حکومت کی نالائقی جرم نہیں اور نہ ہی کوئی سزا ہے
لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ نو ماہ تاخیر سے آئی ایم ایف میں جانے سے ملک کو جو نقصان ہوا ہے، اس کا کون ذمے دار ہے۔
موجودہ حکومت نے ملکی معیشت کا جو حال کر دیا ہے۔ اس نے ملک میں ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے۔ ایک سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کرپشن بڑا جرم ہے یا نالائقی۔ سوال کیا جا رہا ہے کہ آئین و قانون میں کرپشن کی سخت سزائیں تو موجود ہیں لیکن نالائقی کی کوئی سزا نہیں ہے۔
لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن پتہ نہیں ثابت ہوتی ہے کہ نہیں لیکن موجودہ حکومت کی نالائقی روز بروز ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ پاکستان کے احتساب کے قوانین میں بھی نالائقی سے ملک کو پہنچائے جانے والے نقصان کی کوئی سزا نہیں ہے۔
لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ نو ماہ تاخیر سے آئی ایم ایف میں جانے سے ملک کو جو نقصان ہوا ہے، اس کا کون ذمے دار ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں اربوں نہیں کھربوں ڈوبنے کا ذمے دار کون ہے۔ روپے کی قدر میں یک دم چالیس فیصد گراوٹ کا ذمے دار کون ہے۔آپ آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ اس میں کوئی کرپشن نہیں ہے۔ یہ اسد عمر اور ان کی ٹیم کی نا تجربہ کاری تھی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ انھیں ملک چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا ۔ لیکن اس میں کوئی کرپشن نہیں ہے۔ آپ نالائق کو اس کے عہدہ سے تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ پاکستان کے آئین و قانون میں نالائقی و ناتجربہ کاری کی کوئی سزا ہی نہیں ہے۔
آجکل حماد اظہر بہت متحرک نظر آتے ہیں۔ میڈیا میں ماضی کی حکومتوں کی کرپشن کے قصہ سناتے تھکتے نہیں۔ انھیں ماضی کی تمام کرپشن کے تمام اعدادو شمار زبانی یاد ہیں۔ لیکن کیا کسی کو معلوم ہے کہ وہ پاکستان کے ریونیو کے وزیر ہیں اور ان کی وزارت اس سال ہدف کے مطابق ٹیکس اکٹھا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تبدیلی کے اس سال میں پاکستانیوں نے ماضی کی کرپٹ حکومتوں سے بھی کم ٹیکس ادا کیا ہے۔ ہمیں تو بتایا جاتا تھا کہ جب تبدیلی آئے گی تو لوگ خود بخود ٹیکس دینے کے لیے لائنوں میں لگ جائیں گے۔ پاکستان کا ٹیکس دگنا ہو جائے گا۔ لیکن حماد اظہر سے کوئی سوال کرنے کی جرات کر سکتا ہے کہ بھائی آپ کے دور وزارت میں ملک کا ٹیکس آدھا کیوں رہ گیا ہے۔
آپ ایف بی آر کو ہی دیکھ لیں۔ نئے چیئرمین ایف بی آر نے منصب سنبھالتے ہی چند بڑے فیصلے کیے ہیں۔ انھوں نے حکم جاری کیا ہے کہ اب کسی بھی کھاتہ دار کا اکاؤنٹ اس کی اجازت اور اس کو چوبیس گھنٹے قبل مطلع کیے بغیر منجمند نہیں کیا جائے گا۔ اس سے پہلے ٹیکس نادہندگان کے اکاؤنٹس سے زبردستی ٹیکس وصول کیا جا رہا تھا۔ ان کے اکاؤنٹ منجمند کر لیے جاتے تھے۔ لوگوں نے اس خوف سے اپنے اکاؤنٹس میں پیسے رکھنے بند کر دیے تھے۔ حکومت اور ٹیکس دہندگان کے درمیان اعتماد کا رشتہ ختم ہو گیا تھا۔ اس حکمت عملی کے شدید منفی اثرات سامنے آئے۔ اسی طرح نئے چیئرمین ایف بی آر نے ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولی کے لیے اسٹورز دکانوں اور دیگر کاروباری اداروں پر چھاپوں کو بھی بند کر دیا ہے۔
