کچھ نے کہا یہ چاند ہے
عید اور رمضان کے چاند کا مسئلہ کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں۔
رویت ہلال کمیٹی اور وزارت سائنس کے اختلافات عروج پر پہنچے تو چاند سے جڑی اُن دنوں کی بہت ساری یادیں تازہ ہو گئیں جب بجلی تھی نہ ٹی وی اور نہ ہی انٹرنیٹ بس ریڈیو اور اخبارکے ذریعے ہی ملکی اور بین الاقوامی حالات کا پتہ چلتا تھا۔
رمضان کا مہینہ جوں جوں اختتام کی طرف بڑھتا بچوں میں عیدکا چاند دیکھنے کا اشتیاق بھی بڑھتا چلا جاتا اور انتیس روزے پورے ہوتے ہی سر شام گاؤں کے نوجوان انتہائی بے تابی سے چاند کی تلاش میں گھروں کی چھتوں پر جمع ہو نے لگتے۔ آسمان پر بادلوں کا راج ہوتا توپہلے سے مایوس نوجوان اس وقت زیادہ مایوس ہوتے جب مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر گھروں کو لوٹنے والے بزرگ انھیں بتاتے کہ ''پہلے دن کا چاند انتہائی مختصر مدت کے لیے طلوع ہو نے کے بعد فوراً غروب ہو جاتا ہے، چھت سے نیچے اتر آؤ اس دفعہ تیس روزے پورے ہونے کے بعد ہی عید ہو گی۔''
تیس روزے پورے ہونے کے بعد تو سب مطمئن ہو جاتے کہ کل ضرور عید ہو گی اس کے باوجود گزری ہوئی شام کی طرح گھروں کی چھتوں پر اپنی آنکھوں سے چاند دیکھنے کے متمنی ایک دفعہ پھر سے اپنے اپنے انداز میں چاند کی تلاش شروع کر دیتے ۔ ہمیں گاؤں کے ایک مرحوم بزرگ یاد آ رہے ہیں جو اس موقعے پر اپنی عقل کے مطابق مشورہ دیتے کہ مٹی کی کونڈے میں پانی ڈال کر چھت پر رکھ دو، آسمان کے کسی بھی کونے میں چاند ہوا تو ضرور نظر آ جائے گا ۔
نوجوان کونڈے میں جھانکتے تو اُس میں پورا آسمان اور اُس پر ابھرنے والے اکا دکا تارے دیکھ کر حیران رہ جاتے، مگر چاند کے سلسلے میں انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا۔ گاؤں کے کچھ ریٹائرڈ سرکاری افسران کے بچوں کے پاس دوربین ہوتی جس کے ذریعے وہ بھی چاند کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے اور تیسرا طبقہ ریڈیو پر چاند نظر آنے کی خبرکا انتظار کرتا۔ جب عید کا اعلان ہوتا تو پہلے دن نظر آنے والے چاند کی جسامت ، ضخامت، قدامت اور چمک دمک پر دوبارہ تبصرے شروع ہو جاتے۔ کوئی کہتا:
چاند ایک دن کا تو نہیں لگتا۔
دوسرا کہتا ہاں کافی بڑا ہے ، ایک دن کا چاند اتنا بڑا کیسے ہو سکتا ہے۔
تیسراکہتا ، ہاں ایک دن کا ہوتا تو اب تک غروب ہو چکا ہوتا۔ مگر کیا کیا جائے بھائی دیکھنے اور اعلان کرنے والوں کی مرضی ۔
انھیں دنوں ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ہم سے پندرہ منٹ کی مسافت پر واقع سرحد (خیبر پختون خوا) والے ایک دن پہلے روزہ رکھتے ہیں۔ کوئی کہتا، وہ اُسی دن روزہ رکھتے ہیں جس دن سعودی عرب والے روزوں کی ابتدا کرتے ہیں، آج وہاں چاند نظر آیا ہے اسی لیے ان کا روزہ ہے حالانکہ ملک کے دوسرے علاقوںمیں کہیں بھی چاند نظر نہیں آیا۔ ایک اور صاحب دلیل دیتے کہ وہاں کی ایک بڑی مسجد کی انتظامیہ نے چاند دیکھنے کے لیے اپنی کمیٹی بنا رکھی ہے جس کے مطابق وہ رمضان اور عید کے چاند کا اعلان کرتے ہیں اور پھر گفتگو مذہبی مباحثے کا رنگ اختیار کر لیتی۔
