میں شاید دنیا کا واحد امیدوار ہوں جس نے اپنے حریف کے پوسٹر اور بینر لگائے مسلم پرویز
’ایم کیو ایم‘ نے میرے کہنے پر لاؤڈ اسپیکر کا رخ بدل لیا، سیاسی اختلاف سمجھ بوجھ سے حل کرنا چاہیے
وہ محلے کی جس جامع مسجد میں نماز پڑھتے، وہیں وعظ ونصیحت کی محفل میں بھی شریک ہوتے۔۔۔ ایک مرتبہ وہاں کسی مذہبی تنظیم کے ایک معلم وعظ کرنے آئے، جنہوں نے اِن کا نام پرویزسنا تو تاکید کی کہ اپنا نام تبدیل کر لیں، انہوں نے بتایا کہ وہ اپنا نام تبدیل کرنے کی کوشش کر چکے، لیکن مختلف نصابی اور ہم نصابی سرگرمیوں کی بُہتیری اسناد میں ان کا یہی نام درج ہے، بہت سے کھیلوں کے مقابلوں کی اسناد تحسین میں ان کا نام لکھا ہوا ہے، اس لیے ایسا کرنا ممکن نہ ہو سکا، مگر وہ معلم بہ ضد رہے کہ انہیں اپنا نام تو ہر صورت میں تبدیل کرنا ہوگا۔
کہتے ہیں کہ اصرار کرتے ہوئے کہا گیا کہ 'اگر نام تبدیل کر لیں، تو چاہے کچھ بھی اعمال کرتے رہیں، جنت میں چلے جائیں گے۔' انہوں نے سوچا کہ 'بھلا یہ کیا بات ہوئی!' اس بات نے اتنا بد دل کیا کہ اُس محفل میں جانا ہی ترک کر دیا۔ اسی اثنا میں جماعت اسلامی سے وابستہ ایک صاحب نے اپنے پروگرام میں مدعو کیا، یوں اُن کی جماعت اسلامی میں شمولیت کا در کھلا۔ اس وقت وہ جناح کالج سے گریجویشن کر رہے تھے، پھر 'اسلامی جمعیت طلبہ' کا حصہ بھی بنے، جناح کالج میں جمعیت متعارف کرائی اور وہاں اس کے ناظم مقرر ہوئے، یہ 1970ء کا زمانہ تھا۔ اس وقت وہاں 'نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن' کے دو دھڑے کاظمی گروپ اور رشید گروپ بہت فعال تھے۔
یہ ذکر شہر کراچی کے دیرینہ سیاسی کارکن، سابق قائم مقام ناظم کراچی اور جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر مسلم پرویز کا ہے، جن سے ہماری گفتگو میں کئی جہتیں سامنے آئیں، گفتگو ان کی ابتدائی سیاسی زندگی سے شروع ہوئی، وہ جناح کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ کے 'داخلے' کا ذکر کر رہے تھے، کہتے ہیں کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہاں کے اکثر اساتذہ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے ولی خان اور بھاشانی گروپ سے وابستہ تھے، انہوں نے بھی ہمارے لیے رکاوٹیں ڈالیں، ایک مرتبہ تو سنا کہ دو اساتذہ 'جمعیت' کی آمد کو 'حملے' سے تعبیر کرتے ہوئے انہیں پس پا کرنے کا عزم ظاہر کر رہے تھے۔
وہاں جب طلبہ یونین کا انتخاب لڑنے کی کوشش کی، تو حسب توقع اس سے بھی روکا گیا، لہٰذا 'جمعیت' نے اپنی روایتی متبادل راہ کے طور پر مختلف امیدواروں کی حمایت کی، جس میں یہ ہوتا کہ امیدواروں سے باقاعدہ تحریری ضمانت لی جاتی کہ ہماری حمایت سے منتخب ہو کر آپ ہماری سرگرمیوں میں ممدو معاون ثابت ہوں گے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے وہاں صدر کے عہدے کے لیے کاظمی گروپ اور سیکریٹری کے لیے رشید گروپ کی حمایت کی۔ نتائج آئے تو تمام حمایت یافتہ ارکان منتخب ہوگئے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا وہاں اتنے جلدی اتنی حمایت حاصل ہوگئی تھی؟ تو مسلم پرویز نے اثبات میں جواب دیا کہ تب ماحول ہی ایسا تھا، 1970ء کے انتخابات ہونے والے تھے۔
