’’لکھنا پڑھنا ہمارا خاندانی کام ہے‘‘ ادب کے روبہ زوال ہونے کا تصور دُرست نہیں
بدقسمتی سے ہماری معیشت چند افراد کے ہاتھوں میں ہے، اِسی لیے عوام...
علم دوستی وراثت میں ملی کہ ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی، جہاں مطالعہ بنیادی وظیفہ تھا۔ وقت نے تخلیقی صلاحیتوں کو مہمیز کیا۔ ذوق نے شعر کہنے کی جوت جگائی، یوں اُنھوں نے قلم تھام لیا!
ڈاکٹر اختر ہاشمی ایک ہمہ جہت انسان ہیں۔ شعری سفر کا باقاعدہ آغاز غزل کی صنف سے کیا، بعد میں حمد، نعت، منقبت، سلام اور مرثیے کی اصناف میں طبع آزمائی کی۔ افسانہ نگاری کے فن سے بھی بھرپور انصاف کیا۔ ادبی و تحقیقی مضامین تواتر سے لکھے، جو مؤقر اخبارات و رسائل میں شایع ہوئے۔ ناول اور بچوں کے ادب کا بھی تجربہ کیا۔
اِسی دوران پی ایچ ڈی کا مرحلہ طے کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد 28 ہے، جن میں افسانوی و شعری مجموعوں، تنقیدی و تحقیقی کُتب کے علاوہ نعتوں اور افسانہ نگاروں کے ''انتخاب'' بھی شامل ہیں۔ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور، پنجاب کے شعبۂ اردو کے تحت اُن کی شخصیت و فن کو ایم اے، بی ایڈ کے مقالے کا موضوع بنایا گیا۔ پی ایچ ڈی کی سطح پر بھی اُن کی خدمات پر کام ہورہا ہے۔ پیشہ ورانہ زندگی اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں گزری۔ ادب دوستی نے دفتر کو لائبریری کی شکل دے دی۔ ادبی تنظیموں سے وابستگی پرانی ہے۔ ''عالمی بزم ادب، پاکستان'' کے وہ بانی صدر ہیں، جس کے تحت ادبی تقریبات اور مشاعروں کا باقاعدگی سے انعقاد ہوتا ہے۔ ''عالمی بزم نسیم ادب'' کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ ایک فلاحی تنظیم ''انٹرنیشنل حسینی آرگنائزیشن'' کے جنرل سیکریٹری ہیں۔
تخلیق ادب، مشق سخن اور مضمون نگاری کا سلسلہ تو برسوں سے جاری ہے، تاہم تخلیقات کی کتابی صورت میں اشاعت کے معاملے نے گذشتہ چند برسوں میں زور پکڑا۔ تاخیر کا سبب وہ پیشہ ورانہ مصروفیات اور وسائل کی کمی بتاتے ہیں۔ ایک پرائیویٹ چینل سے کچھ عرصہ بہ طور میزبان ادبی پروگرام کی میزبانی بھی کرتے رہے۔ خواہش مند ہیں کہ تمام ٹی وی چینلز سے ادبی پروگرام پیش کیے جائیں کہ ادب اور ادیب ہی معاشرے کی صورت گری کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
پورا نام سید منقاد حیدر ہاشمی ہے۔ چار بھائی، دو بہنوں میں اُن کا نمبر تیسرا ہے۔ اجداد کا تعلق الہ آباد اور جون پور، ہندوستان سے ہے۔ تقسیم کے سمے خاندان نے ہجرت کی۔ ابتداً کراچی میں قیام کیا، آب و ہوا راس نہیں آئی، تو لاہور کا رخ کیا، وہیں 20 اگست 1954 کو اُنھوں نے آنکھ کھولی۔ اُن کے دادا، سید شبیر حسن صفا الہ آبادی بہ طور شاعر معروف تھے۔ شعبۂ تعلیم سے متعلق اُن کے والد، سید محبوب الحسن ہاشمی ایک ہمہ جہت انسان تھے۔ ''عابد مجید سی بی ہائی اسکول، لاہور'' کے وہ ہیڈ ماسٹر رہے۔ عالم دین کی حیثیت سے شناخت رکھتے تھے۔ شعری و ادبی ذوق بُلند تھا۔ غزلیں بھی کہیں، نثرنگاری کا بھی تجربہ کیا۔ وہ حبیب جون پوری تخلص کیا کرتے تھے۔ ''کلیات حبیب جون پوری'' کے عنوان سے اُن کا کلام منظر عام پر آیا۔ اختر ہاشمی کی تحریر کردہ سات سو صفحات پر مشتمل کتاب ''حبیب جون پوری: فن و شخصیت'' کی اشاعت جلد متوقع ہے۔
یادیں کھنگالتے ہوئے اختر ہاشمی کہتے ہیں، گھر کے ماحول میں علم و ادب رچابسا تھا، گفت گو میں اشعار بہ کثرت برتے جاتے۔ ذوق مطالعہ نے ابتداً بچوں کے رسائل کی جانب متوجہ کیا۔ شعور کی دہلیز عبور کرنے کے بعد میر انیس اور مرزا دبیر جیسے قادرالکلام شعرا سے واسطہ پڑا۔ نثر میں یوں تو کئی لکھاریوں کو پڑھا، تاہم نام وَر مرثیہ گو شاعر اور ادیب، سید وحید الحسن ہاشمی نے زیادہ متاثر کیا، جو رشتے میں اُن کے چچا تھے۔
