بلوچستان میں حالات بہتر نہیں
پہلی دفعہ کئی بلوچ نوجوان جن کے نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھے اپنے گھروں کو پہنچ سکے تھے۔
بلوچستان کی صورتحال اب تک غیرمعمولی ہے۔ گزشتہ ہفتے دہشت گردوں نے گوادرکے فائیو اسٹار ہوٹل کو نشانہ بنایا۔ ہوٹل کے حفاظتی عملے اور سیکیورٹی فورسزکی فوری کارروائی سے دہشت گردوں کے عزائم خاک میں مل گئے، مگر اس حملے میں پانچ کے قریب قیمتی جانیں راہ حق میں شہیدہوگئیں پھرکوئٹہ میں پولیس موبائل پرحملہ ہوا کئی اہلکار شہید ہو گئے۔
گزشتہ مہینے دہشت گردوں نے ساحلی شہر اورماڑہ میں بے گناہوں کو نشانہ بنایا تھا۔ اسی طرح گزشتہ مہینے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے دس سے زائد افراد خودکش حملوں میں جاں بحق ہوئے تھے۔ اورماڑہ پر حملے کا الزام پڑوسی ملک سے آنے والے دہشت گردوں پر لگایا گیا تھا۔ یہ حملہ وزیر اعظم عمران خان کے ایران کے دورے سے قبل ہوا تھا۔
وفاق میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں تقریرکرتے ہوئے کہا تھا کہ اورماڑہ ایران سے کئی سو میل دور ہے۔ اس حملے کے بعد اورماڑہ میں خاصی گرفتاریاں ہوئی تھیں۔ اختر مینگل کی جماعت نے چھ نکات پر عملدرآمد کی یقین دہانی کی بناء پر وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی حمایت کی تھی۔ ان نکات میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے علاوہ سی پیک منصوبے میں بلوچوں کی نمائندگی جیسے اہم معاملات شامل تھے۔
اختر مینگل وفاقی حکومت کی 9 ماہ کی کارکردگی سے مایوس نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی تقاریرمیں اس بات پر بار بار زور دیتے ہیں کہ وفاقی حکومت ان کی جماعت سے کیے گئے معاہدوں پر عملدرآمد میں سنجیدہ نہیں ہے مگر شاید اختر مینگل مکمل طور پر مایوس نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ جب قبائلی علاقے کے منتخب رکن محسن ڈاور نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قانون کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیا اور اس پر ووٹنگ ہوئی تو اختر مینگل کے ساتھیوں نے اس بل کی حمایت کے حق میںووٹ نہیں دیئے۔
گزشتہ دس سال میں برسر اقتدار حکومتوں نے بلوچستان میں مختلف نوعیت کے اقدامات کا اعلان کیا ہے اور ان اقدامات کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت برسراقتدار آئی تو یوسف رضا گیلانی نے وزارت عظمی کا منصب سنبھالا تھا ۔ قومی اسمبلی نے بلوچستان کے عوام سے ماضی میں ہونے والی زیادتیوں کے اعتراف میں معذرت کے لیے ایک قرارداد متفقہ طور پرمنظورکی تھی اور '' حقوق بلوچستان'' کے نام سے ایک پروگرام شروع ہوا تھا۔
پہلی دفعہ کئی بلوچ نوجوان جن کے نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھے اپنے گھروں کو پہنچ سکے تھے۔ ان میں بگٹی و مری قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد بھی تھے۔ اس پروگرام کے تحت کچھ بلوچ نوجوانوں کو ملازمتیں بھی ملیں۔ پھر دوسرے صوبوں سے برسوں سے آکر آباد ہونے والے افراد کے قتل کی لہرکہیں سے آگئی۔
