آئی ایم ایف سہارا یا سزا
موجودہ حکومت کی نااہلی تو ثابت شدہ ہے ہی لیکن اس کے غیر جمہوری ہونے میں بھی کوئی شک نہیں رہا ہے۔
انٹرنیشنل مونیٹری فنڈ (IMF) کا بنیادی کام ملکی معیشتوں اور ان کی باہمی کارکردگی خاص طور پر زر مبادلہ ، بیرونی قرضہ جات پر نظر رکھنا اور اُن کی معاشی فلاحی و مالی خسارے سے نمٹنے کے لیے قرضے اور تکنیکی معاونت فراہم کرنا ہے ۔
دوسری جنگ عظیم کے باعث بہت سے یورپی ممالک کو توازن ادائیگی کا خسارہ پیدا ہوگیا تھا ۔ ایسے ممالک کی مدد کرنے کے لیے بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت بین الاقوامی تجارت اور مالی لین دین کی ثالثی کے لیے 1945میں یہ ادارہ قائم کیا گیا ۔ اس کے ابتدائی ارکان کی تعداد 29تھی جس میں سے کیوبا جلد ہی عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے نکل گیا ۔
شروع میں امریکی ڈالر کو عالمی طور پر بنیادی کرنسی قرار دیکر آئی ایم ایف کے کھاتوں کا حساب اس میں کیا جاتا تھااور ڈالر کی مالیت سونے کے حساب سے مقرر کی جاتی تھی ۔ جس کے لیے یہ اصول قائم ہوا کہ ڈالر کی قیمت میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی لیکن 1972میں امریکی صدر نکسن نے اصول کے خلاف امریکی توازن ِ ادائیگی کے بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں کمی کردی یعنی 35ڈالر فی اونس سونے سے 38ڈالر فی اونس سونا۔ یوں پہلی بار آن دی ریکارڈ بریٹن ووڈز معاہدے کی شکنی ہوئی اور پھر بریٹن ووڈز معاہدے کا نظام تباہ ہوگیا۔ جس کے بعد نیا نظام وضح کرکے ڈالر کی جگہ اسپیشل ڈرائنگ رائٹس SDRکا استعمال شروع کیا گیا ۔
SDRدراصل کسی ملک کی کرنسی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی فنڈ میں کھاتوں کی جمع تفریق کا ایک نظام ہے ۔ SDRبھی ابتداء میں 0.888گرام سونے کے برابر رکھا گیا جوکہ اُس وقت ایک ڈالر کا تھا۔ پھر 1974میں ایس ڈی آر کا تعلق سونے سے ختم کرکے 16کرنسیوں کے مشترکہ باسکٹ سے کیا گیا ۔آگے چل کر 1981میں اس باسکٹ سے 11کرنسیاں نکل گئیں (یا پھر سازش کرکے نکال دی گئیں ) اور صرف پانچ رہ گئیں ، جوکہ 1999میں یو رو بننے کے بعد جرمن مارک اور فرانسیسی فرانک کی جگہ یورو کو مل گئی ۔ تب سے رکن ممالک کو ڈالر ، پونڈ یا ین وغیرہ ہی میں قرضہ جات ملتے ہیں ،لیکن اس کا اندراج بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے کھاتوں میں ایس ڈی آر میں ہی کیا جاتا ہے ۔ اور رکن ممالک کوایس ڈی آر کو بطور کرنسی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے ۔
سب سے بڑی بات کہ عالمی مالیاتی فنڈ کو جو گورنر کنٹرول کرتے ہیں وہ مختلف نجی بینکوں کے سربراہ یا اُن کے خاص نمائندے ہوتے ہیں ۔ اور یوں یہ ادارہ تباہ شدہ اور مالی بحرانوں کے شکار ملکوں کی تعمیر و بحالی کے مقصد سے ہٹ کر سرمائیدار قوتوں کا آلہ کار بن کر رہ گیا ہے جو اُسے ایک کمرشل ادارے کے طور پر چلا رہی ہیں ۔ جس سے ترقی پذیر و غریب ملکوں کا استحصال ہورہا ہے ۔
اس ادارے میں بڑی سرمایہ دار قوتوں کی Monopolyکو بھانپتے ہوئے کیوبا آغاز میں ہی نکل گیا تھا ۔ پھر صدر نکسن کی صورت ہو یا ماضی قریب میں لیبیا اور مصر کی معیشتوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ ملکی اقتدار و سیاسی نظام کی تباہی تک اس عالمی مالیاتی ادارے کا سامراجی روپ کھل کر سامنے آچکا ہے ۔چونکہ لیبیا کے کرنل معمر قذافی کی حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ کے SDRنظام کے بجائے لین دین براہ راست سونے کے ذخائر اور اُس کی مالیت کے حساب سے زرمبادلہ کے نظام پر کام شروع کردیا تھا ۔