یوں تو تمام کھیل کھیلے، لیکن والی بال دل چسپی کا محور رہا۔ اسکول کی نمائندگی کی، بعد میں اسٹیٹ بینک کی ٹیم کا حصہ رہے۔ شمار شرارتی بچوں میں ہوتا تھا، لیکن شرارتوں کے دوران تہذیبی حدود کا خیال رکھا جاتا۔ اوسط درجے کے طلبا میں اُن کی گنتی ہوتی۔ ''عابد مجید سی بی ہائی اسکول، لاہور'' سے 69ء میں آرٹس سے میٹرک کیا۔ بعد میں ملازمت کی تلاش کراچی لے آئی۔ ابتداً خالہ کے ہاں قیام کیا۔ کچھ عرصے بعد والدہ بھی کراچی آگئیں۔ کرایے پر مکان لے لیا۔ دھیرے دھیرے دیگر بھائی بھی شہر قائد چلے آئے۔ روزگار کی کُھوج 73ء میں تمام ہوئی، اور وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے بہ طور اسسٹنٹ، 263 روپے ماہ وار پر منسلک ہوگئے۔ ریٹائرمینٹ کے بعد اُن کے والد بھی یہیں آگئے۔
یافت کا مستقل ذریعہ میسر آیا، تو دوبارہ تعلیم کی جانب متوجہ ہوئے۔ 84ء میں گریجویشن کرنے کے بعد 87ء میں اکنامکس کے مضمون میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ پیشہ ورانہ سفر میں بھی ترقی کا عمل جاری رہا۔ اُسی عرصے میں بینک کی جانب سے ملازمین کے لیے پی ایچ ڈی کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اِس ضمن میں جن افراد کا چنائو ہوا، اُن میں اختر ہاشمی بھی شامل تھے۔ 2003 میں اُن کے تحقیقی سفر کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹر حسنین بخاری کی سرپرستی میں، چار برس میں پی ایچ ڈی کا مرحلہ طے کیا۔ ''جدید پاکستانی معاشرے میں معیشت کا کردار'' اُن کا موضوع تھا۔ اِس جائزے میں روایتی ڈگر سے ہٹ کر معاشرے کی تشکیل میں معیشت کی حیثیت کا تعین کیا۔
ساتھ ہی ''مائیکرو فنانس'' کی اہمیت اجاگر کی۔ اِس بابت کہتے ہیں،''بدقسمتی سے ہماری معیشت چند افراد کے ہاتھوں میں ہے، اِسی لیے عوام تک اِس کا فائدہ نہیں پہنچتا۔ اگر ہمیں معاشی طور پر مستحکم ہونا ہے، تو نچلی سطح پر استحکام لانا ہوگا، اور اِس کے لیے چھوٹے قرضے بہترین ذریعہ ہیں۔'' اُن کے مطابق ماضی کے برعکس اب پاکستان میں ''مائیکرفنانس'' کا تصور کافی ترقی کر گیا ہے، تاہم اِس ضمن میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ موجودہ انتشار اور مخدوش حالات کے باوجود اُنھیں پاکستان کا معاشی مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ اِس ضمن میں اُن وسائل کا ذکر کرتے ہیں، جنھیں تاحال استعمال نہیں کیا گیا، اور یقین رکھتے ہیں کہ آنے والا وقت ملک میں ترقی اور خوش حالی لائے گا۔
بیتے دن بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ادب دوستی اُن کے خون میں شامل ہے۔ ''لکھنا پڑھنا تو ہمارا خاندانی کام ہے۔ چاہے بینک میں ملازمت کریں، یا وزیر اعظم بن جائیں، ادب سے تعلق قائم رہے گا۔ یہ ہمارا ورثہ ہے، اور ہم نے اِس کی حفاظت کی۔'' ابتدا میں رجحان شاعری کی جانب تھا، نثر کی جانب بعد میں متوجہ ہوئے۔ ہم نصابی سرگرمیوں، خصوصاً بیت بازی کے مقابلوں سے فی البدیہہ شعر کہنے کی مشق ہوئی۔ لاہور ہی کے زمانے میں باقاعدہ شعر کہنے لگے تھے۔
اختر تخلص کیا، بعد میں ادبی دنیا میں اختر ہاشمی کے نام سے معروف ہوئے۔ کراچی آنے کے بعد مشق سخن جاری رہی۔ چچا، سید وحید الحسن ہاشمی کے توسط سے یہاں کے ادیبوں، شاعروں سے رابطہ ہوا۔ ادبی حلقوں میں بھی اٹھنے بیٹھنے لگے۔ البتہ مشاعروں سے دُور رہے، جس کا سبب والد صاحب کی ناراضی تھی، جن کی نظر میں یہ قطعی مناسب نہیں تھا کہ ایک عالم دین کا بیٹا غزلیں کہے، مشاعرے پڑھے۔ خیر، بعد میں اجازت مل گئی۔ آنے والے برسوں میں اختر ہاشمی نے تواتر سے مشاعرے پڑھے۔ غزلیں مختلف اخبارات و رسائل میں شایع ہوتی رہیں۔ فنّی گرفت کے وسیلے جلد ہی ادبی حلقوں میں شناخت بنا لی۔ غیرملکی دورے بھی کیے، تاہم قارئین آج بھی اُن کے مجموعے کے منتظر ہیں!
