جدید ممالک میں آزادی صحافت پر حملہ

کمپیوٹر کی ٹیکنالوجی کے ہتھیار کے ذریعے تحقیقاتی رپورٹنگ نے میڈیا میں خبروں کی اہمیت کو تبدیل کر دیا

tauceeph@gmail.com

KARACHI:
آزادی صحافت ترقی یافتہ ممالک میں خطرے میں ہے۔ امریکی حکومت نے وکی لیکس کے بانی جولین اسانج کو عمر قید کی سزا دینے کا فیصلہ کیا ہوا ہے، لاطینی امریکا کے ایک چھوٹے سے ملک ایکواڈور نے جولین اسانج کو سیاسی پناہ دینے کا اعلان کیا ہے۔ جولین اسانج کئی ماہ سے لندن میں ایکواڈور کے سفارت خانے میں پناہ لیے ہوئے ہے۔ برطانیہ نے ایکواڈور کے اسانج کو سیاسی پناہ دینے کے فیصلے کو ماننے سے انکار کر دیا ہے۔ اؒخباری اطلاعات کے مطابق برطانوی پولیس کے سپاہیوں نے ایکواڈور کے سفارتخانے کی عمارت کو گھیرے میں لے لیا ہوا ہے۔

برطانیہ نے انسانی حقوق کی پاسداری اور سیاسی پناہ گزینوں کے بارے میں اپنی کئی صدیوں پرانی روایت کو نظر انداز کرتے ہوئے دھمکی دی ہے کہ سفارتخانوں کے احترام کے Diplomatic and Consuler Premises Act 1987 کو بالائے طاق رکھتے ہوئے سفارتخانے کی عمارت میں داخل ہو کر جولین اسانج کو گرفتار کر لیا جائے گا۔ جولین اسانج کی داستان بھی عجیب ہے۔ اسانج کا خاندان آسٹریلیا میں آباد ہے، وہ آسٹریلیا کے شہر کوئنزلینڈ میں پیدا ہوا، اس کی والدہ ایک آسٹریلوی فوجی کی بیٹی تھی، اس فوجی افسر نے دوسری جنگ عظیم میں اہم خدمات انجام دی، اس کے حقیقی والد Biological Father کا نام جون اسٹیفن تھا، اسانج کی اپنے حقیقی باپ سے ملاقات 25 سال کی عمر میں ہوئی، اس کی ماں کرسٹین نے تین شادیاں کی تھیں۔

اسانج نے ابتدائی تعلیم کے لیے Cool Manager کے پرائمری اسکول میں داخلہ لیا مگر 1979 میں اس کی ماں نے ایک اور شادی کر لی مگر یہ شادی زیادہ عرصے برقرار نہیں رہی، اس دوران اسانج کی والدہ اپنے دو بچوں کو لے کر اپنے دوست کے ساتھ چلی گئی اور یہ خاندان آسٹریلیا کے مختلف دیہات میں روپوش رہا۔ اسانج نے 50 مختلف گائوں کے 37 اسکولوں میں تعلیم حاصل کی۔ اسانج نے 1987 میں جب اس کی عمر 16سال تھی Hacking شروع کی یہ کمپیوٹر کی دنیا میں ایک روایت تھی، اسانج کے ساتھ اور کئی نوجوان شامل ہو گئے، اس گروپ کے ارکان مختلف ویب سائٹس میں داخل ہو کر معلومات حاصل کرتے تھے۔ اسانج نے 1991 میں ایک آسٹریلین یونیورسٹی کے کمپیوٹر سسٹم پر رسائی حاصل کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ کمپیوٹر سسٹم امریکا کی وزارت دفاع کے کمپیوٹر سسٹم سے منسلک تھا۔

