آئی ایم ایف معاہدہ دیرآید درست آید… معاشی چیلنجزسے نمٹنے کے لیے انقلابی اقدامات کرنا ہوں گے
ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہارِ خیال
پاکستان کو اس وقت شدید معاشی مسائل کا سامنا ہے جن سے نمٹنے کیلئے حکومت کام کر رہی ہے۔ دوست ممالک سے قرض لینے کے بعد حکومت نے آئی ایم ایف سے پیکیج لینے کے لیے تگو دو کی جس کے بعد حال ہی میں آئی ایم ایف اور حکومت پاکستان کے درمیان معاہدہ طے پایا جو تمام حلقوں میں زیر بحث ہے۔
اس اہم پیشرفت کو مدنظر رکھتے ہوئے ''آئی ایم ایف معاہدہ اور اس کے اثرات'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر معاشیات)
معیشت کے کچھ سیکٹرزگزشتہ کئی برسوں سے پستی کا شکار ہیں جبکہ بعض سیکٹرز کی ترقی ہوئی مگر اب وہ بھی مسائل کا شکار ہوچکے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018ء میں گروتھ ریٹ 4.7، 5.2 کے قریب تھا جو اب آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق 3.2 فیصد ہے اور یہ بھی امکان ہے کہ اگلے برس یہ 2.2 پر چلا جائے گاجس کے بعد اگر مزید کرائسس نہ آئے تو شاید یہ بہتری کی طرف جائے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تجارتی خسارہ ہے، ہماری برآمدات کم جبکہ درآمدات زیادہ ہورہی ہیں اور ہم جو تیل درآمد کر رہے ہیں وہ ایک بلین ڈالر ماہانہ کا خسارہ دے رہا تھا۔ میرے نزدیک معیشت کے تین حصے ہیں اور یہ تینوں ہی بہت زیادہ خراب ہیں۔ پہلا حصہ پرائیویٹ سیکٹر ہے جو انجن آف گروتھ ہے۔
اس شعبے نے گروتھ، پروڈکٹیویٹی اور ایکسپورٹ دینی ہے۔ اس کے اندر زرعی صنعت اور سروس سیکٹر بھی شامل ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں سروس سیکٹر کی گروتھ زراعت و صنعت سے زیادہ ہوگئی تھی اور اب وہ جی ڈی پی کا 66 فیصد ہے۔ اس سیکٹر نے گروتھ تو دے دی مگر برآمدات میںاضافہ نہیں ہوا۔غور طلب بات یہ ہے کہ ایسا ملک جس میں 66 فیصد افراد غیر تعلیم یافتہ ہیں ، شرح خواندگی بھی کم ہے، اس میںلوگ سروس سیکٹر کی گروتھ سے کس طرح فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کسی بھی حکومت نے زراعت کو ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔
ہمارے ہاں بیج کا مسئلہ ہے، چھوٹے و بڑے کاشتکاروں کے مسائل الگ ہیں جبکہ پانی کا مسئلہ بھی حل طلب ہے، حکومت کو فوڈ سکیورٹی پر کام کرنا ہوگا۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ صرف زراعت کو فروغ دینے سے معاشی مسائل حل ہوجائیں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 50 ہزار روپے کا ایک لیپ ٹاپ خریدنے کیلئے 10 من چاول ایکسپورٹ کرنا پڑتا ہے جسے اگانے میں 6 ماہ لگتے ہیں۔ آج ہمیں وہ مصنوعات چاہئیں جو روزانہ کی بنیاد پر ویلیو ایڈ کریں اور جن کی ایکسپورٹ بھی آسان ہو۔ میرے نزدیک جب تک صنعت کو فروغ نہیں ملے گا، اسے معیشت کی بنیاد نہیں بنایا جائے گا تب تک معاشی استحکام نہیں آسکتا۔
اس میں صرف روایتی صنعت نہیں بلکہ وہ انڈسٹری بھی چاہیے جو مشینری و پروڈیوسر گڈز تیار کرے۔ بڑی صنعت جمود کا شکار ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں جی ایس پی پلس کا سٹیٹس ملا مگر اس سے صرف ایک بلین کا فائدہ اٹھایا جاسکا کیونکہ ہماری کپیسٹی نہیں تھی۔ اس میں ایک اور مسئلہ زراعت سے متعلق ہے۔ جس جگہ کپاس اگتی تھی وہاں گنا لگا دیا گیاجو پانی بھی لیتا ہے اور اس کی وجہ سے کپاس کی فصل کو بھی مسئلہ ہے۔ ہمارا ایک اور اہم مسئلہ لیبر فورس کا ہے جو تعلیم یافتہ اور سکلڈ نہیں ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک تعلیم یافتہ سکلڈ لیبر فورس نہیں ہوگی تب تک پروڈکٹیویٹی بہتر نہیں ہوگی۔ ہماری یونیورسٹیوں کی یوتھ میں کام کی عادت نہیںاور نہ ہی جدت ہے۔
جب تک ہمارا تعلیمی نظام پروڈکٹیویٹی، تجزیاتی مہارت، ہاتھوں سے کام کرنے کی سکلز اور سٹیزن شپ کی تعلیم نہیں دے گا تب تک ہماری گروتھ میں مسائل رہیں گے۔ ہمارے شارٹ ٹرم مسائل انڈسٹری دور کر سکتی ہے جب کہ لانگ ٹرم مسائل کا حل ایجوکیشن میں ہے۔ میرے نزدیک مسائل کی بنیادی وجہ بڑی حکومت ہے جسے مراعات بھی زیادہ دی گئی ہیں اور وہ نااہل ہے۔ میری مراد سیاسی حکومت نہیں ایڈمنسٹریشن ہے۔ افسوس ہے کہ 19 ویں صدی کے اداروں اور قوانین کے ساتھ 21 ویں صدی میں جانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے مسائل ہیں، ہمیں اپنے اداروں، قوانین اور پالیسیوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف پرانے قرض واپس کرنے یا ری شیڈولنگ کے لیے قرض دیتا ہے اور سٹرکچرل ریفارمز و سختی پر زور دیتا ہے تاکہ ملک اپنے اخراجات کم کرتے ہوئے قرض واپس کرنے کی پوزیشن میں آجائے۔ آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے بعد ورلڈ بینک و دیگر مالیاتی ادارے بھی ہماری مدد کریں گے۔
آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہیں۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ سٹیٹ بینک کو آزاد کیا جائے۔ ٹیکس کولیکشن بڑھائی جائے تاکہ خسارہ کم ہو۔ میں اس نظام کے زیادہ حق میں نہیں ہوں۔ میرے نزدیک حکومت ہی کم ہوجانی چاہیے۔ ایک روپے کا 80 فیصد ضائع ہوجاتا ہے جسے کم کیا جانا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرے ، ڈویلپمنٹ پر زیادہ خرچ کرے۔ڈائریکٹ ٹیکس زیادہ اور اِن ڈائریکٹ ٹیکس کم کیا جائے۔ آئی ایم ایف کی فسکل و مانیٹری پالیسیاں تخفیفی ہیں۔ یہ دونوں سرمایہ دار کے حق میں نہیں ہیں۔
اگر ملازمتیں پیدا کرنی ہیں اور سرمایہ کاری لانی ہے تو ان ڈائریکٹ ٹیکس کم کرنا ہوں گے۔ حکومت کو علاقے بتا دینے چاہئیں کہ کہاں کونسی صنعت لگے گی اور پھر دنیا کو بتا کر مقابلے کی فضا پیدا کی جائے۔ ہمارے ملک میں ایک مسئلہ رہا ہے کہ ہم مافیا بناتے ہیں اور پسند نا پسند کی بنیاد پر کام کرتے ہیں لیکن مقابلے کی فضا نہیں بناتے۔ چھوٹی صنعت میں بہت زیادہ پوٹینشل ہے، اس کی گروتھ پر توجہ دی جائے اور اسے ایک سمت دی جائے تو بہتری آسکتی ہے۔ میں ہمیشہ سے ایمنسٹی سکیم کے خلاف ہوں۔ حالیہ ایمنسٹی سکیم کی ایک لائن کہ ٹیکس دیں اور سرمایہ کاری کریں، کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، اس سے شاید سرمایہ داروں کا اعتماد بحال ہوجائے تاہم میرے نزدیک جو ایک بار ٹیکس چوری کرتا ہے وہ بار بار کرے گا۔آئندہ بجٹ حکومت کی سمت کا تعین کرے گا اور اس سے معیشت پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔
عبدالرؤف مختار
( نائب صدر و ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)
آئی ایم ایف کے پاس فوری چلے جانا چاہیے تھا مگر اس میںتاخیر کے اثرات مہنگائی و خراب معاشی حالت کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ آئی ایم ایف اخراجات کم کرنے پر زور دیتا ہے لیکن ہمارے ہاں ماضی میں اخراجات کم کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کو غلط اعداد و شمار پیش کیے جاتے رہے جن کا نقصان ہوا اور خزانے پر بوجھ بڑھ گیا۔ گزشتہ دنوں بلاول بھٹو نے ایک بیان دیا کہ ہم نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف پیکیج کے برعکس 18 ہزار ملازمتیں دیں۔ جب ہم اخراجات کم نہیں کریں گے تو قرض کی رقم ادھر ہی خرچ ہوجائے گی اور نقصان دگنا ہوجائے گا۔ قرض لینے سے نقصان نہیں ہوتا، نقصان صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب آپ بینک پر مکمل انحصار کرلیں یا پھر قرض کی رقم غیر ضروی اخراجات کیلئے خرچ کی جائے۔
پاکستان زرعی ملک ہے۔ ہمارے پاس زمین و قدرتی وسائل موجود ہیں۔شوگر انڈسٹری کی وجہ سے کاٹن انڈسٹری متاثر ہوئی ہے۔ آج ہم چینی ایکسپورٹ کر رہے ہیں اور کپاس امپورٹ کر رہے ہیں جبکہ چینی پر حکومت سے ریبیٹ بھی لے رہے ہیں ۔ یہ ملک کے حق میں اچھا نہیں ہے۔ ملک میں پانی کا مسئلہ ہے۔ بے شمار ایسے علاقے موجود ہیں جہاں چھوٹے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں لہٰذا حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ آئل کے بعد ویجی ٹیبل آئل کی امپورٹ زیادہ ہے، ہم ملائشیا سے ویجی ٹیبل آئل لیتے ہیں جو ہم یہاں پیدا کرسکتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے ڈالر کو ڈیویلیو کیا۔ کوئی بھی ملک اس وقت ایسا کرتا ہے جب اس کی پیداوار زیادہ ہو اور وہ اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا چاہتا ہو تو پھر وہ ڈالر ڈیویلیوکرکے سیل لگاتا ہے۔ ہم نے ڈالر ڈیویلیو کیا تو ہماری برآمدات میں شدید کمی آگئی۔ مارچ 2019ء میں ہماری برآمدات 19.98بلین رہی جبکہ مارچ 2018ء میں 20.23بلین ایکسپورٹ تھی۔ اگر ڈالر میں اضافے کے ساتھ اس فرق کو دیکھا جائے توبرآمدات میں تقریباََ 40 فیصد کمی آئی ہے۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ اس مہنگائی کے طوفان میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ تنخواہ کم ہوگئی اور لوگوں کو ملازمتوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ حکومت کی جانب سے درآمدات زبردستی بند کی گئی ہیں۔
ہمیں جدید مشینری کی ضرورت ہے۔ نئے اکنامک زون بنائے جائیںاور انہیں جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک ٹیکنالوجی نہیں آئے گی اور ہماری کاروباری لاگت کم نہیں ہوگی تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ حکومت کو جدید مشینری پر ٹیکس کم کرنا چاہیے اور کم شرح سود پر مشینری کیلئے قرض دینے چاہئیں۔ زیادہ تر وہ اشیاء درآمد کی جارہی ہیں جن کا خام مال یہاں موجود ہے۔ بسکٹ، چاکلیٹ و دیگر ایسی بے شمار اشیاء پاکستان میں تیار کی جاسکتی ہیں لہٰذا ان کی درآمد پر زیادہ ڈیوٹی لگائی جائے۔ ملک میں 30 ملین امراء ہیں جو دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ تعداد ہے، اگر ان کی ضروریات کے پیش نظر امپورٹ ہونے والی اشیاء کو پاکستان میں ہی تیار کیا جائے تو اس سے بہتری آئے گی اور معیاری اشیاء بننے کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔
