بھوسا بھی اب کیا کھائیں گے
کھیتوں میں پسینے کی چاندی اور خون کا سونا بکھیرنا۔لیکن مہنگائی کی وجہ سے ہمارا یہ سونا چاندی نہیں ہے۔
بات بڑی گھمبیر بلکہ تشویش ناک سے لے کرشرمناک تک تمام ناکوں کو لپیٹ میں لیے ہوئے ہے، شاید آپ کو ابتدا میں ایسی نہ لگے کیونکہ بات بھوسے کی قیمت میں دگنا اضافے کی ہے لیکن جب تشریحیں گے اور تفصیلیں گے تو آہستہ آہستہ آپ کی کھوپڑی میں بھوسا (توڑی) آتاجائے گا۔تشویش کی بات اس لیے ہے کہ ہمارے پاس مستقبل کے لیے جو راشن رکھا ہوا تھا، اس کا ککھ بھی نہیں رہا۔ ہم اکثر جب مہنگائی کے تھپڑ لات مکے کھاکر گھر آجاتے تھے تو یہ سوچ کر دل کو تسلی دیتے تھے کہ زیادہ سے زیادہ یہ مہنگائی ہمارا کیا کرلے گی۔
اب اناج (grain) کھا رہے ہیں تب مگر سبزی(green) کھانا شروع کردیں کہ ہمارے اجداد بھی تو سبزی کھا کر''آدم'' بنے تھے یعنی شاکاہاری تھے اور ماسا ہاریوں سے ان کی وجہ اختلاف یہی تھی۔اچانک ہمارے ذہن میں ایک کڑاکا ہوا۔اچھا یہ بات ہے کہ ہماری حکومتیں روز روز گرینری گرینری اس لیے کر رہی ہیں، روشن ضمیر تو یہ لوگ ہوتے ہیں شاید ان کو لگ پتہ گیا ہوگا کہ آنے والے وقتوں میں اس کم بخت مہنگائی کے ہاتھوں ایک مرتبہ پھر''گرینری''پر آنا پڑے گا۔
حالانکہ ملک میں گرینری کی کمی نہ کبھی تھی نہ ہے اور نہ ہوگی کیونکہ وہ گرین آنکھوں والے جب جارہے تھے تو اپنی آنکھوں کا رنگ ہمیں تحفے میں دے گئے کہ لو اپنے قدم ہماری آنکھوں کے رنگ میں رنگ لو اور خون کو ہمارے چہروں کا رنگ دے دو، مطلب یہ ہمارے ہاں سبزقدموں،سبزچشموں اور سبزہ سبزہ چرنے کی روایت پہلے بھی کم نہ تھی۔لیکن پھر بھی ہماری حکومتیں جب بھی اپنے سبز قدم لے کر اس دھرتی پر آتی ہیں تو گرینری گرینی،گرین پاکستان گرین گرین جہاں کرنے لگتی ہیں تو اس کے پیچھے یقیناً کوئی روشن ضمیری، خوش تدبیری اور بے تقدیری کارفرماہے۔
اور اس کے آثار بھی ملنا شروع ہوگئے۔ بھوسے کی اس اچانک چھلانگ کی شکل میں۔ گویا ہم جو اپنی ڈھارس اس بات پر بندھاتے تھے کہ گرین(grain) نہ سہی(green) ہی سہی۔گویا بھوسے کے نرخوں نے یہ گھنٹی بجادی ہے کہ خبردار ہوشیار اور تیار کہ تم خیر سے اپنے اجداد جیسے ہی والے ہو۔لیکن یہ ڈھارس اب مکمل طور پر ڈھے چکی اگر بھوسے کے نرخ اسی طرح چھلانگیں مارے اور اسی طرح جاری رہے تو چارے کے لالے بھی پڑنے والے ہیں کیونکہ بھوسا ہی تو ایک سدا بہار نہ سہی سدا تیار چارہ ہے۔تشویش توہونا ہی تھی اور ظاہر ہے کہ تشویش کے ساتھ تحقیق کی دمُ بھی بندھی ہوئی ہے۔ یہ پتہ لگانا ضروری تھا کہ آخر یہ بھوسا اتنا اچھلنے کیوں لگ گیا۔
