ڈرگ کورٹ غیر فعال جعلی دواؤں کے سیکڑوں مقدمات التوا کا شکار

سندھ میں ایک ڈرگ کورٹ ہے، 5 کے بجائے 3 روز عدالتی امور نمٹائے جانے لگے، عدالت کی ذاتی بلڈنگ اور عملہ موجود نہیں

مال خانہ نہ ہونے سے مقدمات کا ریکارڈ خراب اور کیس پراپرٹی ضائع ہونے لگی، وکیل سرکار کو گواہ کی پیشی میں مشکلات کا سامنا۔ فوٹو: رائٹرز/ فائل

PESHAWAR:
ڈرگ کورٹ کے غیر فعال ہونے سے درجنوں حساس مقدمات التوا کا شکار ہوگئے۔

سندھ بھر میں ایک ڈرگ کورٹ ہے جس کی ذاتی عمارت نہیں 2 کمروں پر مشتمل عدالت میں عملہ بھی کم ہے، عملے کو عدالتی ریکارڈ محفوظ رکھنے کیلیے پریشانی کا سامنا ہے جبکہ عدالت کا مال خانہ بھی موجود نہیں ہے، کورٹ میں ممبران مستقل بنیاد پر تعینات نہیں ہوتے بلکہ ماہر فزیشن ممبران جز وقتی (پارٹ ٹائم) کام کرتے ہیں،ڈرگ کورٹ میں 5 روز کے بجائے 3 روز میں عدالتی امور نمٹائے جانے لگے، تفصیلات کے مطابق ڈرگ کورٹ میں 1976 ڈرگ ایکٹ کے تحت سندھ اور بلوچستان کیلیے ایک عدالت قائم کی گئی تھی۔




بعدازاں 1998 میں بلوچستان ڈرگ کورٹ کو الگ کردیا گیا، ایک چیئرمین اور 2 ممبران پر مشتمل کورٹ میں ڈرگ ایکٹ کے تحت ایک ممبر کی غیر حاضری سے عدالت غیر فعال ہوجاتی ہے اور کورم مکمل نہ ہونے سے کسی بھی مقدمے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا، 3 ماہ قبل ایک ممبر ڈاکٹر جاوید بخاری نے استعفیٰ دے دیا تھا جس کے باعث ڈرگ کورٹ غیرفعال ہے، ممبر کی تعیناتی وفاقی حکومت کی ذمے داری ہے لیکن تاحال کوئی بھی ممبر تعینات نہیں کیا گیا، کورٹ کے غیرفعال ہونے کے باعث درجنوں حساس نوعیت کے مقدمات التوا کا شکار ہیں۔

وفاقی حکومت کی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اب تک مذکورہ عدالت کیلیے ذاتی عمارت قائم نہیں کی ہے،کورٹ کا کوئی مال خانہ نہیں ہے ملزمان سے برآمد شدہ زائد المیعاد ، غیر معیاری اور ممنوعہ دوائیں جو کہ کیس پراپرٹی ہوتی ہیں کورٹ کے مال خانہ نہ ہونے کے باعث تفتیشی افسر ان کے پاس رکھی جاتی ہیں جوکہ عدالت میں پیش نہ کرنے کے باعث سیکڑوں ملزمان بری ہوجاتے ہیں اس وقت عدالت 2 کمروں پر مشتمل ہے پیشکار سمیت دیگر عملہ موجود نہیں ہے ایک کلرک ہی تمام امور انجام دے رہے ہیں، ریکارڈ محفوظ کرنے کا معقول انتظام نہیں، سرکاری وکیل کے کمرے میں ہی دیگر عملہ فرائض انجام دیتا ہے وکیل سرکار کو بھی گواہوں کو پیش کرنے میں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
Load Next Story