سندھ سیکڑوں دیہات میں سیلابی ریلا داخل ہوگیا
حیدرآباد میں متاثرین کا جگہ خالی کرنے سے انکار ، انتظامیہ نے لوگوں کو سیلاب کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا
سندھ میں سیکڑوں دیہات میں سیلابی پانی داخل ہوگیا، متاثرین کھلے آسمان تلے بے یارو مددگار پڑے ہیں۔
حیدرآباد سے نمائندہ ایکسپریس کے مطابق دریائے سندھ میں کوٹری بیراج کے مقام پر پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، سکھر بیراج پر پانی کی سطح میں کمی ہے جبکہ گدو بیراج پر پانی کی سطح میں ایک بار پھر اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ دوسری طرف دریا کے پاٹ میں واقع گوٹھوں میں پانی داخل ہوجانے کے باوجود وہاں کے لوگوں کو منتقل کرنے کے لیے متعلقہ انتظامیہ نے تاحال کوئی اقدامات نہیں کیے۔ دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں اضافے کے باعث سحرش نگر بچاؤ بند کے قریب دریا کے اندر قائم گل شاہ کالونی کے کئی مکانات میں پانی داخل ہوا تو متاثرہ افراد نے اپنی مدد آپ کے نقل مکانی کر کے پکے بندوں پر کھلے آسمان تلے منتقل ہونا شروع کردیا ہے۔
سیلابی صورتحال کے باوجود حیدرآباد کی ضلعی انتظامیہ نے آبادی کو وہاں سے ہٹانے کے بجائے انھیں سیلاب کے رحم وکرم پر چھوڑدیا لیکن متاثرین اب بھی جگہ خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ان کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ اگر حکومت انھیں پلاٹ فراہم کرے تو وہ یہ جگہ مستقل بنیادوں پر چھوڑ دیں گے۔ آ ن لائن کے مطابق پانی کی سطح میں مزید اضافہ ہونے کی وجہ سے گھوٹکی، سکھر، کشمور کے کئی کچے کے علاقے زیر آب اگئے اور وہاں پر ہزاروں ایکڑ پر فصلیں تباہ ہو گئیں ان علاقوں میں کئی لوگ ابتک پھنسے ہوئے ہیں تاہم پانی میں اضافے کی وجہ سے انتظامیہ اور ریسکیو ٹیموں کو امدادی کارروائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ نواب شاہ سے نمائندہ ایکسپریس کے مطابق دریائے سندھ میں ضلع نواب شاہ کی حدود میں اس وقت ساڑھے 3 لاکھ کیوسک پانی کا بہاؤ سکرنڈ کے قریب ہڈ منگلی کے مقام پر جاری ہے، محکمہ ایریگیشن نے مڈ بنگلو کے مقام پر 20 ہزار خالی بوریاں اور مڈ منگلی کے مقام پر 10 ہزار خالی بوریاں ہنگامی صورتحال کے لیے رکھی ہیں جبکہ ہیوی مشینری کو بھی اسٹینڈ بائی رکھا ہوا ہے۔
یہاں کچے کا وسیع علاقہ زیر آب آگیااور 30 سے زائد گوٹھ متاثرہیں۔ ضلع انتظامیہ نے کوئی امدادی کیمپ قائم نہیں کیا جبکہ ڈپٹی کمشنر مزمل ہالیپوٹہ نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ضلع بھر میں 20 امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں جبکہ متاثرہ گوٹھ حمزہ جتوئی کے مکینوں نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ضلع انتظامیہ کے دعوے جھوٹے ہیں ایک بھی امدادی کیمپ نہیں، سانپ کے کاٹے کی ویکسین تک دستیاب نہیں اور مویشی کو بھی حفاظتی ٹیکے نہیں لگائے گئے۔ سیہون سے نمائندہ ایکسپریس کے مطابق گاؤں شیرخان سولنگی کا رنگ بند ٹوٹ گیا، 300 سے زیادہ مکانات ڈوب گئے، ڈپٹی کمشنر جام شورو نے متاثرہ گاؤں کا دورہ کیا اور متاثرین کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ گاؤں میں پانی داخل ہونے کے بعد متاثرین نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنا سامان نکالا۔