یہ سلسلہ بھی جب سے یہ نئی حکومت آئی ہے چل رہا تھا۔ جس نے پاکستان میں ٹیکس کی وصولی کو بڑھانے کی بجائے کم کر دیا ۔ سوال ہے کہ کیا پرانے چیئرمین اپنی ذاتی مرضی سے یہ سب کچھ کر رہے تھے۔ کیا متعلقہ وزارت کی مرضی اور پالیسی اس میں شامل نہیں تھی۔ کیا پرانے چیئرمین ایف بی آرکو قربانی کا بکرا نہیں بنا دیا گیا ہے۔
اس لیے ملک کا جتنا مرضی نقصان ہو جائے۔ اسی طرح ایک اسٹیٹ بینک کے گورنر تھے جو خود ہی روپے کی قدر میں کمی کرتے جا رہے تھے۔ حتیٰ کے ایماندار وزیر اعظم کو بھی ٹی وی کی خبروں سے پتہ چلتا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی ہو گئی ہے۔ ایسے نالائق گورنر اسٹیٹ بینک کو تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ پاکستان کے احتساب قوانین میں نالائقی کی کوئی سزا نہیں ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ملازم کو ہی گورنر اسٹیٹ بینک لگا دیا ہے تا کہ آئی ایم ایف سے روز روز کی لڑائی ختم ہو جائے۔ الیکٹرانک میڈیا کی غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ایک اجلاس میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی سربراہ نے انھیں کہا کہ آئی ایم ایف کے افسر بہت اچھے ہیں۔ آپ انھیں گورنر اسٹیٹ بینک لگا لیں۔ اب اس طرح آئی ایم ایف کی بات مان لینا بھی کوئی کرپشن نہیں ہے۔
یہ نالائقی تو ہو سکتی ہے لیکن کرپشن نہیں۔ اس لیے اس پر بھی کوئی جے آئی ٹی نہیں بن سکتی۔ آپ نے اپنی مخالف جماعت پی پی پی سے جسے آپ کرپٹ کہتے ہیں سے وزیر خزانہ مستعار لے لیا ہے۔ آپ اپنا وزیر خزانہ نالائق ثابت ہونے کے بعد وزیر خزانہ کسی کرپٹ حکومت سے مستعار لے سکتے ہیں۔ اس میں کوئی کرپشن نہیں ہے۔ بس نالائقی ہے جو کوئی جرم نہیں ہے۔ ایک وزیر نے سردیوں میں ملک کو گیس کے بحران سے دوچار کر دیا۔ گیس کے بلوں سے عوام کی چیخیں نکال دیں۔ لیکن اس میں کوئی کرپشن تو نہیں تھی بس متعلقہ وزیر کی نالائقی تھی جس پر انھیں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک وزیر نے ادویات کی قیمتوں میں تین تین سو گنا اضافہ کر دیا۔ ٹھیک ہے عوام کو تکلیف ہو رہی ہے۔ لیکن کرپشن تو نہیں ہوئی ہے۔ متعلقہ وزیر کو اس نالائقی پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔
تحقیقات کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بس نالائقی کا معاملہ تھا۔ جس کی کوئی سزا نہیں ہے۔ پشاور بی آر ٹی کو دیکھ لیں۔ پنجاب اور اسلام آباد میں مقررہ مدت اور مقررہ بجٹ میں بننے والی میٹروز کرپشن کا شاہکار ہیں۔ ان پر انکوائری ہونی چاہئے۔ ان میٹروز کی سبسڈی ختم ہو جانی چاہئے کیونکہ یہ مکمل ہو کر روٹ پر چل رہی ہیں۔دوسری طرف پشاور بی آر ٹی متعدد ڈیڈ لائنز کے بعد بھی مکمل نہیں ہو سکی ہے۔اس کی لاگت میں بھی کئی گنا اضافہ ہونے کی خبریں ہیں۔ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ تاخیر ہونا تو کوئی کرپشن نہیں ہے۔ یہ نالائقی ہے۔ اور نالائقی کی کوئی سزا نہیں ہے۔ اسی طرح اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی ہڑتالیں کوئی کرپشن نہیں ہے۔ بس نالائقی ہے۔ پولیس اصلاحات میں ناکامی بھی نالائقی کے سوا کچھ نہیں۔
