دو بیٹے ممتاز جرمن ڈرامانویس برتولت بریخت کی دوکہانیوں کا ترجمہ محمدخالد اختر کے قلم سے

اس نے کھنجے کے بھرپور وار سے جنون زدہ آدمی کو زمین پر گرا دیا۔فوٹو ایکسپریس

اس نے کھنجے کے بھرپور وار سے جنون زدہ آدمی کو زمین پر گرا دیا۔۔فوٹو ایکسپریس

جنوری 1945ء میں جب ہٹلر کی جنگ اپنے اختتام کے نزدیک آ رہی تھی' تھورنگیاں میں ایک دہقان کی بیوی نے خواب دیکھا کہ اس کا بیٹا فرنٹ پر اسے پکار رہا ہے۔ اور نیند کے خمار کی حالت میں صحن میں جانے پر اس نے یوں خیال کیا کہ وہ پمپ پر پانی پینے کھڑا ہے۔ جب اس نے اس سے بات کی' وہ جان گئی کہ وہ نوجوان جنگی قیدیوں میں سے ایک قیدی ہے جو کھیت پر بیگار میں کام کر رہے تھے۔ چند دن بعد اس کے ساتھ ایک عجیب واردات ہوئی۔ وہ ایک قریب کے جھنڈ میں قیدیوں کے لئے ان کا کھانا لے کر گئی جہاں وہ درختوں کے ٹھنٹھ اکھاڑ رہے تھے۔ لوٹتے وقت اس نے گردن پھیر کر دیکھا تو اس کی نظر پھر اسی جنگی قیدی پر پڑی (مریض سا جوان لڑکا) جو ایک مایوس کیفیت سے اپنے چہرے کو ایک کھانے کے ڈبے کی طرف موڑے تھا' جسے کوئی اس کے ہاتھ میں دے رہا تھا۔ اور یکبارگی اس قیدی کی شکل اس کے بیٹے کی شکل ہو گئی۔ پھر اگلے چند دنوں کے دوران وہ متعدد بار اس نوجوان کے چہرے کو اپنے بیٹے کے چہرے میں بدلنے اور فوراً اپنی اصلی شکل پر آ جانے کے تجربے سے دو چار ہوئی۔ پھر یہ قیدی بیمار پڑ گیا اور باڑے میں بغیر دیکھ بھال کے پڑا رہا۔ دہقان کی بیوی کے جی میں خواہش ابھری کہ وہ بیمار لڑکے کے لئے کچھ قوت بخش غذا لے کر جائے لیکن اسے اس کے بھائی نے روک دیا جو جنگ میں معذور ہو جانے کے بعد کھیت کا انتظام چلاتا تھا اور خاص طور پر ان دنوں جبکہ ہرایک چیز ٹوٹ پھوٹ رہی تھی اور گائوں والے قیدیوں سے خائف ہونے لگے تھے' قیدیوں سے وحشیانہ برتائو کر رہے تھے' دہقان کی بیوی آپ بھی بھائی کے دلائل کے آگے اپنے کان بند نہیں رکھ سکتی تھی۔ وہ ان نیچ انسانوں کی مدد کرنا درست نہیں سمجھتی تھی جن کے بارے میں اس نے خوفناک باتیں سنی تھیں۔ اسے ہر وقت اس بات کا دھڑکا رہتا تھا کہ خدا جانے دشمن اس کے بیٹے سے کیا سلوک کریں جو مشرقی فرنٹ پر لڑ رہا تھا۔ اس طرح وہ اس مصیبت زدہ جوان قیدی کی مدد کرنے کے اپنے ڈگمگاتے ارادے کو عملی جامہ پہنا نہ پائی تھی۔

