آئی ایم ایف معاہدے میں تاخیر کر دی چھوٹی صنعت کو فروغ دیا جائے ماہرین
آئندہ بجٹ حکومت کی سمت کا تعین کرے گا، ڈاکٹر قیس، عبدالرئوف مختار، رحمت اللہ
KARACHI:
آئی ایم ایف کے پاس پہلے ہی چلے جانا چاہیے تھا، تاخیر کے اثرات غربت و مہنگائی میں اضافے کی صورت میں سامنے آئے تاہم اب آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد دیگر مالیاتی ادارے بھی ہماری مدد کو تیار ہونگے جس سے آئندہ2 سے 3 برسوں میں بتدریج بہتری آئیگی۔
ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے ''آئی ایم ایف معاہدہ اور اس کے اثرات'' کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کہا کہ آئی ایم ایف اخراجات کم کرنے پر زور دیتا ہے مگر افسوس ہے کہ ماضی میں اخراجات کم کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کو غلط اعداد و شمار دیئے جاتے رہے جن کا نقصان ہوا۔چھوٹی صنعت ریڑھ کی ہڈی ہے لہٰذا ''میڈ اِن پاکستان'' کو فروغ دیا جائے۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے بعد ورلڈ بینک و دیگر مالیاتی ادارے بھی ہماری مدد کریں گے، آئی ایم ایف پرانے قرض واپس کرنے یا ری شیڈولنگ کے لیے قرض دیتا ہے ۔ایمنسٹی اسکیم سے شاید سرمایہ داروں کا اعتماد بحال ہوجائے تاہم آئندہ بجٹ حکومت کی سمت کا تعین کرے گا اور اس سے معیشت پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ 2018ء میں گروتھ ریٹ 4.7 سے 5.2 کے قریب تھا جو اب 3.2 کے قریب ہے جبکہ اگلے سال 2.2 تک چلا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی حکومت نے زراعت کو ترجیحات میں شامل نہیں کیا، فوڈ سیکیورٹی پر کام کرنا ہوگا ۔
ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر و ریجنل چیئرمین عبدالرئوف مختار نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس تاخیرسے جانے کے اثرات مہنگائی و خراب معاشی حالت کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ایکسپورٹس میں شدید کمی جبکہ امپورٹ زبردستی بند کی گئی ہے۔ہمیں جدید مشینری کی ضرورت ہے۔
سارک چیمبر کے فائونڈر سیکرٹری جنرل و فائونڈنگ ممبر سمیڈا رحمت اللہ جاوید نے کہا کہ اسد عمر ایڈمنسٹریٹیو تجربہ رکھتے تھے، انھیں مالیاتی تجربہ نہیں تھا مگر انھیں وزیر خزانہ بنایا گیا ۔چھوٹی صنعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے نمائندہ آصف بیگ مرزا نے کہا کہ آئی ایم ایف سب سے سستا قرض دیتا ہے، حکومت کو ابتدا میں ہی آئی ایم ایف کے پاس چلے جانا چاہیے تھا مگر فیصلے میں تاخیر ہوئی لہٰذا اب آئندہ 2 سے 3 سال بہت مشکل ہوں گے۔
آئی ایم ایف کے پاس پہلے ہی چلے جانا چاہیے تھا، تاخیر کے اثرات غربت و مہنگائی میں اضافے کی صورت میں سامنے آئے تاہم اب آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد دیگر مالیاتی ادارے بھی ہماری مدد کو تیار ہونگے جس سے آئندہ2 سے 3 برسوں میں بتدریج بہتری آئیگی۔
ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے ''آئی ایم ایف معاہدہ اور اس کے اثرات'' کے حوالے سے منعقدہ ''ایکسپریس فورم'' میں کہا کہ آئی ایم ایف اخراجات کم کرنے پر زور دیتا ہے مگر افسوس ہے کہ ماضی میں اخراجات کم کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کو غلط اعداد و شمار دیئے جاتے رہے جن کا نقصان ہوا۔چھوٹی صنعت ریڑھ کی ہڈی ہے لہٰذا ''میڈ اِن پاکستان'' کو فروغ دیا جائے۔
ماہر معاشیات ڈاکٹر قیس اسلم نے کہا کہ آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے بعد ورلڈ بینک و دیگر مالیاتی ادارے بھی ہماری مدد کریں گے، آئی ایم ایف پرانے قرض واپس کرنے یا ری شیڈولنگ کے لیے قرض دیتا ہے ۔ایمنسٹی اسکیم سے شاید سرمایہ داروں کا اعتماد بحال ہوجائے تاہم آئندہ بجٹ حکومت کی سمت کا تعین کرے گا اور اس سے معیشت پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔
انھوں نے کہا کہ 2018ء میں گروتھ ریٹ 4.7 سے 5.2 کے قریب تھا جو اب 3.2 کے قریب ہے جبکہ اگلے سال 2.2 تک چلا جائے گا۔ انھوں نے کہا کہ کسی بھی حکومت نے زراعت کو ترجیحات میں شامل نہیں کیا، فوڈ سیکیورٹی پر کام کرنا ہوگا ۔
ایف پی سی سی آئی کے نائب صدر و ریجنل چیئرمین عبدالرئوف مختار نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس تاخیرسے جانے کے اثرات مہنگائی و خراب معاشی حالت کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ایکسپورٹس میں شدید کمی جبکہ امپورٹ زبردستی بند کی گئی ہے۔ہمیں جدید مشینری کی ضرورت ہے۔
سارک چیمبر کے فائونڈر سیکرٹری جنرل و فائونڈنگ ممبر سمیڈا رحمت اللہ جاوید نے کہا کہ اسد عمر ایڈمنسٹریٹیو تجربہ رکھتے تھے، انھیں مالیاتی تجربہ نہیں تھا مگر انھیں وزیر خزانہ بنایا گیا ۔چھوٹی صنعت ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔
پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے نمائندہ آصف بیگ مرزا نے کہا کہ آئی ایم ایف سب سے سستا قرض دیتا ہے، حکومت کو ابتدا میں ہی آئی ایم ایف کے پاس چلے جانا چاہیے تھا مگر فیصلے میں تاخیر ہوئی لہٰذا اب آئندہ 2 سے 3 سال بہت مشکل ہوں گے۔