اس لہر کی زد میں صحافی، اساتذہ، وکلاء، خواتین اور سرکاری ملازمین و پولیس افسران حتیٰ کہ حجام تک قتل ہوئے اور بہت سے باصلاحیت اساتذہ ، ڈاکٹر اور ٹیکنوکریٹس وغیرہ کو بلوچستان سے ہجرت کرنی پڑی ۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے اغواء کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہزارہ برادری مسلسل خودکش حملوں کی زد میں رہی۔ ایران جانے والے زائرین نامعلوم افراد کے حملوں میں قتل ہوئے۔ 2013ء میں نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ کی مشترکہ حکومت قائم ہوئی۔
پہلی دفعہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ صوبہ میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی۔ اغواء برائے تاوان کے واقعات انتہائی کم ہوئے۔ ڈاکٹر مالک نے جلاوطن بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا اور وہ برطانیہ، فرانس اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ کے دوروں پر گئے اور جلاوطن رہنماؤں سے مذاکرات کیے۔ اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ خان آف قلات نے اپنی جلاوطنی ختم کر کے وطن واپسی کے لیے آمادگی کا اظہار کیا ہے، مگر ڈاکٹر مالک لاپتہ افراد کا مسئلہ مکمل طور پر حل کرانے میں ناکام رہے۔
ڈاکٹر مالک کی حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں زبردست کام کیا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، پھر ثناء اﷲ زہری وزیر اعلیٰ بنے۔ ان کے دور میں انتظامی کمزوریاں سامنے آئیں۔ پھر اچانک ''محکمہ زراعت ''والے متعارف ہوئے اور مسلم لیگ کے اراکین نے اپنے وزیر اعلیٰ کے خلاف بغاوت کردی اور قدوس بزنجو وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی مدد سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔مگر نئی حکومت نے نہ تو جلاوطن رہنماؤں کی وطن واپسی کے لیے کوئی حکمت عملی اختیار کی نہ ہی لاپتہ افراد کی بازیابی کے مسئلے پر کوئی پیش رفت ہوئی۔
2018ء کے انتخابات میں ایک نئی جماعت کے سربراہ بلوچستان کے دو سابق وزرائے اعلیٰ جام غلام قادر کے پوتے اور جام یوسف کے صاحبزادے جام کمال خان وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اس حکومت میں امن و امان کی کارکردگی پر مختلف نوعیت کے تبصرے ہوتے ہیں جو ذرائع ابلاغ کی زینت بنتے ہیں مگر بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ ایک غیر ملکی ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہزارہ برادری کے افراد خوف کے مارے اپنے گھروں میںقید رہتے ہیں اور جو روزگار کے لیے باہر نکلتے ہیں ان میں سے کئی مارے جاتے ہیں ۔
بلوچستان کا بنیادی مسئلہ وہاں کے عوام کا احساس محرومی دورکرنا اور انھیں ترقی کی دوڑ میں شامل کرنا ہے۔ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں سی پیک سمیت جتنے بھی منصوبے گزشتہ 70 برس میں شروع کیے گئے ان میں بلوچوں کو انتہائی کم حصہ ملا۔ بلوچ دانشور بار بار کہتے ہیں کہ بلوچستان کی سرحد پر بحیرہ عرب کب سے بہہ رہا ہے تاریخ دان ان کا پتہ نہیں چلاسکے۔ اس علاقے کے بلوچ اس سمندر میں اٹھنے والے معمولی سی معمولی لہر کی وجہ اور اس کے اثرات کے بارے میں جانتے ہیں۔
یہ بلوچ ماہی گیر ہمیشہ سے اس علاقے سے گزرکرعدن ، حجاز ، افریقہ کی بندرگاہوں کی طرف جانے والے جہازوں کی رہنمائی کرتے رہے ہیں مگر انگریزوں کے دور سے اب تک سمندری علاقوں کے تحفظ کے لیے قائم ہونے والے اداروں میں بلوچوں کو ملازمتیں نہیں ملیں۔ یہی حال 1950ء میں ڈیرہ بگٹی کے قریب سوئی کے علاقے سے نکلنے والے سوئی گیس کا ہے۔