ایک شام وہ اتفاقاً قیدیوں کی ایک ٹولی کے پاس سے گزری۔ وہ برس سے ڈھکے باغیچے میں سرگرم گفتگو میں محو تھے اور اس میں کوئی شک نہ تھا کہ وہ وہاں اسے خفیہ رکھنے کی خاطر سردی میں اکٹھے ہوئے تھے۔ نوجوان قیدی بھی ان میں بخار سے تھرتھراتا موجود تھا اور اپنی غایت درجہ کمزوری کی حالت کی وجہ سے وہی اس کے اچانک آجانے پر سب سے زیادہ چونکا۔ دہشت سے اس کا چہرہ پھر اسی عجیب تبدیلی کا مظہر ہو گیا اور عورت کو یوں لگا کہ وہ اپنے بیٹے کے چہرے کو دیکھ رہی ہے اور وہ بڑا خوفزدہ ہے۔ اس پر اس کا بڑا اثر ہوا اور گو اس نے کارِ فرض جان کر اس گفتگو کے ہونے کا حال اپنے بھائی کو جا بتایا' اس نے اپنے دل میں ٹھانی کہ اپنے منصوبے کے مطابق وہ چوری چھپے ان قیدی کو گوشت کا قتلہ پہنچا آئے گی۔ ہٹلر کی ''تیسری رائش'' کے دور میں بہت سے نیک کاموں کی طرح یہ کام بھی انتہائی مشکل اور پرظفر ثابت ہوا۔ یہ ایک ایسی دلیری کا کام تھا جس میں اس کا اپنا بھائی اس کا دشمن تھا اور وہ قیدیوں پر بھی اعتبار نہیں کر سکتی تھی۔ بایں ہمہ وہ اس میں کامیاب ہو گئی۔ ہاں' اس سے یہ پتا چل گیا کہ قیدی حقیقتاً فرار ہونے کی فکر میںنہیں' کیونکہ ہر روز سرخ فوجوں کی پیش قدمی سے قیدیوں کا یہ خدشہ بڑھ گیا تھا کہ ان کو مغرب کی سمت کو منتقل کر دیا جائے گا یا ختم کر دیا جائے گا۔ دہقان کی بیوی ان التجائوں پر د ھیان دیئے بغیر نہیں رہ سکتی تھی جو نوجوان قیدی (جس سے وہ اپنے عجیب تجربے کی وجہ سے بندھی ہوئی تھی) ہاتھ کے اشاروں اور جرمن زبان کے ٹوٹے پھوٹے لفظوں سے اس سے کرتا تھا اور اس طرح وہ آپ ہی آپ قیدیوں کے فرار کے منصوبے میں الجھتی چلی گئی۔ اس نے جوان قیدی کو ایک جیکٹ اور ایک بڑی قینچی مہیا کی۔ عجیب طور سے اس کے بعد سے وہ 'تبدیلی' پھر نہ ہوئی۔ وہ اب محض ایک جوان اجنبی کی مدد کر رہی تھی۔ سو اس کے لئے یہ اچھا خاصا جھٹکا تھا جب فروری کے آخری دنوں میں ایک صبح کسی نے کھڑکی پر دستک دی اور شیشے میں سے جھٹپٹے میں اس نے اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھا اور اس دفعہ وہ واقعی اس کا اپنا بیٹا تھا۔ وہ وافن ایس ایس کی پھٹی ہوئی وردی پہنے تھا۔ اس کے یونٹ کی تکا بوٹی ہو گئی تھی اور اس نے مضطرب لہجے میں بتایا کہ روسی اب گائوں سے چند ہی کلو میٹر دور رہ گئے ہیں۔ اس کی گھر واپسی کو سربستہ راز رہنا چاہئے۔ ایک نوع کی جنگی مشاورت میں' جو اوپر کی کوٹھری کے گوشے میں دہقان کی بیوی' اس کے بھائی اور اس کے بیٹے کے مابین ہوئی۔ یہ فیصلہ کیا گیا کہ سب سے پہلے انھیں قیدیوں سے جان چھڑانی چاہئے کیونکہ اس کا امکان تھا کہ انھوں نے ایس ایس والے آدمی (دہقان کی بیوی کے بیٹے) کو دیکھ لیا ہو اور بہر حال وہ اپنی فوج کے سامنے بدسلوکی کا رونا روئیں گے۔ قریب میں ہی ایک کان تھی۔ ایس ایس والا بیٹا بضد ہوا کہ راتوں رات وہ ایک ایک کر کے قیدیوں کو ورغلا کر باڑے سے باہر لے جائے گا اور مار دے گا۔ اس نے کہا کہ لاشوں کو پھر کان میں ٹھکانے لگایا جا سکتا ہے۔ ایسا کرنے سے پہلے انھیں الکوحل کا کچھ راشن دینا ہو گا۔ بھائی کا خیال تھا کہ یہ بات قیدیوں کو زیادہ عجیب یا خلاف معمول نہیں لگے گی کیونکہ چند دنوں سے وہ اور کھیت کے دوسرے ملازم روسیوں سے نہایت دوستانہ برتائو کرتے رہے تھے تاکہ وہ آخری وقت بھل منسئی سے ان کے دام میں آ جائیں اور کوئی گل نہ کھلائیں۔