ایمنسٹی سکیم اچھی ہے، اس میں ٹیکس دینے کی بات کی گئی ہے، سرمایہ دار تو پہلے ہی ٹیکس دیتا ہے، ا س کا کچھ بھی مخفی نہیں ہے تاہم سوال یہ ہے کہ جن کے پاس کالا دھن ہے وہ اسے سفید کرنے اور ٹیکس دینے پر رضا مند ہوں گے؟ ملک میں صرف 14 لاکھ افراد ٹیکس دے رہے ہیں جن پر سارا بوجھ ہے، نادرا کے پاس سب کا ڈیٹا موجود ہے لہٰذا اس کی روشنی میں ٹھوس پالیسی بنانی چاہیے۔
ملک میں سکلڈ لیبر کی کمی ہے لہٰذا یہاں ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بنائے جائیں۔ ملک میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع نہیں ہیں جبکہ قابل لوگ دوسرے ممالک میں جا رہے ہیں لہٰذا تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو ماسٹر پلان بنانا ہوگا۔ اس حکومت سے لوگوں کو امیدیں وابستہ تھیں کیونکہ ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں تھا تاہم انہوں نے اپنی کارکردی سے عوام کو مایوس کیا، اب ٹیکنوکریٹس لائے جارہے ہیں، ہوسکتا ہے وہ معاملات ٹھیک کر لیں۔
آصف بیگ مرزا
( نمائندہ پاکستان سٹاک ایکسچینج )
1978ء میں چینی صدر نے چین کی ترقی کیلئے معاشی ماڈل دیا۔ انہوں نے صرف گروتھ پر توجہ دی چاہے اس سے ماحولیاتی آلودگی پیدا ہو یا کوئی اور مسئلہ ۔ چین کی آبادی زیادہ ہے لہٰذا ان کے لیے جی ڈی پی گروتھ ضروری تھی۔ اس ماڈل کو بعد میں آنے والے صدور نے بھی جاری رکھا اور 70 کروڑ چینی باشندوں کو خط غربت سے نکال کر تاریخ رقم کی گئی۔ چین کے موجودہ صدر نے دسمبر 2018ء میں ان ریفارمز کی 40 سالہ تقریب میں اس ماڈل کو سراہا مگر ایک نیا ویژن بھی دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 2018ء میںچینی معیشت کی گروتھ6.6 فیصد آئی جو گزشتہ 28 برس میں سب سے کم ہے۔ پچھلے 40 برسوں میں چین کا اوسط گروتھ ریٹ 7 فیصد سے زیادہ ہے۔ عالمی اداروں نے چین کی گروتھ 5.5 فیصد پر جانے کا عندیہ دیا ہے۔
دنیا کی گروتھ چین کی گروتھ پر انحصار کر رہی ہے۔ چینی معیشت سے آسٹریلوی ڈالر اور معیشت کا بہت اہم تعلق ہے، اسی طرح بے شمار ایسے ممالک ہے جن پر چین کا معاشی اتار چڑھاؤ اثر انداز ہوتا ہے۔ چین بہت سارے ممالک کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ سب سے زیادہ توانائی، سویابین وبے شمار دیگر اشیاء استعمال کرنے والا ملک ہے۔ اب چین نے نیا ویژن دیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم اننوویشن کریں گے اور نالج اکانومی کی طرف جائیں گے۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو مڈل انکم میں پھنسے رہیں گے۔ گزشتہ دنوں بلوم برگ میں ایک آرٹیکل چھپا لکھا گیا۔
جس میں کہا گیا کہ اگلی دہائی ایشیاء کی ہے۔ انہوں نے ''7 پرسنٹ گروتھ کلب'' دیا ہے جس میں بھارت، بنگلہ دیشن، میانمار، فلپائن، ویتنام و دیگر شامل ہیں۔ فی کس جی ڈی پی کے لحاظ سے بنگلہ دیش 2030ء میں بھارت سے آگے نکل جائے گا اور اس کا جی ڈی پی ساڑھے 5 ہزار ڈالر ہوگا۔ یہاں کہا گیا کہ آئی ایم ایف پیکیج تخفیفی ہے۔ سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کا اعلان ہر دو ماہ بعد ہوتا ہے۔ مئی کے آخر میں مانیٹری پالیسی آنے والی ہے، اس میںمعلوم ہوجائے گا کہ شرح سود کس طرف جاتی ہے اور آئی ایم ایف سے کیا معاہدہ ہوا۔ بھارت میں شرح سود کم ہوئی جبکہ ہم نے بڑھا دی۔ پاکستان اور بھارت کے بیس ریٹ میں 5 فیصد کا فرق ہے۔ ہم پونے 11 فیصد پر کھڑے ہیں جبکہ بھارت پونے چھ فیصد پر ہے۔
یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ایکسچینج ریٹ کو فری فلوٹ کر دیا جائے، اس سے شدید نقصان ہوگا، مہنگائی بڑھے گی، غربت میں اضافہ ہوگا، پروڈکشن کم ہوجائے گی اور معیشت کا پہیہ الٹا چلنا شروع ہوجائے گا لہٰذا حکومت کو فری فلوٹ کے بجائے ڈالر کو کنٹرول کرنا ہوگا۔چین نے کرنسی کو فری فلوٹ نہیں کیا بلکہ اپنے کنٹرول میں رکھا کیونکہ اگر فری فلوٹ کر دیں تو نقصان ہوگا اور اثر اس کی برآمدات پر پڑے گا۔ آئی ایم ایف سب سے سستا قرض دیتا ہے، حکومت کو ابتداء میں ہی آئی ایم ایف کے پاس چلے جانا چاہیے تھا مگر فیصلے میں تاخیر ہوئی لہٰذا اب آئندہ 2 سے 3 برس بہت مشکل ہوں گے۔ گروتھ ریٹ میں تیزی سے کمی آرہی ہے جس سے بے روزگاری و دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں، حکومت کو اس پر کام کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ محصولات وصولی میں اضافہ کرنا ہوگا۔
ہمیں چین کی طرح اپنے گروتھ ریٹ میں اضافے کے ساتھ ساتھ نالج اکانومی پر کام کرنا ہوگا، اس کے بغیر جدید دنیا کے ساتھ چلنا اور معیشت بہتر کرنا مشکل ہوگا۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکل کی فروخت میں کمی آئی ہے، اس کے علاوہ دیگر اشیاء بھی لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوگئی ہیں۔ پاکستان کی vendor انڈسٹری کو بھی کافی نقصان ہوا ہے جس کا اثر ملکی معیشت پر پڑرہا ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں تھا، انہو ں نے بہت زیادہ وقت ضائع کردیا۔ نجکاری کے حوالے سے نئے وزیر خزانہ کی کارکردگی بہتر ہے، حکومت کو خسارے میں جانے والے بڑے اداروں کی نجکاری کر دینی چاہیے، اس سے خزانے پر بوجھ کم ہوگا۔ افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں راتوں رات ہی پالیسیاں تبدیل کر دی جاتی ہیںجو کسی کے حق میں اور کسی کے نقصان میں ہوتی ہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان ہے، دنیا ان اعداد و شمار کو دیکھ رہی ہے، ہم تمام عالمی ریٹنگز میں منفی میں چلے گئے ہیں۔ حکومت کو پائیدار اور جامع معاشی پالیسی بنا کر اس پر عملدرآمد کروانا ہوگا۔