ڈاکٹر صاحب کے مطابق اُن کا شعری مجموعہ ''خاموش آئینوں کی طرح'' برسوں قبل تیار ہوگیا تھا، لیکن والد کے حکم پر اشاعت کا ارادہ مؤخر کر دیا، اور اُن کی ہدایت پر اظہار کا رخ حمد، نعت، سلام اور منقبت کی جانب موڑ دیا۔ اِس ضمن میں خاصی محنت کی کہ اُن کے بہ قول یہ اصناف مشق اور گرفت کا تقاضا کرتی ہیں۔ اِس پورے عرصے میں مذہبی تقریبات میں سلام اور منقبت پیش کرتے رہے۔ 99ء میں اُن کا مجموعہ ''حروف مدحت'' منظرعام پر آیا، جس میں مذکورہ اصناف کا احاطہ کیا گیا تھا۔ ''غیبت کبریٰ'' اُن کی دوسری کتاب تھی، جس میں حمد، نعت اور سلام کے علاوہ ایک مرثیہ بھی شامل تھا۔ یہ مرثیہ نگاری کا پہلا تجربہ تھا۔ بعد میں تین مرثیے مزید کہے، جو پڑھے تو گئے، لیکن ابھی شایع نہیں ہوئے۔ اُنھوں نے نعتوں کا انتخاب بھی کیا۔ ایک کتاب ''مقبول نعتیں'' کے نام سے شایع ہوئی۔ دوسرا انتخاب ''شاہ مدینہ'' کے عنوان سے منظر عام پر آیا۔
افسانہ نگاری کا سلسلہ بھی پرانا ہے، تاہم افسانوں کی اشاعت کی جانب زیادہ توجہ نہیں دے سکے۔ جب وقت میسر آیا، سنجیدگی سے اِس جانب متوجہ ہوئے۔ ''افسانے زندگی کے'' پہلا مجموعہ تھا۔ اگلا مجموعہ ''آئینے کے زخم'' کے عنوان سے شایع ہوا۔ تیسرا مجموعہ بھی تیار ہے۔ تخلیقی سفر کے دوران اردو کے معروف افسانہ نگاروں کے ''انتخاب'' شایع کرنے کا خیال سُوجھا۔ نتیجہ دس کتابوں کی صورت سامنے آیا، جن میں منٹو، منشی پریم چند، واجدہ تبسم، عصمت چغتائی، امرتا پریتم، بیدی، حسن عسکری، قرۃ العین حیدر اور کرشن چندر کے بہترین افسانوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ صنف افسانہ نگاری میں دل چسپی نے ایک مقالے پر کام کرنے کی بھی تحریک دی، جو ''اردو افسانے کا سفر'' کے زیر عنوان شایع ہوا۔ کتاب کا ''فلیپ'' ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا۔ اِس میں 200 افسانہ نگاروں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کتاب کا آغاز 1900 سے، جب کہ اختتام 2012 پر ہوتا ہے۔
''اردو مثنوی کا ارتقا'' اُن کی اہم ترین کتاب ہے۔ اِس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ اُنھوں نے شاعر علی شاعر کے پرچے ''عالمی رنگ ادب'' کے تحت منعقد ہونے والے مضمون نگاری کے ایک مقابلے میں، مثنوی کے ارتقا کے موضوع پر مضمون لکھا، جس میں میر حسن سے فضا اعظمی تک مثنوی نگاروں کے فن کا احاطہ کیا گیا تھا۔ مضمون مقابلے میں پہلے انعام کا حق دار ٹھہرا۔ قارئین کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بھی اِسے بہت سراہا، اور اِسے کتابی شکل دینے کا تقاضا کیا۔ خیال اختر ہاشمی کے دل کو لگا۔ وہ اس کام میں جُٹ گئے۔ کتابی شکل میں شایع ہونے کے بعد اِسے بہت سراہا گیا۔ پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ پزیرائی دیکھتے ہوئے دوسرا ایڈیشن بھی جلد لانا پڑا۔
ادبی مضامین کا مجموعہ ''تخلیقی آنکھ'' کے عنوان سے شایع ہوا۔ ''فلیپ'' ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا۔ اِس کتاب میں 30 ادبی شخصیات کی فکر و فن کے مختلف پہلو اجاگر کیے گئے ہیں۔ ادبی مضامین پر مشتمل اُن کی ایک کتاب ''عصر رواں'' پریس میں جاچکی ہے، جس میں اُنھوں نے ستر شاعر اور ادیبوں کے فن کو موضوع بنایا ہے۔
مستقبل میں ادب کی ہر صنف کے تعلق سے ایسی تحقیقی کُتب تخلیق کرنے کا ارادہ ہے، جو سند تسلیم کی جائیں، اور آنے والے وقت میں ''ریفرنس بک'' کے طور پر استعمال ہوں۔ ''اردو مثنوی کا ارتقا'' اور ''اردو افسانے کا سفر'' سے اِس کام کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔
یوں تو زندگی میں کئی خوش گوار لمحات آئے، جنھوں نے یادوں پر گہرے نقوش چھوڑے، لیکن ایک معاملے کا تفصیلی ذکر ضروری ہے، جس نے مسرت کے انوکھے تجربے سے روبرو ہونے کا سامان کیا۔ اختر ہاشمی کے بہ قول اُنھیں حضرت امام حسینؓ کی 52 نظموں کا اردو میں منظوم ترجمہ کرنے کا اعزاز حاصل ہے، اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے۔ یہ ذمے داری معروف مفسر قرآن، پروفیسر ڈاکٹر محمد حسن نے اُنھیں سونپی تھی، جنھوں نے لندن کی ایک لائبریری سے حضرت امام حسینؓ کی نظمیں حاصل کیں۔ اِن نظموں کی ''اشعار امام حسینؓ'' کے عنوان سے کتابی شکل میں اشاعت جلد متوقع ہے۔ ''سخن ور'' کے مدیر اعلیٰ اور معروف شاعر و ادیب، نقوش نقی اشاعت کا انتظام کر رہے ہیں۔
کالم نگار کی حیثیت سے بھی مصروف ہیں۔ گذشتہ دو برس سے روزنامہ مساوات، روزنامہ اب تک، لاہور اور روزنامہ سسٹم، لاہور میں اُن کے ادبی کالم شایع ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ناول کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی۔ دور نوجوانی میں ایک ناول لکھا تھا، جو مصروفیات کے باعث ادھورا رہ گیا، جب فرصت میسر آئی، اُسے مکمل کیا۔ یہ ناول ''شمیکا'' کے عنوان سے ڈر ڈائجسٹ میں قسط وار شایع ہوا۔ اِس کی کتابی شکل میں اشاعت بھی جلد متوقع ہے۔ بچوں کا ادب بھی باقاعدگی سے تخلیق کر رہے ہیں۔ تخلیقات کا اخبارات و رسائل میں اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ بچوں کے ایک پرچے ''فکشن ڈائجسٹ'' میں اُن کا ناول ''نیا سویرا'' قسط وار شایع ہورہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ادب کے روبہ زوال ہونے کا تصور دُرست نہیں۔ اُنھیں اردو ادب اور زبان کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ ''پڑھنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اِس وقت جنوبی پنجاب میں خاصا تخلیقی کام ہورہا ہے۔'' پاکستان اور ہندوستان کی ادبی صورت حال کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندوستان میں تنقید کے میدان میں خاصا کام ہورہا ہے، البتہ تخلیق کے میدان میں پاکستان آگے ہے۔
منٹو اور واجدہ تبسم اُن کے پسندیدہ افسانہ نگار ہیں۔ عہد جدید میں ڈاکٹر سلیم اختر کو سراہتے ہیں۔ ناول نگاروں میں حمیدکاشمیری کا نام لیتے ہیں۔ ناولوں میں ''آگ کا دریا'' اچھا لگا۔ ڈاکٹر صاحب شلوار قمیص میں خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔ نہاری پسندیدہ ڈش ہے۔ مہدی حسن، رفیع، احمد رشدی اور لتا کے مداح ہیں۔ پاکستانی فلمیں ''امرائو جان ادا'' اور ''ہیررانجھا'' اچھی لگیں۔ اپنوں کی جدائی سے زندگی کی دُکھ بھری یادیں وابستہ ہیں۔
79ء میں اختر ہاشمی، جون پور کے ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والی کنیز فاطمہ سے شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ پہلی زوجہ کے انتقال کے بعد 2004 میں رخسانہ بانو سے دوسری شادی ہوئی، جن کا تعلق لکھنؤ کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔ خدا نے انھیں ایک بیٹی، تین بیٹوں سے نوازا۔
بیٹی نے جامعہ کراچی سے ایم ایس سی کیا، تینوں بیٹوں نے اعلیٰ درس گاہوں سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی۔ بیٹی کی شادی ہوچکی ہے۔ گوکہ پیشہ ورانہ سفر میں خاصے مصروف رہے، تاہم تخلیقی سرگرمیوں کے لیے وقت نکال ہی لیتے ہیں۔ بہ طور شاعر زندہ رہنے کے آرزو مند اختر ہاشمی اپنے چچازاد بھائی، اور معروف دانش وَر، پروفیسر ڈاکٹر شبیہہ الحسن مرحوم کو اپنا ''آئیڈیل'' اور اپنی نثری سرگرمیوں کا محرک قرار دیتے ہیں۔