'بائیں بازو کا متضاد نظریہ رکھنے والے آخر 'جمعیت' کو کس قسم کی معاونت فراہم کرتے؟' ہم نے حیران ہو کر استفسار کیا، وہ بولے کہ پورے کراچی میں ہمارا یہی متبادل طریقہ کار تھا۔ ہم اپنے حمایت یافتگان سے تحریری معاہدہ کرتے کہ جیتنے کے بعد وہ ہمارے پروگرام کو لے کر چلیں گے، ہماری سرگرمیاں کوئی خدانخواستہ قانون کے خلاف تو تھی نہیں۔۔۔'
'لیکن نظریاتی طور پر تو اُن سے بالکل متصادم تھیں؟' ہماری حیرانی کم نہ ہوئی تھی، وہ بولے کہ ہم درس قرآن، سیرت طیبہ کے پروگرام اور دینی کتب وغیرہ کی تقسیم کا کام کرتے۔ ہم سماج کی وسیع تر بہتری کو ذہن میں رکھ کر پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ ہم نے کہا جو مذہب کو افیون کے استعمال سے تشبیہ دیتے ہیں کیا وہ لوگ آپ کی مذہبی سرگرمیوں میں ہاتھ بٹاتے تھے؟ انہوں نے کہا بالکل ایسا ہوتا تھا۔
مسلم پرویز سیاست میں تشدد کو مجموعی طور پر سماج کی 'فرسٹریشن' کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'اُس زمانے میں ایسے تشدد کا تصور بھی نہ تھا، اختلاف رائے کا انداز بھی مہذبانہ ہوتا، اختلاف کرنے والے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ آج جب سخت گرمی میں ایک شخص بسوں کے دھکے کھاتا ہے، بس کی چھت پر بیٹھ کر بھی پورا کرایہ دے کر گھر لوٹے تو کبھی بجلی نہ ملے، کبھی پانی نہ ملے۔ بازار جائے، تو منہگائی ہو، اسپتال جائے تو علاج ٹھیک سے نہ ہو۔ جس حساب سے یہاں صورت حال خراب ہے، اس اعتبار سے تو ردعمل بہت کم ہے، لیکن پھر بھی یہی کہوں گا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ صرف سیاسی تشدد کی ہی بات کیوں کی جائے، ہمارے لوگ دنیا بھر میں غصے میں ساتویں نمبر پر ہیں، یہاں راہ چلتے لوگ ایک دوسرے سے بِھڑ جاتے ہیں۔' ہم نے مسلم پرویز سے اس بگاڑ کی شروعات کا پوچھا، تو وہ بولے کہ سماج میں کبھی بہترین صورت حال نہیں رہی، 1947ء میں تقسیم کے وقت جس قدر قتل وغارت ہوئی، اس میں لالچ، تعصب اور اخلاقی بگاڑ ہی تو تھا۔ یہ تو اُس وقت کا حال تھا۔
مسلم پرویز کے سیاسی عہدے کا ذکر ہوا، تو وہ بولے کہ جماعت اسلامی میں سب کارکن ہوتے ہیں، یہاں ذمہ داریاں ملتی اور بدلتی رہتی ہیں۔ منور حسن صاحب امیر جماعت رہے، آج وہ بھی ایک کارکن کے طور پر ہمارے ساتھ ہیں۔ میں ان دنوں جماعت اسلامی کراچی کا نائب امیر ہوں۔ اس سے پہلے میرے پاس زون کی امارت بھی رہی، 2001ء کے بلدیاتی انتخابات میں فیڈرل بی ایریا سے کونسلر منتخب ہوا اور شہری حکومت میں ناظم کراچی نعمت اللہ خان خان اور نائب ناظم طارق حسن کے بعد تیسرا درجہ میرا تھا، جسے میں عملاً 'ڈپٹی کنوینر' کہتا ہوں۔ ناظم شہر اور نائب ناظم کی عدم موجودگی میں دو مرتبہ قائم مقام ناظم کراچی کی ذمہ داری بھی نبھائی۔'
مقامی حکومت کے سابق عہدے دار کے طور پر ہم نے کراچی کی موجودہ بلدیاتی حکومت کے حوالے سے بات کی تو مسلم پرویز بولے کہ '2001ء کے بعد جو شہری انتظامیہ باقاعدہ ایک بلدیاتی حکومت تھی، جب آج ایک 'میونسپلیٹی' ہے، جیسی میونسپلیٹی عبدالستار افغانی اور ڈاکٹر فاروق ستار کی رہی تھی۔ میئر وسیم اختر سے ہماری گپ شپ رہتی ہے، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ موجودہ اختیارات کے تحت وہ کچھ زیادہ کام بھی کر سکتے تھے، جو نہ کر سکے اور اس کا سبب اختیارات نہ ہونے سے زیادہ ان کی اپنی جماعت کے اندرونی مسائل ہیں، ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ کے سبب میئر کی کارکردگی زیادہ متاثر ہوئی ہے۔'