وقت کے ساتھ ہوش سنبھالا تو سید سبط حسن کی کتاب ''ماضی کے مزار'' میں اُس چاند کا ذکر پڑھا جو صدیوں پہلے چاہ نخشب سے طلوع ہونے کے بعد اُسی میں غروب ہو جاتا تھا، مگر اُس کا انتظام فطرت کے بجائے ایک شخص کے ہاتھ میں تھا۔ اسی دوران بچپن کی سنی یہ بات بھی جھوٹ ثابت ہوئی کہ چاند میں بیٹھی کوئی بڑھیا چرخہ کات رہی ہے اور یہ سچ بھی سامنے آیا کہ لگ بھگ پچاس سال قبل دنیا کے پہلے انسان نے چاند پر اپنا قدم رکھا، لیکن بہت سارے راس العقیدہ افراد اس بات کا بالکل یقین نہیں کرتے تھے کہ کوئی چاند کی مقدس دھرتی پر بھی قدم رکھ سکتا ہے۔ انھیںتب بھی یقین نہ آیا جب چاہ نخشب سے ابھرنے والے چاند کی طرح چین نے بھی ایسا مصنوعی چاند بنانے کا اعلان کیا جو مستقبل میں بہت سارے بستیوں کو اندھیروں سے نجات دلائے گا اور شاید تب تک نہ آئے جب تک وہ اسے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں یا ہمارا خلائی مشن اپنا چاند بنا کر انھیں لوڈ شیڈنگ سے نجات نہ دلا دے ۔
وزیر سائنس وٹیکنالوجی نے چاند کی تلاش کے سلسلے میں رویت ہلا ل کمیٹی کو تنقیدکا نشانہ بنانے کے ساتھ پانچ رکنی کمیٹی کا اعلان کیا جو اگلے پانچ سال کے لیے رمضان، عید اور محرم کے لیے قمری کلینڈر ترتیب دے گی تو مخالفت کے ساتھ اُن کی سائنسی قابلیت کا بھی خوب مذاق اڑایا گیا اور رویت ہلال کمیٹی کے اراکین بھی پیرانہ سالی کی وجہ سے لطیفوں، کارٹونوں اور طنزیہ جملوں کی زد میں آئے، لیکن رویت ہلال کمیٹی بھی کیا کرے کہ ہمارے چھوٹے سے ملک میں کہیں تو عید اور مضان کا چاند فوراً نظر آ جاتا ہے اور کہیں اس کا نام و نشان بھی نہیں ملتا اور وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی بھی کیا کریں کہ انھوں نے سائنس تو پڑھ رکھی ہے لیکن سوائے پارٹیاں بدلنے کے انھوں نے کبھی کوئی سائنسی تجربہ ہی نہیں کیا۔
عید اور رمضان کے چاند کا مسئلہ کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ، ساؤتھ ایشیاء اور یورپ کے کئی ممالک میں بسنے والے مسلمان بھی اسی پریشانی کا شکار ہیں یہاں تک کہ پڑوسی ملک کے کچھ علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں نے بھی اس دفعہ الگ الگ دنوں سے رمضان کی ابتدا کی ہے۔ چونکہ دنیا میں جغرافیائی لحاظ سے کہیں دن ہوتا ہے اور کہیں رات، کہیں سردی ہوتی ہے اور کہیں گرمی لہذا یہ تو ممکن نہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک ہی دن روزہ رکھیں اور ایک ہی دن عید کریں لیکن اپنے ملک میں ہم ایک ہی دن روزہ رکھنے اور عید کرنے پر متفق ہو جائیں تو جگ ہنسائی اور باہمی لڑائی کا موقع ہاتھ سے ضرور نکل سکتا ہے۔ شاید ابن انشا ء نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ مستقبل میںچاند کی تلاش کیا گل کھلانے والی ہے لہذا ان کا کہنا تھا ۔
