کیا ایران امریکا جنگ ناگزیر ہے

امریکا یہ بھی جانتا ہے کہ چین کو ایرانی تیل کی کتنی ضرورت ہے۔

جانے دیجیے یہ بحث کہ ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان ایرانی جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بارے میں چار برس پہلے امریکا کی طرف سے جس اوباما نے مشترکہ عالمی معاہدے پر دستخط کیے تھے۔اسی امریکا کے ٹرمپ کو آخر اس معاہدے میں ایسے کیا کیڑے نظر آنے لگے جو باقی ضمانتیوں ( فرانس، برطانیہ، جرمنی، روس، چین ) کو اب تک دکھائی نہیں دے رہے۔

اس بحث کا وقت بھی گذر گیا کہ قصور وار امریکا ہے جس نے سال بھر پہلے اس معاہدے سے یکطرفہ دستبرداری کا اعلان کر کے ایران کا ایک بار پھر اقتصادی حقہ پانی بند کرنا شروع کر دیا یا پھر قصور وار ایران ہے جس نے اس معاہدے کے بعد ڈھیلی ہونے والی اقتصادی پابندیوں کے نتیجے میں حاصل ہونے والی آمدنی کو اندرونِ ملک عام آدمی کی حالت بہتر بنانے کے بجائے اپنے علاقائی اثرونفوذ میں اضافے کی سیڑھی بنایا یا پھر امریکا کی جانب سے معاہدے سے یکطرفہ علیحدگی کے بعد تیل کی آمدنی میں مسلسل کمی کے سبب مغربی طاقتوں کو حال ہی میں خبردار کیا کہ اگر ساٹھ دن کے اندر جوہری معاہدے کے دیگر ضمانتیوں نے اس کی اقتصادی مشکلات کا شکنجہ ڈھیلا کرنے میں مدد نہ کی تو تنگ آمد ایران دوبارہ یورینیم کو ہتھیاروں کے معیار تک افزودہ کرنے کا کام شروع کر دے گا۔

یہ بحث بھی اب پرانی ہو چکی ہے کہ آیا سعودی عرب ، متحدہ عرب امارت اور اسرائیل امریکا کو جنگ پر اکسا رہے ہیں یا پھر واشنگٹن میں بیٹھے امریکی قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن اور وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو ٹائپ عہدیدار ٹرمپ کو سمجھا رہے ہیں کہ خدا نے انھیں امریکا کا صدر ہی اس لیے بنایا ہے کہ وہ اسرائیل اور دیگر عرب اتحادیوں کو محفوظ بنانے کے لیے ایران کو تباہ کر دیں۔

اب یہ دیکھنا ہے کہ خلیجِ فارس میں طیارہ بردار امریکی بحری بیڑے کی آمد ، بی باون بمبار طیاروں کو قطر اور امارات کے امریکی فضائی اڈوں پر اتارے جانے اور علاقے میں میزائل شکن پیٹریاٹ میزائلوں کی بیٹریاں پہنچانے اور چار آئل ٹینکروں کے سبوتاژ ہونے اور ایک سعودی تیل پائپ لائن پر ڈرون حملے اور سعودی عرب کی جانب سے خلیجی ریاستوں کا ہنگامی اجلاس بلائے جانے اور عراق سے غیر ضروری امریکی سفارتی عملے کی گھر واپسی کے سبب جو ماحول بن رہا ہے اس کے نتیجے میں ایران اور امریکا میں جنگ ہو گی کہ نہیں ؟

جو لوگ اس سوال کا جواب صدر ٹرمپ کی ٹویٹر ٹائم لائن میں ڈھونڈھ رہے ہیں وہ شائد تجزیاتی خسارے میں رہیں۔کیونکہ ٹرمپ کے بارے میں مشہور ہے کہ اگر انھوں نے رات کو سونے سے پہلے ٹویٹ کیا کہ شمالی کوریا کے ڈکٹیٹر کم یونگ ان ایک شریف آدمی ہیں تو ضروری نہیں کہ صبح جب ٹرمپ اٹھیں تو ان کے خیالات وہی ہوں۔عین ممکن ہے کہ صبح کا پہلا ٹویٹ یہ ہو کہ شمالی کوریا کا ڈکٹیٹر کم یونگ ان ایک لفنگا ہے اور میں اسے صرف ایک بٹن دبا کے تباہ کر سکتا ہوں۔

عین ممکن ہے دوپہر کو ٹرمپ ٹویٹ کر دیں کہ امریکا چین کی اسٹیل مصنوعات پر ڈھائی سو فیصد ڈیوٹی لگا رہا ہے اور شام کو ٹویٹ کر دیں کہ ژی زن پنگ ( چینی صدر ) بھائیوں جیسا ہے اس سے مل کر مسئلے کا حل نکل آئے گا۔قطعاً ضروری نہیں کہ ان دونوں ٹویٹس سے پہلے ٹرمپ نے اپنے سیکریٹری خزانہ یا تجارت کے سیکریٹری سے مشورہ کیا ہو۔اسی لیے کہتے ہیں کہ امریکا کی اس وقت دو خارجہ پالیسیاں ہیں۔ ایک وہ جسے ٹویٹر ہینڈل کرتا ہے اور دوسری وہ جو دفترِ خارجہ کا دردِ سر ہے۔

