انجینئر جو کبھی نام تھا خوشحالی کا
دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹرز اور انجینئرز بنانے کی خواہش رکھتے ہیں
یہ کوئی آج سے سات سال پہلے کی بات ہے۔ وین ڈرائیور اُس دن کچھ عجیب سی عجلت میں لگ رہا تھا۔ تیز رفتاری کے مطالبے کے ساتھ ہی حد درجہ احتیاط کی تلقین نے ڈرائیور کو کنفیوز کردیا تھا۔ آخر جھنجلا کر اس نے ساتھ بیٹھے آدمی سے پوچھا کہ آپ لوگ ملتان خیر سے کیوں جارہے ہیں ؟
''آج ان بچوں کا 'انٹری ٹیسٹ' ہے!'' مسلسل تسبیح پڑھتے آدمی نے ڈرائیور کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔
''یہ انٹری ٹیسٹ کیا ہوتا ہے؟'' ڈرائیور نے بیک ویو مِرر میں سے ان لڑکوں کو دیکھتے ہوئے ایک اور سوال پوچھا۔ (یہ بچے وین سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے کتابوں کو کھنگال ڈالنے میں مگن تھے۔)
آدمی نے جواب دیا ''یہ ایک امتحان ہوتا ہے جسے پاس کرنے کے بعد طلبا کو انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ مل جاتا ہے۔''
''اور انجینئر بننے کے بعد کیا ہوتا ہے؟'' ڈرائیور نے ایک اور سوال داغ دیا۔
''انجینئر بننے کے فوراً بعد منہ مانگی تنخواہ پر نوکری مل جاتی ہے،'' ساتھ بیٹھے صاحب نے پُر مسرت اور پُر امید لہجے میں جواب دیا۔
ڈرائیور ابھی کچھ اور سوال کرنا چاہتا تھا لیکن صاحب کو دوبارہ تسبیح میں مشغول دیکھ کر چُپ ہوگیا۔
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے مین گیٹ پر لگی گاڑیوں کی لمبی قطار سے گزرکر جونہی وین یونیورسٹی میں داخل ہوئی تو ڈرائیور ہکا بکا رہ گیا۔ ہر طرف سترہ اٹھارہ سالہ طلبا کا تاحدِ نگاہ ہجوم ہی ہجوم! ہزاروں لڑکے لڑکیاں، لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر ٹیسٹ سینٹرز میں داخلے کا انتظار کر رہے تھے؛ اور ان کے والدین مسلسل دعاؤں میں مگن! گویا کہ اللہ میاں سے اپنی اپنی بات منوانے کا مقابلہ لگا ہوا تھا۔ حالانکہ ابھی صبح کے نو بجے تھے لیکن ملتان کی گرمی نے تقریباً ہر کسی کو نڈھال کر رکھا تھا۔ ڈرائیور بے چارہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ادھر اُدھر دیکھے جا رہا تھا۔
آخر ہمت کرکے اس نے اپنے ساتھ آنے والے صاحب سے پوچھ ہی لیا، ''بھائی صاحب! کیا یہ سارے بچے انجینئر بنیں گے؟''
آدمی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ''نہیں نہیں! اس سینٹر سے تو صرف دو سو یا تین سو بچے انجینئر بنیں گے۔'' اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اُن صاحب نے کہا، ''یہ تو صرف ملتان میں اتنے لوگ ہیں۔ اس طرح کے دس بارہ سینٹرز اور بھی ہیں جن میں اس وقت تقریباً پینتالیس ہزار بچے ٹیسٹ دے رہے ہیں اور ان میں سے صرف تین ہزار بچوں کو سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلہ ملے گا۔''
''اور باقی بیالیس ہزار بچے کیا کریں گے؟'' ڈرائیور نے حیرت زدہ چہرے کے ساتھ ایک اور سوال کیا۔
''وہ پھر کسی اور شعبے میں داخلہ لیں گے۔ ہاں، بس انجینئر نہیں بن سکیں گے!'' یہ جواب دیتے ہوئے نہ جانے کیوں اُن صاحب کا لہجہ تاسف زدہ ہوگیا۔
''بھائی صاحب! انجینئر کو بہت اچھی نوکری مل جاتی ہے ناں؟'' ڈرائیور نے گویا یقین دہانی کےلیے پوچھا۔
''ہاں ہاں! بہت اچھی اچھی نوکریاں ملتی ہیں۔ اسی لیے تو سارا جہان یہاں اُمڈ آیا ہے!'' اُن صاحب نے اپنے بیٹے کو سینٹر کی طرف روانہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
''پھر تو میں بھی اپنے بیٹے کو انجینئر ہی بناؤں گا!'' ڈرائیور نے اِتنے پُرعزم لہجے میں کہا کہ گویا اسے نسلوں کی ترقی کا راز مل گیا ہو۔
یہ وہ آخری الفاظ تھے جو ٹیسٹ سینٹر میں داخل ہونے سے پہلے اس دن میرے کانوں میں پڑے تھے! میں بھی اپنے چند کلاس فیلوز کے ساتھ انٹری ٹیسٹ دینے اُسی وین پر ملتان گیا ہوا تھا۔ اُس روز تو وین ڈرائیور کے الفاظ اور اس کا عزم مجھے بہت خوش کن اور امید افزا لگے تھے لیکن آج جب ہر طرف بے روزگار اور مستقبل سے مایوس انجینئرز کو دیکھتا ہوں تو دِل میں ایک ہول سا اٹھتا ہے کہ کہیں اس ڈرائیور نے اپنی زندگی کی جمع پونجی اپنے بیٹے کو انجینئر بنانے پر تو نہیں لُٹا دی ہوگی!