ڈاکٹر اختر ہاشمی ایک ہمہ جہت انسان ہیں۔ شعری سفر کا باقاعدہ آغاز غزل کی صنف سے کیا، بعد میں حمد، نعت، منقبت، سلام اور مرثیے کی اصناف میں طبع آزمائی کی۔ افسانہ نگاری کے فن سے بھی بھرپور انصاف کیا۔ ادبی و تحقیقی مضامین تواتر سے لکھے، جو مؤقر اخبارات و رسائل میں شایع ہوئے۔ ناول اور بچوں کے ادب کا بھی تجربہ کیا۔
اِسی دوران پی ایچ ڈی کا مرحلہ طے کیا۔ ڈاکٹر صاحب کی مطبوعہ کتابوں کی تعداد 28 ہے، جن میں افسانوی و شعری مجموعوں، تنقیدی و تحقیقی کُتب کے علاوہ نعتوں اور افسانہ نگاروں کے ''انتخاب'' بھی شامل ہیں۔ یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور، پنجاب کے شعبۂ اردو کے تحت اُن کی شخصیت و فن کو ایم اے، بی ایڈ کے مقالے کا موضوع بنایا گیا۔ پی ایچ ڈی کی سطح پر بھی اُن کی خدمات پر کام ہورہا ہے۔ پیشہ ورانہ زندگی اسٹیٹ بینک آف پاکستان میں گزری۔ ادب دوستی نے دفتر کو لائبریری کی شکل دے دی۔ ادبی تنظیموں سے وابستگی پرانی ہے۔ ''عالمی بزم ادب، پاکستان'' کے وہ بانی صدر ہیں، جس کے تحت ادبی تقریبات اور مشاعروں کا باقاعدگی سے انعقاد ہوتا ہے۔ ''عالمی بزم نسیم ادب'' کے جنرل سیکریٹری ہیں۔ ایک فلاحی تنظیم ''انٹرنیشنل حسینی آرگنائزیشن'' کے جنرل سیکریٹری ہیں۔
تخلیق ادب، مشق سخن اور مضمون نگاری کا سلسلہ تو برسوں سے جاری ہے، تاہم تخلیقات کی کتابی صورت میں اشاعت کے معاملے نے گذشتہ چند برسوں میں زور پکڑا۔ تاخیر کا سبب وہ پیشہ ورانہ مصروفیات اور وسائل کی کمی بتاتے ہیں۔ ایک پرائیویٹ چینل سے کچھ عرصہ بہ طور میزبان ادبی پروگرام کی میزبانی بھی کرتے رہے۔ خواہش مند ہیں کہ تمام ٹی وی چینلز سے ادبی پروگرام پیش کیے جائیں کہ ادب اور ادیب ہی معاشرے کی صورت گری کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔
پورا نام سید منقاد حیدر ہاشمی ہے۔ چار بھائی، دو بہنوں میں اُن کا نمبر تیسرا ہے۔ اجداد کا تعلق الہ آباد اور جون پور، ہندوستان سے ہے۔ تقسیم کے سمے خاندان نے ہجرت کی۔ ابتداً کراچی میں قیام کیا، آب و ہوا راس نہیں آئی، تو لاہور کا رخ کیا، وہیں 20 اگست 1954 کو اُنھوں نے آنکھ کھولی۔ اُن کے دادا، سید شبیر حسن صفا الہ آبادی بہ طور شاعر معروف تھے۔ شعبۂ تعلیم سے متعلق اُن کے والد، سید محبوب الحسن ہاشمی ایک ہمہ جہت انسان تھے۔ ''عابد مجید سی بی ہائی اسکول، لاہور'' کے وہ ہیڈ ماسٹر رہے۔ عالم دین کی حیثیت سے شناخت رکھتے تھے۔ شعری و ادبی ذوق بُلند تھا۔ غزلیں بھی کہیں، نثرنگاری کا بھی تجربہ کیا۔ وہ حبیب جون پوری تخلص کیا کرتے تھے۔ ''کلیات حبیب جون پوری'' کے عنوان سے اُن کا کلام منظر عام پر آیا۔ اختر ہاشمی کی تحریر کردہ سات سو صفحات پر مشتمل کتاب ''حبیب جون پوری: فن و شخصیت'' کی اشاعت جلد متوقع ہے۔
یادیں کھنگالتے ہوئے اختر ہاشمی کہتے ہیں، گھر کے ماحول میں علم و ادب رچابسا تھا، گفت گو میں اشعار بہ کثرت برتے جاتے۔ ذوق مطالعہ نے ابتداً بچوں کے رسائل کی جانب متوجہ کیا۔ شعور کی دہلیز عبور کرنے کے بعد میر انیس اور مرزا دبیر جیسے قادرالکلام شعرا سے واسطہ پڑا۔ نثر میں یوں تو کئی لکھاریوں کو پڑھا، تاہم نام وَر مرثیہ گو شاعر اور ادیب، سید وحید الحسن ہاشمی نے زیادہ متاثر کیا، جو رشتے میں اُن کے چچا تھے۔