مسلم پرویز کہتے ہیں کہ 18 ویں ترمیم کے بعد بلدیاتی نظام صوبائی شعبہ ہوگیا، ہر صوبے نے اپنا نظام بنا لیا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں 2001ء کا پولیس کا نظام قبول نہیں کیا گیا اور 2002ء میں ایک دوسر ا ایکٹ لایا گیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نچلی سطح پر اختیارات منتقل ہونے سے بدعنوانی بڑھتی ہے۔ یہ بات مجھے سمجھ میں نہیں آتی کہ کس طرح بڑھتی ہے، اگر یوسی کی سطح سے پولیس سے کام لیا جائے گا تو ایسی کیا بات ہے جو غلط ہے۔
ہم نے مسلم پرویز سے عام انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے استفسار کیا، تو انہوں نے بتایا کہ غالباً پہلی بار 1985ء کے عام انتخابات میں انہوں نے کاغذات نام زدگی داخل کیے تھے، اکثر ایسا ہوا کہ بوجوہ دست بَردار ہوگیا یا کبھی جماعت اسلامی نے ہی بائیکاٹ کر دیا، اس لیے باقاعدہ چناؤ میں حصہ لینے کی نوبت ہی نہ آئی۔
1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں مسلم پرویز کے مقابل نو آموز 'ایم کیو ایم' کے امیدوار شاہد لطیف تھے، کہتے ہیں کہ میں شاید دنیا کا واحد امیدوار ہوں گا، جو اپنے حریف کے پوسٹر اور بینر لگاتا تھا۔ تب وہ نئے لوگ تھے اور کام نہیں جانتے تھے۔ شاہد لطیف اور ان کے ساتھ کے سارے لوگ ہمارے ہم محلہ تھے، میرا ان سے محبت کا رشتہ تھا۔ میں جب اپنی مہم پر نکلتا تو وہ اپنے گھر چلے جاتے۔ ہمیں اپنی فتح کا یقین تھا، وہ لوگ خود بھی یہی کہتے کہ آپ جیت جائیں گے، مگر پھر وہ جتوائے گئے۔
ہم نے پوچھا کہ کیا آپ اس وقت کے لیے بھی یہ بات کہیں گے کہ جتوائے گئے؟ تو بولے کہ جتوانے کا ذریعہ صرف جعلی ٹھپے نہیں ہوتے، بلکہ اور بھی بہت سے طریقے ہیں، جیسے بڑے جلسے کرا دینا، انہیں بہت آگے بڑھایا گیا، اس وقت مہاجر حقوق پر ایک مخصوص خط بھی بہت تقسیم ہوا۔ ہمارے برابر کے حلقے سے ایم کیو ایم کے جعفر صاحب امیدوار تھے، مجھے یہ پیغام دیا گیا کہ اگر اُدھر جعفر صاحب کے حریف جماعت اسلامی کے امیدوار کو بٹھا دیں تو اِدھر ہم شاہد لطیف کو دست بردار کرا کے آپ کو یہ نشست دے دیں گے، گویا انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ جیت پائیں گے، تب ہی تو وہ اس طرح نشستوں کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بعد میں بھی شاہد لطیف میرے دفتر میں بیٹھے رہتے تھے، میرا کہنا یہ ہے کہ سیاسی مخالفت دشمنی میں نہیں بدلنا چاہیے۔
مسلم پرویز نے انکشاف کیا کہ متحدہ قومی موومنٹ سے اُن کا خاص تعلق آج بھی قائم ہے، وہ کہتے ہیں کہ انتخابات کے زمانے میں، میں ان کے دفتر کے آگے سے ریلی گزارتا ہوں، کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی، میں انہیں بتا دیتا ہوں کہ ہمارا یہ پروگرام ہے، اس لیے ذرا لاؤڈ اسپیکر کی آواز کا خیال رکھیں۔
ہم نے کہا شہر میں تو دونوں سیاسی جماعتوں میں بہت زیادہ تلخی اور کشیدہ صورت حال رہی؟ تو وہ بولے کہ میرے علاقے میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہمارا اُن سے اختلاف ہے، وہ اپنی جگہ پر ہے، لیکن احترام اور محبت بھی قائم ہے۔ فاروق ستار مجھے پکا نظریاتی کارکن کہہ کر تعارف کراتے ہیں۔
'پھر ایسا کیا ہو کہ دونوں طرف کے لوگ باقی شہر میں بھی ایسے ہم آہنگ ہو کر رہا کریں؟' ہم نے اُن سے تجویز لینا چاہی، تو انہوں نے دونوں جماعتوں کی مرکزی سطح پر ہم آہنگی کا ایک واقعہ سنایا، کہتے ہیں کہ یہ ایم کیو ایم کے بالکل عروج کی بات ہے، جب رمضان المبارک میں 'ٹی' گراؤنڈ میں ایم کیو ایم کے لیبر ڈویژن کی افطار کا اہتمام تھا، اور گراؤنڈ کے باہر ہمارا دعوت افطار، جس میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد بھی آرہے تھے۔