گزشتہ ایک دہائی سے جاری کساد بازاری نے یوں تو ہر شعبہ زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے لیکن انجینئرنگ کا شعبہ سرمایہ داری اور استحصال کے شکنجے میں ایسا آیا ہے کہ ہر طرف مایوسی ہی مایوسی نظر آتی ہے۔ ایف ایس سی اور پھر اینٹری ٹیسٹ کے کٹھن مراحل سے گزر کر نوے فیصد نمبر حاصل کرنے کے بعد انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخل ہونے والے ہزاروں طالب علموں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ چار پانچ سال بعد وہ اپنے انہی کلاس فیلوز کے پاس نوکری کی بھیک مانگنے جائیں گے جو انجینئرنگ کا میرٹ نہ بن پانے کی وجہ سے آج اپنی خاندانی دولت کی بنیاد پر ٹھیکیداری کے شعبے سے وابستہ ہوگئے ہیں یا پھرکسی کمپنی میں تجربے کی بنیاد پر سپروائزر لگے ہوئے ہیں۔
ٹھیکیداری یا سپروائزری کوئی معیوب بات ہرگز نہیں اور نہ ہی یہاں یہ مثال دینے کا مقصد کسی شعبے کو نیچا دکھانا ہے، بلکہ صرف یہ واضح کرنا ہے کہ جب قدرت کی طرف سے برتری کا معیار علم و ہنر مقرر کیا گیا ہے تو پھر یہاں الٹی گنگا کیوں بہہ نکلی ہے؟
گو کہ گزشتہ چند سال میں انجینئرنگ کونسل نے اصلاحات کی کچھ کوششیں کی ہیں لیکن شاید یہ بھاگ دوڑ بھی محض نمود و نمائش تک محدود ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ عملی طور پر نہ تو انجینئرز کی بے روزگاری کی شرح کم ہوئی ہے اور نہ ہی سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں موجود انجینئرز کو کوئی خاطر خواہ سروس اسٹرکچر میسر آیا ہے۔ جب سے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی بھرمار ہوئی ہے، یوں لگتا ہے کہ سرمایہ داروں نے دونوں ہاتھوں سے انجینئرز کے استحصال کا نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ بیشتر یونیورسٹی مالکان کا انڈسٹری میں بھی شیئر موجود ہے۔ پہلے وہ لاکھوں روپے فی سمسٹر فیس وصول کرکے انجنیئرنگ کی ڈگریاں دیتے ہیں، پھر انہی انجینئرز کو مزدوروں کی تنخواہ پر ملازم رکھ لیتے ہیں؛ اور جہاں دس انجینئرز کی ضرورت ہو وہاں دو انجینئرز سے سارا کام چلاتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں سے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا اتنا چرچا رہا کہ یوں لگتا تھا کہ بس جونہی یہ منصوبہ شروع ہوگا، انجینئرز کی بے روزگاری بالکل ختم ہو جائے گی اور انجینئرز ڈھونڈے سے کہیں نہیں ملیں گے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس نکلی اور انجینئرز کی بے روزگاری کو کم کرنے میں اربوں ڈالر کا یہ تاریخی منصوبہ بھی اب تک کوئی خاص اثر نہیں ڈال سکا۔ حالات یہاں تک آن پہنچے ہیں کہ اب تو سرکاری اداروں کے ملازمت یافتہ انجینئرز بھی زبوں حالی کا شکار ہو کر سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا جائزہ لے کر دیکھیے، ہر جگہ آپ کو صاف نظر آئے گا کہ ان ممالک کی ترقی میں ٹیکنالوجی کا مرکزی کردار رہا ہے۔ گوگل پر دستیاب معلومات کے مطابق دنیا کے جس ملک میں انجینئرنگ کا شعبہ جس قدر مضبوط ہے وہ اتنا ہی ترقی یافتہ ہے۔ جس ملک میں انجینئرز خوشحال ہیں، اس ملک کی معیشت اور برآمدات بھی اسی لحاظ سے متنوع ہیں۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹرز اور انجینئرز بنانے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج پاکستان میں یہ رجحان بدلتا دکھائی دیتا ہے۔