یوں تو تمام کھیل کھیلے، لیکن والی بال دل چسپی کا محور رہا۔ اسکول کی نمائندگی کی، بعد میں اسٹیٹ بینک کی ٹیم کا حصہ رہے۔ شمار شرارتی بچوں میں ہوتا تھا، لیکن شرارتوں کے دوران تہذیبی حدود کا خیال رکھا جاتا۔ اوسط درجے کے طلبا میں اُن کی گنتی ہوتی۔ ''عابد مجید سی بی ہائی اسکول، لاہور'' سے 69ء میں آرٹس سے میٹرک کیا۔ بعد میں ملازمت کی تلاش کراچی لے آئی۔ ابتداً خالہ کے ہاں قیام کیا۔ کچھ عرصے بعد والدہ بھی کراچی آگئیں۔ کرایے پر مکان لے لیا۔ دھیرے دھیرے دیگر بھائی بھی شہر قائد چلے آئے۔ روزگار کی کُھوج 73ء میں تمام ہوئی، اور وہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان سے بہ طور اسسٹنٹ، 263 روپے ماہ وار پر منسلک ہوگئے۔ ریٹائرمینٹ کے بعد اُن کے والد بھی یہیں آگئے۔
یافت کا مستقل ذریعہ میسر آیا، تو دوبارہ تعلیم کی جانب متوجہ ہوئے۔ 84ء میں گریجویشن کرنے کے بعد 87ء میں اکنامکس کے مضمون میں ماسٹرز کی سند حاصل کی۔ پیشہ ورانہ سفر میں بھی ترقی کا عمل جاری رہا۔ اُسی عرصے میں بینک کی جانب سے ملازمین کے لیے پی ایچ ڈی کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اِس ضمن میں جن افراد کا چنائو ہوا، اُن میں اختر ہاشمی بھی شامل تھے۔ 2003 میں اُن کے تحقیقی سفر کا آغاز ہوا۔ ڈاکٹر حسنین بخاری کی سرپرستی میں، چار برس میں پی ایچ ڈی کا مرحلہ طے کیا۔ ''جدید پاکستانی معاشرے میں معیشت کا کردار'' اُن کا موضوع تھا۔ اِس جائزے میں روایتی ڈگر سے ہٹ کر معاشرے کی تشکیل میں معیشت کی حیثیت کا تعین کیا۔
ساتھ ہی ''مائیکرو فنانس'' کی اہمیت اجاگر کی۔ اِس بابت کہتے ہیں،''بدقسمتی سے ہماری معیشت چند افراد کے ہاتھوں میں ہے، اِسی لیے عوام تک اِس کا فائدہ نہیں پہنچتا۔ اگر ہمیں معاشی طور پر مستحکم ہونا ہے، تو نچلی سطح پر استحکام لانا ہوگا، اور اِس کے لیے چھوٹے قرضے بہترین ذریعہ ہیں۔'' اُن کے مطابق ماضی کے برعکس اب پاکستان میں ''مائیکرفنانس'' کا تصور کافی ترقی کر گیا ہے، تاہم اِس ضمن میں مزید اقدامات کی ضرورت ہے۔ موجودہ انتشار اور مخدوش حالات کے باوجود اُنھیں پاکستان کا معاشی مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ اِس ضمن میں اُن وسائل کا ذکر کرتے ہیں، جنھیں تاحال استعمال نہیں کیا گیا، اور یقین رکھتے ہیں کہ آنے والا وقت ملک میں ترقی اور خوش حالی لائے گا۔
بیتے دن بازیافت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ادب دوستی اُن کے خون میں شامل ہے۔ ''لکھنا پڑھنا تو ہمارا خاندانی کام ہے۔ چاہے بینک میں ملازمت کریں، یا وزیر اعظم بن جائیں، ادب سے تعلق قائم رہے گا۔ یہ ہمارا ورثہ ہے، اور ہم نے اِس کی حفاظت کی۔'' ابتدا میں رجحان شاعری کی جانب تھا، نثر کی جانب بعد میں متوجہ ہوئے۔ ہم نصابی سرگرمیوں، خصوصاً بیت بازی کے مقابلوں سے فی البدیہہ شعر کہنے کی مشق ہوئی۔ لاہور ہی کے زمانے میں باقاعدہ شعر کہنے لگے تھے۔
اختر تخلص کیا، بعد میں ادبی دنیا میں اختر ہاشمی کے نام سے معروف ہوئے۔ کراچی آنے کے بعد مشق سخن جاری رہی۔ چچا، سید وحید الحسن ہاشمی کے توسط سے یہاں کے ادیبوں، شاعروں سے رابطہ ہوا۔ ادبی حلقوں میں بھی اٹھنے بیٹھنے لگے۔ البتہ مشاعروں سے دُور رہے، جس کا سبب والد صاحب کی ناراضی تھی، جن کی نظر میں یہ قطعی مناسب نہیں تھا کہ ایک عالم دین کا بیٹا غزلیں کہے، مشاعرے پڑھے۔ خیر، بعد میں اجازت مل گئی۔ آنے والے برسوں میں اختر ہاشمی نے تواتر سے مشاعرے پڑھے۔ غزلیں مختلف اخبارات و رسائل میں شایع ہوتی رہیں۔ فنّی گرفت کے وسیلے جلد ہی ادبی حلقوں میں شناخت بنا لی۔ غیرملکی دورے بھی کیے، تاہم قارئین آج بھی اُن کے مجموعے کے منتظر ہیں!