میں نے انہیں اپنا پروگرام بتایا اور کہا کہ وہ اپنے اسپیکر کا رخ ذرا دوسری طرف کر لیں، یہ ان کی محبت اور بھائی چارہ تھا کہ انہوں نے میری بات کو اچھی طرح سے نبھایا اور کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ اسی طرح ایک مرتبہ 'ٹی' گراؤنڈ میں ہی ایم کیو ایم کی سندھ بھر کی خواتین کا کوئی جلسہ ہو رہا تھا، دوسری طرف شاہ راہ قائدین پر ہمارے ایک جلسے کی تیاریوں کے سلسلے میں ایوب منزل پر ہمارا ایک کیمپ لگا ہوا تھا۔ ایم کیو ایم کے راہ نما عامر خان نے ہم سے کہا کہ ہم یہ کیمپ بند کر دیں، ہم نے کہا کہ ہماری جلسے کی مہم کل 12 بجے تک چل رہی ہے، اس لیے ہم اس کے بعد ہی یہ کیمپ ختم کریں گے، وہ ہماری بات مان گئے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ سیاسی اختلاف کو سمجھ بوجھ کے ساتھ حل کرنا چاہیے، اسے مار دھاڑ تک لایا ہی کیوں جائے۔ عام کارکنوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ باہم دست بہ گریباں کیوں ہوتے ہیں۔ یہاں پھر وہی سماج کی مجموعی عدم برداشت کی بات آجاتی ہے، اب تو دو سیاسی جماعتوں کو چھوڑیے، ایک تحریک انصاف کے جلسے میں بھی ان کے حامی آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔
مسلم پرویز کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بدعنوانی کی صورت حال یہ ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹور کا سامان عام دکانوں پر فروخت ہوتا ہے، حکومت کی یوٹیلیٹی اسٹور کے لیے ساڑھے چار ارب کی زرتلافی ضایع ہو جاتی ہے۔ حکومت کو معاشی مسائل حل کرنے کے لیے پیٹرول پر لیوی ڈیوٹی کم اور مختلف غیر ضروری زرتلافیوں کو ختم کرنا چاہیے۔
مسلم پرویز حکومتی وظیفے پر پوسٹ ہارویسٹ ٹیکنالوجی پر تعلیم کے لیے فلپائن اور یو کے گئے۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں ان کی مشاورتی کمیٹی کا حصہ رہے۔ 'پی ایس آئی' (پاکستان اسٹینڈرائزڈ سوسائٹی) میں چار سال بطور رکن شامل رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے 'فارن ریزرو فنڈز' کو پلیس بھی کرتے رہے۔
سیاسی مصروفیات کاروبار پر غالب ہیں
نائب امیر جماعت اسلامی، کراچی مسلم پرویز 22 ستمبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ وہ سات بہنیں اور تین بھائی تھے، جن میں سے اب چھے حیات ہیں۔ اُن کا تعلق دہلی کی راعیان برادری سے ہے، جسے آرائیں بھی کہا جاتا ہے، والد ہندوستان میں تجارت سے وابستہ تھے۔ یہاں ہجرت کے بعد ملازمت اختیار کی۔ 1966ء میں سینٹ پال اسکول سے میٹرک کے بعد ایس ایم سائنس کالج اور جناح کالج کے طالب علم رہے، پھر 2006ء میں جامعہ کراچی سے اِبلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا۔ کہتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے کا رجحان تھا، اخبارات و جرائد میں بہت سی چیزیں شایع ہوتی رہیں، لاتعداد کالم بھی شایع ہوئے، لیکن ان کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا۔ مسلم پرویز 1987ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، ایک بیٹی اور بیٹے کے والد ہیں۔ صاحب زادے انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 'اسلامی جمعیت طلبہ' سے وابستہ ہیں۔
