سندھ حکومت ایچ آئی وی کو کنٹرول کرنے کیلئے متحرک ہو گئی
سندھ کے کچھ علاقوں میں ایڈز کے مریضوں کے زیادہ کیس سامنے آنے پر لوگوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔
گورنر سندھ عمران اسماعیل کے ایک ٹی وی انٹرویو پر سندھ کی سیاسی جماعتوں نے سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ اس انٹرویو میں گورنر سندھ عمران اسماعیل نے سندھ کی تقسیم کے مطالبے سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا تھا کہ وہ سندھ سمیت پورے ملک میں انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے کے حامی ہیں۔
سندھ میں نیا پولیس قانون لانے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے لوگوں پر مشتمل سلیکٹ کمیٹی کے کئی اجلاس منعقد ہو چکے ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے ۔ سندھ کے مختلف علاقوں خصوصاً لاڑکانہ کے علاقے رتو ڈیرو میں بڑی تعداد میں لوگوں میں ایچ آئی وی ( ایڈز ) کی نشاندہی کے بعد سخت تشویش پیدا ہو گئی ہے ۔ صورت حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خود بلاول ہاؤس کراچی میں اعلی سطح کے اجلاس کی صدارت کی جس میں حالات کی بہتری کے لئے اقدامات کا جائزہ کیا گیا ۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث سندھ کے لوگوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے اور ایک ہیجان کی صورت حال ہے۔ یہ ہیجان کیا سیاسی رخ اختیار کرتا ہے ، ابھی اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے ۔
سندھ کی تقسیم سے پر گورنر سندھ کا بیان سامنے آنے سے قبل اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں سید خورشید احمد شاہ اور سید نوید قمر نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ایوان صدر میں ملاقات کی۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات صدر ڈاکٹر عارف علوی کی خواہش پر ہوئی تھی ۔ کچھ حلقے اس ملاقات کو پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی '' ٹریک ٹو '' ڈپلومیسی سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ان مشکل حالات میں سیاسی جماعتوں سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو اس کی اب تک کی سیاسی پالیسی سے کسی حد تک انحراف ہے ۔ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ اس ملاقات کے سندھ کی سیاست پر اثرات مرتب ہوں گے لیکن ابھی تک یہ اثرات محسوس نہیں ہوئے۔
گورنر سندھ کے بیان پر پیپلز پارٹی نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور گورنر سندھ کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ۔ ایم کیو ایم کے سوا سندھ کی دیگر وفاق پرست اور قوم پرست جماعتوں نے بھی یہی مطالبہ کیا ۔ گورنر سندھ کو بالآخر ایک سندھی ٹی وی چینل پر آکر وضاحت کرنا پڑی اور انہوں نے کہا کہ وہ سندھ کی تقسیم کے مخالف ہیں ۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی قیادت سندھ میں پیپلز پارٹی کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اور کوئی ایسا موقع نہیں جانے دے رہی جس سے حکومت کو پریشان نہ کیا جا سکے ۔ لگتا ہے کہ صدر مملکت عارف علوی سے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی ملاقات سیاسی طور پر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی ہے۔