ڈاکٹر صاحب کے مطابق اُن کا شعری مجموعہ ''خاموش آئینوں کی طرح'' برسوں قبل تیار ہوگیا تھا، لیکن والد کے حکم پر اشاعت کا ارادہ مؤخر کر دیا، اور اُن کی ہدایت پر اظہار کا رخ حمد، نعت، سلام اور منقبت کی جانب موڑ دیا۔ اِس ضمن میں خاصی محنت کی کہ اُن کے بہ قول یہ اصناف مشق اور گرفت کا تقاضا کرتی ہیں۔ اِس پورے عرصے میں مذہبی تقریبات میں سلام اور منقبت پیش کرتے رہے۔ 99ء میں اُن کا مجموعہ ''حروف مدحت'' منظرعام پر آیا، جس میں مذکورہ اصناف کا احاطہ کیا گیا تھا۔ ''غیبت کبریٰ'' اُن کی دوسری کتاب تھی، جس میں حمد، نعت اور سلام کے علاوہ ایک مرثیہ بھی شامل تھا۔ یہ مرثیہ نگاری کا پہلا تجربہ تھا۔ بعد میں تین مرثیے مزید کہے، جو پڑھے تو گئے، لیکن ابھی شایع نہیں ہوئے۔ اُنھوں نے نعتوں کا انتخاب بھی کیا۔ ایک کتاب ''مقبول نعتیں'' کے نام سے شایع ہوئی۔ دوسرا انتخاب ''شاہ مدینہ'' کے عنوان سے منظر عام پر آیا۔
افسانہ نگاری کا سلسلہ بھی پرانا ہے، تاہم افسانوں کی اشاعت کی جانب زیادہ توجہ نہیں دے سکے۔ جب وقت میسر آیا، سنجیدگی سے اِس جانب متوجہ ہوئے۔ ''افسانے زندگی کے'' پہلا مجموعہ تھا۔ اگلا مجموعہ ''آئینے کے زخم'' کے عنوان سے شایع ہوا۔ تیسرا مجموعہ بھی تیار ہے۔ تخلیقی سفر کے دوران اردو کے معروف افسانہ نگاروں کے ''انتخاب'' شایع کرنے کا خیال سُوجھا۔ نتیجہ دس کتابوں کی صورت سامنے آیا، جن میں منٹو، منشی پریم چند، واجدہ تبسم، عصمت چغتائی، امرتا پریتم، بیدی، حسن عسکری، قرۃ العین حیدر اور کرشن چندر کے بہترین افسانوں کا انتخاب کیا گیا تھا۔ صنف افسانہ نگاری میں دل چسپی نے ایک مقالے پر کام کرنے کی بھی تحریک دی، جو ''اردو افسانے کا سفر'' کے زیر عنوان شایع ہوا۔ کتاب کا ''فلیپ'' ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا۔ اِس میں 200 افسانہ نگاروں کا احاطہ کیا گیا ہے۔ کتاب کا آغاز 1900 سے، جب کہ اختتام 2012 پر ہوتا ہے۔
''اردو مثنوی کا ارتقا'' اُن کی اہم ترین کتاب ہے۔ اِس کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ اُنھوں نے شاعر علی شاعر کے پرچے ''عالمی رنگ ادب'' کے تحت منعقد ہونے والے مضمون نگاری کے ایک مقابلے میں، مثنوی کے ارتقا کے موضوع پر مضمون لکھا، جس میں میر حسن سے فضا اعظمی تک مثنوی نگاروں کے فن کا احاطہ کیا گیا تھا۔ مضمون مقابلے میں پہلے انعام کا حق دار ٹھہرا۔ قارئین کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بھی اِسے بہت سراہا، اور اِسے کتابی شکل دینے کا تقاضا کیا۔ خیال اختر ہاشمی کے دل کو لگا۔ وہ اس کام میں جُٹ گئے۔ کتابی شکل میں شایع ہونے کے بعد اِسے بہت سراہا گیا۔ پہلا ایڈیشن ہاتھوں ہاتھ لیا گیا۔ پزیرائی دیکھتے ہوئے دوسرا ایڈیشن بھی جلد لانا پڑا۔
ادبی مضامین کا مجموعہ ''تخلیقی آنکھ'' کے عنوان سے شایع ہوا۔ ''فلیپ'' ڈاکٹر سلیم اختر نے لکھا۔ اِس کتاب میں 30 ادبی شخصیات کی فکر و فن کے مختلف پہلو اجاگر کیے گئے ہیں۔ ادبی مضامین پر مشتمل اُن کی ایک کتاب ''عصر رواں'' پریس میں جاچکی ہے، جس میں اُنھوں نے ستر شاعر اور ادیبوں کے فن کو موضوع بنایا ہے۔
مستقبل میں ادب کی ہر صنف کے تعلق سے ایسی تحقیقی کُتب تخلیق کرنے کا ارادہ ہے، جو سند تسلیم کی جائیں، اور آنے والے وقت میں ''ریفرنس بک'' کے طور پر استعمال ہوں۔ ''اردو مثنوی کا ارتقا'' اور ''اردو افسانے کا سفر'' سے اِس کام کا باقاعدہ آغاز کر دیا ہے۔