پولیس نے 1991 میں اسانج کی قیام گاہ پر چھاپہ مارا، اسانج کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا اور اسے تین سال تک اس مقدمے کی سماعت کے لیے عدالتوں کے چکر لگانے پڑے، بعد ازاں جج نے اسانج کو بری کر دیا، جج نے اپنے فیصلے میں تحریر کیا کہ استغاثہ کے پاس صرف Intelligent Inquisitiveness (ہوشیاری سے تفتیش) کے علاوہ کوئی اور الزام نہیں تھا مگر اسانج کو 2 ہزار آسٹریلوی ڈالر بطور ضمانت دینے پڑے۔ اس مقدمے پر اسانج کو وکیلوں کی ایک لاکھ ڈالر کی فیس ادا کرنی پڑی۔ اسانج نے 1993 میں پہلی انٹرنیٹ پر ڈاڈا کمپنی شروع کی۔ اسانج نے 2002 سے 2005 تک میلبورن یونیورسٹی کے انڈر گریجویٹ کورس میں داخلہ لیا۔

اس نے فزکس، ریاضی، فلسفہ اور نیورو سائنس کے مضامین کی تعلیم حاصل کی مگر یونیورسٹی کے مطلوبہ معیار کے مطابق نمبر حاصل نہ کرنے کی بنا پر وہ گریجویشن کی ڈگری حاصل نہ کر سکا۔ اسانج نے 2006 میں وکی لیکس کے فلسفے کے بارے میں دو مضامین تحریر کیے۔ 2010 میں وکی لیکس کا ایڈوائزری بورڈ قائم ہوا اور اخبارات نے اسانج کو وکی لیکس کا بانی یا ڈائریکٹر قرار دیا۔


پھر وکی لیکس کو امریکی وزارت خارجہ سے متعلق تہلکہ خیز مواد مل گیا، اس کمپیوٹرز مواد میں دنیا بھر کی امریکی سفارتکاروں کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کو لکھے جانے والے خطوط شامل تھے، ان خطوط میں پاکستان، بھارت، سری لنکا اور دوسرے ممالک سے متعلق بہت سے اہم انکشاف تھے۔ 28 نومبر 2010 کو وکی لیکس نے 2 لاکھ 51 ڈالز کیبل جاری کیے، ان کیبلز میں سے 53 فیصد کیبلز خفیہ نہیں تھے، صرف40 فیصد کو خفیہ قرار دیا گیا۔ دنیا کے بڑے اخبارات نے امریکی سفارتکاروں کے ان خطوط پر مشتمل خبریں شایع کیں اور وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کو پاکستان، بھارت اور دوسرے ممالک کو وضاحتیں پیش کرنا پڑیں۔ آسٹریلیا کی وفاقی پولیس نے اسانج اور وکی لیکس کے معاملات کی چھان بین کی اور اسانج کا پاسپورٹ ضبط کرنے کا عندیہ دیا گیا۔ اسانج اور وکی لیکس پر مختلف طریقوں سے حملے شروع ہوئے۔ امریکی حکومت کی وزارت انصاف نے 14 دسمبر 2010 کو ٹویٹر پر اسانج کے اکائونٹس کے اعداد و شمار جاری کیے۔ سوئٹزرلینڈ کی حکومت نے اسانج کے 31 ہزار یورو پر مشتمل اثاثے منجمد کر دیے۔

امریکی کانگریس کی انٹیلی جنس کی کمیٹی کے چیئرمین نے اسانج کے خلاف جاسوسی کے الزام کا مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔ سوئیڈن کی فیڈرل پولیس نے 20 اگست 2010 کو اسانج کے خلاف دو علیحدہ علیحدہ واقعات میں دو خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے بارے میں تحقیقات شروع کیں۔ اسانج کا کہنا تھا کہ ان خواتین سے تعلقات دو طرفہ باہمی رضامندی سے قائم ہوئے تھے، شکایت کرنے والی خواتین کے بیانات سے اسانج کے موقف کی تصدیق ہو گئی۔ اگست 2010 میں اسانج کے گرفتاری کے وارنٹ منسوخ کر دیے گئے۔