رحمت اللہ جاوید
( فاؤنڈر سیکرٹری جنرل سارک چیمبرو فاؤنڈنگ ممبر سمیڈا)
آئی ایم ایف کے پاس جانا تھا تو پہلے کیوں نہیں گئے؟حکومت کے بروقت فیصلے نہ کرنے کا خمیازہ سب بھگت رہے ہیں۔ اگر پہلے ہی آئی ایم ایف کے پاس چلے جاتے تو آج صورتحال اتنی خراب نہ ہوتی۔ 3 سال میں آئی ایم ایف سے 6بلین ڈالر کا قرض لینے کا مطلب ہے کہ ان کی رقم انہیں ہی واپس کی جائے گی جبکہ ملک پر کچھ خرچ نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کے دعووے بلند تھے مگر ثابت ہوا کہ ان کا ہوم ورک نہیں تھا ورنہ ملکی معاملات بہتر کرنے کیلئے اتنا عرصہ کافی ہوتا ہے۔ اسد عمر ایڈمنسٹریٹیو تجربہ رکھتے ہیں، انہیں مالیاتی تجربہ نہیں تھا مگر انہیں وزیر خزانہ بنایا گیا جس سے معاملات خرابی کی طرف گئے۔ اب معیشت وتجارت مسائل کا شکار ہوچکی ہے، اگر بروقت فیصلے کیے جاتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔
آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فائدہ یہ ہے کہ اب ورلڈ بینک و دیگر مالیاتی اداروں کیلئے ہمارا راستہ کھلے گا تاہم اس میں مشکلات ضرور آئیں گی۔ آئی ایم ایف سے معاہدے سے قبل ہی تیل، بجلی و گیس کی قیمتوں میں بارہا اضافہ کیا گیا جبکہ ابھی مزید کیا جائے گا جس کا اثر عام آدمی سمیت تمام طبقات پر پڑ رہا ہے، معاشی بہتری کیلئے حکومت کو صنعت و تجارت کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ کاروباری لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے دوسرے ممالک کا مقابلہ کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے اخراجات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
بنگلہ دیش میں جو ترقی ہو رہی ہے اس کا ایک ہی سیکٹر ہے۔ ان کے پاس تو کپاس بھی نہیں ہے۔ کیا ہم اپنے ملک میں چیزیں درست نہیں کرسکتے؟ سب سے اہم عملدرآمد ہے۔ بدقسمتی سے اگر اچھے پروگرام بن بھی جاتے ہیں تو ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مسائل سنگین ہوجاتے ہیں۔ چھوٹی صنعت ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس وقت ملک میں 3.2 ملین SME کام کر رہی ہیں، بڑی صنعتیں و ادارے بینکوں سے اتنا زیادہ قرض لے لیتے ہیں کہ چھوٹی صنعت کیلئے رقم نہیں بچتی، اگر یہی صورتحال رہی تو وہ بند ہو جائیں گی لہٰذا ان کے مسائل حل کرنے کیلئے چھوٹی صنعتوں کی الگ وزارت بنائی جائے۔ آٹو انڈسٹری کے ساتھ آٹو پارٹس کے vendors منسلک ہیں، انہیں ریگولیٹ کیا جائے، اس سے فائدہ ہوگا۔ 1968ء میں ہمارا جی ڈی پی 7.5 فیصد تھا۔
معیشت مستحکم تھی، ہمارے کھیت لہلہاتے تھے، ہماری ایکسپورٹس بڑھ رہی تھیں اور دنیا یہ محسوس کر رہی تھی کہ عنقریب پاکستان ایشیئن ٹائیگر بن جائے گا مگر 2 ، 3 برس بعد ہم نے بریک لگا دی۔ ہم نے اپنی پالیسیاں دیگر ممالک کو دیں، کوریا نے ہماری پالیسیوں پر عملدرآمد کیا اور ترقی کر گیا۔ ہمارے ہاں گورننس کا مسئلہ ہے، ادارے کام نہیں کر رہے ۔ میرے نزدیک جب تک صوابدیدی اختیارات کو ختم نہیں کیا جائیگا تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ سٹیٹ بینک کو آزاد ادارہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ ہماری مانیٹری پالیسی کو مانیٹر کرتا ہے اور اسی کے ساتھ ہی ہماری معیشت، جی ڈی پی ، انکم و دیگر کا تعین ہوتا ہے۔ سٹاک ایکسچینج کے اعداد و شمار دنیا کے لیے پیمانہ ہیں کہ ہم کس نہج پر کام کر رہے ہیں ۔ سٹاک مارکیٹ ہزاروں پوائنٹس کے ساتھ مندی کی طرف جارہی ہے، اگر یہی صورتحال رہی تو ہمارا تاثر اچھا نہیں جائے گا اور ملک میں بیرونی سرمایہ کاری نہیںآئے گی۔ کاروباری طبقے پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے بلکہ ٹیکس کولیکشن کا دائرہ کار بڑھایا جائے۔ ٹیکس دہندہ کو عزت دینے کی ضرورت ہے، یہ ایف بی آر کا کلائنٹ ہے مد مقابل نہیں لہٰذا ٹیکس فرینڈلی ماحول بنایا جائے اس سے معیشت بہتر ہوگی۔ ملک میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کا فقدان ہے، اس طرف توجہ دی جائے کیونکہ اس کو فروغ دینے سے چھوٹی صنعت کو فروغ ملے گا۔