بعد ازاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر ساجد جمال ابڑو نے کہا کہ تحصیل سیہون کے 10 گاؤں سیلابی پانی میں گھرے ہیں۔متاثرہ دیہات میں 12کشتیاں اور میڈیکل ٹیمیں کام کررہی ہیں۔ متاثرین کے لیے بوائز ڈگری کالج، مونو ٹیکنیکل کالج میں ریلیف کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔ میرپور پٹھورو سے نمائندہ ایکسپریس کے مطابق دریائے سندھ میں کوٹری کے مقام پر پانی کی سطح بلند ہونے سے پٹھورو کے کئی علاقوں میں پانی داخل ہونے سے علاقہ مکینوں نے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی شروع کردی۔ ضلع ٹھٹھہ کے کئی علاقوں میں پانی داخل ہوچکا ہے، علاقہ مکین راتیں جاگ کرگزارنے لگے ہیں محکمہ آب پاشی کی جانب سے ملان کا تیارسے لیکر شاہینہ کرتک 100 کلو میٹر میں آنے والے دریائی پشتوں جن میں ایم ایس کوٹ عالموں، سورجاتی سجاول، جی پی ٹھٹھہ اور متار کی چوہڑ جمالی شامل ہیں۔
ان پر سیلاب سے بچنے کے لیے کسی بھی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے اس وقت پشتوں کی حالت انتہائی خطرناک ہونے کے باعث پشتوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں۔ پانی کے دباؤکی صورت میں کسی بھی وقت ٹوٹ کر بڑی تباہی پھیلاسکتے ہیں۔ دوسری جانب دیہاتیوں نے بتایاکہ محکمہ آبپاشی والے پشتوں کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کررہے ہیں اور ہمیں دلاسے دے رہے ہیں کہ سیلاب نہیں آئے گا۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ بندوں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بندوں کے تحفظ کیلیے مختص کی گئی رقم میں کروڑوں روپے کی خوربرد کی گئی ہے اور صرف کاغذات کا پیٹ بھر دیا گیا ہے۔
حیدرآباد سے نمائندہ ایکسپریس کے مطابق دریائے سندھ میں کوٹری بیراج کے مقام پر پانی کی سطح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے، سکھر بیراج پر پانی کی سطح میں کمی ہے جبکہ گدو بیراج پر پانی کی سطح میں ایک بار پھر اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ دوسری طرف دریا کے پاٹ میں واقع گوٹھوں میں پانی داخل ہوجانے کے باوجود وہاں کے لوگوں کو منتقل کرنے کے لیے متعلقہ انتظامیہ نے تاحال کوئی اقدامات نہیں کیے۔ دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں اضافے کے باعث سحرش نگر بچاؤ بند کے قریب دریا کے اندر قائم گل شاہ کالونی کے کئی مکانات میں پانی داخل ہوا تو متاثرہ افراد نے اپنی مدد آپ کے نقل مکانی کر کے پکے بندوں پر کھلے آسمان تلے منتقل ہونا شروع کردیا ہے۔