چند ہی دنوں میں چارسو سے آٹھ سوروپے بنڈل۔اور حیرت انگیز طور پر ہمارے وسیلہ ظفر اور ذریعہ سفر یعنی خچرراہ نے بھی خوشی خوشی اس مہم میں حصہ لینے کے لیے صاد کیاکیونکہ ہمیں تو محض مستقبل کے اس ممکنہ چارے کا مسئلہ تھا اور اس کے لیے تو یہ''کرنٹ افئیر''کیونکہ جب سے بھوسے کے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے اس کے راتب میں ہم نے کمی کردی تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ان دنوں حکومت ہماری جو ٹیکس ٹیکس اور نرخوں نرخوں کا کھیل کھیل رہی ہے، ان میں سے کسی بھی چیز کے ساتھ بھوسے کا جائزیاناجائز تعلق نہیں بنتا، زیادہ سے زیادہ پیٹرولیم سے تھوڑا تعلق بنتا ہے لیکن وہ تو ہماری نئی ریاست مدینہ کی برکت سے سمندر میں سے بھی سنا ہے نکل آیاہے اور ادھر ہمارے مہربان قدردان مہمان ومیزبان وپاسبان سعودی عرب نے بھی اپنے پائپوں کی ٹونٹیاں ہم پر کھول دی ہیں۔
پہلا خیال تو یہ آیا کہ شاید حکومت خالی کھوپڑیوں میں ٹھونسنے کے لیے بھوسے کی خریداری کر رہی ہو لیکن اسے مسترد کرنا پڑا کیونکہ ہمارے ہاں کھوپڑیاں بھوسے سے بھری بھری ہوئی آتی ہیں۔شاید پھر لیڈر ہی بھوسے کے ساتھ وہ کررہے ہوں جو قرضوں کے ساتھ کررہے ہیں۔ ٹٹوئے تحقیق نے تجویز پیش کی کہ کیوںان''بھوسہ اڑانے''(اخباروں،چینلوں، بیانوں) والوں اور ان میں سے دانہ الگ کرنے والوں سے ملا جائے لیکن یہ تجویز جتنی اچھی تھی اس سے کہیں زیادہ بری نکلی۔اگر بیانات فرمودات واعلانات کا بھوسہ اڑانے والوں اوردانہ الگ کرکے دساور بھیجنے والے لیڈران کرام اور رہنمان عظام سے ملنا اتنا آسان ہوتا تو اب تک ہمارے وارے نیارے ہوگئے ہوتے وہ تو
اورابہ چشم پاک توان دیدچوں ہلال
ہردیدہ جائے آں ماہ پارہ نیست
یعنی اسے دیکھنے کے لیے تو آنکھیں ہلال دیکھنے کی طرح باوضو اور پاک ہونی چاہیں کہ ہر آنکھ اس ماہ پارہ کو دیکھنے کے قابل نہیں ہوتی۔گویا،انسانوں سے بہت اونچے اورخدا سے تھوڑے کم لوگوں سے ملنے کا یہ آپشن تو فلاپ ہوگیا،اب صرف آخری آپشن یہ بچا تھا کہ ان لوگوں سے ملاجائے جو انسانوں سے بہت کم اور جانوروں سے تھوڑے تقریباً''پیاز کی جھلی'' جتنے زیادہ ہوتے ہیں یعنی کسان عالیشان ذی شان ۔ اور یہ تو ہمیں معلوم تھا کہ یہ بندہ کہاں پایاجاتاہے۔لیکن اس کے ٹھکانے گاؤں پہنچے تو عجیب مخمصے میں پڑگئے کہ یہاں گھر اور ان میں رہنے والے دونوں ایک جیسے تھے۔
ایک جیسے گرد آلود اور میلے کچیلے،ایک جیسے ٹوٹے اور پست قامت،ایک جیسے بے دم بے جان۔پتہ ہی نہیں چلتا کہ گھر، اپنے رہنے والوں پر گئے ہیں یا رہنے والے اپنے گھروں پر گئے ہیں یہاں تک کہ دونوں ہی صرف کان رکھتے ہیں، زبان نہیں۔لیکن اچھا ہوا ہمارا ٹٹوئے تحقیق کام آیا۔ولی راولی می شناسد اور جانور را جانور می شناسد۔اس نے ایک کسان کی نشاندہی کی جولگتاتو دیوار ہی تھا کیونکہ دیوار کی گوبر سے لتھڑاہوابھی تھا۔لیکن تھوڑا سا فرق یہ تھا کہ متحرک تھا،گویا دیوار سے تھوڑا سازیادہ تھا۔ہم نے بھی وقت ضایع کیے بغیر پوچھا،یہ تم لوگوں نے بھوسہ کیوں اتنا مہنگاکردیاہوا ہے ،کیاتم اس میں سونا چاندی ملانے لگے ہو؟وہ تقریباً کراہتے ہوئے جیسے منہ سے''بات''نہیں بلکہ جسم سے ''جان''نکل رہی ہو۔ بولا،ہاں سونا چاندی تو ہم اپنی فصلوں میں صدیوں سے ملاتے آئے ہیں، ہمارا جدی پشتی خاندانی پیشہ ہی یہی ہے۔