لگژری اشیاء، پرانی گاڑیوں و ایسی اشیاء کی امپورٹ نہ کی جائے جن کی ضرورت نہیں۔ یہ تمام چیزیں پاکستان میں بن سکتی ہیں۔ وہ اشیاء امپورٹ کی جائیں جو ایکسپورٹ کیلئے ضروری ہیں۔ برآمدی اشیاء کی تیاری کیلئے جوخام مال ضروری ہے اس کی ترجیحات بنائی جائیں اور ان پر ٹیکس کی چھوٹ دی جائے تاکہ انڈسٹری کا پہیہ چلے۔ ملکی ترقی کیلئے ہمیں ''میڈ ان پاکستان'' کو فروغ دینا ہوگا۔ ملک میں فوڈ سکیورٹی اور پانی کا مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ پالیسیوں پر عملدرآمد بھی یقینی بنایا جائے، یہ صنعتی فروغ کیلئے معاون ثابت ہوگا۔ ایمنسٹی سکیم اچھی ہے، اس سے کاروباری طبقے کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جن کے پاس نان ڈکلیئرڈ پیسہ ہے وہ یہاں لاکر سرمایہ کاری کریں، انہیں چند برسوں کے لیے ٹیکس میں چھوٹ و دیگر مراعات دی جائیں، اگر 10 سے 15بلین ڈالر بھی خزانے میں شامل ہوگئے تو آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی اداروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔
اس اہم پیشرفت کو مدنظر رکھتے ہوئے ''آئی ایم ایف معاہدہ اور اس کے اثرات'' کے موضوع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر معاشیات)
معیشت کے کچھ سیکٹرزگزشتہ کئی برسوں سے پستی کا شکار ہیں جبکہ بعض سیکٹرز کی ترقی ہوئی مگر اب وہ بھی مسائل کا شکار ہوچکے ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2018ء میں گروتھ ریٹ 4.7، 5.2 کے قریب تھا جو اب آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق 3.2 فیصد ہے اور یہ بھی امکان ہے کہ اگلے برس یہ 2.2 پر چلا جائے گاجس کے بعد اگر مزید کرائسس نہ آئے تو شاید یہ بہتری کی طرف جائے۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ تجارتی خسارہ ہے، ہماری برآمدات کم جبکہ درآمدات زیادہ ہورہی ہیں اور ہم جو تیل درآمد کر رہے ہیں وہ ایک بلین ڈالر ماہانہ کا خسارہ دے رہا تھا۔ میرے نزدیک معیشت کے تین حصے ہیں اور یہ تینوں ہی بہت زیادہ خراب ہیں۔ پہلا حصہ پرائیویٹ سیکٹر ہے جو انجن آف گروتھ ہے۔
اس شعبے نے گروتھ، پروڈکٹیویٹی اور ایکسپورٹ دینی ہے۔ اس کے اندر زرعی صنعت اور سروس سیکٹر بھی شامل ہیں۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں سروس سیکٹر کی گروتھ زراعت و صنعت سے زیادہ ہوگئی تھی اور اب وہ جی ڈی پی کا 66 فیصد ہے۔ اس سیکٹر نے گروتھ تو دے دی مگر برآمدات میںاضافہ نہیں ہوا۔غور طلب بات یہ ہے کہ ایسا ملک جس میں 66 فیصد افراد غیر تعلیم یافتہ ہیں ، شرح خواندگی بھی کم ہے، اس میںلوگ سروس سیکٹر کی گروتھ سے کس طرح فائدہ اٹھاسکتے ہیں۔ کسی بھی حکومت نے زراعت کو ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔
ہمارے ہاں بیج کا مسئلہ ہے، چھوٹے و بڑے کاشتکاروں کے مسائل الگ ہیں جبکہ پانی کا مسئلہ بھی حل طلب ہے، حکومت کو فوڈ سکیورٹی پر کام کرنا ہوگا۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ صرف زراعت کو فروغ دینے سے معاشی مسائل حل ہوجائیں گے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 50 ہزار روپے کا ایک لیپ ٹاپ خریدنے کیلئے 10 من چاول ایکسپورٹ کرنا پڑتا ہے جسے اگانے میں 6 ماہ لگتے ہیں۔ آج ہمیں وہ مصنوعات چاہئیں جو روزانہ کی بنیاد پر ویلیو ایڈ کریں اور جن کی ایکسپورٹ بھی آسان ہو۔ میرے نزدیک جب تک صنعت کو فروغ نہیں ملے گا، اسے معیشت کی بنیاد نہیں بنایا جائے گا تب تک معاشی استحکام نہیں آسکتا۔
اس میں صرف روایتی صنعت نہیں بلکہ وہ انڈسٹری بھی چاہیے جو مشینری و پروڈیوسر گڈز تیار کرے۔ بڑی صنعت جمود کا شکار ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں جی ایس پی پلس کا سٹیٹس ملا مگر اس سے صرف ایک بلین کا فائدہ اٹھایا جاسکا کیونکہ ہماری کپیسٹی نہیں تھی۔ اس میں ایک اور مسئلہ زراعت سے متعلق ہے۔ جس جگہ کپاس اگتی تھی وہاں گنا لگا دیا گیاجو پانی بھی لیتا ہے اور اس کی وجہ سے کپاس کی فصل کو بھی مسئلہ ہے۔ ہمارا ایک اور اہم مسئلہ لیبر فورس کا ہے جو تعلیم یافتہ اور سکلڈ نہیں ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جب تک تعلیم یافتہ سکلڈ لیبر فورس نہیں ہوگی تب تک پروڈکٹیویٹی بہتر نہیں ہوگی۔ ہماری یونیورسٹیوں کی یوتھ میں کام کی عادت نہیںاور نہ ہی جدت ہے۔
جب تک ہمارا تعلیمی نظام پروڈکٹیویٹی، تجزیاتی مہارت، ہاتھوں سے کام کرنے کی سکلز اور سٹیزن شپ کی تعلیم نہیں دے گا تب تک ہماری گروتھ میں مسائل رہیں گے۔ ہمارے شارٹ ٹرم مسائل انڈسٹری دور کر سکتی ہے جب کہ لانگ ٹرم مسائل کا حل ایجوکیشن میں ہے۔ میرے نزدیک مسائل کی بنیادی وجہ بڑی حکومت ہے جسے مراعات بھی زیادہ دی گئی ہیں اور وہ نااہل ہے۔ میری مراد سیاسی حکومت نہیں ایڈمنسٹریشن ہے۔ افسوس ہے کہ 19 ویں صدی کے اداروں اور قوانین کے ساتھ 21 ویں صدی میں جانے کی کوشش کی جارہی ہے جس کی وجہ سے مسائل ہیں، ہمیں اپنے اداروں، قوانین اور پالیسیوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ آئی ایم ایف پرانے قرض واپس کرنے یا ری شیڈولنگ کے لیے قرض دیتا ہے اور سٹرکچرل ریفارمز و سختی پر زور دیتا ہے تاکہ ملک اپنے اخراجات کم کرتے ہوئے قرض واپس کرنے کی پوزیشن میں آجائے۔ آئی ایم ایف سے قرض ملنے کے بعد ورلڈ بینک و دیگر مالیاتی ادارے بھی ہماری مدد کریں گے۔
