جاوید ہاشمی صاحب آپ بھی
یہ جو ہر ملک اپنے اپنے یوم آزادی مناتا ہے ان کا کیا مقصد ہے اور دنیا کیا واقعی آزاد ہے؟
میں محترم جاوید ہاشمی کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہوں ۔ انھیں سچا ،کھرا اور باغی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مہذب سیاستدان بھی سمجھتا ہوں۔ مجھے یہ بھی معلوم ہے کہ سیاستدان ایک دوسرے کو برا بھلا بھی کہتے ہیں لیکن حالیہ ایک دو برس میں سیاستدانوں نے ایک دوسرے کی نجی زندگی کے بارے میں جو کلمات خیر ادا کیے، وہ شاید کسی محلے کے تھڑے پر بیٹھے ہوئے ماجھے ساجھے بھی کہتے ہوئے گبھرائیں گے۔ اب تو شہر اور صوبے کو بھی لپیٹ میں لیا جانے لگا۔ ہاشمی صاحب! آپ نے لاہور میں اپنے تیئں تحریک انصاف کے کارکنوں میں جوش و ولولہ پیدا کرنے کے لیے جو ''سنہرے'' الفاظ میاں شہباز کی طرف اچھالے، ایک لاہوریا ہونے کے ناتے، وہ میرے سینے میں تیر بن کر گڑھ گئے ہیں۔ مجھے آپ سے یہ امید نہیں تھی۔ آپ نے بھی شائستگی کا دامن چھوڑ دیا، گالم گلوچ کا راستہ اختیار کر لیا۔
شاید آپ کو یاد ہو، آپ اپنے گھر سے الیکشن ہار گئے تھے، میرے شہر لاہور نے آپ کو قومی اسمبلی میں پہنچانے کے لیے ووٹ دیے اور آپ نے انھیں کس نام سے پکارا' میں تو شرم کے مارے وہ الفاظ بھی یہاں نقل نہیں کر سکتا۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اس ملک کے ہر سیاستدان کا ظاہر کچھ ہے اور باطن میں کچھ اور چھپا ہوا ہے ۔اب مجھے سیاستدانوں کے'' اقوال زریں'' پڑھ اور سن کر حیرت نہیں ہو گی۔ واقعی ہم اخلاقی پستی کی آخریں حدوں کو چھو رہے ہیں۔ میں بہت افسردہ اور دکھی ہو گیا ہوں، مزید دل جلانے سے بہتر ہے کہ ملکی حالات پر میرے ایک 'نیم مستقل' قاری کا ایک خط آپ کے حضور پیش کر دوں ، ملاحظہ کریں اور مجھے اجازت دیں۔
محترم ایاز خان صاحب!
فقیر آپ کے کالم 'جستجو ' کا نیم مستقل قاری ہے اور وہ ان معنوں میں کہ جب آپ کسی ایسے موضوع پر لکھتے ہیں جو ناچیز کی پسند کے مطابق ہو تو ضرور پڑھتا ہوں ورنہ دوسری صورت میں کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کالم نگاروں کو بھگتانے کی وجہ سے پڑھنے سے گریز بھی برتنا پڑتا ہے اور ایسا تمام کالم نگاروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابھی چونکہ طالب علم ہوں اس لیے میری ترجیح یہ ہوتی ہے کہ جو آدمی زبان و بیان اور معلومات کے حساب سے زیادہ بہتر لکھ رہا ہو اسے پڑھا جائے یوں ایک تو اچھا جملہ لکھنے کا فن سیکھا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ذہنی پسماندگی کا بھی کچھ مداوا ممکن ہوتا ہے۔ غیر جانبداری کا عنصر بھی اب مفقود ہوتا جا رہا ہے اور ہر کالم نگار اپنا اپنا سچ لکھ رہا ہے۔ خیر آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کیسا بھلا آدمی ہے نہ سلام نہ کلام میں تیرا مہمان کے مصداق اپنا مدعا بیان کیے بنا یوں رواں ہو گیا ہے۔