اس گیس کو ایک طرف کراچی دوسری طرف پشاور پہنچے ہوئے برسوں گزر گئے مگر آج تک مکران ڈویژن سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقے اس گیس کی نعمت سے محروم ہیں۔ نیشنل پارٹی پنجاب کے صدرایوب ملک کا کہنا ہے بلوچستان کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے وہاں کے عوام کے احساسِ محرومی کو دور کرنے کے لیے سیاسی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں ۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ چین کی مدد سے ملک میں صنعتی ڈھانچہ قائم کیا جا سکتا ہے اگر چین گوادر میں بوٹ انڈسٹری قائم کرے تو بلوچ ماہی گیروں کا بہت فائدہ ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں جس طرح بعض لاپتہ افراد کی بازیابی ہوئی ہے،اس طرح بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے کارکنوں کی بھی بازیابی ہونی چاہیے۔ بلوچستان میں شورش کی وجوہات میں ایک وجہ غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت قرار دی جاتی ہے۔ بلوچستان کے بعض نوجوان ان طاقتوں کا آلہ کار بن کر بندوق کے راستے کو درست راستہ سمجھتے ہیں جس پر ریاستی قوتوں کو ملکی بقا کے لیے حرکت میں آنا پڑتا ہے۔
سابقہ حکومت نے چین کی مدد سے سی پیک کا منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبے کی کامیابی سے بلوچستان میں بنیادی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ایسے راستے اختیار کیے جائیں کہ بلوچ عوام میں یہ خوف ختم ہوجائے کہ انھیں اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ اگرچہ انتظامی اقدامات کے نتیجے میں بلوچستان میں حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں مگر پھر بھی بہت بہتر نہیں ۔ یہی وقت ہے کہ سیاسی اقدامات کی اہمیت پر غورکرنا چاہیے تاکہ بلوچستان بھی ترقی کی دوڑ میں دیگر صوبوں کے شانہ بشانہ چل سکے۔
گزشتہ مہینے دہشت گردوں نے ساحلی شہر اورماڑہ میں بے گناہوں کو نشانہ بنایا تھا۔ اسی طرح گزشتہ مہینے کوئٹہ میں ہزارہ برادری کے دس سے زائد افراد خودکش حملوں میں جاں بحق ہوئے تھے۔ اورماڑہ پر حملے کا الزام پڑوسی ملک سے آنے والے دہشت گردوں پر لگایا گیا تھا۔ یہ حملہ وزیر اعظم عمران خان کے ایران کے دورے سے قبل ہوا تھا۔
وفاق میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے قومی اسمبلی میں تقریرکرتے ہوئے کہا تھا کہ اورماڑہ ایران سے کئی سو میل دور ہے۔ اس حملے کے بعد اورماڑہ میں خاصی گرفتاریاں ہوئی تھیں۔ اختر مینگل کی جماعت نے چھ نکات پر عملدرآمد کی یقین دہانی کی بناء پر وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کی حمایت کی تھی۔ ان نکات میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے علاوہ سی پیک منصوبے میں بلوچوں کی نمائندگی جیسے اہم معاملات شامل تھے۔