انجینئرز کا مستقبل دیکھ کر والدین بھی سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اتنی محنت اور سرمایہ کاری کرنے کا کیا فائدہ کہ جب ڈگری حاصل کرنے کے بعد پھر خالی ہاتھ نہ جانے کتنا عرصہ چند ہزار کی نوکری کےلیے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑیں گی۔ جبکہ دنیا بھر کی وژنری حکومتیں اور تھنک ٹینکس انجینئرنگ و ٹیکنالوجی کو ترجیحی اہمیت دیتے ہیں اور بدلے میں یہ شعبہ ان ممالک کی برآمدات کو کئی گنا بڑھا کر معاشی ترقی کا سبب بنتا ہے۔
لیکن کیا کریں کہ پاکستان میں مقتدر حلقوں کو سیاسی انجینئرنگ سے فرصت ملے تو وہ اصل انجینئرنگ کی زبوں حالی کا کوئی مداوا کریں۔
اب جبکہ حکومتِ وقت کے بقول ''نیا پاکستان'' بھی تشکیل پاچکا ہے اور آنے والے وقت میں کروڑوں نوکریوں اور لاکھوں گھر بنانے جیسے خوش آئند دعوے اور وعدے بھی کیے جا رہے ہیں، تو میری درخواست ہے اپنے مقتدر اداروں سے ہے کہ خدارا انجینئرنگ کے شعبے میں اصلاحات اور انجینئرز کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی جامع پالیسی مرتب کی جائے تاکہ انجینئر طبقے میں روز بروز بڑھتی مایوسی اور بے روزگاری کو ختم کیا جا سکے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وین ڈرائیور تو کیا، وین کا مالک بھی اپنے بچوں کو انجینئر بنانے سے متنفر ہوجائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
''آج ان بچوں کا 'انٹری ٹیسٹ' ہے!'' مسلسل تسبیح پڑھتے آدمی نے ڈرائیور کی طرف دیکھے بغیر جواب دیا۔
''یہ انٹری ٹیسٹ کیا ہوتا ہے؟'' ڈرائیور نے بیک ویو مِرر میں سے ان لڑکوں کو دیکھتے ہوئے ایک اور سوال پوچھا۔ (یہ بچے وین سے بھی زیادہ تیز رفتاری سے کتابوں کو کھنگال ڈالنے میں مگن تھے۔)
آدمی نے جواب دیا ''یہ ایک امتحان ہوتا ہے جسے پاس کرنے کے بعد طلبا کو انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخلہ مل جاتا ہے۔''
''اور انجینئر بننے کے بعد کیا ہوتا ہے؟'' ڈرائیور نے ایک اور سوال داغ دیا۔
''انجینئر بننے کے فوراً بعد منہ مانگی تنخواہ پر نوکری مل جاتی ہے،'' ساتھ بیٹھے صاحب نے پُر مسرت اور پُر امید لہجے میں جواب دیا۔
ڈرائیور ابھی کچھ اور سوال کرنا چاہتا تھا لیکن صاحب کو دوبارہ تسبیح میں مشغول دیکھ کر چُپ ہوگیا۔
بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی کے مین گیٹ پر لگی گاڑیوں کی لمبی قطار سے گزرکر جونہی وین یونیورسٹی میں داخل ہوئی تو ڈرائیور ہکا بکا رہ گیا۔ ہر طرف سترہ اٹھارہ سالہ طلبا کا تاحدِ نگاہ ہجوم ہی ہجوم! ہزاروں لڑکے لڑکیاں، لمبی لمبی قطاروں میں لگ کر ٹیسٹ سینٹرز میں داخلے کا انتظار کر رہے تھے؛ اور ان کے والدین مسلسل دعاؤں میں مگن! گویا کہ اللہ میاں سے اپنی اپنی بات منوانے کا مقابلہ لگا ہوا تھا۔ حالانکہ ابھی صبح کے نو بجے تھے لیکن ملتان کی گرمی نے تقریباً ہر کسی کو نڈھال کر رکھا تھا۔ ڈرائیور بے چارہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ادھر اُدھر دیکھے جا رہا تھا۔
آخر ہمت کرکے اس نے اپنے ساتھ آنے والے صاحب سے پوچھ ہی لیا، ''بھائی صاحب! کیا یہ سارے بچے انجینئر بنیں گے؟''