تو صاحب اس تحریر کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ آج جب میں یہ حقیر سی تحریر لکھ رہا ہوں تو یہ دن ہے 14 اگست کا۔ بس ایک سناٹا سا طاری تھا اور ہے' پورے گائوں میں۔ زندگی ویسی کی ویسی ہے جیسی سال کے باقی 364 دن ہوتی ہے۔ کوئی جوش و خروش نہیں، کوئی جذبہ نہیں' افسردہ اور درماندہ چہرے۔ معلوم نہیں آپ کے شہر کا کیا حال ہے۔ کسی کو معلوم نہیں آج 14 اگست ہے زندگی باقی دنوں کی طرح مشکل ہے اور جمہوری حکومت ہو یا ڈکٹیٹر کی حکومت' گائوں کی سطح پر ہمیشہ کائی جمی رہتی ہے اور اس کے نیچے زندگی ڈبکیاں کھا رہی ہے۔ ہم بے شعور اور بے بصارت لوگوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ چونکہ آپ کے کالموں سے وطن پرستی کی جھلک ٹپکتی ہے سو یہ بکھری سی تحریر آپ کے گوش گزار کر رہا ہوں۔ اور آپ سے چند سوالات کی جسارت کرنا چاہ رہا ہوں۔ ایک سوال تو یہ ہے کہ یہ وطن پرستی کا نظریہ بھی کیا ایک سراب نہیں ہے؟
یہ جو ہر ملک اپنے اپنے یوم آزادی مناتا ہے ان کا کیا مقصد ہے اور دنیا کیا واقعی آزاد ہے؟ چند طبقات دنیا بھر میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے متحد ہیں، مزے سے زندگی گزار رہے ہیں اور ہم جیسے 99% فیصد احمقوں کی جنت میں خیالی پلائو پکا رہے ہیں۔ یہ کوئی نشہ آور ڈوز تو نہیں جو دنیا کے بڑے لوگوں نے ملکوں ملکوں لوگوں کو مختلف جعلی اور نام نہاد اصطلاحات بعنوان وطن پرستی' روایت پرستی' نسل' رنگ' صوبہ پرستی وغیرہ کی شکل میں کثیر تعداد میں دی ہوئی ہیں۔ سو ہم نشے بازوں کی طرح بڑھکیں لگا رہے ہیں اور وہ مزے کر رہے ہیں۔
میری بڑی خواہش ہے کہ میں دانش حاصل کروں لیکن چونکہ آج کل یہ زر سے حاصل کی جا سکتی ہے اس لیے میں بڑا مایوس ہوں کیونکہ میرے پاس یہ نہیں ہے۔ بڑا جی چاہتا ہے کہ شہر لاہور کی کسی درسگاہ میں داخلہ لوں' ابھی B.A کا امتحان پاس کیا ہے اور آگے پڑھنا خواب معلوم ہوتا ہے۔ دو پریشانیاں ہیں ایک تو یہ کہ میں اس بات کا فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ میں کس مضمون میں ماسٹر کروں تا کہ اپنی ازلی پیاس یعنی علمی تشنگی بجھا سکوں۔ دوم وہی مالیاتی مسئلہ۔ ایک بھکاری قوم کا ایک بھکاری نوجوان جو ایک بھکاری کالم نگار (بحیثیت ادائیگی قومی قرضہ) سے بھیک کی التجا کے لیے یہ مکتوب لکھتا ہے۔ کتنا بے بس ہے لاچار ہے۔
سوال نمبر2: حکومت6 ماہ پورے کرے گی یا نہیں؟
س 3: عدلیہ خطہ لکھوانے میں کامیاب ہو گی یا نہیں؟
س 4: نیٹو سپلائی سے خود کش دھماکوں کا کیا تعلق ہے؟
س5: قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کیا فرق ہے؟
س6: مولانا فضل الرحمان اور الطاف حسین میں تقابل کریں۔ اس تھیسس میں میری مدد کریں۔
س7: پاک آسٹریلیا سیریز کون جیتے گا؟
س8: کرپشن کا خاتمہ کیسے ہو گا؟