اختر مینگل وفاقی حکومت کی 9 ماہ کی کارکردگی سے مایوس نظر آتے ہیں۔ وہ اپنی تقاریرمیں اس بات پر بار بار زور دیتے ہیں کہ وفاقی حکومت ان کی جماعت سے کیے گئے معاہدوں پر عملدرآمد میں سنجیدہ نہیں ہے مگر شاید اختر مینگل مکمل طور پر مایوس نہیں ہیں یہی وجہ ہے کہ جب قبائلی علاقے کے منتخب رکن محسن ڈاور نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قانون کا مسودہ قومی اسمبلی میں پیش کیا اور اس پر ووٹنگ ہوئی تو اختر مینگل کے ساتھیوں نے اس بل کی حمایت کے حق میںووٹ نہیں دیئے۔
گزشتہ دس سال میں برسر اقتدار حکومتوں نے بلوچستان میں مختلف نوعیت کے اقدامات کا اعلان کیا ہے اور ان اقدامات کے خاطر خواہ نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔جب 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت برسراقتدار آئی تو یوسف رضا گیلانی نے وزارت عظمی کا منصب سنبھالا تھا ۔ قومی اسمبلی نے بلوچستان کے عوام سے ماضی میں ہونے والی زیادتیوں کے اعتراف میں معذرت کے لیے ایک قرارداد متفقہ طور پرمنظورکی تھی اور '' حقوق بلوچستان'' کے نام سے ایک پروگرام شروع ہوا تھا۔
پہلی دفعہ کئی بلوچ نوجوان جن کے نام لاپتہ افراد کی فہرست میں شامل تھے اپنے گھروں کو پہنچ سکے تھے۔ ان میں بگٹی و مری قبائل سے تعلق رکھنے والے افراد بھی تھے۔ اس پروگرام کے تحت کچھ بلوچ نوجوانوں کو ملازمتیں بھی ملیں۔ پھر دوسرے صوبوں سے برسوں سے آکر آباد ہونے والے افراد کے قتل کی لہرکہیں سے آگئی۔
اس لہر کی زد میں صحافی، اساتذہ، وکلاء، خواتین اور سرکاری ملازمین و پولیس افسران حتیٰ کہ حجام تک قتل ہوئے اور بہت سے باصلاحیت اساتذہ ، ڈاکٹر اور ٹیکنوکریٹس وغیرہ کو بلوچستان سے ہجرت کرنی پڑی ۔ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے اغواء کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہزارہ برادری مسلسل خودکش حملوں کی زد میں رہی۔ ایران جانے والے زائرین نامعلوم افراد کے حملوں میں قتل ہوئے۔ 2013ء میں نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ کی مشترکہ حکومت قائم ہوئی۔
پہلی دفعہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر مالک بلوچ کو وزیر اعلیٰ بنایا گیا۔ صوبہ میں امن و امان کی صورتحال بہتر ہوئی۔ اغواء برائے تاوان کے واقعات انتہائی کم ہوئے۔ ڈاکٹر مالک نے جلاوطن بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا اور وہ برطانیہ، فرانس اور سوئٹزرلینڈ وغیرہ کے دوروں پر گئے اور جلاوطن رہنماؤں سے مذاکرات کیے۔ اخبارات میں یہ خبریں شائع ہوئیں کہ خان آف قلات نے اپنی جلاوطنی ختم کر کے وطن واپسی کے لیے آمادگی کا اظہار کیا ہے، مگر ڈاکٹر مالک لاپتہ افراد کا مسئلہ مکمل طور پر حل کرانے میں ناکام رہے۔
ڈاکٹر مالک کی حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں زبردست کام کیا جس کی ماضی میں مثال نہیں ملتی، پھر ثناء اﷲ زہری وزیر اعلیٰ بنے۔ ان کے دور میں انتظامی کمزوریاں سامنے آئیں۔ پھر اچانک ''محکمہ زراعت ''والے متعارف ہوئے اور مسلم لیگ کے اراکین نے اپنے وزیر اعلیٰ کے خلاف بغاوت کردی اور قدوس بزنجو وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے۔ اس طرح پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی مدد سے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر سینیٹ کے چیئرمین منتخب ہوئے۔مگر نئی حکومت نے نہ تو جلاوطن رہنماؤں کی وطن واپسی کے لیے کوئی حکمت عملی اختیار کی نہ ہی لاپتہ افراد کی بازیابی کے مسئلے پر کوئی پیش رفت ہوئی۔