آئی ایم ایف کی واحد کامیابی دوسری جنگ عظیم سے ہونے والی تباہیوں کی وجہ سے 1945سے 1955کے درمیان جرمنی ، برطانیہ اور فرانس و دیگر یورپی ممالک کی معیشتوں کو سہارا دینا ہے ۔ وگرنہ تو اس ادارے کی پوری تاریخ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو ابتری کی انتہا پر پہنچانے اور اُن ملکوں کے داخلی اُمور میں دخل اندازی سے بھری پڑی ہے ۔یہ ادارہ عالمی سرمایہ دار و صنعتی ممالک کے سامراجی ہتھکنڈوں کاوسیلہ بن کر غریب و ترقی پذیر ممالک کے استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے ۔
اس وقت یہ ایک ایسا جال ہے جس میں پھنسنے والے ممالک اپنی آزادی کی راہ کھو بیٹھتے ہیں ۔ اب تو بڑے سرمایہ دار ممالک نے عالمی مالیاتی اداروں کو مکمل طور پر استحصالی ادارے بناکر غریب و ترقی پذیر ممالک کے اندرونی مالیاتی نظام حتیٰ کہ بجٹ پر اختیار حاصل کرلیا ہے ۔ ایسی ہی صورتحال اس وقت پاکستان کے ساتھ بھی ہے ۔ ملکی معاملات میں عالمی مالیاتی ادارے (IMF) کی جانب سے مالی اصلاحات کے نام پر مداخلت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اُن کی جائز و ناجائز تمام فرمائشوں کو حکمران بلا چون و چرا کے تسلیم کرلیتے ہیں ۔
رائٹ سائیزنگ (جو کہ دراصل ڈاؤن سائیزنگ ہوتی ہے ) اور نجکاری سمیت مختلف استحصالی ایجنڈہ پر عمل کروایا جاتا ہے ۔ ملک کے سب سے بڑے صنعتی ادارے اسٹیل ملز سمیت مختلف اداروں کو فروخت کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں ۔ نجکاری کا یہ کھیل اس لیے کھیلا جاتا ہے کہ یہ ادارے عالمی گروپس یا عالمی اداروں کو فروخت ہوتے ہیں اور اُن کی ادائیگی بھی آئی ایم ایف کو کرنے سے مشروط کی جاتی ہے ۔ جو کہ ملک پر موجود قرض کے سود و اصل کی مد میں کٹوتی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ، یعنی آئی ایم ایف کوئی فنڈ نہ ہو ا بلکہ لالہ کا قرضہ ہوگیا کہ گروی شدہ ملکیت ضبط۔۔!
اس بات کا اظہار آئی ایم ایف کی 2012میں سربراہ' کریٹین لگارڈی' کے اعترافیہ بیان سے بھی ہوتا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ '' جب آئی ایم ایف کے اطراف کی دنیا پر زوال آتا ہے تو ہم ترقی کرتے ہیں ، اُس وقت ہم بہت فعال ہوجاتے ہیں کیونکہ ہم قرضے دیتے ہیں ۔ ہمیں سود، فیس اور بہت کچھ ملتا ہے اور ادارے کو خوب منافع ہوتا ہے ''۔ جب کہ آزاد معاشی ماہرین کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے منصوبے افراط ِ زر پیدا کرتے ہیں جوکہ تیسری دنیا کے ممالک کے لیے زہر ِ قاتل سے کم نہیں ۔ آئی ایم ایف کے بہت زیادہ متاثرین ممالک میں نائیجیریا ، نائیجر،صومالیہ ، ہیٹی ، زمبابوے وغیرہ شامل ہیں جب کہ ارجنٹائین ،بیلارس، جمائیکا، بلیز، وینزویلا ، گریس اور یوکرائین ممالک اس وقت دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں اور یہ سب بھی آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر من و عن عمل کرتے رہنے والے ممالک میں شامل ہیں ۔