آئی ایم ایف کی شرائط سخت ہیں۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ سٹیٹ بینک کو آزاد کیا جائے۔ ٹیکس کولیکشن بڑھائی جائے تاکہ خسارہ کم ہو۔ میں اس نظام کے زیادہ حق میں نہیں ہوں۔ میرے نزدیک حکومت ہی کم ہوجانی چاہیے۔ ایک روپے کا 80 فیصد ضائع ہوجاتا ہے جسے کم کیا جانا چاہیے۔ حکومت کو چاہیے کہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرے ، ڈویلپمنٹ پر زیادہ خرچ کرے۔ڈائریکٹ ٹیکس زیادہ اور اِن ڈائریکٹ ٹیکس کم کیا جائے۔ آئی ایم ایف کی فسکل و مانیٹری پالیسیاں تخفیفی ہیں۔ یہ دونوں سرمایہ دار کے حق میں نہیں ہیں۔
اگر ملازمتیں پیدا کرنی ہیں اور سرمایہ کاری لانی ہے تو ان ڈائریکٹ ٹیکس کم کرنا ہوں گے۔ حکومت کو علاقے بتا دینے چاہئیں کہ کہاں کونسی صنعت لگے گی اور پھر دنیا کو بتا کر مقابلے کی فضا پیدا کی جائے۔ ہمارے ملک میں ایک مسئلہ رہا ہے کہ ہم مافیا بناتے ہیں اور پسند نا پسند کی بنیاد پر کام کرتے ہیں لیکن مقابلے کی فضا نہیں بناتے۔ چھوٹی صنعت میں بہت زیادہ پوٹینشل ہے، اس کی گروتھ پر توجہ دی جائے اور اسے ایک سمت دی جائے تو بہتری آسکتی ہے۔ میں ہمیشہ سے ایمنسٹی سکیم کے خلاف ہوں۔ حالیہ ایمنسٹی سکیم کی ایک لائن کہ ٹیکس دیں اور سرمایہ کاری کریں، کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی، اس سے شاید سرمایہ داروں کا اعتماد بحال ہوجائے تاہم میرے نزدیک جو ایک بار ٹیکس چوری کرتا ہے وہ بار بار کرے گا۔آئندہ بجٹ حکومت کی سمت کا تعین کرے گا اور اس سے معیشت پر بڑے اثرات مرتب ہوں گے۔
عبدالرؤف مختار
( نائب صدر و ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)
آئی ایم ایف کے پاس فوری چلے جانا چاہیے تھا مگر اس میںتاخیر کے اثرات مہنگائی و خراب معاشی حالت کی صورت میں سامنے آئے ہیں۔ آئی ایم ایف اخراجات کم کرنے پر زور دیتا ہے لیکن ہمارے ہاں ماضی میں اخراجات کم کرنے کے بجائے آئی ایم ایف کو غلط اعداد و شمار پیش کیے جاتے رہے جن کا نقصان ہوا اور خزانے پر بوجھ بڑھ گیا۔ گزشتہ دنوں بلاول بھٹو نے ایک بیان دیا کہ ہم نے اپنے دور حکومت میں آئی ایم ایف پیکیج کے برعکس 18 ہزار ملازمتیں دیں۔ جب ہم اخراجات کم نہیں کریں گے تو قرض کی رقم ادھر ہی خرچ ہوجائے گی اور نقصان دگنا ہوجائے گا۔ قرض لینے سے نقصان نہیں ہوتا، نقصان صرف اس صورت میں ہوتا ہے جب آپ بینک پر مکمل انحصار کرلیں یا پھر قرض کی رقم غیر ضروی اخراجات کیلئے خرچ کی جائے۔
پاکستان زرعی ملک ہے۔ ہمارے پاس زمین و قدرتی وسائل موجود ہیں۔شوگر انڈسٹری کی وجہ سے کاٹن انڈسٹری متاثر ہوئی ہے۔ آج ہم چینی ایکسپورٹ کر رہے ہیں اور کپاس امپورٹ کر رہے ہیں جبکہ چینی پر حکومت سے ریبیٹ بھی لے رہے ہیں ۔ یہ ملک کے حق میں اچھا نہیں ہے۔ ملک میں پانی کا مسئلہ ہے۔ بے شمار ایسے علاقے موجود ہیں جہاں چھوٹے ڈیم بنائے جاسکتے ہیں لہٰذا حکومت کو اس طرف توجہ دینی چاہیے۔ آئل کے بعد ویجی ٹیبل آئل کی امپورٹ زیادہ ہے، ہم ملائشیا سے ویجی ٹیبل آئل لیتے ہیں جو ہم یہاں پیدا کرسکتے ہیں۔
موجودہ حکومت نے ڈالر کو ڈیویلیو کیا۔ کوئی بھی ملک اس وقت ایسا کرتا ہے جب اس کی پیداوار زیادہ ہو اور وہ اپنی برآمدات میں اضافہ کرنا چاہتا ہو تو پھر وہ ڈالر ڈیویلیوکرکے سیل لگاتا ہے۔ ہم نے ڈالر ڈیویلیو کیا تو ہماری برآمدات میں شدید کمی آگئی۔ مارچ 2019ء میں ہماری برآمدات 19.98بلین رہی جبکہ مارچ 2018ء میں 20.23بلین ایکسپورٹ تھی۔ اگر ڈالر میں اضافے کے ساتھ اس فرق کو دیکھا جائے توبرآمدات میں تقریباََ 40 فیصد کمی آئی ہے۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے جبکہ اس مہنگائی کے طوفان میں پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ ملازمین کی تنخواہ میں اضافہ نہیں ہوا بلکہ تنخواہ کم ہوگئی اور لوگوں کو ملازمتوں سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ حکومت کی جانب سے درآمدات زبردستی بند کی گئی ہیں۔
ہمیں جدید مشینری کی ضرورت ہے۔ نئے اکنامک زون بنائے جائیںاور انہیں جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے۔ ہمیں سمجھنا چاہیے کہ جب تک ٹیکنالوجی نہیں آئے گی اور ہماری کاروباری لاگت کم نہیں ہوگی تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ حکومت کو جدید مشینری پر ٹیکس کم کرنا چاہیے اور کم شرح سود پر مشینری کیلئے قرض دینے چاہئیں۔ زیادہ تر وہ اشیاء درآمد کی جارہی ہیں جن کا خام مال یہاں موجود ہے۔ بسکٹ، چاکلیٹ و دیگر ایسی بے شمار اشیاء پاکستان میں تیار کی جاسکتی ہیں لہٰذا ان کی درآمد پر زیادہ ڈیوٹی لگائی جائے۔ ملک میں 30 ملین امراء ہیں جو دنیا کے کئی ممالک سے زیادہ تعداد ہے، اگر ان کی ضروریات کے پیش نظر امپورٹ ہونے والی اشیاء کو پاکستان میں ہی تیار کیا جائے تو اس سے بہتری آئے گی اور معیاری اشیاء بننے کی وجہ سے ہماری ایکسپورٹ میں بھی اضافہ ہوگا۔
ایمنسٹی سکیم اچھی ہے، اس میں ٹیکس دینے کی بات کی گئی ہے، سرمایہ دار تو پہلے ہی ٹیکس دیتا ہے، ا س کا کچھ بھی مخفی نہیں ہے تاہم سوال یہ ہے کہ جن کے پاس کالا دھن ہے وہ اسے سفید کرنے اور ٹیکس دینے پر رضا مند ہوں گے؟ ملک میں صرف 14 لاکھ افراد ٹیکس دے رہے ہیں جن پر سارا بوجھ ہے، نادرا کے پاس سب کا ڈیٹا موجود ہے لہٰذا اس کی روشنی میں ٹھوس پالیسی بنانی چاہیے۔