2018ء کے انتخابات میں ایک نئی جماعت کے سربراہ بلوچستان کے دو سابق وزرائے اعلیٰ جام غلام قادر کے پوتے اور جام یوسف کے صاحبزادے جام کمال خان وزیر اعلیٰ بن گئے۔ اس حکومت میں امن و امان کی کارکردگی پر مختلف نوعیت کے تبصرے ہوتے ہیں جو ذرائع ابلاغ کی زینت بنتے ہیں مگر بلوچستان میں امن و امان کی صورتحال اتنی خراب ہے کہ ایک غیر ملکی ایجنسی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ہزارہ برادری کے افراد خوف کے مارے اپنے گھروں میںقید رہتے ہیں اور جو روزگار کے لیے باہر نکلتے ہیں ان میں سے کئی مارے جاتے ہیں ۔
بلوچستان کا بنیادی مسئلہ وہاں کے عوام کا احساس محرومی دورکرنا اور انھیں ترقی کی دوڑ میں شامل کرنا ہے۔ تحریک انصاف کی اتحادی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں سی پیک سمیت جتنے بھی منصوبے گزشتہ 70 برس میں شروع کیے گئے ان میں بلوچوں کو انتہائی کم حصہ ملا۔ بلوچ دانشور بار بار کہتے ہیں کہ بلوچستان کی سرحد پر بحیرہ عرب کب سے بہہ رہا ہے تاریخ دان ان کا پتہ نہیں چلاسکے۔ اس علاقے کے بلوچ اس سمندر میں اٹھنے والے معمولی سی معمولی لہر کی وجہ اور اس کے اثرات کے بارے میں جانتے ہیں۔
یہ بلوچ ماہی گیر ہمیشہ سے اس علاقے سے گزرکرعدن ، حجاز ، افریقہ کی بندرگاہوں کی طرف جانے والے جہازوں کی رہنمائی کرتے رہے ہیں مگر انگریزوں کے دور سے اب تک سمندری علاقوں کے تحفظ کے لیے قائم ہونے والے اداروں میں بلوچوں کو ملازمتیں نہیں ملیں۔ یہی حال 1950ء میں ڈیرہ بگٹی کے قریب سوئی کے علاقے سے نکلنے والے سوئی گیس کا ہے۔
اس گیس کو ایک طرف کراچی دوسری طرف پشاور پہنچے ہوئے برسوں گزر گئے مگر آج تک مکران ڈویژن سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقے اس گیس کی نعمت سے محروم ہیں۔ نیشنل پارٹی پنجاب کے صدرایوب ملک کا کہنا ہے بلوچستان کے حالات کو بہتر بنانے کے لیے وہاں کے عوام کے احساسِ محرومی کو دور کرنے کے لیے سیاسی اقدامات وقت کی ضرورت ہیں ۔ ان کا مزید کہنا ہے کہ چین کی مدد سے ملک میں صنعتی ڈھانچہ قائم کیا جا سکتا ہے اگر چین گوادر میں بوٹ انڈسٹری قائم کرے تو بلوچ ماہی گیروں کا بہت فائدہ ہوگا۔
ان کا کہنا ہے کہ کراچی میں جس طرح بعض لاپتہ افراد کی بازیابی ہوئی ہے،اس طرح بلوچستان سے لاپتہ ہونے والے کارکنوں کی بھی بازیابی ہونی چاہیے۔ بلوچستان میں شورش کی وجوہات میں ایک وجہ غیر ملکی طاقتوں کی مداخلت قرار دی جاتی ہے۔ بلوچستان کے بعض نوجوان ان طاقتوں کا آلہ کار بن کر بندوق کے راستے کو درست راستہ سمجھتے ہیں جس پر ریاستی قوتوں کو ملکی بقا کے لیے حرکت میں آنا پڑتا ہے۔
سابقہ حکومت نے چین کی مدد سے سی پیک کا منصوبہ شروع کیا۔ اس منصوبے کی کامیابی سے بلوچستان میں بنیادی تبدیلیاں آسکتی ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچوں کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے ایسے راستے اختیار کیے جائیں کہ بلوچ عوام میں یہ خوف ختم ہوجائے کہ انھیں اقلیت میں تبدیل کیا جارہا ہے۔ اگرچہ انتظامی اقدامات کے نتیجے میں بلوچستان میں حالات کچھ بہتر ہوئے ہیں مگر پھر بھی بہت بہتر نہیں ۔ یہی وقت ہے کہ سیاسی اقدامات کی اہمیت پر غورکرنا چاہیے تاکہ بلوچستان بھی ترقی کی دوڑ میں دیگر صوبوں کے شانہ بشانہ چل سکے۔