دیکھا جائے تو پاکستان اپنے قیام سے ہی معاشی ابتری کا شکار رہا ہے ۔ ویسے تو تعلیم کی کمی ، توانائی کے مسائل ، انتہا پسندی و دہشت گردی ، بدعنوان حکومتوں جیسے محرکات اس کی عام وجوہات رہی ہیں لیکن سب سے اہم سبب دور اندیشی پر مبنی حکمت عملی ،آزاد معاشی پالیسیاں اور مالیاتی اداروں کا نہ ہونا ہے ۔ ملک میں اصل مسئلہ ادارہ سازی اور اداراتی مہارتوں کی ناپید صورتحال ہے، جس وجہ سے یہاں شخصیت پرستی کا ماحول پروان چڑھا ہے ۔ یہ اسی کا اثر ہے کہ ملک میں کبھی محکمہ مالیات کی کمی و کارکردگی کی بات نہیں کی گئی بلکہ ہمیشہ سرتاج عزیز ، اسحاق ڈار، اسد عمر اور حفیظ شیخ وغیرہ وغیرہ کی کارکردگی یا کوتاہی کا ہی چرچہ رہا ہے ، اور یہ صورتحال ملک کے تمام تر اُمور و اداروں میں ہے ۔ جس کی وجہ سے ملک میں مستحکم پالیسیوں کا فقدان رہا ہے اور پائیدار ترقی کے امکانات پیدا نہیں ہوتے ۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال پاک چین آزادانہ تجارت کا معاہدہ ہے ۔ جس سے واضح نظر آتا ہے کہ ہماری برآمدی اشیاء کا تناسب چین کی برآمدات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہوگا ۔ تو پھر کس طرح یہ معاہدہ ملکی مفاد میں ہوا؟ ویسے بھی گذشتہ برس کے اعداد و شمار ہی ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ ہماری درآمدات اور برآمدات کے توازن میں 20ارب ڈالر کا نقصان ریکارڈ ہوا ہے ۔ حکمران اگر بہتر معاشی منصوبہ سازی سے کام کرنا چاہیں تو قرضہ جات کے بجائے ملکی وسائل کو ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے استعمال کرکے کچھ ہی سالوں میں ملک کی کایہ پلٹ سکتے ہیں ۔ جس کے لیے ابتدائی طور پر تھوڑی تنگدستی کا سامنا ہوگا لیکن نتیجہ سو فیصدپائیدار ترقی اور خوشحالی کی صورت میں نکلے گا۔
ویسے بھی پی ٹی آئی حکومت کے آنے سے اب تک جو ملک میں مہنگائی کا طوفان اور بیروزگاری کا سیلاب اُمنڈ آیا ہے اُس سے کیا کم تنگدستی پھیلی ہوئی ہے ، پھر آئی ایم ایف کی اعلان کردہ ہدایات پر عمل پیرائی سے جو ملک میں مہنگائی اور تنگدستی میں شدت آنیوالی ہے اُس کا حکمرانوں کو اندازہ ہی نہیں ہے ۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو تسلیم کرلیا ہے جس میں 750ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ ڈالر پر کنٹرول نہ رکھنا بھی شامل ہیں ۔ جس کی عملی مثال رواں ہفتے سامنے آئی کہ ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 151روپے پر پہنچ گیا ۔
عالمی مالیاتی ادارے کی پالیسیوں اور طریقہ آپریشن سے اختلاف رکھنے والے ممالک کو سائیڈ پر رکھ کر اگر ہم اس کے ہمنوا اور شراکت دار ممالک کی معیشتوں پر نظر ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ وہ ممالک جو اس ادارے کی تمام سختیوں اور پالیسیوں کے باوجود اس سے قرضہ جات لیتے بھی ہیں تو وہ اپنی ملکی پالیسیوں میں اس کے کم سے کم اثر انداز ہونے اور ملکی استحکام و عوام کی خوشحالی کو یقینی بنانے کی پالیسی پر گامزن رہتے ہیں ۔ جس میں بنگلا دیش ایک اعلیٰ مثال ہے ۔
موجودہ حکومت کی نااہلی تو ثابت شدہ ہے ہی لیکن اس کے غیر جمہوری ہونے میں بھی کوئی شک نہیں رہا ہے کیونکہ حکومت بنانے اور حلف اُٹھانے کے علاوہ کوئی بھی بڑا کام اس حکومت نے پارلیمنٹ کے اندر بحث کے بعد قانون سازی کی صورت میں نہیں کیا ۔ جب کہ تمام اہم اُمور و قوانین غیرجمہوری طریقہ حکومت کی طرح آرڈیننس کے ذریعے چلائے جارہے ہیں ۔ اسی طرح اب تک آئی ایم ایف سے ہونے والی بات چیت ، شرائط کی منظوری اور پھر معاہدے پر آمادگی کے مراحل طے پانے تک ، کوئی بھی معاملہ ایوان میں نہیں لایا گیا ہے ۔ اس لیے حکومت کو یہ مفت مشورہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کی سخت شرائط کسی طور پر تسلیم نہ کی جائیں اور ایسے کسی بھی معاہدے کی منظوری سے قبل اُسے پارلیمنٹ میں لایا جائے جوکہ ملکی اداروں کے وقار کی بحالی کے ساتھ ساتھ اُنہیں خود کو بھی اس معاہدے کی کمی بیشیوں کی صورت میں تحفظ فراہم کرے گا۔