ٹرمپ کے ٹویٹ زدگان میں کوئی بھی اپنا پرایا ہو سکتا ہے۔جیسے امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو اسرائیلی عام انتخابات سے قبل جب وزیرِ اعظم نیتن یاہو سے یروشلم میں ملاقات کر رہے تھے تو اچانک ٹویٹر پر ایک لائن چمکی '' امریکا گولان کی پہاڑیوں کو اسرائیل کا حصہ تسلیم کرتا ہے''۔یہ لائن پڑھتے ہی پومپیو اور نیتن یاہو کو زور کا جھٹکا لگا۔نیتن یاہو کا منہ خوشی سے اور پومپیو کا منہ حیرت سے کھلا کا کھلا رہ گیا۔اور پھر دونوں نے مسکراتے ہوئے کندھے اچکا دیے۔( یہ روداد موقر اسرائیلی اخبار ہارتز میں شائع ہوئی )۔


ایران کے معاملے میں بھی ٹرمپ کے ٹویٹ پر بھروسہ کرنا اور یہ آنکڑا لگانا کہ جنگ ہوگی کہ نہیں تجزیاتی خودکشی کے برابر ہے۔مثلاً تین دن پہلے ایرانی وزیرِ خارجہ جواد ظریف نے کہا کہ کشیدگی ضرور ہے مگر جنگ کا امکان نہیں۔ ٹرمپ نے بھی ٹویٹ کیا کہ ایران پر دباؤ برقرار رہے گا مگر جنگ کی نوبت شائد نہ آئے۔لیکن کل ہی صدر ٹرمپ نے بالکل الٹ ٹویٹ کر دیا '' جنگ ہوئی تو اس کا مطلب ایران کا مکمل خاتمہ ہوگا''۔

سوال یہ ہے کہ دو دن میں ایسا کیا ہوگیا کہ ٹرمپ کا دماغ پھر الٹ گیا۔واشنگٹن ڈی سی میں مقیم الجزیرہ کی رپورٹر پیٹی کیلاہان نے اس ٹویٹ کی فارسی سمجھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ ممکن ہے ٹرمپ کے سامنے ایرانی عزائم کے بارے میں کچھ کلاسیفائیڈ معلومات رکھی گئی ہوں جنھیں پڑھ کے ان کا پارہ چڑھ گیا ہو۔یہ بھی ممکن ہے کہ انھوں نے کسی ٹی وی چینل پر ایران کے بارے میں کوئی ایسی رپورٹ دیکھ لی ہو جس سے ان کا دماغ گھوم گیا ہو۔

مگر ہوا میں شمشیر زنی اپنی جگہ۔کیا واقعی امریکا ایران کو براہ راست فوجی نشانہ بنائے گا؟ امریکا کو ایران کے ہمسائیہ ملک افغانستان سے نکلنے کی بھی عجلت ہے اور امریکا جانتا ہے کہ اس وقت ایران اور طالبان کی قربت پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔امریکا یہ بھی جانتا ہے کہ روس نہ صرف مشرقِ وسطی میں ایران کا سٹرٹیجک ساجھے دار ہے بلکہ ایران میں روس نے خاصی سرمایہ کاری بھی کر رکھی ہے۔

امریکا یہ بھی جانتا ہے کہ چین کو ایرانی تیل کی کتنی ضرورت ہے۔اور چین اور روس سے امریکا کے مجموعی تعلقات عدمِ اعتماد کے کس غار میں پڑے ہوئے ہیں۔ امریکا یہ بھی جانتا ہے کہ ایران کا شمالی ہمسائیہ ترکی قطر سعودی سرد جنگ میں کھل کے قطر کے ساتھ ہے اور ایران بھی اس ساجھے داری میں شریک ہے اور قطر ان ممالک میں سے ہے جن کی تحویل میں گیس کے سب سے بڑے عالمی ذخائر ہیں اور ایران ان ذخائر میں پارٹنر ہے۔جب کہ ناٹو کا رکن ہونے کے باوجود ترکی کی اس وقت امریکا کے بجائے روس سے گاڑھی چھن رہی ہے۔بلکہ ترکی تو بذاتِ خود امریکی اقتصادی پابندیوں کی زد میں ہے۔امریکا یہ بھی جانتا ہے کہ عراق پر اس کا اثر و نفوذ جتنا بھی گہرا سہی مگر تاریخی و مذہبی اعتبار سے ایران سے زیادہ گہرا نہیں ہو سکتا۔

امریکا یہ بھی جانتا ہے کہ جنگ کی صورت میں بھلے کامیابی امریکا ہی کی کیوں نہ ہو مگر خلیجی ریاستیں بشمول سعودی عرب اور ایران کا مشرقی ہمسائیہ پاکستان اس جنگ کے نتیجے میں جنم لینے والے اقتصادی جھٹکوں سے شائد بہت عرصے تک سنبھل نہ پائیں۔

اور سب سے بڑی بات کہ خلیجِ فارس اتنی چھوٹی ہے کہ اس میں ایک درمیانے درجے کی جنگ بھی آخری جنگ ہو گی۔چنانچہ میرا خیال ہے کہ گرج چمک کے ساتھ بوندا باندی کا تو امکان ہے مگر گہرے بادلوں کے باوجود موسلادھار بارش مشکل ہے۔

بھلے ٹرمپ صاحب کتنا بھی ٹوٹیاتے رہیں اور ایران کتنے بھی الٹی میٹم دیتا رہے اور سعودی عرب ، امارات و اسرائیل بطور چئیر لیڈر امریکی ہاتھی کو مست کرنے کے لیے کتنے بھی ٹھمکے لگا لیں۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
Load Next Story