گذشتہ ہفتے سندھ کابینہ نے پولیس ایکٹ 1861 کے خاتمے اور پولیس آرڈر 2002 کی بحالی کے لیے ایک مسودہ قانون ( بل ) کی منظوری دی تھی اور اس بل پر غور کے لیے سندھ حکومت کے وزراء اور اپوزیشن لیڈر سمیت اپوزیشن ارکان پر مشتمل ایک سلیکٹ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ۔ سلیکٹ کمیٹی سے کہا گیا تھا کہ وہ ماہرین قانون اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے بھی مشاورت کرے تاکہ سندھ میں پولیس کا ایک موثر قانون نافذ کیا جا سکے ۔
سلیکٹ کمیٹی کے کئی اجلاس منعقد ہو چکے ہیں لیکن حکومت اور اپوزیشن ابھی تک کسی مسودے پر متفق نہیں ہو سکے ہیں ۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت پولیس آرڈر 2002 ء بحال تو کرنا چاہتی ہے لیکن اس کی شکل بگاڑ کر بحال کرنا چاہتی ہے تاکہ پولیس افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں کے اختیارات وزیر اعلی، چیف سیکرٹری اور ہوم سیکرٹری کے پاس ہوں اور وہ اپنی مرضی کے افسران تعینات کر سکے جبکہ سندھ حکومت کا موقف یہ ہے کہ تمام لوگوں کی مشاورت سے مسودہ قانون اسمبلی میں پیش کیا جائے گا ۔ زیادہ سے زیادہ اختیارات لینے کا سندھ حکومت پر الزام غلط ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ معاملہ یونہی کھینچا تانی کا شکار رہے گا یا کسی طرح حل ہوتا ہے ۔
سندھ کے کچھ علاقوں میں ایڈز کے مریضوں کے زیادہ کیس سامنے آنے پر لوگوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ حکومت سندھ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کر رہی ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس حوالے سے بلاول ہاؤس میں ایک خصوصی اجلاس کی صدارت کی، جس میں وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو اور دیگر حکام نے شرکت کی ۔ بلاول بھٹو زرداری نے لوگوں کو علاج معالجے کی تمام ضروری سہولتیں مہیا کرنے کی ہدایت کی ۔
سندھ حکومت نے صحت کے شعبے میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے لیکن یہ نئی صورت حال اس کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے اور قومی اداروں کو بھی اس سلسلے میں آگے آنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو نے تجویز دی ہے کہ پورے ملک میں ایڈز کے وائرس کی اسکریننگ کی جائے کیونکہ اس مرض کے جو اسباب سندھ کے مخصوص علاقوں میں ہیں ، وہ اسباب پورے ملک میں ہیں۔
سندھ میں نیا پولیس قانون لانے کے لیے حکومت اور اپوزیشن کے لوگوں پر مشتمل سلیکٹ کمیٹی کے کئی اجلاس منعقد ہو چکے ہیں لیکن اس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا ہے ۔ سندھ کے مختلف علاقوں خصوصاً لاڑکانہ کے علاقے رتو ڈیرو میں بڑی تعداد میں لوگوں میں ایچ آئی وی ( ایڈز ) کی نشاندہی کے بعد سخت تشویش پیدا ہو گئی ہے ۔ صورت حال سے نمٹنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے خود بلاول ہاؤس کراچی میں اعلی سطح کے اجلاس کی صدارت کی جس میں حالات کی بہتری کے لئے اقدامات کا جائزہ کیا گیا ۔ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے باعث سندھ کے لوگوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے اور ایک ہیجان کی صورت حال ہے۔ یہ ہیجان کیا سیاسی رخ اختیار کرتا ہے ، ابھی اس کے بارے میں کچھ کہنا قبل ازوقت ہے ۔
سندھ کی تقسیم سے پر گورنر سندھ کا بیان سامنے آنے سے قبل اسلام آباد میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنماؤں سید خورشید احمد شاہ اور سید نوید قمر نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی سے ایوان صدر میں ملاقات کی۔ پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات صدر ڈاکٹر عارف علوی کی خواہش پر ہوئی تھی ۔ کچھ حلقے اس ملاقات کو پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی '' ٹریک ٹو '' ڈپلومیسی سے تعبیر کر رہے ہیں ۔ ان کا خیال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت ان مشکل حالات میں سیاسی جماعتوں سے تعاون حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے، جو اس کی اب تک کی سیاسی پالیسی سے کسی حد تک انحراف ہے ۔ توقع یہ کی جا رہی تھی کہ اس ملاقات کے سندھ کی سیاست پر اثرات مرتب ہوں گے لیکن ابھی تک یہ اثرات محسوس نہیں ہوئے۔