دیکھا جائے تو ہمارے ملک پر عالمی دباؤ کی بھی ایک طویل داستان ہے ۔اگر مدبر و دور اندیش قیادت موجود ہو اور جمہوری ادارے رواں ہوں تو لاکھ عالمی دباؤ ہونے کے باوجود بھی ملک میں ایٹم بم بنانے جیسا کام بھی کرلیا جاتا ہے تو اس کا تجربہ بھی کر کے دم لیا جاتا ہے ، لیکن اگر قیادت جمہوری اقدار و تدبر سے عاری ہو تو پھر عالمی دباؤ پرملکی سلامتی پر وار کرنے والے 'ابھے نندن' کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے تو ملکی ترقی کی اہم ضرورت آئی پی گیس منصوبے کو بھی بیک رول کرکے ایران دوستی کو بھی مشکوک کرنا پڑتا ہے ۔
عالمی سرمایہ دار ممالک اور اداروں کا ایجنڈہ ہوتا ہے کہ غریب و ترقی پذیر ممالک میں صنعت و مینو فیکچرنگ کو پنپنے ہی نہ دیا جائے بلکہ اُنہیں خام مال فراہم کنندہ ہی رکھا جائے ، پھر اُن کے خام مال سے مصنوعات تیار کرکے انھی کو ہی فروخت کی جائیں ۔جب کہ نجکاری اُن کا ایسا ہتھیار ہوتا ہے، جو وہ غریب ملکوں سے خود اُنہی پر چلواتے ہیں ۔ کسی بھی ملک کی معیشت میں مینو فیکچرنگ کا شعبہ ریڑھ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جس سے روزگار کے مواقع میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملکی طلب کی تکمیل اور ملکی برآمدی تجارت میں اضافہ ہوتا ہے ، لیکن بدقسمتی سے ہماری ملکی پالیسیوں میں مینو فیکچرنگ ترجیح ہی نہیں ہے ، جس وجہ سے اس کی شرح دن بہ دن گرتی جارہی ہے ۔
اس وقت ہماری حیثیت بھی خام مال فراہم کنندہ اور کنزیومر مارکیٹ کی ہوکر رہ گئی ہے ۔ پھر ایسے میں اداروں کی نجکاری ، ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ ملک کی معیشت کی تباہی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔معاہدے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق چینی پر جی ایس ٹی بڑھانے ، گیس پر فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی تھوپنے ، الیکٹرانکس و فوم انڈسٹری کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس لگانے ، صنعت اور بجلی کی پیداوار کے لیے ایل این جی کی درآمد پرکسٹمز ڈیوٹی 5%تک بڑھایا جائے گا، جب کہ گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے صارفین پر 170ارب روپے کا مزید بوجھ ڈالا جائے گا۔
پھر آئی ایم ایف نے حکومت کو ڈالر کو کنٹرول نہ کرنے کی شرط سختی سے رکھی جب کہ اس مرتبہ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی شرائط میں خارجہ اُمورکو بھی شامل کیا گیا ہے جوکہ ملک کو انتہائی بھیانک خیز نتائج سے دوچار کرسکتا ہے، لیکن اطلاعات ہیں کہ سرکار کے ماہرین معاشیات نے ان سمیت ساری شرائط تسلیم کرلی ہیں ۔ یہ تمام شرائط اور حکومت کی بے بسی دیکھ کر آنے والے دنوں میں ملک کی گمبھیر صورتحال کا سوچ کر ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اور ہر ذی شعور شہری سوچنے پر مجبور ہے کہ ایکی طرف تبدیلی کی لہر تباہی کی سونامی بن کر چڑھتی جارہی ہے تو دوسری طرف آئی ایم ایف سہارے کے بجائے سزا بن کر مسلط ہوتا جارہا ہے ۔