لوگ سوال کر رہے ہیں کہ ماضی کے حکمرانوں کی کرپشن پتہ نہیں ثابت ہوتی ہے کہ نہیں لیکن موجودہ حکومت کی نالائقی روز بروز ثابت ہوتی جا رہی ہے۔ لیکن مشکل یہ ہے کہ پاکستان کے احتساب کے قوانین میں بھی نالائقی سے ملک کو پہنچائے جانے والے نقصان کی کوئی سزا نہیں ہے۔
لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ نو ماہ تاخیر سے آئی ایم ایف میں جانے سے ملک کو جو نقصان ہوا ہے، اس کا کون ذمے دار ہے۔ یہ سوال بھی اہم ہے کہ اسٹاک ایکسچینج میں اربوں نہیں کھربوں ڈوبنے کا ذمے دار کون ہے۔ روپے کی قدر میں یک دم چالیس فیصد گراوٹ کا ذمے دار کون ہے۔آپ آسانی سے کہہ سکتے ہیں کہ اس میں کوئی کرپشن نہیں ہے۔ یہ اسد عمر اور ان کی ٹیم کی نا تجربہ کاری تھی۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ انھیں ملک چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا ۔ لیکن اس میں کوئی کرپشن نہیں ہے۔ آپ نالائق کو اس کے عہدہ سے تبدیل کر سکتے ہیں۔ اس سے زیادہ پاکستان کے آئین و قانون میں نالائقی و ناتجربہ کاری کی کوئی سزا ہی نہیں ہے۔
آجکل حماد اظہر بہت متحرک نظر آتے ہیں۔ میڈیا میں ماضی کی حکومتوں کی کرپشن کے قصہ سناتے تھکتے نہیں۔ انھیں ماضی کی تمام کرپشن کے تمام اعدادو شمار زبانی یاد ہیں۔ لیکن کیا کسی کو معلوم ہے کہ وہ پاکستان کے ریونیو کے وزیر ہیں اور ان کی وزارت اس سال ہدف کے مطابق ٹیکس اکٹھا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ تبدیلی کے اس سال میں پاکستانیوں نے ماضی کی کرپٹ حکومتوں سے بھی کم ٹیکس ادا کیا ہے۔ ہمیں تو بتایا جاتا تھا کہ جب تبدیلی آئے گی تو لوگ خود بخود ٹیکس دینے کے لیے لائنوں میں لگ جائیں گے۔ پاکستان کا ٹیکس دگنا ہو جائے گا۔ لیکن حماد اظہر سے کوئی سوال کرنے کی جرات کر سکتا ہے کہ بھائی آپ کے دور وزارت میں ملک کا ٹیکس آدھا کیوں رہ گیا ہے۔
آپ ایف بی آر کو ہی دیکھ لیں۔ نئے چیئرمین ایف بی آر نے منصب سنبھالتے ہی چند بڑے فیصلے کیے ہیں۔ انھوں نے حکم جاری کیا ہے کہ اب کسی بھی کھاتہ دار کا اکاؤنٹ اس کی اجازت اور اس کو چوبیس گھنٹے قبل مطلع کیے بغیر منجمند نہیں کیا جائے گا۔ اس سے پہلے ٹیکس نادہندگان کے اکاؤنٹس سے زبردستی ٹیکس وصول کیا جا رہا تھا۔ ان کے اکاؤنٹ منجمند کر لیے جاتے تھے۔ لوگوں نے اس خوف سے اپنے اکاؤنٹس میں پیسے رکھنے بند کر دیے تھے۔ حکومت اور ٹیکس دہندگان کے درمیان اعتماد کا رشتہ ختم ہو گیا تھا۔ اس حکمت عملی کے شدید منفی اثرات سامنے آئے۔ اسی طرح نئے چیئرمین ایف بی آر نے ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس وصولی کے لیے اسٹورز دکانوں اور دیگر کاروباری اداروں پر چھاپوں کو بھی بند کر دیا ہے۔