مسلم پرویز نے تعلیم مکمل کر کے چھے، سات برس ایک بینک میں کام کیا، پھر 1982ء میں پھلوں کی تجارت کا آبائی پیشہ چُن لیا۔ پھلوں کا ذکر ہوا تو ہم گراں فروشی کا سوال کیے بنا نہ رہے سکے، وہ بولے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ گراں فروشی ہے، لیکن یہ ساری چیزیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ میں نے آم کی ایک پیٹی 70 روپے کی بھی لی ہے۔ کینو کی پیٹی 30 روپے میں بھی لی ہے، اب صورت حال یہ ہے کہ کینو کی خالی پیٹی ہی 80 روپے کی ہے۔ ابھی آڑو خریدے ہیں، جس کا خالی کارٹن ہی 100 روپے کا ہے، اب یہ ساری لاگت بھی تو اسی قیمت میں ہی شامل ہوگی۔ ہم سے کہا گیا کہ دام کم ہوں، مگر جب بولی لگائی، تو دام اوپر گئے، کیوں کہ یہ تو طلب اور رسد کا معاملہ ہے۔
ہم نے مسلم پرویز سے سیاست اور کاروبار میں وقت کی تقسیم پوچھی تو وہ بولے کہ سیاسی مصروفیت کے باعث دو ماہ بعد کاروبار کی طرف متوجہ ہو سکا۔ ہم سیاست نہیں، بلکہ جماعت اسلامی کا مشن سمجھ کر کام کرتے ہیں، اگر کوئی کسی مفاد کے لیے کام کرتا ہو تو کرتا ہو، مگر ہم اللہ کے نظام کا عہد کرتے ہیں۔ سماج میں جو بھی دیانت داری سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہے وہ دراصل اللہ کے نظام کے لیے کام کر رہا ہے۔ ہم نے آج کی سیاست کا بڑا مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے کہا ''ذاتی مفاد!'' پھر پوچھا کہ جماعت اسلامی کی جدوجہد سے اب تک کتنے مقاصد حاصل ہوئے؟ وہ بولے کہ ہم نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، ہمارا کام جدوجہد ہے، نتائج کا معاملہ تو اللہ پر ہے۔
مجھے اندازہ تھا کہ کراچی میں ہمیں ایک نشست ہی ملے گی!
کراچی کے نائب امیر ہونے کے ناتے ہم نے مسلم پرویز سے شہر میں جماعت اسلامی کی ناکامی کا ذکر کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پانی و بجلی جیسے مسائل پر جدوجہد کرنے کے باوجود پذیرائی نہ مل سکی؟ وہ کہتے ہیں کہ 'مجھے تو معلوم تھا، اور میں نے تو بتا بھی دیا تھا کہ ایک ہی نشست ملے گی اور وہی ہوا۔ میں خیالی دنیا میں نہیں رہتا، زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بات کرتا ہوں۔ مجھے تو اسی انتخابی نتائج کی توقع تھی۔' ہم نے پوچھا کہ زیادہ کی توقع کیوں نہ تھی؟ جس پر وہ بولے کہ عمران خان جدوجہد کر رہے تھے، پھر انہیں مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ کرا کے دیا گیا، اسی طرح 1985ء میں ایم کیو ایم کو لیاقت آباد، ڈاک خانے پر ایک جلسہ کرا کے دیا گیا، جس کے شرکا عوام میں سے نہ تھے۔
'تو کیا جماعت اسلامی کو بھی کام یابی کے لیے 'وہاں' سے مدد درکار ہوگی؟' ہم نے ان کے جواب سے ایک سوال تراشا۔ وہ بولے کہ مدد تو صرف اللہ کی چاہیے۔ اسے اگر قوم کی حالت بدلنا ہوئی، تو قوم کی بہتری چاہنے والے چاہیں تو کچھ کریں۔ اللہ کو اگر کام لینا ہو تو وہ کسی سے بھی لے لے گا۔ جماعت اسلامی تو اسلام کے پیغام اور سماج کی بھلائی کے لیے کام کر رہی ہے، ہمیں جب بھی موقع ملا ہم نے کام کر کے دکھایا۔ آج بھی جماعت کے وابستگان کو 'مشرقی پاکستان' میں پھانسیاں دی جا رہی ہیں، کشمیر کی جدوجہد میں بھی وہاں کی جماعت اسلامی سرگرم ہے، ایران کے انقلاب کے بعد یہاں سے سب سے پہلے جماعت اسلامی کو مدعو کیا گیا۔ الغرض فلسطین سے لے کر دنیا بھر تک جتنی بھی اسلامی تحریکیں ہیں، ان میں جماعت اسلامی اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔
کراچی کے مسائل آپریشن سے نہیں، بلکہ حل کرنے سے حل ہوں گے
2001ء میں کراچی کی ضلعی حکومت کا مرکزی حصہ اور قائم مقام ناظم کراچی رہنے والے مسلم پرویز سے جب یہ دریافت کرنا چاہا کہ اب تو آپریشن بھی ہو رہا ہے، مگر شہر کے بنیادی مسائل میں خاطر خواہ بہتری دکھائی نہیں دے رہی؟ تو وہ بولے کہ آپریشن سے کبھی مسائل حل نہیں ہوتے، ایسا سوچنا بھی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ مسئلے صرف حل کرنے سے ہی حل ہوتے ہیں۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ کراچی کے مسائل کو حل کیا جائے۔ یہاں پانی کا 'کے فور' کا منصوبہ ہمارے زمانے کا ابھی تک زیر التوا ہے، سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اسے دو سال میں مکمل کرنے کا عزم کیا، میں نے ان سے تب ہی کہا کہ یہ ایسے پورا نہیں ہوگا، دو سال میں تو لاگت اور بڑھ جائے گی۔ آپ میرے ساتھ اپنے کسی نمائندے کو لگائیں۔ میں چھے ماہ میں یہ مکمل کر کے دکھاتا ہوں۔ جب تک اس کا کام پورا نہ ہوگا، میں کیمپ سے نہیں اٹھوں گا۔ ایک مرتبہ سٹی کونسل میں بجٹ پیش کیا، جس کی منظور کے بعد 'ڈان' اخبار نے سرخی لگائی تھی کی پہلی بار کوئی بجٹ 'پن ڈراپ سائلنس' میں منظور ہوا۔ بات یہ ہے کہ جب آپ سچ بات کرتے ہیں، تو لوگ آپ کا ساتھ دیتے ہیں۔ بس اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
کہتے ہیں کہ اصرار کرتے ہوئے کہا گیا کہ 'اگر نام تبدیل کر لیں، تو چاہے کچھ بھی اعمال کرتے رہیں، جنت میں چلے جائیں گے۔' انہوں نے سوچا کہ 'بھلا یہ کیا بات ہوئی!' اس بات نے اتنا بد دل کیا کہ اُس محفل میں جانا ہی ترک کر دیا۔ اسی اثنا میں جماعت اسلامی سے وابستہ ایک صاحب نے اپنے پروگرام میں مدعو کیا، یوں اُن کی جماعت اسلامی میں شمولیت کا در کھلا۔ اس وقت وہ جناح کالج سے گریجویشن کر رہے تھے، پھر 'اسلامی جمعیت طلبہ' کا حصہ بھی بنے، جناح کالج میں جمعیت متعارف کرائی اور وہاں اس کے ناظم مقرر ہوئے، یہ 1970ء کا زمانہ تھا۔ اس وقت وہاں 'نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن' کے دو دھڑے کاظمی گروپ اور رشید گروپ بہت فعال تھے۔
یہ ذکر شہر کراچی کے دیرینہ سیاسی کارکن، سابق قائم مقام ناظم کراچی اور جماعت اسلامی کراچی کے نائب امیر مسلم پرویز کا ہے، جن سے ہماری گفتگو میں کئی جہتیں سامنے آئیں، گفتگو ان کی ابتدائی سیاسی زندگی سے شروع ہوئی، وہ جناح کالج میں اسلامی جمعیت طلبہ کے 'داخلے' کا ذکر کر رہے تھے، کہتے ہیں کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ وہاں کے اکثر اساتذہ نیشنل عوامی پارٹی (نیپ) کے ولی خان اور بھاشانی گروپ سے وابستہ تھے، انہوں نے بھی ہمارے لیے رکاوٹیں ڈالیں، ایک مرتبہ تو سنا کہ دو اساتذہ 'جمعیت' کی آمد کو 'حملے' سے تعبیر کرتے ہوئے انہیں پس پا کرنے کا عزم ظاہر کر رہے تھے۔
وہاں جب طلبہ یونین کا انتخاب لڑنے کی کوشش کی، تو حسب توقع اس سے بھی روکا گیا، لہٰذا 'جمعیت' نے اپنی روایتی متبادل راہ کے طور پر مختلف امیدواروں کی حمایت کی، جس میں یہ ہوتا کہ امیدواروں سے باقاعدہ تحریری ضمانت لی جاتی کہ ہماری حمایت سے منتخب ہو کر آپ ہماری سرگرمیوں میں ممدو معاون ثابت ہوں گے۔ اسلامی جمعیت طلبہ نے وہاں صدر کے عہدے کے لیے کاظمی گروپ اور سیکریٹری کے لیے رشید گروپ کی حمایت کی۔ نتائج آئے تو تمام حمایت یافتہ ارکان منتخب ہوگئے۔ ہم نے پوچھا کہ کیا وہاں اتنے جلدی اتنی حمایت حاصل ہوگئی تھی؟ تو مسلم پرویز نے اثبات میں جواب دیا کہ تب ماحول ہی ایسا تھا، 1970ء کے انتخابات ہونے والے تھے۔