کھیتوں میں پسینے کی چاندی اور خون کا سونا بکھیرنا۔لیکن مہنگائی کی وجہ سے ہمارا یہ سونا چاندی نہیں ہے بلکہ وہ سونا۔جسے ہم بازار سے سونے ہی کے بھاؤ خریدتے ہیں اور پھر فصل بنا کرمٹی کے بھاؤ بیچتے ہیں۔پھر وہ ایک نہایت عجیب وغریب انداز میں ہنسا لیکن اس میں سے دنیا جہاں کا رونا بھی نکل رہا تھا، آنسوؤں میں سراسر بھیگی ہوئی ہنسی میں بولا،ہمیں تو آج تک سمجھ یہ نہیں آیا کہ ہم اناج پیدا کرنے والے اس کے مالک تو بالکل نہیں ورنہ اپنی پیدا کی ہوئی چیز کے نرخ ہم مقرر کرتے لیکن وہ خریدارمقررکرتے ہیں۔
چلو ٹھیک ہے لیکن جب خریدتے ہیں تو یہاں دکاندار نرخ مقررکرتاہے۔ گویا اپنی مرضی سے نہ خریدسکتے ہیں نہ بیچ سکتے ہیں، صرف پیدا کرتے ہیں۔ وہاں سے مہنگائی چلتی ہے اور جب ہمارے خون پسینے سے سیراب ہوکرجاتی ہے تو ''سستائی''بن چکی ہوتی ہے۔ہم نے کہا، یہ باتیں چھوڑو، تم تو مٹی کی اولاد ہو ،مٹی تھے، مٹی ہو اور مٹی پھانک ہوجاؤگے، بوسے کی بات کرو یہ کیوں مہنگا ہوگیا۔ ایک دم، بولا کہ وہ اس لیے کہ دانہ تو وہ چگنے والے لے جاتے ہیں، اس بھوسے کے سوا ہمارے پاس اور ہوتاکیا ہے۔ٹٹوئے تحقیق نے بھی غصے سے کہا مگراتنا مہنگا۔ایک دم آٹھ سو روپے بنڈل؟وہ بولا ، یہ بنڈل کیاہوتاہے، ہم سے تو ڈھیروں کے حساب سے لیا جاتا ہے۔ ہم نے اسے بنڈل کے بارے میں بتایا جو بیس اکیس کلوکاہوتاہے۔ وہ یہ سن کر ایک دم کھڑا ہوگیا اور ایک طرف بھاگتے ہوئے بولا، تو یہ جاکر ''بنڈل'' والوں سے پوچھو، ہم توصرف بھوسہ پیدا کرتے ہیں۔تم جانو اور تمہارے بنڈل۔
اب اناج (grain) کھا رہے ہیں تب مگر سبزی(green) کھانا شروع کردیں کہ ہمارے اجداد بھی تو سبزی کھا کر''آدم'' بنے تھے یعنی شاکاہاری تھے اور ماسا ہاریوں سے ان کی وجہ اختلاف یہی تھی۔اچانک ہمارے ذہن میں ایک کڑاکا ہوا۔اچھا یہ بات ہے کہ ہماری حکومتیں روز روز گرینری گرینری اس لیے کر رہی ہیں، روشن ضمیر تو یہ لوگ ہوتے ہیں شاید ان کو لگ پتہ گیا ہوگا کہ آنے والے وقتوں میں اس کم بخت مہنگائی کے ہاتھوں ایک مرتبہ پھر''گرینری''پر آنا پڑے گا۔
حالانکہ ملک میں گرینری کی کمی نہ کبھی تھی نہ ہے اور نہ ہوگی کیونکہ وہ گرین آنکھوں والے جب جارہے تھے تو اپنی آنکھوں کا رنگ ہمیں تحفے میں دے گئے کہ لو اپنے قدم ہماری آنکھوں کے رنگ میں رنگ لو اور خون کو ہمارے چہروں کا رنگ دے دو، مطلب یہ ہمارے ہاں سبزقدموں،سبزچشموں اور سبزہ سبزہ چرنے کی روایت پہلے بھی کم نہ تھی۔لیکن پھر بھی ہماری حکومتیں جب بھی اپنے سبز قدم لے کر اس دھرتی پر آتی ہیں تو گرینری گرینی،گرین پاکستان گرین گرین جہاں کرنے لگتی ہیں تو اس کے پیچھے یقیناً کوئی روشن ضمیری، خوش تدبیری اور بے تقدیری کارفرماہے۔