آدمی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، ''نہیں نہیں! اس سینٹر سے تو صرف دو سو یا تین سو بچے انجینئر بنیں گے۔'' اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اُن صاحب نے کہا، ''یہ تو صرف ملتان میں اتنے لوگ ہیں۔ اس طرح کے دس بارہ سینٹرز اور بھی ہیں جن میں اس وقت تقریباً پینتالیس ہزار بچے ٹیسٹ دے رہے ہیں اور ان میں سے صرف تین ہزار بچوں کو سرکاری انجینئرنگ یونیورسٹیوں میں داخلہ ملے گا۔''
''اور باقی بیالیس ہزار بچے کیا کریں گے؟'' ڈرائیور نے حیرت زدہ چہرے کے ساتھ ایک اور سوال کیا۔
''وہ پھر کسی اور شعبے میں داخلہ لیں گے۔ ہاں، بس انجینئر نہیں بن سکیں گے!'' یہ جواب دیتے ہوئے نہ جانے کیوں اُن صاحب کا لہجہ تاسف زدہ ہوگیا۔
''بھائی صاحب! انجینئر کو بہت اچھی نوکری مل جاتی ہے ناں؟'' ڈرائیور نے گویا یقین دہانی کےلیے پوچھا۔
''ہاں ہاں! بہت اچھی اچھی نوکریاں ملتی ہیں۔ اسی لیے تو سارا جہان یہاں اُمڈ آیا ہے!'' اُن صاحب نے اپنے بیٹے کو سینٹر کی طرف روانہ کرتے ہوئے جواب دیا۔
''پھر تو میں بھی اپنے بیٹے کو انجینئر ہی بناؤں گا!'' ڈرائیور نے اِتنے پُرعزم لہجے میں کہا کہ گویا اسے نسلوں کی ترقی کا راز مل گیا ہو۔
یہ وہ آخری الفاظ تھے جو ٹیسٹ سینٹر میں داخل ہونے سے پہلے اس دن میرے کانوں میں پڑے تھے! میں بھی اپنے چند کلاس فیلوز کے ساتھ انٹری ٹیسٹ دینے اُسی وین پر ملتان گیا ہوا تھا۔ اُس روز تو وین ڈرائیور کے الفاظ اور اس کا عزم مجھے بہت خوش کن اور امید افزا لگے تھے لیکن آج جب ہر طرف بے روزگار اور مستقبل سے مایوس انجینئرز کو دیکھتا ہوں تو دِل میں ایک ہول سا اٹھتا ہے کہ کہیں اس ڈرائیور نے اپنی زندگی کی جمع پونجی اپنے بیٹے کو انجینئر بنانے پر تو نہیں لُٹا دی ہوگی!
گزشتہ ایک دہائی سے جاری کساد بازاری نے یوں تو ہر شعبہ زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہے لیکن انجینئرنگ کا شعبہ سرمایہ داری اور استحصال کے شکنجے میں ایسا آیا ہے کہ ہر طرف مایوسی ہی مایوسی نظر آتی ہے۔ ایف ایس سی اور پھر اینٹری ٹیسٹ کے کٹھن مراحل سے گزر کر نوے فیصد نمبر حاصل کرنے کے بعد انجینئرنگ یونیورسٹی میں داخل ہونے والے ہزاروں طالب علموں کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ چار پانچ سال بعد وہ اپنے انہی کلاس فیلوز کے پاس نوکری کی بھیک مانگنے جائیں گے جو انجینئرنگ کا میرٹ نہ بن پانے کی وجہ سے آج اپنی خاندانی دولت کی بنیاد پر ٹھیکیداری کے شعبے سے وابستہ ہوگئے ہیں یا پھرکسی کمپنی میں تجربے کی بنیاد پر سپروائزر لگے ہوئے ہیں۔
ٹھیکیداری یا سپروائزری کوئی معیوب بات ہرگز نہیں اور نہ ہی یہاں یہ مثال دینے کا مقصد کسی شعبے کو نیچا دکھانا ہے، بلکہ صرف یہ واضح کرنا ہے کہ جب قدرت کی طرف سے برتری کا معیار علم و ہنر مقرر کیا گیا ہے تو پھر یہاں الٹی گنگا کیوں بہہ نکلی ہے؟