ملک میں سکلڈ لیبر کی کمی ہے لہٰذا یہاں ووکیشنل ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ بنائے جائیں۔ ملک میں نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع نہیں ہیں جبکہ قابل لوگ دوسرے ممالک میں جا رہے ہیں لہٰذا تمام مسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کو ماسٹر پلان بنانا ہوگا۔ اس حکومت سے لوگوں کو امیدیں وابستہ تھیں کیونکہ ان کا کوئی ذاتی ایجنڈا نہیں تھا تاہم انہوں نے اپنی کارکردی سے عوام کو مایوس کیا، اب ٹیکنوکریٹس لائے جارہے ہیں، ہوسکتا ہے وہ معاملات ٹھیک کر لیں۔
آصف بیگ مرزا
( نمائندہ پاکستان سٹاک ایکسچینج )
1978ء میں چینی صدر نے چین کی ترقی کیلئے معاشی ماڈل دیا۔ انہوں نے صرف گروتھ پر توجہ دی چاہے اس سے ماحولیاتی آلودگی پیدا ہو یا کوئی اور مسئلہ ۔ چین کی آبادی زیادہ ہے لہٰذا ان کے لیے جی ڈی پی گروتھ ضروری تھی۔ اس ماڈل کو بعد میں آنے والے صدور نے بھی جاری رکھا اور 70 کروڑ چینی باشندوں کو خط غربت سے نکال کر تاریخ رقم کی گئی۔ چین کے موجودہ صدر نے دسمبر 2018ء میں ان ریفارمز کی 40 سالہ تقریب میں اس ماڈل کو سراہا مگر ایک نیا ویژن بھی دیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 2018ء میںچینی معیشت کی گروتھ6.6 فیصد آئی جو گزشتہ 28 برس میں سب سے کم ہے۔ پچھلے 40 برسوں میں چین کا اوسط گروتھ ریٹ 7 فیصد سے زیادہ ہے۔ عالمی اداروں نے چین کی گروتھ 5.5 فیصد پر جانے کا عندیہ دیا ہے۔
دنیا کی گروتھ چین کی گروتھ پر انحصار کر رہی ہے۔ چینی معیشت سے آسٹریلوی ڈالر اور معیشت کا بہت اہم تعلق ہے، اسی طرح بے شمار ایسے ممالک ہے جن پر چین کا معاشی اتار چڑھاؤ اثر انداز ہوتا ہے۔ چین بہت سارے ممالک کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ سب سے زیادہ توانائی، سویابین وبے شمار دیگر اشیاء استعمال کرنے والا ملک ہے۔ اب چین نے نیا ویژن دیا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ہم اننوویشن کریں گے اور نالج اکانومی کی طرف جائیں گے۔ اگر ایسا نہیں کریں گے تو مڈل انکم میں پھنسے رہیں گے۔ گزشتہ دنوں بلوم برگ میں ایک آرٹیکل چھپا لکھا گیا۔
جس میں کہا گیا کہ اگلی دہائی ایشیاء کی ہے۔ انہوں نے ''7 پرسنٹ گروتھ کلب'' دیا ہے جس میں بھارت، بنگلہ دیشن، میانمار، فلپائن، ویتنام و دیگر شامل ہیں۔ فی کس جی ڈی پی کے لحاظ سے بنگلہ دیش 2030ء میں بھارت سے آگے نکل جائے گا اور اس کا جی ڈی پی ساڑھے 5 ہزار ڈالر ہوگا۔ یہاں کہا گیا کہ آئی ایم ایف پیکیج تخفیفی ہے۔ سٹیٹ بینک کی مانیٹری پالیسی کا اعلان ہر دو ماہ بعد ہوتا ہے۔ مئی کے آخر میں مانیٹری پالیسی آنے والی ہے، اس میںمعلوم ہوجائے گا کہ شرح سود کس طرف جاتی ہے اور آئی ایم ایف سے کیا معاہدہ ہوا۔ بھارت میں شرح سود کم ہوئی جبکہ ہم نے بڑھا دی۔ پاکستان اور بھارت کے بیس ریٹ میں 5 فیصد کا فرق ہے۔ ہم پونے 11 فیصد پر کھڑے ہیں جبکہ بھارت پونے چھ فیصد پر ہے۔
یہ بہت بڑا نقصان ہے۔ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ایکسچینج ریٹ کو فری فلوٹ کر دیا جائے، اس سے شدید نقصان ہوگا، مہنگائی بڑھے گی، غربت میں اضافہ ہوگا، پروڈکشن کم ہوجائے گی اور معیشت کا پہیہ الٹا چلنا شروع ہوجائے گا لہٰذا حکومت کو فری فلوٹ کے بجائے ڈالر کو کنٹرول کرنا ہوگا۔چین نے کرنسی کو فری فلوٹ نہیں کیا بلکہ اپنے کنٹرول میں رکھا کیونکہ اگر فری فلوٹ کر دیں تو نقصان ہوگا اور اثر اس کی برآمدات پر پڑے گا۔ آئی ایم ایف سب سے سستا قرض دیتا ہے، حکومت کو ابتداء میں ہی آئی ایم ایف کے پاس چلے جانا چاہیے تھا مگر فیصلے میں تاخیر ہوئی لہٰذا اب آئندہ 2 سے 3 برس بہت مشکل ہوں گے۔ گروتھ ریٹ میں تیزی سے کمی آرہی ہے جس سے بے روزگاری و دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں، حکومت کو اس پر کام کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ محصولات وصولی میں اضافہ کرنا ہوگا۔
ہمیں چین کی طرح اپنے گروتھ ریٹ میں اضافے کے ساتھ ساتھ نالج اکانومی پر کام کرنا ہوگا، اس کے بغیر جدید دنیا کے ساتھ چلنا اور معیشت بہتر کرنا مشکل ہوگا۔ گاڑیوں اور موٹر سائیکل کی فروخت میں کمی آئی ہے، اس کے علاوہ دیگر اشیاء بھی لوگوں کی قوت خرید سے باہر ہوگئی ہیں۔ پاکستان کی vendor انڈسٹری کو بھی کافی نقصان ہوا ہے جس کا اثر ملکی معیشت پر پڑرہا ہے۔ موجودہ حکومت کے پاس کوئی پلان نہیں تھا، انہو ں نے بہت زیادہ وقت ضائع کردیا۔ نجکاری کے حوالے سے نئے وزیر خزانہ کی کارکردگی بہتر ہے، حکومت کو خسارے میں جانے والے بڑے اداروں کی نجکاری کر دینی چاہیے، اس سے خزانے پر بوجھ کم ہوگا۔ افسوس ہے کہ ہمارے ملک میں راتوں رات ہی پالیسیاں تبدیل کر دی جاتی ہیںجو کسی کے حق میں اور کسی کے نقصان میں ہوتی ہیں۔ سٹاک مارکیٹ میں مندی کا رجحان ہے، دنیا ان اعداد و شمار کو دیکھ رہی ہے، ہم تمام عالمی ریٹنگز میں منفی میں چلے گئے ہیں۔ حکومت کو پائیدار اور جامع معاشی پالیسی بنا کر اس پر عملدرآمد کروانا ہوگا۔