یوں تو زندگی میں کئی خوش گوار لمحات آئے، جنھوں نے یادوں پر گہرے نقوش چھوڑے، لیکن ایک معاملے کا تفصیلی ذکر ضروری ہے، جس نے مسرت کے انوکھے تجربے سے روبرو ہونے کا سامان کیا۔ اختر ہاشمی کے بہ قول اُنھیں حضرت امام حسینؓ کی 52 نظموں کا اردو میں منظوم ترجمہ کرنے کا اعزاز حاصل ہے، اور یہ اپنی نوعیت کا پہلا کام ہے۔ یہ ذمے داری معروف مفسر قرآن، پروفیسر ڈاکٹر محمد حسن نے اُنھیں سونپی تھی، جنھوں نے لندن کی ایک لائبریری سے حضرت امام حسینؓ کی نظمیں حاصل کیں۔ اِن نظموں کی ''اشعار امام حسینؓ'' کے عنوان سے کتابی شکل میں اشاعت جلد متوقع ہے۔ ''سخن ور'' کے مدیر اعلیٰ اور معروف شاعر و ادیب، نقوش نقی اشاعت کا انتظام کر رہے ہیں۔
کالم نگار کی حیثیت سے بھی مصروف ہیں۔ گذشتہ دو برس سے روزنامہ مساوات، روزنامہ اب تک، لاہور اور روزنامہ سسٹم، لاہور میں اُن کے ادبی کالم شایع ہورہے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے ناول کے میدان میں بھی طبع آزمائی کی۔ دور نوجوانی میں ایک ناول لکھا تھا، جو مصروفیات کے باعث ادھورا رہ گیا، جب فرصت میسر آئی، اُسے مکمل کیا۔ یہ ناول ''شمیکا'' کے عنوان سے ڈر ڈائجسٹ میں قسط وار شایع ہوا۔ اِس کی کتابی شکل میں اشاعت بھی جلد متوقع ہے۔ بچوں کا ادب بھی باقاعدگی سے تخلیق کر رہے ہیں۔ تخلیقات کا اخبارات و رسائل میں اشاعت کا سلسلہ جاری ہے۔ بچوں کے ایک پرچے ''فکشن ڈائجسٹ'' میں اُن کا ناول ''نیا سویرا'' قسط وار شایع ہورہا ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے نزدیک ادب کے روبہ زوال ہونے کا تصور دُرست نہیں۔ اُنھیں اردو ادب اور زبان کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ ''پڑھنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔ اِس وقت جنوبی پنجاب میں خاصا تخلیقی کام ہورہا ہے۔'' پاکستان اور ہندوستان کی ادبی صورت حال کا موازنہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہندوستان میں تنقید کے میدان میں خاصا کام ہورہا ہے، البتہ تخلیق کے میدان میں پاکستان آگے ہے۔
منٹو اور واجدہ تبسم اُن کے پسندیدہ افسانہ نگار ہیں۔ عہد جدید میں ڈاکٹر سلیم اختر کو سراہتے ہیں۔ ناول نگاروں میں حمیدکاشمیری کا نام لیتے ہیں۔ ناولوں میں ''آگ کا دریا'' اچھا لگا۔ ڈاکٹر صاحب شلوار قمیص میں خود کو آرام دہ پاتے ہیں۔ معتدل موسم بھاتا ہے۔ نہاری پسندیدہ ڈش ہے۔ مہدی حسن، رفیع، احمد رشدی اور لتا کے مداح ہیں۔ پاکستانی فلمیں ''امرائو جان ادا'' اور ''ہیررانجھا'' اچھی لگیں۔ اپنوں کی جدائی سے زندگی کی دُکھ بھری یادیں وابستہ ہیں۔
79ء میں اختر ہاشمی، جون پور کے ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھنے والی کنیز فاطمہ سے شادی کے بندھن میں بندھ گئے۔ پہلی زوجہ کے انتقال کے بعد 2004 میں رخسانہ بانو سے دوسری شادی ہوئی، جن کا تعلق لکھنؤ کے ایک علمی و ادبی گھرانے سے ہے۔ خدا نے انھیں ایک بیٹی، تین بیٹوں سے نوازا۔
بیٹی نے جامعہ کراچی سے ایم ایس سی کیا، تینوں بیٹوں نے اعلیٰ درس گاہوں سے بزنس ایڈمنسٹریشن کی ڈگری حاصل کی۔ بیٹی کی شادی ہوچکی ہے۔ گوکہ پیشہ ورانہ سفر میں خاصے مصروف رہے، تاہم تخلیقی سرگرمیوں کے لیے وقت نکال ہی لیتے ہیں۔ بہ طور شاعر زندہ رہنے کے آرزو مند اختر ہاشمی اپنے چچازاد بھائی، اور معروف دانش وَر، پروفیسر ڈاکٹر شبیہہ الحسن مرحوم کو اپنا ''آئیڈیل'' اور اپنی نثری سرگرمیوں کا محرک قرار دیتے ہیں۔