خاندانی منصوبہ بندی کا مستقبل' پولیو کے قطرے سازش تو نہیں' دینی مدارس اسلام کا قلعہ ہیں یا نہیں۔ شیخ رشید احمد اور عمران خان الائنس انتخابی سیاست میں کیا تبدیلی لائے گا۔ اداکارہ ریما کے بارے میں ستارے کیا کہتے ہیں اور وینا ملک کب بالی وڈ میں دھماکا کرے گی۔ انڈیا میں سرمایہ کاری سے ملکی صنعت کو کیا نقصان ہو گا' کراچی میں امن کب ہو گا عبدالستار ایدھی کو نوبل پرائز کب ملے گا' فحاشی و عریانی کی روک تھام میں ناکامی کیوں؟ آہ ابھی کتنے سوال اور پوچھنے تھے جن کے بارے میں جاننا 18 کروڑ نفوس کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لیکن وقت اور صفحے کی قلت آڑے آ گئی اور پاکستانی عوام اور ہم جیسے نوجوان بنیادی معاملات میں اتنے آسودہ حال ہیں' ہمیں تعلیم مل رہی ہے' انصاف روٹی' کپڑا' مکان مل رہا ہے سو ہم ان سوالوں کا جواب چاہتے ہیں۔ نیاز مند: شہزاد علیِ (موبائل نمبر0345-5808122) گائوں/ڈاکخانہ جعفر' تحصیل فتح جنگ، ضلع اٹک۔
اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ایسی درخواستیں جناب کو ہر روز موصول ہوتی ہیں۔ بہرحال مجھے بڑی امید تھی کہ B.A میں500 تک مارکس لے لوں گا لیکن 473 نمبر حاصل کر سکا ہوں اس لیے میں ان ذہین نوجوانوں کی فہرست میں نہیں آتا جن پر سرکار اور امراء نظر کرم فرماتے ہیں لیکن یقین جانیں مجھے یونیورسٹی میں بطور ریگولر طالب علم اکتساب علم کا بہت ارمان ہے۔ یہ تو تھی اپنی عرضی۔ ظاہر ہے بات آپ کی سمجھ میں آ چکی ہو گی۔ اب یہ بھی ہے کہ آپ نے کوئی ٹھیکہ نہیں لے رکھا کہ آپ بھکاریوں کی اپیلیں سنتے پھریں اور دوسروں سے ان محروموں کے لیے امداد کی درخواست کرتے پھریں۔
آپ ایک بڑے اخبار کے صحافی ہیں اور صحافیوں کا کام معاشرے کی غلط رسومات کا قلع قمع کرنا ہوتا ہے نہ کہ غربا و مساکین کے مسائل پر پریشان ہونا۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا نے عوام کو انصاف و امداد کے حصول کے لیے نئے افق دکھا دیے ہیں اس لیے ہر کوئی زیادہ سے زیادہ اچھا مظلوم بننے کی کوشش میں ہے تاکہ دام بھی وصول کرے ساتھ میں شہرت بھی پائے اور ان ایوانوں تک رسائی بھی جہاں عام حالات میں جانا تو درکنار سوچنا بھی کار سرکار میں بے جا دخل اندازی سمجھا جاتا ہے۔ چھوڑیں یہ میں کیا افسانوی اور لایعنی باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ اور وہ جو میں نے کہا تھا شروع میں کہ آپ سے چند سوالات کروں گا وہ تو درمیان ہی میں کہیں گول کر گیا ہوں۔
شاید آپ کو یاد ہو، آپ اپنے گھر سے الیکشن ہار گئے تھے، میرے شہر لاہور نے آپ کو قومی اسمبلی میں پہنچانے کے لیے ووٹ دیے اور آپ نے انھیں کس نام سے پکارا' میں تو شرم کے مارے وہ الفاظ بھی یہاں نقل نہیں کر سکتا۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اس ملک کے ہر سیاستدان کا ظاہر کچھ ہے اور باطن میں کچھ اور چھپا ہوا ہے ۔اب مجھے سیاستدانوں کے'' اقوال زریں'' پڑھ اور سن کر حیرت نہیں ہو گی۔ واقعی ہم اخلاقی پستی کی آخریں حدوں کو چھو رہے ہیں۔ میں بہت افسردہ اور دکھی ہو گیا ہوں، مزید دل جلانے سے بہتر ہے کہ ملکی حالات پر میرے ایک 'نیم مستقل' قاری کا ایک خط آپ کے حضور پیش کر دوں ، ملاحظہ کریں اور مجھے اجازت دیں۔
محترم ایاز خان صاحب!