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرہ ترا
وقت آگیا ہے کہ محبوب کے چہرے اور چاند کا فرق ختم کیا جا سکے جو دل کے بجائے دماغ سے ختم ہو تو زیادہ بہتر ہو گا ۔
رمضان کا مہینہ جوں جوں اختتام کی طرف بڑھتا بچوں میں عیدکا چاند دیکھنے کا اشتیاق بھی بڑھتا چلا جاتا اور انتیس روزے پورے ہوتے ہی سر شام گاؤں کے نوجوان انتہائی بے تابی سے چاند کی تلاش میں گھروں کی چھتوں پر جمع ہو نے لگتے۔ آسمان پر بادلوں کا راج ہوتا توپہلے سے مایوس نوجوان اس وقت زیادہ مایوس ہوتے جب مغرب کی نماز سے فارغ ہوکر گھروں کو لوٹنے والے بزرگ انھیں بتاتے کہ ''پہلے دن کا چاند انتہائی مختصر مدت کے لیے طلوع ہو نے کے بعد فوراً غروب ہو جاتا ہے، چھت سے نیچے اتر آؤ اس دفعہ تیس روزے پورے ہونے کے بعد ہی عید ہو گی۔''
تیس روزے پورے ہونے کے بعد تو سب مطمئن ہو جاتے کہ کل ضرور عید ہو گی اس کے باوجود گزری ہوئی شام کی طرح گھروں کی چھتوں پر اپنی آنکھوں سے چاند دیکھنے کے متمنی ایک دفعہ پھر سے اپنے اپنے انداز میں چاند کی تلاش شروع کر دیتے ۔ ہمیں گاؤں کے ایک مرحوم بزرگ یاد آ رہے ہیں جو اس موقعے پر اپنی عقل کے مطابق مشورہ دیتے کہ مٹی کی کونڈے میں پانی ڈال کر چھت پر رکھ دو، آسمان کے کسی بھی کونے میں چاند ہوا تو ضرور نظر آ جائے گا ۔
نوجوان کونڈے میں جھانکتے تو اُس میں پورا آسمان اور اُس پر ابھرنے والے اکا دکا تارے دیکھ کر حیران رہ جاتے، مگر چاند کے سلسلے میں انھیں مایوسی کا سامنا کرنا پڑتا۔ گاؤں کے کچھ ریٹائرڈ سرکاری افسران کے بچوں کے پاس دوربین ہوتی جس کے ذریعے وہ بھی چاند کو تلاش کرنے کی کوشش کرتے اور تیسرا طبقہ ریڈیو پر چاند نظر آنے کی خبرکا انتظار کرتا۔ جب عید کا اعلان ہوتا تو پہلے دن نظر آنے والے چاند کی جسامت ، ضخامت، قدامت اور چمک دمک پر دوبارہ تبصرے شروع ہو جاتے۔ کوئی کہتا:
چاند ایک دن کا تو نہیں لگتا۔
دوسرا کہتا ہاں کافی بڑا ہے ، ایک دن کا چاند اتنا بڑا کیسے ہو سکتا ہے۔
تیسراکہتا ، ہاں ایک دن کا ہوتا تو اب تک غروب ہو چکا ہوتا۔ مگر کیا کیا جائے بھائی دیکھنے اور اعلان کرنے والوں کی مرضی ۔
انھیں دنوں ہمیں یہ بھی معلوم ہوا کہ ہم سے پندرہ منٹ کی مسافت پر واقع سرحد (خیبر پختون خوا) والے ایک دن پہلے روزہ رکھتے ہیں۔ کوئی کہتا، وہ اُسی دن روزہ رکھتے ہیں جس دن سعودی عرب والے روزوں کی ابتدا کرتے ہیں، آج وہاں چاند نظر آیا ہے اسی لیے ان کا روزہ ہے حالانکہ ملک کے دوسرے علاقوںمیں کہیں بھی چاند نظر نہیں آیا۔ ایک اور صاحب دلیل دیتے کہ وہاں کی ایک بڑی مسجد کی انتظامیہ نے چاند دیکھنے کے لیے اپنی کمیٹی بنا رکھی ہے جس کے مطابق وہ رمضان اور عید کے چاند کا اعلان کرتے ہیں اور پھر گفتگو مذہبی مباحثے کا رنگ اختیار کر لیتی۔