'بائیں بازو کا متضاد نظریہ رکھنے والے آخر 'جمعیت' کو کس قسم کی معاونت فراہم کرتے؟' ہم نے حیران ہو کر استفسار کیا، وہ بولے کہ پورے کراچی میں ہمارا یہی متبادل طریقہ کار تھا۔ ہم اپنے حمایت یافتگان سے تحریری معاہدہ کرتے کہ جیتنے کے بعد وہ ہمارے پروگرام کو لے کر چلیں گے، ہماری سرگرمیاں کوئی خدانخواستہ قانون کے خلاف تو تھی نہیں۔۔۔'
'لیکن نظریاتی طور پر تو اُن سے بالکل متصادم تھیں؟' ہماری حیرانی کم نہ ہوئی تھی، وہ بولے کہ ہم درس قرآن، سیرت طیبہ کے پروگرام اور دینی کتب وغیرہ کی تقسیم کا کام کرتے۔ ہم سماج کی وسیع تر بہتری کو ذہن میں رکھ کر پروگرام ترتیب دیتے ہیں۔ ہم نے کہا جو مذہب کو افیون کے استعمال سے تشبیہ دیتے ہیں کیا وہ لوگ آپ کی مذہبی سرگرمیوں میں ہاتھ بٹاتے تھے؟ انہوں نے کہا بالکل ایسا ہوتا تھا۔
مسلم پرویز سیاست میں تشدد کو مجموعی طور پر سماج کی 'فرسٹریشن' کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ 'اُس زمانے میں ایسے تشدد کا تصور بھی نہ تھا، اختلاف رائے کا انداز بھی مہذبانہ ہوتا، اختلاف کرنے والے ساتھ اٹھتے بیٹھتے تھے۔ آج جب سخت گرمی میں ایک شخص بسوں کے دھکے کھاتا ہے، بس کی چھت پر بیٹھ کر بھی پورا کرایہ دے کر گھر لوٹے تو کبھی بجلی نہ ملے، کبھی پانی نہ ملے۔ بازار جائے، تو منہگائی ہو، اسپتال جائے تو علاج ٹھیک سے نہ ہو۔ جس حساب سے یہاں صورت حال خراب ہے، اس اعتبار سے تو ردعمل بہت کم ہے، لیکن پھر بھی یہی کہوں گا کہ یہ نہیں ہونا چاہیے۔ صرف سیاسی تشدد کی ہی بات کیوں کی جائے، ہمارے لوگ دنیا بھر میں غصے میں ساتویں نمبر پر ہیں، یہاں راہ چلتے لوگ ایک دوسرے سے بِھڑ جاتے ہیں۔' ہم نے مسلم پرویز سے اس بگاڑ کی شروعات کا پوچھا، تو وہ بولے کہ سماج میں کبھی بہترین صورت حال نہیں رہی، 1947ء میں تقسیم کے وقت جس قدر قتل وغارت ہوئی، اس میں لالچ، تعصب اور اخلاقی بگاڑ ہی تو تھا۔ یہ تو اُس وقت کا حال تھا۔
مسلم پرویز کے سیاسی عہدے کا ذکر ہوا، تو وہ بولے کہ جماعت اسلامی میں سب کارکن ہوتے ہیں، یہاں ذمہ داریاں ملتی اور بدلتی رہتی ہیں۔ منور حسن صاحب امیر جماعت رہے، آج وہ بھی ایک کارکن کے طور پر ہمارے ساتھ ہیں۔ میں ان دنوں جماعت اسلامی کراچی کا نائب امیر ہوں۔ اس سے پہلے میرے پاس زون کی امارت بھی رہی، 2001ء کے بلدیاتی انتخابات میں فیڈرل بی ایریا سے کونسلر منتخب ہوا اور شہری حکومت میں ناظم کراچی نعمت اللہ خان خان اور نائب ناظم طارق حسن کے بعد تیسرا درجہ میرا تھا، جسے میں عملاً 'ڈپٹی کنوینر' کہتا ہوں۔ ناظم شہر اور نائب ناظم کی عدم موجودگی میں دو مرتبہ قائم مقام ناظم کراچی کی ذمہ داری بھی نبھائی۔'
مقامی حکومت کے سابق عہدے دار کے طور پر ہم نے کراچی کی موجودہ بلدیاتی حکومت کے حوالے سے بات کی تو مسلم پرویز بولے کہ '2001ء کے بعد جو شہری انتظامیہ باقاعدہ ایک بلدیاتی حکومت تھی، جب آج ایک 'میونسپلیٹی' ہے، جیسی میونسپلیٹی عبدالستار افغانی اور ڈاکٹر فاروق ستار کی رہی تھی۔ میئر وسیم اختر سے ہماری گپ شپ رہتی ہے، میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ موجودہ اختیارات کے تحت وہ کچھ زیادہ کام بھی کر سکتے تھے، جو نہ کر سکے اور اس کا سبب اختیارات نہ ہونے سے زیادہ ان کی اپنی جماعت کے اندرونی مسائل ہیں، ایم کیو ایم کی ٹوٹ پھوٹ کے سبب میئر کی کارکردگی زیادہ متاثر ہوئی ہے۔'