فقیر آپ کے کالم 'جستجو ' کا نیم مستقل قاری ہے اور وہ ان معنوں میں کہ جب آپ کسی ایسے موضوع پر لکھتے ہیں جو ناچیز کی پسند کے مطابق ہو تو ضرور پڑھتا ہوں ورنہ دوسری صورت میں کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کالم نگاروں کو بھگتانے کی وجہ سے پڑھنے سے گریز بھی برتنا پڑتا ہے اور ایسا تمام کالم نگاروں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ابھی چونکہ طالب علم ہوں اس لیے میری ترجیح یہ ہوتی ہے کہ جو آدمی زبان و بیان اور معلومات کے حساب سے زیادہ بہتر لکھ رہا ہو اسے پڑھا جائے یوں ایک تو اچھا جملہ لکھنے کا فن سیکھا جا سکتا ہے اور اس کے ساتھ ذہنی پسماندگی کا بھی کچھ مداوا ممکن ہوتا ہے۔ غیر جانبداری کا عنصر بھی اب مفقود ہوتا جا رہا ہے اور ہر کالم نگار اپنا اپنا سچ لکھ رہا ہے۔ خیر آپ سوچ رہے ہوں گے یہ کیسا بھلا آدمی ہے نہ سلام نہ کلام میں تیرا مہمان کے مصداق اپنا مدعا بیان کیے بنا یوں رواں ہو گیا ہے۔
تو صاحب اس تحریر کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ آج جب میں یہ حقیر سی تحریر لکھ رہا ہوں تو یہ دن ہے 14 اگست کا۔ بس ایک سناٹا سا طاری تھا اور ہے' پورے گائوں میں۔ زندگی ویسی کی ویسی ہے جیسی سال کے باقی 364 دن ہوتی ہے۔ کوئی جوش و خروش نہیں، کوئی جذبہ نہیں' افسردہ اور درماندہ چہرے۔ معلوم نہیں آپ کے شہر کا کیا حال ہے۔ کسی کو معلوم نہیں آج 14 اگست ہے زندگی باقی دنوں کی طرح مشکل ہے اور جمہوری حکومت ہو یا ڈکٹیٹر کی حکومت' گائوں کی سطح پر ہمیشہ کائی جمی رہتی ہے اور اس کے نیچے زندگی ڈبکیاں کھا رہی ہے۔ ہم بے شعور اور بے بصارت لوگوں کا کوئی مستقبل نہیں۔ چونکہ آپ کے کالموں سے وطن پرستی کی جھلک ٹپکتی ہے سو یہ بکھری سی تحریر آپ کے گوش گزار کر رہا ہوں۔ اور آپ سے چند سوالات کی جسارت کرنا چاہ رہا ہوں۔ ایک سوال تو یہ ہے کہ یہ وطن پرستی کا نظریہ بھی کیا ایک سراب نہیں ہے؟
یہ جو ہر ملک اپنے اپنے یوم آزادی مناتا ہے ان کا کیا مقصد ہے اور دنیا کیا واقعی آزاد ہے؟ چند طبقات دنیا بھر میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے متحد ہیں، مزے سے زندگی گزار رہے ہیں اور ہم جیسے 99% فیصد احمقوں کی جنت میں خیالی پلائو پکا رہے ہیں۔ یہ کوئی نشہ آور ڈوز تو نہیں جو دنیا کے بڑے لوگوں نے ملکوں ملکوں لوگوں کو مختلف جعلی اور نام نہاد اصطلاحات بعنوان وطن پرستی' روایت پرستی' نسل' رنگ' صوبہ پرستی وغیرہ کی شکل میں کثیر تعداد میں دی ہوئی ہیں۔ سو ہم نشے بازوں کی طرح بڑھکیں لگا رہے ہیں اور وہ مزے کر رہے ہیں۔
میری بڑی خواہش ہے کہ میں دانش حاصل کروں لیکن چونکہ آج کل یہ زر سے حاصل کی جا سکتی ہے اس لیے میں بڑا مایوس ہوں کیونکہ میرے پاس یہ نہیں ہے۔ بڑا جی چاہتا ہے کہ شہر لاہور کی کسی درسگاہ میں داخلہ لوں' ابھی B.A کا امتحان پاس کیا ہے اور آگے پڑھنا خواب معلوم ہوتا ہے۔ دو پریشانیاں ہیں ایک تو یہ کہ میں اس بات کا فیصلہ نہیں کر پا رہا کہ میں کس مضمون میں ماسٹر کروں تا کہ اپنی ازلی پیاس یعنی علمی تشنگی بجھا سکوں۔ دوم وہی مالیاتی مسئلہ۔ ایک بھکاری قوم کا ایک بھکاری نوجوان جو ایک بھکاری کالم نگار (بحیثیت ادائیگی قومی قرضہ) سے بھیک کی التجا کے لیے یہ مکتوب لکھتا ہے۔ کتنا بے بس ہے لاچار ہے۔
