیدوار میدان میں تھے جس کے حوالے سے اس وقت کئی تھیوریز زیر گردش ہیں، چونکہ اب تک قبائلی اضلاع کو ملنے والے ترقیاتی فنڈز وہاں سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز اور اراکین قومی اسمبلی کے ہاتھوں ہی استعمال ہوتے آئے ہیں اس لیے یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ مذکورہ اراکین پارلیمنٹ یہ ترقیاتی فنڈز اب بھی اپنے ہاتھوں ہی میں رکھنے اور کسی دوسرے کے ساتھ شیئر نہ کرنے کے خواہاں ہیں اس لیے آئینی ترمیمی بل کا سہارا لیتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے انتخابات کو ملتوی کرانے کی راہ ہموار کی گئی ہے جبکہ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ قبائلی علاقوں میں مشکلات اور مسائل زیادہ ہونے کی وجہ سے اس وقت صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد تحریک انصاف کے لیے سود مند نہ رہتا اس لیے پی ٹی آئی اور پی ٹی ایم اس معاملے میں ایک ہوگئیں ۔
واقفان حال کا یہ بھی کہنا ہے کہ تحریک انصاف کے اندر یہ بحث کافی دیر سے جاری تھی کہ قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات سے قبل بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیاجائے جس سے پی ٹی آئی کو اپنی خوبیوں کے ساتھ خامیوں کا بھی پتا چل جائے گا اور ساتھ ہی نچلی سطح پر جو نمائندے منتخب ہوکر آئیں گے وہ صوبائی اسمبلی انتخابات میں معاون و مدد گار ثابت ہوں گے تاہم پہلے بلدیاتی یا پھر صوبائی انتخابات؟ اس معاملے پر تحریک انصاف کے اندر اتفاق رائے پیدا نہیں ہو پا رہا تھا جس کی وجہ سے بال الیکشن کمیشن آف پاکستان کے کورٹ میں چلا گیا جہاں سے شیڈول آگیا تاہم اب یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ اس موقع پر آئینی ترمیمی بل کی آمد خاص مقصد کے لیے ہی ہے اور اگر اس بل اور حلقہ بندیوں کی وجہ سے قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات سال ، چھ ماہ کے لیے ملتوی ہوتے ہیں تو اس عرصے میں صوبائی حکومت صوبہ کے بندوبستی کے ساتھ قبائلی اضلاع میں بھی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرا سکے گی، صوبہ کے بندوبستی اضلاع میں کام کرنے والے منتخب بلدیاتی ادارے ماہ اگست میں اپنی مدت پوری کر رہے ہیں اور امکان ظاہر کیاجا رہا ہے کہ بلدیاتی انتخابات اکتوبر، نومبر میں منعقد ہو سکتے ہیں۔
تحریک انصاف کے بعض حلقوں اور شخصیات کی خواہشات کے مطابق اگر بلدیاتی انتخابات کا انعقاد پہلے ہوتا ہے تو اس کے نتیجے میں صورت حال نہ صرف یہ کہ پی ٹی آئی کے لیے بڑی واضح ہو جائے گی بلکہ دیگر پارٹیوں کو بھی معلوم پڑ جائے گا کہ وہ کہاں کھڑی ہیں؟،کچھ ذہنوں میں پلنے والی کہانیوں کے مطابق اگر یہ سال بلدیاتی انتخابات کا سال رہتا ہے تو اس صورت میں قبائلی اضلاع میں عام انتخابات کا انعقادآئندہ سال 2020 ء ہی میں ممکن ہو پائے گا کیونکہ یہ بات بھی واضح ہے کہ اس مرتبہ قبائلی اضلاع سے خیبرپختونخوا اسمبلی کے لیے منتخب ہونے والے نمائندے نہ تو وزیراعلیٰ کے خلاف تحریک عدم اعتماد میں ووٹ ڈال سکیں گے اور نہ ہی تحریک اعتماد کا حصہ بن پائیں گے ،ان کی حیثیت نمائشی ہی ہوگی اس لیے اسمبلی میں ان کی آمد میں قدرے تاخیر سے فرق نہیں پڑتا جو اس سال کی بجائے آئندہ سال بھی آئیں تو انہوں نے ایوان میں بیٹھ کر اپنے حلقوں اور قبائلی اضلاع کی نمائندگی ہی کرنی ہے تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جب قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا انعقاد ہوگا اور وہاں سے نمائندے منتخب ہوکر آئیں گے تو ان میں سے کچھ وزراء بھی بنیں گے اور مشیروں یا معاونین خصوصی کی صورت حکومتی ٹیم کا حصہ بھی اور لگ یہ رہا ہے کہ شاید یہ بات کچھ لوگوں سے ہضم نہیں ہو پا رہی۔
سیاسی جماعتوں کو اب قبائلی اضلاع میں منعقد ہونے والے صوبائی اسمبلی انتخابات کی بجائے بلدیاتی انتخابات کے لیے تیاریاں کرنی ہوں گی جس کے لیے وہ پارٹیاں جن کا نچلی سطح پر سیٹ اپ موجود نہیں انھیں اس پر فوکس کرتے ہوئے نچلی سطح پر اپنا سیٹ اپ قائم کرنا ہوگا کیونکہ نئے بلدیاتی نظام میں سارا فوکس ہی نیبرہڈ، ویلیج کونسلوں اور تحصیلوں کی سطح پر مشتمل نظام پر ہو گا جس کے حوالے سے ان سیاسی پارٹیوں کو زیادہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ جن کا سیٹ اپ نیچے وارڈ، یونین کونسلوں اور دیہات وگلی محلوں کی سطح تک موجود ہے جو اس کا فائدہ لیتے ہوئے سہولت کے ساتھ ہر سطح پر امیدوار سامنے لاسکتی ہیں تاہم جن سیاسی پارٹیوں کا انتہائی نچلی سطح پر سیٹ اپ موجود نہیں انھیں بہرکیف مشکل ہوگی اور وہ آگے بڑھنے اور نظام کا حصہ بننے کے لیے دیگر سیاسی جماعتوں کی مدد لینے پر مجبور ہونگی کیونکہ اگر یہ حکمت عملی نہ اپنائی گئی تو پھر ایسی جماعتیں اس نئے بلدیاتی نظام میں سامنے نہیں آپائیں گی اور وہ نچلی سطح سے قائم ہونے والے اس نئے بلدیاتی سیٹ اپ میں نمائندگی سے محروم رہ جائیں گی، چونکہ آنے والے بلدیاتی انتخابات کا تحصیلوں کی سطح پر انعقاد جماعتی بنیادوں پر ہوگا اس لیے بلدیاتی انتخابات کے لیے سیاسی اتحاد بھی بنیں گے اور ایک امکان یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ جے یوآئی،اے این اپی اور پیپلزپارٹی ماضی کی طرز پر اکٹھی ہوکر سہ جماعتی اتحاد بھی بنا سکتی ہیں تاہم یہ سب کچھ تب ہوگا کہ جب بلدیاتی انتخابات کے لیے شیڈول جاری ہو جائے گا ۔