گزرے وقتوں کا ’’رمضان‘‘

آج ماضی میں ملنے والی چھوٹی چھوٹی خوشیاں مفقود ہوگئی ہیں، نہ وہ رمضان رہے اور نہ ہی وہ عیدیں

رمضان المبارک کا روح پرور مہینہ، عبادات کا مہینہ ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

مجھے یاد ہے ذرا ذرا... جب میں چھوٹا تھا تو سحر و افطار کے رنگ کچھ اور؛ جبکہ بڑھاپے میں اس کے رنگ اور ہیں۔ بچپن یعنی پینتیس چالیس سال قبل جب پاکستان ٹیلی وژن عام نہیں تھا اور لوگ ریڈیو کے ایک ہی بینڈ ''ریڈیو پاکستان'' پر اکتفا کیا کرتے تھے اور لوگوں کی معلومات کا کل ذریعہ ریڈیو یا چند اخبارات ہوا کرتے تھے۔ مگر اس تک ہر ایک کی رسائی نہیں ہوتی تھی۔ لہٰذا لوگ رمضان المبارک، عید، بقرعید اور محرم چاند دیکھ کر مناتے تھے۔


رمضان المبارک کی آمد اور استقبال کےلیے ملک کے تمام گائوں، دیہات اور شہروں میں لوگ چاند دیکھنے کا اہتمام پہاڑوں یا اونچے مقامات پر کرتے تھے اور جیسے ہی چاند نظر آجاتا چاروں طرف خوشیاں بکھر جاتی تھیں۔ لوگ آمد رمضان کے استقبال کےلیے اپنے گھروں کے قریب مساجد میں تراویح کا اہتمام کیا کرتے۔ ان چھوٹی مساجد میں تراویح پڑھنے والوں کی اتنی بڑی تعداد ہوتی کہ تل دھرنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس طرح عبادت سے رمضان کے مقدس مہینے کا آغاز ہوجاتا۔


جب سحری کا وقت آتا تو کیونکہ کوئی ریڈیو، ٹی وی تو تھا نہیں، لہٰذا سحری جگانے کےلیے نوجوان ٹولیاں بنالیتے اور گلی گلی گھومتے ہوئے ڈھول بجا کر اور نعتیں پڑھ کر لوگوں کو سحری جگانے کا کام کرتے تھے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں بھی ڈھول، دف اور کنستر بجا کر لوگوں کو سحری میں جگانے کا فریضہ انجام دیا جاتا تھا۔ محمد نامی ایک شخص کی آواز آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے، جو کنستر بجانے کے ساتھ ساتھ چلا چلا کر یہ اعلان کرتا کہ ''رکھو روزہ، پڑھو نماز، یہ ہے محمد کی آواز''۔ جسے سن کر پورا علاقہ جاگ جایا کرتا تھا۔


اس وقت قناعت تھی، لوگ سادہ زندگی گزارنا پسند کرتے تھے، لہٰذا سحری بھی انتہائی معمولی یعنی روٹی اور اس کے ساتھ سالن ہوا کرتا تھا۔ جو ممتول گھرانے تھے وہاں اس وقت بھی لچھے، کھجلا، پھینی سے سحری کا اہتمام کیا جاتا تھا، مگر ایسے گھرانے خال خال تھے۔ لوگ عبادت کا مہینہ ہونے کے سبب دن بھر یا تو نماز کی پابندی کرتے یا پھر تلاوت قرآن پاک کی جاتی تھی۔ افطار کا وقت قریب آتا تو اس میں بھی کوئی خاص اہتمام نہیں ہوتا تھا اور محض خربوزے، تربوز، آم ، کھجور، پکوڑوں سے گھروں میں دسترخوان سج جاتے تھے۔ مگر اس دسترخوان پر کسی بے روزے دار کو دیکھنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی تھی اور افطاری ہونے سے قبل لگ بھگ بیشتر گھرانوں سے مساجد میں پیش امام اور موذن کو نا صرف افطاری بلکہ کھانا بھجوانے کا اہتمام کیا جاتا تھا۔


گھروں سے مساجد میں افطاری بھیجنے کا بھی خصوصی اہتمام کیا جاتا تھا، جہاں نا صرف مسافر روزہ کھولا کرتے تھے بلکہ ہم جیسے بچوں کے گروپ بھی اچھی افطاری کے آسرے میں مسجد پہنچ جاتے، مگر تمام اچھی افطاری مولوی حضرات اپنے اپنے سامنے رکھ لیتے جبکہ بچوں کو کچھ کھجوریں اور پکوڑے بھی بطور احسان سامنے رکھ دیتے تھے، جس میں کبھی کبھی جلیبی اور سموسوں کا بھی اضافہ کردیا جاتا تھا۔ اسی طرح رمضان المبارک کے 29 یا 30 روزے روح پرور مناظر کے ساتھ رخصت ہوجاتے اور پھر سے چاند دیکھنے کا اہتمام کیا جاتا تھا اور اگر چاند نظر آجاتا تو ملک کے تمام شہروں، گائوں، دیہاتوں میں خوشیوں کی لہر دوڑ جاتی۔