وسائل پر انحصار اور اُن کے مؤثر استعمال کی دور اندیش حکمت عملی و پالیسی کو اپناتے ہوئے آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ کر ہی خود کفیل ریاست کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں ۔ اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مینوفیکچرنگ شناخت پیدا کرکے ملائیشیااور کوریا کی طرح عالمی مالیاتی اداروں کی بلیک میلنگ سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر مصراور تیونس کی طرح اپنے ملک میں معاشی و سیاسی استحکام کو ہچکولے کھاتے دیکھتے رہنا ہے ؟
دوسری جنگ عظیم کے باعث بہت سے یورپی ممالک کو توازن ادائیگی کا خسارہ پیدا ہوگیا تھا ۔ ایسے ممالک کی مدد کرنے کے لیے بریٹن ووڈز معاہدے کے تحت بین الاقوامی تجارت اور مالی لین دین کی ثالثی کے لیے 1945میں یہ ادارہ قائم کیا گیا ۔ اس کے ابتدائی ارکان کی تعداد 29تھی جس میں سے کیوبا جلد ہی عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے نکل گیا ۔
شروع میں امریکی ڈالر کو عالمی طور پر بنیادی کرنسی قرار دیکر آئی ایم ایف کے کھاتوں کا حساب اس میں کیا جاتا تھااور ڈالر کی مالیت سونے کے حساب سے مقرر کی جاتی تھی ۔ جس کے لیے یہ اصول قائم ہوا کہ ڈالر کی قیمت میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی لیکن 1972میں امریکی صدر نکسن نے اصول کے خلاف امریکی توازن ِ ادائیگی کے بڑھتے ہوئے مسائل کی وجہ سے ڈالر کی قیمت میں کمی کردی یعنی 35ڈالر فی اونس سونے سے 38ڈالر فی اونس سونا۔ یوں پہلی بار آن دی ریکارڈ بریٹن ووڈز معاہدے کی شکنی ہوئی اور پھر بریٹن ووڈز معاہدے کا نظام تباہ ہوگیا۔ جس کے بعد نیا نظام وضح کرکے ڈالر کی جگہ اسپیشل ڈرائنگ رائٹس SDRکا استعمال شروع کیا گیا ۔
SDRدراصل کسی ملک کی کرنسی نہیں بلکہ عالمی مالیاتی فنڈ میں کھاتوں کی جمع تفریق کا ایک نظام ہے ۔ SDRبھی ابتداء میں 0.888گرام سونے کے برابر رکھا گیا جوکہ اُس وقت ایک ڈالر کا تھا۔ پھر 1974میں ایس ڈی آر کا تعلق سونے سے ختم کرکے 16کرنسیوں کے مشترکہ باسکٹ سے کیا گیا ۔آگے چل کر 1981میں اس باسکٹ سے 11کرنسیاں نکل گئیں (یا پھر سازش کرکے نکال دی گئیں ) اور صرف پانچ رہ گئیں ، جوکہ 1999میں یو رو بننے کے بعد جرمن مارک اور فرانسیسی فرانک کی جگہ یورو کو مل گئی ۔ تب سے رکن ممالک کو ڈالر ، پونڈ یا ین وغیرہ ہی میں قرضہ جات ملتے ہیں ،لیکن اس کا اندراج بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے کھاتوں میں ایس ڈی آر میں ہی کیا جاتا ہے ۔ اور رکن ممالک کوایس ڈی آر کو بطور کرنسی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے ۔
سب سے بڑی بات کہ عالمی مالیاتی فنڈ کو جو گورنر کنٹرول کرتے ہیں وہ مختلف نجی بینکوں کے سربراہ یا اُن کے خاص نمائندے ہوتے ہیں ۔ اور یوں یہ ادارہ تباہ شدہ اور مالی بحرانوں کے شکار ملکوں کی تعمیر و بحالی کے مقصد سے ہٹ کر سرمائیدار قوتوں کا آلہ کار بن کر رہ گیا ہے جو اُسے ایک کمرشل ادارے کے طور پر چلا رہی ہیں ۔ جس سے ترقی پذیر و غریب ملکوں کا استحصال ہورہا ہے ۔
اس ادارے میں بڑی سرمایہ دار قوتوں کی Monopolyکو بھانپتے ہوئے کیوبا آغاز میں ہی نکل گیا تھا ۔ پھر صدر نکسن کی صورت ہو یا ماضی قریب میں لیبیا اور مصر کی معیشتوں کی تباہی کے ساتھ ساتھ ملکی اقتدار و سیاسی نظام کی تباہی تک اس عالمی مالیاتی ادارے کا سامراجی روپ کھل کر سامنے آچکا ہے ۔چونکہ لیبیا کے کرنل معمر قذافی کی حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ کے SDRنظام کے بجائے لین دین براہ راست سونے کے ذخائر اور اُس کی مالیت کے حساب سے زرمبادلہ کے نظام پر کام شروع کردیا تھا ۔