یکم ستمبر 2010 کو سوئیڈن کے پبلک پراسیکیوٹر نے اسانج کی گرفتاری کے وارنٹ پھر جاری کر دیے گئے۔ اسانج کے یورپ اور سوشل میڈیا سے ملنے والے مواد سے ظاہر ہوتا ہے کہ وکی لیکس نے جو ہزاروں دستاویزات جاری کیں،ان میں افغانستان میں امریکی اور یورپی اتحادی فوجوں کے آپریشن سے متعلق اہم حقائق شامل ہیں۔ امریکی اور یورپی حکومت کے غصے کا باعث یہی وجہ ہے کہ امریکی حکومت میں شامل بعض افسران اسانج کو خطرناک دہشت گرد قرار دے رہے ہیں۔ امریکی ریپبلک پارٹی کی نائب صدر کی سابق امیدوار سارہ جولین نے تو یہ مطالبہ کیا کہ اسانج کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے جو القاعدہ اور طالبان کے رہنمائوں کے ساتھ روا رکھا گیا ہے۔

امریکا میں جاسوسی، دہشت گردی اور بغاوت کے الزام میں مقدمہ چلانے اور اسانج کو عمر قید کی سزا دینے کی تیاری ہو رہی تھی، وہاں دنیا بھر میں اسانج کے بنیادی حقوق کے لیے آواز بلند ہو رہی تھی۔ امریکی ڈینیئل الزبرگ' جو امریکی وزارت خارجہ کے افسر تھے اور انھوں نے 1971 میں پینٹاگون پیپرز افشا کیے تھے' نے انٹیلی جنس کے سابق افسروں اور سرکاری افسروں کے ایک عالمی گروپ کے ساتھ مل کر ایک بیان میں اسانج کے خلاف کارروائی کو غیر قانونی قرار دیا۔ الزبرگ کا کہنا ہے کہ وہ اگر آج پینٹاگون پیپرز افشا کرے تو ان کے ساتھ ایسا ہی سلوک ہوتا۔

لاطینی امریکا کے ملک برازیل کے صدر لیوز انکولو ڈی سلوا نے اسانج کے خلاف کارروائی کو آزاد صحافت پر حملہ قرار دیا ہے۔ روس کے صدر پیوٹن نے اسانج کے خلاف کارروائی کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا ہے۔ روسی صدر کے دفتر کے ذرایع کا کہنا ہے کہ صدر پیوٹن کی خواہش ہے کہ اسانج کو انسانی حقوق کے نوبل پرائز کے لیے نامزد کیا جائے۔

اسانج کی زندگی کے مطالعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس نے ایک مشکل زندگی گزاری اور ماں کے ساتھ در بدر پھرتا رہا، وہ باقاعدہ جدید تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہا مگر اپنی ذہانت کی بنا پر کمپیوٹر کو استعمال کیا یوں صحافت کے شعبے میں تحقیقاتی رپورٹنگ کے ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ کمپیوٹر کی ٹیکنالوجی کے ہتھیار کے ذریعے تحقیقاتی رپورٹنگ نے میڈیا میں خبروں کی اہمیت کو تبدیل کر دیا، اس رپورٹنگ کی بنا پر نہ صرف امریکی حکومت کو خفت کا سامنا کرنا پڑا بلکہ پاکستان کی موجودہ حکومت کے علاوہ مختلف سیاسی جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ ، ایم کیو ایم، جمیعت علمائے اسلام، کے رہنمائوں کے مختلف نوعیت کے خیالات سے قارئین اور ناظرین کو آگاہی ہوئی۔ اسانج کی حمایت آزادی اظہار اور آزادی صحافت پر رکھنا ہر شخص کا فرض ہے اور ترقی پذیر ممالک سے تعلق رکھنے والے ہر فرد کو اسانج کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کرنا چاہیے۔
Load Next Story