اور اس کے آثار بھی ملنا شروع ہوگئے۔ بھوسے کی اس اچانک چھلانگ کی شکل میں۔ گویا ہم جو اپنی ڈھارس اس بات پر بندھاتے تھے کہ گرین(grain) نہ سہی(green) ہی سہی۔گویا بھوسے کے نرخوں نے یہ گھنٹی بجادی ہے کہ خبردار ہوشیار اور تیار کہ تم خیر سے اپنے اجداد جیسے ہی والے ہو۔لیکن یہ ڈھارس اب مکمل طور پر ڈھے چکی اگر بھوسے کے نرخ اسی طرح چھلانگیں مارے اور اسی طرح جاری رہے تو چارے کے لالے بھی پڑنے والے ہیں کیونکہ بھوسا ہی تو ایک سدا بہار نہ سہی سدا تیار چارہ ہے۔تشویش توہونا ہی تھی اور ظاہر ہے کہ تشویش کے ساتھ تحقیق کی دمُ بھی بندھی ہوئی ہے۔ یہ پتہ لگانا ضروری تھا کہ آخر یہ بھوسا اتنا اچھلنے کیوں لگ گیا۔
چند ہی دنوں میں چارسو سے آٹھ سوروپے بنڈل۔اور حیرت انگیز طور پر ہمارے وسیلہ ظفر اور ذریعہ سفر یعنی خچرراہ نے بھی خوشی خوشی اس مہم میں حصہ لینے کے لیے صاد کیاکیونکہ ہمیں تو محض مستقبل کے اس ممکنہ چارے کا مسئلہ تھا اور اس کے لیے تو یہ''کرنٹ افئیر''کیونکہ جب سے بھوسے کے نرخوں میں اضافہ ہوا ہے اس کے راتب میں ہم نے کمی کردی تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ان دنوں حکومت ہماری جو ٹیکس ٹیکس اور نرخوں نرخوں کا کھیل کھیل رہی ہے، ان میں سے کسی بھی چیز کے ساتھ بھوسے کا جائزیاناجائز تعلق نہیں بنتا، زیادہ سے زیادہ پیٹرولیم سے تھوڑا تعلق بنتا ہے لیکن وہ تو ہماری نئی ریاست مدینہ کی برکت سے سمندر میں سے بھی سنا ہے نکل آیاہے اور ادھر ہمارے مہربان قدردان مہمان ومیزبان وپاسبان سعودی عرب نے بھی اپنے پائپوں کی ٹونٹیاں ہم پر کھول دی ہیں۔
پہلا خیال تو یہ آیا کہ شاید حکومت خالی کھوپڑیوں میں ٹھونسنے کے لیے بھوسے کی خریداری کر رہی ہو لیکن اسے مسترد کرنا پڑا کیونکہ ہمارے ہاں کھوپڑیاں بھوسے سے بھری بھری ہوئی آتی ہیں۔شاید پھر لیڈر ہی بھوسے کے ساتھ وہ کررہے ہوں جو قرضوں کے ساتھ کررہے ہیں۔ ٹٹوئے تحقیق نے تجویز پیش کی کہ کیوںان''بھوسہ اڑانے''(اخباروں،چینلوں، بیانوں) والوں اور ان میں سے دانہ الگ کرنے والوں سے ملا جائے لیکن یہ تجویز جتنی اچھی تھی اس سے کہیں زیادہ بری نکلی۔اگر بیانات فرمودات واعلانات کا بھوسہ اڑانے والوں اوردانہ الگ کرکے دساور بھیجنے والے لیڈران کرام اور رہنمان عظام سے ملنا اتنا آسان ہوتا تو اب تک ہمارے وارے نیارے ہوگئے ہوتے وہ تو
اورابہ چشم پاک توان دیدچوں ہلال
ہردیدہ جائے آں ماہ پارہ نیست