آئی ایم ایف کی واحد کامیابی دوسری جنگ عظیم سے ہونے والی تباہیوں کی وجہ سے 1945سے 1955کے درمیان جرمنی ، برطانیہ اور فرانس و دیگر یورپی ممالک کی معیشتوں کو سہارا دینا ہے ۔ وگرنہ تو اس ادارے کی پوری تاریخ دنیا کے ترقی پذیر ممالک کی معیشتوں کو ابتری کی انتہا پر پہنچانے اور اُن ملکوں کے داخلی اُمور میں دخل اندازی سے بھری پڑی ہے ۔یہ ادارہ عالمی سرمایہ دار و صنعتی ممالک کے سامراجی ہتھکنڈوں کاوسیلہ بن کر غریب و ترقی پذیر ممالک کے استحصال کا سب سے بڑا ذریعہ بن گیا ہے ۔
اس وقت یہ ایک ایسا جال ہے جس میں پھنسنے والے ممالک اپنی آزادی کی راہ کھو بیٹھتے ہیں ۔ اب تو بڑے سرمایہ دار ممالک نے عالمی مالیاتی اداروں کو مکمل طور پر استحصالی ادارے بناکر غریب و ترقی پذیر ممالک کے اندرونی مالیاتی نظام حتیٰ کہ بجٹ پر اختیار حاصل کرلیا ہے ۔ ایسی ہی صورتحال اس وقت پاکستان کے ساتھ بھی ہے ۔ ملکی معاملات میں عالمی مالیاتی ادارے (IMF) کی جانب سے مالی اصلاحات کے نام پر مداخلت اس قدر بڑھ گئی ہے کہ اُن کی جائز و ناجائز تمام فرمائشوں کو حکمران بلا چون و چرا کے تسلیم کرلیتے ہیں ۔
رائٹ سائیزنگ (جو کہ دراصل ڈاؤن سائیزنگ ہوتی ہے ) اور نجکاری سمیت مختلف استحصالی ایجنڈہ پر عمل کروایا جاتا ہے ۔ ملک کے سب سے بڑے صنعتی ادارے اسٹیل ملز سمیت مختلف اداروں کو فروخت کرنے کی تیاریاں ہورہی ہیں ۔ نجکاری کا یہ کھیل اس لیے کھیلا جاتا ہے کہ یہ ادارے عالمی گروپس یا عالمی اداروں کو فروخت ہوتے ہیں اور اُن کی ادائیگی بھی آئی ایم ایف کو کرنے سے مشروط کی جاتی ہے ۔ جو کہ ملک پر موجود قرض کے سود و اصل کی مد میں کٹوتی کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ، یعنی آئی ایم ایف کوئی فنڈ نہ ہو ا بلکہ لالہ کا قرضہ ہوگیا کہ گروی شدہ ملکیت ضبط۔۔!
اس بات کا اظہار آئی ایم ایف کی 2012میں سربراہ' کریٹین لگارڈی' کے اعترافیہ بیان سے بھی ہوتا ہے ، ان کا کہنا تھا کہ '' جب آئی ایم ایف کے اطراف کی دنیا پر زوال آتا ہے تو ہم ترقی کرتے ہیں ، اُس وقت ہم بہت فعال ہوجاتے ہیں کیونکہ ہم قرضے دیتے ہیں ۔ ہمیں سود، فیس اور بہت کچھ ملتا ہے اور ادارے کو خوب منافع ہوتا ہے ''۔ جب کہ آزاد معاشی ماہرین کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے منصوبے افراط ِ زر پیدا کرتے ہیں جوکہ تیسری دنیا کے ممالک کے لیے زہر ِ قاتل سے کم نہیں ۔ آئی ایم ایف کے بہت زیادہ متاثرین ممالک میں نائیجیریا ، نائیجر،صومالیہ ، ہیٹی ، زمبابوے وغیرہ شامل ہیں جب کہ ارجنٹائین ،بیلارس، جمائیکا، بلیز، وینزویلا ، گریس اور یوکرائین ممالک اس وقت دیوالیہ ہونے کے قریب ہیں اور یہ سب بھی آئی ایم ایف کی پالیسیوں پر من و عن عمل کرتے رہنے والے ممالک میں شامل ہیں ۔
دیکھا جائے تو پاکستان اپنے قیام سے ہی معاشی ابتری کا شکار رہا ہے ۔ ویسے تو تعلیم کی کمی ، توانائی کے مسائل ، انتہا پسندی و دہشت گردی ، بدعنوان حکومتوں جیسے محرکات اس کی عام وجوہات رہی ہیں لیکن سب سے اہم سبب دور اندیشی پر مبنی حکمت عملی ،آزاد معاشی پالیسیاں اور مالیاتی اداروں کا نہ ہونا ہے ۔ ملک میں اصل مسئلہ ادارہ سازی اور اداراتی مہارتوں کی ناپید صورتحال ہے، جس وجہ سے یہاں شخصیت پرستی کا ماحول پروان چڑھا ہے ۔ یہ اسی کا اثر ہے کہ ملک میں کبھی محکمہ مالیات کی کمی و کارکردگی کی بات نہیں کی گئی بلکہ ہمیشہ سرتاج عزیز ، اسحاق ڈار، اسد عمر اور حفیظ شیخ وغیرہ وغیرہ کی کارکردگی یا کوتاہی کا ہی چرچہ رہا ہے ، اور یہ صورتحال ملک کے تمام تر اُمور و اداروں میں ہے ۔ جس کی وجہ سے ملک میں مستحکم پالیسیوں کا فقدان رہا ہے اور پائیدار ترقی کے امکانات پیدا نہیں ہوتے ۔