گورنر سندھ کے بیان پر پیپلز پارٹی نے سخت ردعمل کا اظہار کیا اور گورنر سندھ کو برطرف کرنے کا مطالبہ کیا ۔ ایم کیو ایم کے سوا سندھ کی دیگر وفاق پرست اور قوم پرست جماعتوں نے بھی یہی مطالبہ کیا ۔ گورنر سندھ کو بالآخر ایک سندھی ٹی وی چینل پر آکر وضاحت کرنا پڑی اور انہوں نے کہا کہ وہ سندھ کی تقسیم کے مخالف ہیں ۔ دوسری طرف پی ٹی آئی کی قیادت سندھ میں پیپلز پارٹی کو سخت تنقید کا نشانہ بنا رہی ہے اور کوئی ایسا موقع نہیں جانے دے رہی جس سے حکومت کو پریشان نہ کیا جا سکے ۔ لگتا ہے کہ صدر مملکت عارف علوی سے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی ملاقات سیاسی طور پر نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئی ہے۔
گذشتہ ہفتے سندھ کابینہ نے پولیس ایکٹ 1861 کے خاتمے اور پولیس آرڈر 2002 کی بحالی کے لیے ایک مسودہ قانون ( بل ) کی منظوری دی تھی اور اس بل پر غور کے لیے سندھ حکومت کے وزراء اور اپوزیشن لیڈر سمیت اپوزیشن ارکان پر مشتمل ایک سلیکٹ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ۔ سلیکٹ کمیٹی سے کہا گیا تھا کہ وہ ماہرین قانون اور سول سوسائٹی کے نمائندوں سے بھی مشاورت کرے تاکہ سندھ میں پولیس کا ایک موثر قانون نافذ کیا جا سکے ۔
سلیکٹ کمیٹی کے کئی اجلاس منعقد ہو چکے ہیں لیکن حکومت اور اپوزیشن ابھی تک کسی مسودے پر متفق نہیں ہو سکے ہیں ۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت پولیس آرڈر 2002 ء بحال تو کرنا چاہتی ہے لیکن اس کی شکل بگاڑ کر بحال کرنا چاہتی ہے تاکہ پولیس افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں کے اختیارات وزیر اعلی، چیف سیکرٹری اور ہوم سیکرٹری کے پاس ہوں اور وہ اپنی مرضی کے افسران تعینات کر سکے جبکہ سندھ حکومت کا موقف یہ ہے کہ تمام لوگوں کی مشاورت سے مسودہ قانون اسمبلی میں پیش کیا جائے گا ۔ زیادہ سے زیادہ اختیارات لینے کا سندھ حکومت پر الزام غلط ہے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ یہ معاملہ یونہی کھینچا تانی کا شکار رہے گا یا کسی طرح حل ہوتا ہے ۔
سندھ کے کچھ علاقوں میں ایڈز کے مریضوں کے زیادہ کیس سامنے آنے پر لوگوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔ حکومت سندھ اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ہنگامی اقدامات کر رہی ہے ۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس حوالے سے بلاول ہاؤس میں ایک خصوصی اجلاس کی صدارت کی، جس میں وزیر صحت ڈاکٹر عذرا پیچوہو اور دیگر حکام نے شرکت کی ۔ بلاول بھٹو زرداری نے لوگوں کو علاج معالجے کی تمام ضروری سہولتیں مہیا کرنے کی ہدایت کی ۔
سندھ حکومت نے صحت کے شعبے میں سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی ہے لیکن یہ نئی صورت حال اس کے لیے بہت بڑا چیلنج ہے جس سے نمٹنے کے لئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے اور قومی اداروں کو بھی اس سلسلے میں آگے آنا چاہیے۔ پیپلز پارٹی سندھ کے صدر نثار احمد کھوڑو نے تجویز دی ہے کہ پورے ملک میں ایڈز کے وائرس کی اسکریننگ کی جائے کیونکہ اس مرض کے جو اسباب سندھ کے مخصوص علاقوں میں ہیں ، وہ اسباب پورے ملک میں ہیں۔