یعنی اسے دیکھنے کے لیے تو آنکھیں ہلال دیکھنے کی طرح باوضو اور پاک ہونی چاہیں کہ ہر آنکھ اس ماہ پارہ کو دیکھنے کے قابل نہیں ہوتی۔گویا،انسانوں سے بہت اونچے اورخدا سے تھوڑے کم لوگوں سے ملنے کا یہ آپشن تو فلاپ ہوگیا،اب صرف آخری آپشن یہ بچا تھا کہ ان لوگوں سے ملاجائے جو انسانوں سے بہت کم اور جانوروں سے تھوڑے تقریباً''پیاز کی جھلی'' جتنے زیادہ ہوتے ہیں یعنی کسان عالیشان ذی شان ۔ اور یہ تو ہمیں معلوم تھا کہ یہ بندہ کہاں پایاجاتاہے۔لیکن اس کے ٹھکانے گاؤں پہنچے تو عجیب مخمصے میں پڑگئے کہ یہاں گھر اور ان میں رہنے والے دونوں ایک جیسے تھے۔
ایک جیسے گرد آلود اور میلے کچیلے،ایک جیسے ٹوٹے اور پست قامت،ایک جیسے بے دم بے جان۔پتہ ہی نہیں چلتا کہ گھر، اپنے رہنے والوں پر گئے ہیں یا رہنے والے اپنے گھروں پر گئے ہیں یہاں تک کہ دونوں ہی صرف کان رکھتے ہیں، زبان نہیں۔لیکن اچھا ہوا ہمارا ٹٹوئے تحقیق کام آیا۔ولی راولی می شناسد اور جانور را جانور می شناسد۔اس نے ایک کسان کی نشاندہی کی جولگتاتو دیوار ہی تھا کیونکہ دیوار کی گوبر سے لتھڑاہوابھی تھا۔لیکن تھوڑا سا فرق یہ تھا کہ متحرک تھا،گویا دیوار سے تھوڑا سازیادہ تھا۔ہم نے بھی وقت ضایع کیے بغیر پوچھا،یہ تم لوگوں نے بھوسہ کیوں اتنا مہنگاکردیاہوا ہے ،کیاتم اس میں سونا چاندی ملانے لگے ہو؟وہ تقریباً کراہتے ہوئے جیسے منہ سے''بات''نہیں بلکہ جسم سے ''جان''نکل رہی ہو۔ بولا،ہاں سونا چاندی تو ہم اپنی فصلوں میں صدیوں سے ملاتے آئے ہیں، ہمارا جدی پشتی خاندانی پیشہ ہی یہی ہے۔
کھیتوں میں پسینے کی چاندی اور خون کا سونا بکھیرنا۔لیکن مہنگائی کی وجہ سے ہمارا یہ سونا چاندی نہیں ہے بلکہ وہ سونا۔جسے ہم بازار سے سونے ہی کے بھاؤ خریدتے ہیں اور پھر فصل بنا کرمٹی کے بھاؤ بیچتے ہیں۔پھر وہ ایک نہایت عجیب وغریب انداز میں ہنسا لیکن اس میں سے دنیا جہاں کا رونا بھی نکل رہا تھا، آنسوؤں میں سراسر بھیگی ہوئی ہنسی میں بولا،ہمیں تو آج تک سمجھ یہ نہیں آیا کہ ہم اناج پیدا کرنے والے اس کے مالک تو بالکل نہیں ورنہ اپنی پیدا کی ہوئی چیز کے نرخ ہم مقرر کرتے لیکن وہ خریدارمقررکرتے ہیں۔
چلو ٹھیک ہے لیکن جب خریدتے ہیں تو یہاں دکاندار نرخ مقررکرتاہے۔ گویا اپنی مرضی سے نہ خریدسکتے ہیں نہ بیچ سکتے ہیں، صرف پیدا کرتے ہیں۔ وہاں سے مہنگائی چلتی ہے اور جب ہمارے خون پسینے سے سیراب ہوکرجاتی ہے تو ''سستائی''بن چکی ہوتی ہے۔ہم نے کہا، یہ باتیں چھوڑو، تم تو مٹی کی اولاد ہو ،مٹی تھے، مٹی ہو اور مٹی پھانک ہوجاؤگے، بوسے کی بات کرو یہ کیوں مہنگا ہوگیا۔ ایک دم، بولا کہ وہ اس لیے کہ دانہ تو وہ چگنے والے لے جاتے ہیں، اس بھوسے کے سوا ہمارے پاس اور ہوتاکیا ہے۔ٹٹوئے تحقیق نے بھی غصے سے کہا مگراتنا مہنگا۔ایک دم آٹھ سو روپے بنڈل؟وہ بولا ، یہ بنڈل کیاہوتاہے، ہم سے تو ڈھیروں کے حساب سے لیا جاتا ہے۔ ہم نے اسے بنڈل کے بارے میں بتایا جو بیس اکیس کلوکاہوتاہے۔ وہ یہ سن کر ایک دم کھڑا ہوگیا اور ایک طرف بھاگتے ہوئے بولا، تو یہ جاکر ''بنڈل'' والوں سے پوچھو، ہم توصرف بھوسہ پیدا کرتے ہیں۔تم جانو اور تمہارے بنڈل۔