اس کی ایک چھوٹی سی مثال پاک چین آزادانہ تجارت کا معاہدہ ہے ۔ جس سے واضح نظر آتا ہے کہ ہماری برآمدی اشیاء کا تناسب چین کی برآمدات کے مقابلے میں نہ ہونے کے برابر ہوگا ۔ تو پھر کس طرح یہ معاہدہ ملکی مفاد میں ہوا؟ ویسے بھی گذشتہ برس کے اعداد و شمار ہی ہماری آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہیں کہ ہماری درآمدات اور برآمدات کے توازن میں 20ارب ڈالر کا نقصان ریکارڈ ہوا ہے ۔ حکمران اگر بہتر معاشی منصوبہ سازی سے کام کرنا چاہیں تو قرضہ جات کے بجائے ملکی وسائل کو ملکی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے لیے استعمال کرکے کچھ ہی سالوں میں ملک کی کایہ پلٹ سکتے ہیں ۔ جس کے لیے ابتدائی طور پر تھوڑی تنگدستی کا سامنا ہوگا لیکن نتیجہ سو فیصدپائیدار ترقی اور خوشحالی کی صورت میں نکلے گا۔
ویسے بھی پی ٹی آئی حکومت کے آنے سے اب تک جو ملک میں مہنگائی کا طوفان اور بیروزگاری کا سیلاب اُمنڈ آیا ہے اُس سے کیا کم تنگدستی پھیلی ہوئی ہے ، پھر آئی ایم ایف کی اعلان کردہ ہدایات پر عمل پیرائی سے جو ملک میں مہنگائی اور تنگدستی میں شدت آنیوالی ہے اُس کا حکمرانوں کو اندازہ ہی نہیں ہے ۔ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو تسلیم کرلیا ہے جس میں 750ارب روپے کے نئے ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ ڈالر پر کنٹرول نہ رکھنا بھی شامل ہیں ۔ جس کی عملی مثال رواں ہفتے سامنے آئی کہ ڈالر ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح 151روپے پر پہنچ گیا ۔
عالمی مالیاتی ادارے کی پالیسیوں اور طریقہ آپریشن سے اختلاف رکھنے والے ممالک کو سائیڈ پر رکھ کر اگر ہم اس کے ہمنوا اور شراکت دار ممالک کی معیشتوں پر نظر ڈالیں تو نظر آتا ہے کہ وہ ممالک جو اس ادارے کی تمام سختیوں اور پالیسیوں کے باوجود اس سے قرضہ جات لیتے بھی ہیں تو وہ اپنی ملکی پالیسیوں میں اس کے کم سے کم اثر انداز ہونے اور ملکی استحکام و عوام کی خوشحالی کو یقینی بنانے کی پالیسی پر گامزن رہتے ہیں ۔ جس میں بنگلا دیش ایک اعلیٰ مثال ہے ۔
موجودہ حکومت کی نااہلی تو ثابت شدہ ہے ہی لیکن اس کے غیر جمہوری ہونے میں بھی کوئی شک نہیں رہا ہے کیونکہ حکومت بنانے اور حلف اُٹھانے کے علاوہ کوئی بھی بڑا کام اس حکومت نے پارلیمنٹ کے اندر بحث کے بعد قانون سازی کی صورت میں نہیں کیا ۔ جب کہ تمام اہم اُمور و قوانین غیرجمہوری طریقہ حکومت کی طرح آرڈیننس کے ذریعے چلائے جارہے ہیں ۔ اسی طرح اب تک آئی ایم ایف سے ہونے والی بات چیت ، شرائط کی منظوری اور پھر معاہدے پر آمادگی کے مراحل طے پانے تک ، کوئی بھی معاملہ ایوان میں نہیں لایا گیا ہے ۔ اس لیے حکومت کو یہ مفت مشورہ ہے کہ عالمی مالیاتی ادارے کی سخت شرائط کسی طور پر تسلیم نہ کی جائیں اور ایسے کسی بھی معاہدے کی منظوری سے قبل اُسے پارلیمنٹ میں لایا جائے جوکہ ملکی اداروں کے وقار کی بحالی کے ساتھ ساتھ اُنہیں خود کو بھی اس معاہدے کی کمی بیشیوں کی صورت میں تحفظ فراہم کرے گا۔