وقت کے ساتھ ہوش سنبھالا تو سید سبط حسن کی کتاب ''ماضی کے مزار'' میں اُس چاند کا ذکر پڑھا جو صدیوں پہلے چاہ نخشب سے طلوع ہونے کے بعد اُسی میں غروب ہو جاتا تھا، مگر اُس کا انتظام فطرت کے بجائے ایک شخص کے ہاتھ میں تھا۔ اسی دوران بچپن کی سنی یہ بات بھی جھوٹ ثابت ہوئی کہ چاند میں بیٹھی کوئی بڑھیا چرخہ کات رہی ہے اور یہ سچ بھی سامنے آیا کہ لگ بھگ پچاس سال قبل دنیا کے پہلے انسان نے چاند پر اپنا قدم رکھا، لیکن بہت سارے راس العقیدہ افراد اس بات کا بالکل یقین نہیں کرتے تھے کہ کوئی چاند کی مقدس دھرتی پر بھی قدم رکھ سکتا ہے۔ انھیںتب بھی یقین نہ آیا جب چاہ نخشب سے ابھرنے والے چاند کی طرح چین نے بھی ایسا مصنوعی چاند بنانے کا اعلان کیا جو مستقبل میں بہت سارے بستیوں کو اندھیروں سے نجات دلائے گا اور شاید تب تک نہ آئے جب تک وہ اسے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیں یا ہمارا خلائی مشن اپنا چاند بنا کر انھیں لوڈ شیڈنگ سے نجات نہ دلا دے ۔
وزیر سائنس وٹیکنالوجی نے چاند کی تلاش کے سلسلے میں رویت ہلا ل کمیٹی کو تنقیدکا نشانہ بنانے کے ساتھ پانچ رکنی کمیٹی کا اعلان کیا جو اگلے پانچ سال کے لیے رمضان، عید اور محرم کے لیے قمری کلینڈر ترتیب دے گی تو مخالفت کے ساتھ اُن کی سائنسی قابلیت کا بھی خوب مذاق اڑایا گیا اور رویت ہلال کمیٹی کے اراکین بھی پیرانہ سالی کی وجہ سے لطیفوں، کارٹونوں اور طنزیہ جملوں کی زد میں آئے، لیکن رویت ہلال کمیٹی بھی کیا کرے کہ ہمارے چھوٹے سے ملک میں کہیں تو عید اور مضان کا چاند فوراً نظر آ جاتا ہے اور کہیں اس کا نام و نشان بھی نہیں ملتا اور وزیر سائنس اور ٹیکنالوجی بھی کیا کریں کہ انھوں نے سائنس تو پڑھ رکھی ہے لیکن سوائے پارٹیاں بدلنے کے انھوں نے کبھی کوئی سائنسی تجربہ ہی نہیں کیا۔
عید اور رمضان کے چاند کا مسئلہ کسی ایک ملک کا مسئلہ نہیں بلکہ دنیا کے مختلف ممالک کے ساتھ، ساؤتھ ایشیاء اور یورپ کے کئی ممالک میں بسنے والے مسلمان بھی اسی پریشانی کا شکار ہیں یہاں تک کہ پڑوسی ملک کے کچھ علاقوں میں رہنے والے مسلمانوں نے بھی اس دفعہ الگ الگ دنوں سے رمضان کی ابتدا کی ہے۔ چونکہ دنیا میں جغرافیائی لحاظ سے کہیں دن ہوتا ہے اور کہیں رات، کہیں سردی ہوتی ہے اور کہیں گرمی لہذا یہ تو ممکن نہیں کہ دنیا بھر کے مسلمان ایک ہی دن روزہ رکھیں اور ایک ہی دن عید کریں لیکن اپنے ملک میں ہم ایک ہی دن روزہ رکھنے اور عید کرنے پر متفق ہو جائیں تو جگ ہنسائی اور باہمی لڑائی کا موقع ہاتھ سے ضرور نکل سکتا ہے۔ شاید ابن انشا ء نے بہت پہلے ہی بھانپ لیا تھا کہ مستقبل میںچاند کی تلاش کیا گل کھلانے والی ہے لہذا ان کا کہنا تھا ۔
کل چودھویں کی رات تھی شب بھر رہا چرچا ترا
کچھ نے کہا یہ چاند ہے، کچھ نے کہا چہرہ ترا
وقت آگیا ہے کہ محبوب کے چہرے اور چاند کا فرق ختم کیا جا سکے جو دل کے بجائے دماغ سے ختم ہو تو زیادہ بہتر ہو گا ۔