لوگ انتہائی سادگی کے ساتھ نئے ملبوسات، جن کی قیمتیں کچھ زیادہ نہیں ہوتی تھیں، پہن کر دمکتے چہروں کے ساتھ عید مناتے۔ ایسے میں بچوں کی خوشیاں قابل دید ہوتی تھیں۔ عید کے دن سویاں کھانے کے بعد ملنے ملانے اور عیدی دینے اور وصول کرنے کا سلسلہ شروع ہوجاتا تھا۔ مگر اس وقت کی عیدی بھی سکوں یا ٹکوں میں ہوا کرتی تھی۔ اس طرح عید کے 3 پرمسرت روز خوشیاں بانٹنے اور خوشیاں سمیٹنے میں گزر جایا کرتے تھے۔


لیکن آج ماضی میں ملنے والی وہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں مفقود ہوگئی ہیں۔ نہ وہ رمضان رہے اور نہ ہی وہ عیدیں۔ جو روزہ باعث رحمت ہوا کرتا تھا، اسے ہم لوگوں نے زحمت بنادیا اور رمضان المبارک کے اس مقدس مہینے کو ایک اسٹیٹس سمبل بنا کر سب کچھ تبدیل کردیا۔ جس کے تحت آج چاند دیکھنے کے لیے کوئی پہاڑوں یا اونچے مقامات پر چڑھ کر دعائیں نہیں مانگتا، بلکہ ٹیلی ویژن پر آنے والے لاتعداد چینلز سے رویت ہلال کمیٹی کے سربراہ مفتی منیب الرحمن چاند دیکھ کر اس کا اعلان کردیتے ہیں۔ جس کے بعد شہر بھر کے بازاروں، شاپنگ سینٹروں پر خریداروں کا ہجوم لگ جاتا ہے۔ جو کسی غریب کے گھر میں خوشیاں بانٹنے کےلیے خریداری نہیں کرتے، بلکہ اپنے اور اپنے بچوں کی عید کو دوسروں سے ممتاز کرنے کےلیے نت نئے ملبوسات اور جوتوں کی خریداری کررہے ہوتے ہیں۔


اسی طرح رمضان المبارک میں مساجد میں افطاری بھجوانے کا کام بھی لگ بھگ ختم ہوچکا ہے اور اس کی جگہ شہر کی سڑکوں، فٹ پاتھوں اور شاپنگ سینٹروں میں افطاری کی ٹیبل سجانے کا رجحان قائم ہوگیا ہے۔ جس پر غریب افراد کم اور صاحب حیثیت لوگ ہی افطاری کرتے نظر آتے ہیں۔ اب مسجد کے پیش امام اور موذن بھی اتنے صاحب حیثیت ہوچکے ہیں کہ انہیں افطاری، سحری، کھانے کی ضرورت نہیں رہی۔ لہٰذا وہ اپنی تمام تر توجہ تراویح کی شیرینی، مسجد کے پنکھوں کی خرابی یا پھر مسجد کی تعمیر و توسیع کے نام پر چندوں کی وصولی پر دے رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح سحری جگانے والے بھی تقریباً غائب ہوچکے ہیں اور یہ کام بھی یا تو گھڑی کے الارم یا پھر ٹی وی والے انجام دے رہے ہیں۔


رمضان المبارک کا وہ روح پرور مہینہ جسے عبادت کا مہینہ بنایا گیا ہے، سے عبادت ختم اور دکھاوا زیادہ ہونے لگا ہے۔ جس کا عملی مشاہدہ افطاری کے اوقات میں شہر کی سڑکوں، فٹ پاتھوں سے کیا جاسکتا ہے۔ جہاں جگہ جگہ افطاری کی ٹیبلیں سجی ہوتی ہیں، جبکہ بیشتر مقامات پر لوگ افطاری کے ڈبے اور جوس کے پیکٹ لے کر افطار سے کچھ قبل ٹریفک کے سامنے آجاتے ہیں اور گاڑیوں میں افطاری کا سامان اور جوس و پانی کی تقسیم شروع کردیتے ہیں۔ میں روزانہ شہر کی سڑکوں، شاہراہوں پر یہ مناظر دیکھتا ہوں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر میرا ذہن یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ رمضان المبارک کا تقدس و احترام پہلے تھا یا اب ہے؟ لیکن میرا ناتواں ذہن آج تک اس سوال کا جواب حاصل کرنے میں ناکام ہے۔


نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔
Load Next Story