جب نوجوان ایس ایس والا بیٹا اپنی تجویز کی وضاحت کر رہا تھا' اس نے اچانک اپنی ماں کو کپکپاتے دیکھا۔ مردوں نے فیصلہ کیا کہ کسی بھی حالت میں اسے پھر باڑے کے قریب نہ جانے دیا جائے۔ اس طرح خوف سے سرد ' وہ رات پڑنے کا انتظار کرتی رہی۔ روسیوں نے بظاہر برانڈی کے راشن کو شکریے سے قبول کر لیا اور دہقان کی بیوی نے انھیں بدمستی کے عالم میں اپنے غمناک گیت گاتے سنا۔ لیکن جب رات کو گیارہ بجے کے لگ بھگ اس کا بیٹا باڑے میں گیا تو قیدی جا چکے تھے۔ انھوں نے بدمست ہونے کا مکر کیا تھا۔ کھیت کے لوگوں کے انوکھے' غیر قدرتی مہربانی کے سلوک سے وہ حقیقت حال کو بھانپ گئے کہ سرخ فوج بہت قریب آ چکی ہو گی۔ روسی رات کے پچھلے پہر کے دوران آن پہنچے۔ بیٹا اوپر کی کوٹھری میں نشے میں دھت لیٹا ہوا تھا اور دہقان کی بیوی نے دہشت زدہ ہو کر اس کی ایس ایس والی وردی جلا دینے کی کوشش کی۔ اس کا بھائی بھی غین ہوا پڑا تھا۔ عورت کو ہی روسی سپاہیوں کا استقبال کرنا اور انھیں کھانا کھلانا پڑا۔ اس نے یہ سب کچھ ایک پتھر کے چہرے کے ساتھ کیا۔ روسی صبح سویرے چلے گئے۔ روسی فوج نے اپنی پیش قدمی جاری رکھی۔ بیٹے نے' جو بے خوابی سے بدحال ہو رہا تھا' مزید بانڈی مانگی۔ اس نے اپنے پختہ ارادرے کا اعلان کیا کہ وہ لڑتے رہنے کی خاطر پسپا ہوتی جرمن فوج کے یونٹوں تک پہنچنے کے لئے جا رہا ہے۔ دہقان کی بیوی نے اسے یہ سمجھانے کی کوشش نہ کی کہ اب لڑتے چلے جانا موت اور مکمل تباہی کے سوا کچھ نہیں۔ بے خوفی سے وہ اس کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی اور اس نے جسمانی طاقت کو بروے کار لا کر اسے باز رکھنے کی کوشش کی۔ بیٹے نے اسے پیچھے کو بھوسے پر دے پٹکا۔ جب وہ پھر اپنے پائوں پر کھڑی ہوئی تو اس نے دیکھا کہ اس کے ہاتھ میں ایک لکڑی کا کھنجا آ گ یا ہے اور اس نے کھنجے کے بھرپور وار سے جنون زدہ آدمی کو زمین پر گرا دیا۔

اسی صبح ایک دہقان کی بیوی پڑوس کی بستی میں روسی ہیڈ کوارٹر پر ایک چھکڑا ہنکا کر لائی اور اس نے اپنے بیٹے کو جو بیل باندھنے کی رسیوں میں جکڑا تھا' ایک جنگی قیدی کے طور پر روسیوں کے حوالے کر دیا تاکہ وہ (جیسا کہ اس نے ایک ترجمان کو سمجھانے کی کوشش کی) جیتا رہ جائے۔
Load Next Story