رحمت اللہ جاوید
( فاؤنڈر سیکرٹری جنرل سارک چیمبرو فاؤنڈنگ ممبر سمیڈا)
آئی ایم ایف کے پاس جانا تھا تو پہلے کیوں نہیں گئے؟حکومت کے بروقت فیصلے نہ کرنے کا خمیازہ سب بھگت رہے ہیں۔ اگر پہلے ہی آئی ایم ایف کے پاس چلے جاتے تو آج صورتحال اتنی خراب نہ ہوتی۔ 3 سال میں آئی ایم ایف سے 6بلین ڈالر کا قرض لینے کا مطلب ہے کہ ان کی رقم انہیں ہی واپس کی جائے گی جبکہ ملک پر کچھ خرچ نہیں ہوگا۔ تحریک انصاف کے دعووے بلند تھے مگر ثابت ہوا کہ ان کا ہوم ورک نہیں تھا ورنہ ملکی معاملات بہتر کرنے کیلئے اتنا عرصہ کافی ہوتا ہے۔ اسد عمر ایڈمنسٹریٹیو تجربہ رکھتے ہیں، انہیں مالیاتی تجربہ نہیں تھا مگر انہیں وزیر خزانہ بنایا گیا جس سے معاملات خرابی کی طرف گئے۔ اب معیشت وتجارت مسائل کا شکار ہوچکی ہے، اگر بروقت فیصلے کیے جاتے تو صورتحال مختلف ہوتی۔
آئی ایم ایف کے پاس جانے کا فائدہ یہ ہے کہ اب ورلڈ بینک و دیگر مالیاتی اداروں کیلئے ہمارا راستہ کھلے گا تاہم اس میں مشکلات ضرور آئیں گی۔ آئی ایم ایف سے معاہدے سے قبل ہی تیل، بجلی و گیس کی قیمتوں میں بارہا اضافہ کیا گیا جبکہ ابھی مزید کیا جائے گا جس کا اثر عام آدمی سمیت تمام طبقات پر پڑ رہا ہے، معاشی بہتری کیلئے حکومت کو صنعت و تجارت کے مسائل حل کرنا ہوں گے۔ کاروباری لاگت میں بہت زیادہ اضافہ ہوچکا ہے جس کی وجہ سے دوسرے ممالک کا مقابلہ کرنا ناممکن ہوگیا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے سے اخراجات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔
بنگلہ دیش میں جو ترقی ہو رہی ہے اس کا ایک ہی سیکٹر ہے۔ ان کے پاس تو کپاس بھی نہیں ہے۔ کیا ہم اپنے ملک میں چیزیں درست نہیں کرسکتے؟ سب سے اہم عملدرآمد ہے۔ بدقسمتی سے اگر اچھے پروگرام بن بھی جاتے ہیں تو ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا جس کی وجہ سے مسائل سنگین ہوجاتے ہیں۔ چھوٹی صنعت ملک کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اس وقت ملک میں 3.2 ملین SME کام کر رہی ہیں، بڑی صنعتیں و ادارے بینکوں سے اتنا زیادہ قرض لے لیتے ہیں کہ چھوٹی صنعت کیلئے رقم نہیں بچتی، اگر یہی صورتحال رہی تو وہ بند ہو جائیں گی لہٰذا ان کے مسائل حل کرنے کیلئے چھوٹی صنعتوں کی الگ وزارت بنائی جائے۔ آٹو انڈسٹری کے ساتھ آٹو پارٹس کے vendors منسلک ہیں، انہیں ریگولیٹ کیا جائے، اس سے فائدہ ہوگا۔ 1968ء میں ہمارا جی ڈی پی 7.5 فیصد تھا۔
معیشت مستحکم تھی، ہمارے کھیت لہلہاتے تھے، ہماری ایکسپورٹس بڑھ رہی تھیں اور دنیا یہ محسوس کر رہی تھی کہ عنقریب پاکستان ایشیئن ٹائیگر بن جائے گا مگر 2 ، 3 برس بعد ہم نے بریک لگا دی۔ ہم نے اپنی پالیسیاں دیگر ممالک کو دیں، کوریا نے ہماری پالیسیوں پر عملدرآمد کیا اور ترقی کر گیا۔ ہمارے ہاں گورننس کا مسئلہ ہے، ادارے کام نہیں کر رہے ۔ میرے نزدیک جب تک صوابدیدی اختیارات کو ختم نہیں کیا جائیگا تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے۔ سٹیٹ بینک کو آزاد ادارہ ہونا چاہیے کیونکہ یہ ہماری مانیٹری پالیسی کو مانیٹر کرتا ہے اور اسی کے ساتھ ہی ہماری معیشت، جی ڈی پی ، انکم و دیگر کا تعین ہوتا ہے۔ سٹاک ایکسچینج کے اعداد و شمار دنیا کے لیے پیمانہ ہیں کہ ہم کس نہج پر کام کر رہے ہیں ۔ سٹاک مارکیٹ ہزاروں پوائنٹس کے ساتھ مندی کی طرف جارہی ہے، اگر یہی صورتحال رہی تو ہمارا تاثر اچھا نہیں جائے گا اور ملک میں بیرونی سرمایہ کاری نہیںآئے گی۔ کاروباری طبقے پر مزید بوجھ نہ ڈالا جائے بلکہ ٹیکس کولیکشن کا دائرہ کار بڑھایا جائے۔ ٹیکس دہندہ کو عزت دینے کی ضرورت ہے، یہ ایف بی آر کا کلائنٹ ہے مد مقابل نہیں لہٰذا ٹیکس فرینڈلی ماحول بنایا جائے اس سے معیشت بہتر ہوگی۔ ملک میں ٹیکنیکل ایجوکیشن کا فقدان ہے، اس طرف توجہ دی جائے کیونکہ اس کو فروغ دینے سے چھوٹی صنعت کو فروغ ملے گا۔
لگژری اشیاء، پرانی گاڑیوں و ایسی اشیاء کی امپورٹ نہ کی جائے جن کی ضرورت نہیں۔ یہ تمام چیزیں پاکستان میں بن سکتی ہیں۔ وہ اشیاء امپورٹ کی جائیں جو ایکسپورٹ کیلئے ضروری ہیں۔ برآمدی اشیاء کی تیاری کیلئے جوخام مال ضروری ہے اس کی ترجیحات بنائی جائیں اور ان پر ٹیکس کی چھوٹ دی جائے تاکہ انڈسٹری کا پہیہ چلے۔ ملکی ترقی کیلئے ہمیں ''میڈ ان پاکستان'' کو فروغ دینا ہوگا۔ ملک میں فوڈ سکیورٹی اور پانی کا مسئلہ حل کرنے کی ضرورت ہے، اس کے ساتھ ساتھ پالیسیوں پر عملدرآمد بھی یقینی بنایا جائے، یہ صنعتی فروغ کیلئے معاون ثابت ہوگا۔ ایمنسٹی سکیم اچھی ہے، اس سے کاروباری طبقے کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی گئی ہے، جن کے پاس نان ڈکلیئرڈ پیسہ ہے وہ یہاں لاکر سرمایہ کاری کریں، انہیں چند برسوں کے لیے ٹیکس میں چھوٹ و دیگر مراعات دی جائیں، اگر 10 سے 15بلین ڈالر بھی خزانے میں شامل ہوگئے تو آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی اداروں کی ضرورت نہیں رہے گی۔