گو کہ گزشتہ چند سال میں انجینئرنگ کونسل نے اصلاحات کی کچھ کوششیں کی ہیں لیکن شاید یہ بھاگ دوڑ بھی محض نمود و نمائش تک محدود ہو کر رہ گئی ہے کیونکہ عملی طور پر نہ تو انجینئرز کی بے روزگاری کی شرح کم ہوئی ہے اور نہ ہی سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں موجود انجینئرز کو کوئی خاطر خواہ سروس اسٹرکچر میسر آیا ہے۔ جب سے پرائیویٹ یونیورسٹیوں کی بھرمار ہوئی ہے، یوں لگتا ہے کہ سرمایہ داروں نے دونوں ہاتھوں سے انجینئرز کے استحصال کا نیا طریقہ ڈھونڈ نکالا ہے۔ بیشتر یونیورسٹی مالکان کا انڈسٹری میں بھی شیئر موجود ہے۔ پہلے وہ لاکھوں روپے فی سمسٹر فیس وصول کرکے انجنیئرنگ کی ڈگریاں دیتے ہیں، پھر انہی انجینئرز کو مزدوروں کی تنخواہ پر ملازم رکھ لیتے ہیں؛ اور جہاں دس انجینئرز کی ضرورت ہو وہاں دو انجینئرز سے سارا کام چلاتے ہیں۔
گزشتہ چند برسوں سے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کا اتنا چرچا رہا کہ یوں لگتا تھا کہ بس جونہی یہ منصوبہ شروع ہوگا، انجینئرز کی بے روزگاری بالکل ختم ہو جائے گی اور انجینئرز ڈھونڈے سے کہیں نہیں ملیں گے۔ مگر حقیقت اس کے برعکس نکلی اور انجینئرز کی بے روزگاری کو کم کرنے میں اربوں ڈالر کا یہ تاریخی منصوبہ بھی اب تک کوئی خاص اثر نہیں ڈال سکا۔ حالات یہاں تک آن پہنچے ہیں کہ اب تو سرکاری اداروں کے ملازمت یافتہ انجینئرز بھی زبوں حالی کا شکار ہو کر سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
آپ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کا جائزہ لے کر دیکھیے، ہر جگہ آپ کو صاف نظر آئے گا کہ ان ممالک کی ترقی میں ٹیکنالوجی کا مرکزی کردار رہا ہے۔ گوگل پر دستیاب معلومات کے مطابق دنیا کے جس ملک میں انجینئرنگ کا شعبہ جس قدر مضبوط ہے وہ اتنا ہی ترقی یافتہ ہے۔ جس ملک میں انجینئرز خوشحال ہیں، اس ملک کی معیشت اور برآمدات بھی اسی لحاظ سے متنوع ہیں۔ دنیا بھر کے ترقی یافتہ ممالک میں آج بھی والدین اپنے بچوں کو ڈاکٹرز اور انجینئرز بنانے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج پاکستان میں یہ رجحان بدلتا دکھائی دیتا ہے۔
انجینئرز کا مستقبل دیکھ کر والدین بھی سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اتنی محنت اور سرمایہ کاری کرنے کا کیا فائدہ کہ جب ڈگری حاصل کرنے کے بعد پھر خالی ہاتھ نہ جانے کتنا عرصہ چند ہزار کی نوکری کےلیے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑیں گی۔ جبکہ دنیا بھر کی وژنری حکومتیں اور تھنک ٹینکس انجینئرنگ و ٹیکنالوجی کو ترجیحی اہمیت دیتے ہیں اور بدلے میں یہ شعبہ ان ممالک کی برآمدات کو کئی گنا بڑھا کر معاشی ترقی کا سبب بنتا ہے۔
لیکن کیا کریں کہ پاکستان میں مقتدر حلقوں کو سیاسی انجینئرنگ سے فرصت ملے تو وہ اصل انجینئرنگ کی زبوں حالی کا کوئی مداوا کریں۔
اب جبکہ حکومتِ وقت کے بقول ''نیا پاکستان'' بھی تشکیل پاچکا ہے اور آنے والے وقت میں کروڑوں نوکریوں اور لاکھوں گھر بنانے جیسے خوش آئند دعوے اور وعدے بھی کیے جا رہے ہیں، تو میری درخواست ہے اپنے مقتدر اداروں سے ہے کہ خدارا انجینئرنگ کے شعبے میں اصلاحات اور انجینئرز کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے کی جامع پالیسی مرتب کی جائے تاکہ انجینئر طبقے میں روز بروز بڑھتی مایوسی اور بے روزگاری کو ختم کیا جا سکے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ وین ڈرائیور تو کیا، وین کا مالک بھی اپنے بچوں کو انجینئر بنانے سے متنفر ہوجائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