یہ سلسلہ بھی جب سے یہ نئی حکومت آئی ہے چل رہا تھا۔ جس نے پاکستان میں ٹیکس کی وصولی کو بڑھانے کی بجائے کم کر دیا ۔ سوال ہے کہ کیا پرانے چیئرمین اپنی ذاتی مرضی سے یہ سب کچھ کر رہے تھے۔ کیا متعلقہ وزارت کی مرضی اور پالیسی اس میں شامل نہیں تھی۔ کیا پرانے چیئرمین ایف بی آرکو قربانی کا بکرا نہیں بنا دیا گیا ہے۔
اس لیے ملک کا جتنا مرضی نقصان ہو جائے۔ اسی طرح ایک اسٹیٹ بینک کے گورنر تھے جو خود ہی روپے کی قدر میں کمی کرتے جا رہے تھے۔ حتیٰ کے ایماندار وزیر اعظم کو بھی ٹی وی کی خبروں سے پتہ چلتا تھا کہ روپے کی قدر میں کمی ہو گئی ہے۔ ایسے نالائق گورنر اسٹیٹ بینک کو تبدیل کر دیا گیا ہے ۔ پاکستان کے احتساب قوانین میں نالائقی کی کوئی سزا نہیں ہے۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ملازم کو ہی گورنر اسٹیٹ بینک لگا دیا ہے تا کہ آئی ایم ایف سے روز روز کی لڑائی ختم ہو جائے۔ الیکٹرانک میڈیا کی غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق ایک اجلاس میں وزیر اعظم نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف کی سربراہ نے انھیں کہا کہ آئی ایم ایف کے افسر بہت اچھے ہیں۔ آپ انھیں گورنر اسٹیٹ بینک لگا لیں۔ اب اس طرح آئی ایم ایف کی بات مان لینا بھی کوئی کرپشن نہیں ہے۔
یہ نالائقی تو ہو سکتی ہے لیکن کرپشن نہیں۔ اس لیے اس پر بھی کوئی جے آئی ٹی نہیں بن سکتی۔ آپ نے اپنی مخالف جماعت پی پی پی سے جسے آپ کرپٹ کہتے ہیں سے وزیر خزانہ مستعار لے لیا ہے۔ آپ اپنا وزیر خزانہ نالائق ثابت ہونے کے بعد وزیر خزانہ کسی کرپٹ حکومت سے مستعار لے سکتے ہیں۔ اس میں کوئی کرپشن نہیں ہے۔ بس نالائقی ہے جو کوئی جرم نہیں ہے۔ ایک وزیر نے سردیوں میں ملک کو گیس کے بحران سے دوچار کر دیا۔ گیس کے بلوں سے عوام کی چیخیں نکال دیں۔ لیکن اس میں کوئی کرپشن تو نہیں تھی بس متعلقہ وزیر کی نالائقی تھی جس پر انھیں تبدیل کر دیا گیا ہے۔ اسی طرح ایک وزیر نے ادویات کی قیمتوں میں تین تین سو گنا اضافہ کر دیا۔ ٹھیک ہے عوام کو تکلیف ہو رہی ہے۔ لیکن کرپشن تو نہیں ہوئی ہے۔ متعلقہ وزیر کو اس نالائقی پر تبدیل کر دیا گیا ہے۔
تحقیقات کرنے کی کوئی ضرورت ہی نہیں تھی۔ بس نالائقی کا معاملہ تھا۔ جس کی کوئی سزا نہیں ہے۔ پشاور بی آر ٹی کو دیکھ لیں۔ پنجاب اور اسلام آباد میں مقررہ مدت اور مقررہ بجٹ میں بننے والی میٹروز کرپشن کا شاہکار ہیں۔ ان پر انکوائری ہونی چاہئے۔ ان میٹروز کی سبسڈی ختم ہو جانی چاہئے کیونکہ یہ مکمل ہو کر روٹ پر چل رہی ہیں۔دوسری طرف پشاور بی آر ٹی متعدد ڈیڈ لائنز کے بعد بھی مکمل نہیں ہو سکی ہے۔اس کی لاگت میں بھی کئی گنا اضافہ ہونے کی خبریں ہیں۔ لیکن فکر کی کوئی بات نہیں ہے۔ تاخیر ہونا تو کوئی کرپشن نہیں ہے۔ یہ نالائقی ہے۔ اور نالائقی کی کوئی سزا نہیں ہے۔ اسی طرح اسپتالوں میں ڈاکٹروں کی ہڑتالیں کوئی کرپشن نہیں ہے۔ بس نالائقی ہے۔ پولیس اصلاحات میں ناکامی بھی نالائقی کے سوا کچھ نہیں۔