سیلابی صورتحال کے باوجود حیدرآباد کی ضلعی انتظامیہ نے آبادی کو وہاں سے ہٹانے کے بجائے انھیں سیلاب کے رحم وکرم پر چھوڑدیا لیکن متاثرین اب بھی جگہ خالی کرنے کے لیے تیار نہیں ان کا صرف ایک مطالبہ ہے کہ اگر حکومت انھیں پلاٹ فراہم کرے تو وہ یہ جگہ مستقل بنیادوں پر چھوڑ دیں گے۔ آ ن لائن کے مطابق پانی کی سطح میں مزید اضافہ ہونے کی وجہ سے گھوٹکی، سکھر، کشمور کے کئی کچے کے علاقے زیر آب اگئے اور وہاں پر ہزاروں ایکڑ پر فصلیں تباہ ہو گئیں ان علاقوں میں کئی لوگ ابتک پھنسے ہوئے ہیں تاہم پانی میں اضافے کی وجہ سے انتظامیہ اور ریسکیو ٹیموں کو امدادی کارروائی میں مشکلات کا سامنا ہے۔ نواب شاہ سے نمائندہ ایکسپریس کے مطابق دریائے سندھ میں ضلع نواب شاہ کی حدود میں اس وقت ساڑھے 3 لاکھ کیوسک پانی کا بہاؤ سکرنڈ کے قریب ہڈ منگلی کے مقام پر جاری ہے، محکمہ ایریگیشن نے مڈ بنگلو کے مقام پر 20 ہزار خالی بوریاں اور مڈ منگلی کے مقام پر 10 ہزار خالی بوریاں ہنگامی صورتحال کے لیے رکھی ہیں جبکہ ہیوی مشینری کو بھی اسٹینڈ بائی رکھا ہوا ہے۔
یہاں کچے کا وسیع علاقہ زیر آب آگیااور 30 سے زائد گوٹھ متاثرہیں۔ ضلع انتظامیہ نے کوئی امدادی کیمپ قائم نہیں کیا جبکہ ڈپٹی کمشنر مزمل ہالیپوٹہ نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ضلع بھر میں 20 امدادی کیمپ قائم کیے گئے ہیں جبکہ متاثرہ گوٹھ حمزہ جتوئی کے مکینوں نے ایکسپریس نیوز کو بتایا کہ ضلع انتظامیہ کے دعوے جھوٹے ہیں ایک بھی امدادی کیمپ نہیں، سانپ کے کاٹے کی ویکسین تک دستیاب نہیں اور مویشی کو بھی حفاظتی ٹیکے نہیں لگائے گئے۔ سیہون سے نمائندہ ایکسپریس کے مطابق گاؤں شیرخان سولنگی کا رنگ بند ٹوٹ گیا، 300 سے زیادہ مکانات ڈوب گئے، ڈپٹی کمشنر جام شورو نے متاثرہ گاؤں کا دورہ کیا اور متاثرین کو ہر ممکن سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔ گاؤں میں پانی داخل ہونے کے بعد متاثرین نے اپنی مدد آپ کے تحت اپنا سامان نکالا۔
بعد ازاں پریس کانفرنس کرتے ہوئے ڈپٹی کمشنر ساجد جمال ابڑو نے کہا کہ تحصیل سیہون کے 10 گاؤں سیلابی پانی میں گھرے ہیں۔متاثرہ دیہات میں 12کشتیاں اور میڈیکل ٹیمیں کام کررہی ہیں۔ متاثرین کے لیے بوائز ڈگری کالج، مونو ٹیکنیکل کالج میں ریلیف کیمپس قائم کیے گئے ہیں۔ میرپور پٹھورو سے نمائندہ ایکسپریس کے مطابق دریائے سندھ میں کوٹری کے مقام پر پانی کی سطح بلند ہونے سے پٹھورو کے کئی علاقوں میں پانی داخل ہونے سے علاقہ مکینوں نے محفوظ مقامات کی طرف نقل مکانی شروع کردی۔ ضلع ٹھٹھہ کے کئی علاقوں میں پانی داخل ہوچکا ہے، علاقہ مکین راتیں جاگ کرگزارنے لگے ہیں محکمہ آب پاشی کی جانب سے ملان کا تیارسے لیکر شاہینہ کرتک 100 کلو میٹر میں آنے والے دریائی پشتوں جن میں ایم ایس کوٹ عالموں، سورجاتی سجاول، جی پی ٹھٹھہ اور متار کی چوہڑ جمالی شامل ہیں۔
ان پر سیلاب سے بچنے کے لیے کسی بھی قسم کے حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے اس وقت پشتوں کی حالت انتہائی خطرناک ہونے کے باعث پشتوں میں دراڑیں پڑنا شروع ہوگئی ہیں۔ پانی کے دباؤکی صورت میں کسی بھی وقت ٹوٹ کر بڑی تباہی پھیلاسکتے ہیں۔ دوسری جانب دیہاتیوں نے بتایاکہ محکمہ آبپاشی والے پشتوں کے حوالے سے کچھ بھی نہیں کررہے ہیں اور ہمیں دلاسے دے رہے ہیں کہ سیلاب نہیں آئے گا۔ علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ بندوں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بندوں کے تحفظ کیلیے مختص کی گئی رقم میں کروڑوں روپے کی خوربرد کی گئی ہے اور صرف کاغذات کا پیٹ بھر دیا گیا ہے۔