سوال نمبر2: حکومت6 ماہ پورے کرے گی یا نہیں؟
س 3: عدلیہ خطہ لکھوانے میں کامیاب ہو گی یا نہیں؟
س 4: نیٹو سپلائی سے خود کش دھماکوں کا کیا تعلق ہے؟
س5: قومی اسمبلی اور سینیٹ میں کیا فرق ہے؟
س6: مولانا فضل الرحمان اور الطاف حسین میں تقابل کریں۔ اس تھیسس میں میری مدد کریں۔
س7: پاک آسٹریلیا سیریز کون جیتے گا؟
س8: کرپشن کا خاتمہ کیسے ہو گا؟
خاندانی منصوبہ بندی کا مستقبل' پولیو کے قطرے سازش تو نہیں' دینی مدارس اسلام کا قلعہ ہیں یا نہیں۔ شیخ رشید احمد اور عمران خان الائنس انتخابی سیاست میں کیا تبدیلی لائے گا۔ اداکارہ ریما کے بارے میں ستارے کیا کہتے ہیں اور وینا ملک کب بالی وڈ میں دھماکا کرے گی۔ انڈیا میں سرمایہ کاری سے ملکی صنعت کو کیا نقصان ہو گا' کراچی میں امن کب ہو گا عبدالستار ایدھی کو نوبل پرائز کب ملے گا' فحاشی و عریانی کی روک تھام میں ناکامی کیوں؟ آہ ابھی کتنے سوال اور پوچھنے تھے جن کے بارے میں جاننا 18 کروڑ نفوس کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے لیکن وقت اور صفحے کی قلت آڑے آ گئی اور پاکستانی عوام اور ہم جیسے نوجوان بنیادی معاملات میں اتنے آسودہ حال ہیں' ہمیں تعلیم مل رہی ہے' انصاف روٹی' کپڑا' مکان مل رہا ہے سو ہم ان سوالوں کا جواب چاہتے ہیں۔ نیاز مند: شہزاد علیِ (موبائل نمبر0345-5808122) گائوں/ڈاکخانہ جعفر' تحصیل فتح جنگ، ضلع اٹک۔
اور یہ بھی جانتا ہوں کہ ایسی درخواستیں جناب کو ہر روز موصول ہوتی ہیں۔ بہرحال مجھے بڑی امید تھی کہ B.A میں500 تک مارکس لے لوں گا لیکن 473 نمبر حاصل کر سکا ہوں اس لیے میں ان ذہین نوجوانوں کی فہرست میں نہیں آتا جن پر سرکار اور امراء نظر کرم فرماتے ہیں لیکن یقین جانیں مجھے یونیورسٹی میں بطور ریگولر طالب علم اکتساب علم کا بہت ارمان ہے۔ یہ تو تھی اپنی عرضی۔ ظاہر ہے بات آپ کی سمجھ میں آ چکی ہو گی۔ اب یہ بھی ہے کہ آپ نے کوئی ٹھیکہ نہیں لے رکھا کہ آپ بھکاریوں کی اپیلیں سنتے پھریں اور دوسروں سے ان محروموں کے لیے امداد کی درخواست کرتے پھریں۔
آپ ایک بڑے اخبار کے صحافی ہیں اور صحافیوں کا کام معاشرے کی غلط رسومات کا قلع قمع کرنا ہوتا ہے نہ کہ غربا و مساکین کے مسائل پر پریشان ہونا۔ لیکن الیکٹرانک میڈیا نے عوام کو انصاف و امداد کے حصول کے لیے نئے افق دکھا دیے ہیں اس لیے ہر کوئی زیادہ سے زیادہ اچھا مظلوم بننے کی کوشش میں ہے تاکہ دام بھی وصول کرے ساتھ میں شہرت بھی پائے اور ان ایوانوں تک رسائی بھی جہاں عام حالات میں جانا تو درکنار سوچنا بھی کار سرکار میں بے جا دخل اندازی سمجھا جاتا ہے۔ چھوڑیں یہ میں کیا افسانوی اور لایعنی باتیں لے کر بیٹھ گیا ہوں۔ اور وہ جو میں نے کہا تھا شروع میں کہ آپ سے چند سوالات کروں گا وہ تو درمیان ہی میں کہیں گول کر گیا ہوں۔