دیکھا جائے تو ہمارے ملک پر عالمی دباؤ کی بھی ایک طویل داستان ہے ۔اگر مدبر و دور اندیش قیادت موجود ہو اور جمہوری ادارے رواں ہوں تو لاکھ عالمی دباؤ ہونے کے باوجود بھی ملک میں ایٹم بم بنانے جیسا کام بھی کرلیا جاتا ہے تو اس کا تجربہ بھی کر کے دم لیا جاتا ہے ، لیکن اگر قیادت جمہوری اقدار و تدبر سے عاری ہو تو پھر عالمی دباؤ پرملکی سلامتی پر وار کرنے والے 'ابھے نندن' کو بھی چھوڑنا پڑتا ہے تو ملکی ترقی کی اہم ضرورت آئی پی گیس منصوبے کو بھی بیک رول کرکے ایران دوستی کو بھی مشکوک کرنا پڑتا ہے ۔
عالمی سرمایہ دار ممالک اور اداروں کا ایجنڈہ ہوتا ہے کہ غریب و ترقی پذیر ممالک میں صنعت و مینو فیکچرنگ کو پنپنے ہی نہ دیا جائے بلکہ اُنہیں خام مال فراہم کنندہ ہی رکھا جائے ، پھر اُن کے خام مال سے مصنوعات تیار کرکے انھی کو ہی فروخت کی جائیں ۔جب کہ نجکاری اُن کا ایسا ہتھیار ہوتا ہے، جو وہ غریب ملکوں سے خود اُنہی پر چلواتے ہیں ۔ کسی بھی ملک کی معیشت میں مینو فیکچرنگ کا شعبہ ریڑھ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ جس سے روزگار کے مواقع میں اضافے کے ساتھ ساتھ ملکی طلب کی تکمیل اور ملکی برآمدی تجارت میں اضافہ ہوتا ہے ، لیکن بدقسمتی سے ہماری ملکی پالیسیوں میں مینو فیکچرنگ ترجیح ہی نہیں ہے ، جس وجہ سے اس کی شرح دن بہ دن گرتی جارہی ہے ۔
اس وقت ہماری حیثیت بھی خام مال فراہم کنندہ اور کنزیومر مارکیٹ کی ہوکر رہ گئی ہے ۔ پھر ایسے میں اداروں کی نجکاری ، ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور بجلی و گیس کے نرخوں میں اضافہ ملک کی معیشت کی تباہی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔معاہدے میں اب تک کی اطلاعات کے مطابق چینی پر جی ایس ٹی بڑھانے ، گیس پر فیڈرل ایکسائیز ڈیوٹی تھوپنے ، الیکٹرانکس و فوم انڈسٹری کی مصنوعات پر سیلز ٹیکس لگانے ، صنعت اور بجلی کی پیداوار کے لیے ایل این جی کی درآمد پرکسٹمز ڈیوٹی 5%تک بڑھایا جائے گا، جب کہ گیس و بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے صارفین پر 170ارب روپے کا مزید بوجھ ڈالا جائے گا۔
پھر آئی ایم ایف نے حکومت کو ڈالر کو کنٹرول نہ کرنے کی شرط سختی سے رکھی جب کہ اس مرتبہ آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کی شرائط میں خارجہ اُمورکو بھی شامل کیا گیا ہے جوکہ ملک کو انتہائی بھیانک خیز نتائج سے دوچار کرسکتا ہے، لیکن اطلاعات ہیں کہ سرکار کے ماہرین معاشیات نے ان سمیت ساری شرائط تسلیم کرلی ہیں ۔ یہ تمام شرائط اور حکومت کی بے بسی دیکھ کر آنے والے دنوں میں ملک کی گمبھیر صورتحال کا سوچ کر ہی رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ اور ہر ذی شعور شہری سوچنے پر مجبور ہے کہ ایکی طرف تبدیلی کی لہر تباہی کی سونامی بن کر چڑھتی جارہی ہے تو دوسری طرف آئی ایم ایف سہارے کے بجائے سزا بن کر مسلط ہوتا جارہا ہے ۔
وسائل پر انحصار اور اُن کے مؤثر استعمال کی دور اندیش حکمت عملی و پالیسی کو اپناتے ہوئے آئی ایم ایف کو خدا حافظ کہہ کر ہی خود کفیل ریاست کی راہ پر گامزن ہوسکتے ہیں ۔ اب ہمیں سوچنا ہے کہ ہم ملکی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے مینوفیکچرنگ شناخت پیدا کرکے ملائیشیااور کوریا کی طرح عالمی مالیاتی اداروں کی بلیک میلنگ سے جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر مصراور تیونس کی طرح اپنے ملک میں معاشی و سیاسی استحکام کو ہچکولے کھاتے دیکھتے رہنا ہے ؟