مسلم پرویز کہتے ہیں کہ 18 ویں ترمیم کے بعد بلدیاتی نظام صوبائی شعبہ ہوگیا، ہر صوبے نے اپنا نظام بنا لیا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ یہاں 2001ء کا پولیس کا نظام قبول نہیں کیا گیا اور 2002ء میں ایک دوسر ا ایکٹ لایا گیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ نچلی سطح پر اختیارات منتقل ہونے سے بدعنوانی بڑھتی ہے۔ یہ بات مجھے سمجھ میں نہیں آتی کہ کس طرح بڑھتی ہے، اگر یوسی کی سطح سے پولیس سے کام لیا جائے گا تو ایسی کیا بات ہے جو غلط ہے۔
ہم نے مسلم پرویز سے عام انتخابات میں حصہ لینے کے حوالے سے استفسار کیا، تو انہوں نے بتایا کہ غالباً پہلی بار 1985ء کے عام انتخابات میں انہوں نے کاغذات نام زدگی داخل کیے تھے، اکثر ایسا ہوا کہ بوجوہ دست بَردار ہوگیا یا کبھی جماعت اسلامی نے ہی بائیکاٹ کر دیا، اس لیے باقاعدہ چناؤ میں حصہ لینے کی نوبت ہی نہ آئی۔
1987ء کے بلدیاتی انتخابات میں مسلم پرویز کے مقابل نو آموز 'ایم کیو ایم' کے امیدوار شاہد لطیف تھے، کہتے ہیں کہ میں شاید دنیا کا واحد امیدوار ہوں گا، جو اپنے حریف کے پوسٹر اور بینر لگاتا تھا۔ تب وہ نئے لوگ تھے اور کام نہیں جانتے تھے۔ شاہد لطیف اور ان کے ساتھ کے سارے لوگ ہمارے ہم محلہ تھے، میرا ان سے محبت کا رشتہ تھا۔ میں جب اپنی مہم پر نکلتا تو وہ اپنے گھر چلے جاتے۔ ہمیں اپنی فتح کا یقین تھا، وہ لوگ خود بھی یہی کہتے کہ آپ جیت جائیں گے، مگر پھر وہ جتوائے گئے۔
ہم نے پوچھا کہ کیا آپ اس وقت کے لیے بھی یہ بات کہیں گے کہ جتوائے گئے؟ تو بولے کہ جتوانے کا ذریعہ صرف جعلی ٹھپے نہیں ہوتے، بلکہ اور بھی بہت سے طریقے ہیں، جیسے بڑے جلسے کرا دینا، انہیں بہت آگے بڑھایا گیا، اس وقت مہاجر حقوق پر ایک مخصوص خط بھی بہت تقسیم ہوا۔ ہمارے برابر کے حلقے سے ایم کیو ایم کے جعفر صاحب امیدوار تھے، مجھے یہ پیغام دیا گیا کہ اگر اُدھر جعفر صاحب کے حریف جماعت اسلامی کے امیدوار کو بٹھا دیں تو اِدھر ہم شاہد لطیف کو دست بردار کرا کے آپ کو یہ نشست دے دیں گے، گویا انہیں یقین نہیں تھا کہ وہ جیت پائیں گے، تب ہی تو وہ اس طرح نشستوں کو ہم آہنگ کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ بعد میں بھی شاہد لطیف میرے دفتر میں بیٹھے رہتے تھے، میرا کہنا یہ ہے کہ سیاسی مخالفت دشمنی میں نہیں بدلنا چاہیے۔
مسلم پرویز نے انکشاف کیا کہ متحدہ قومی موومنٹ سے اُن کا خاص تعلق آج بھی قائم ہے، وہ کہتے ہیں کہ انتخابات کے زمانے میں، میں ان کے دفتر کے آگے سے ریلی گزارتا ہوں، کوئی گڑ بڑ نہیں ہوتی، میں انہیں بتا دیتا ہوں کہ ہمارا یہ پروگرام ہے، اس لیے ذرا لاؤڈ اسپیکر کی آواز کا خیال رکھیں۔
ہم نے کہا شہر میں تو دونوں سیاسی جماعتوں میں بہت زیادہ تلخی اور کشیدہ صورت حال رہی؟ تو وہ بولے کہ میرے علاقے میں ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہمارا اُن سے اختلاف ہے، وہ اپنی جگہ پر ہے، لیکن احترام اور محبت بھی قائم ہے۔ فاروق ستار مجھے پکا نظریاتی کارکن کہہ کر تعارف کراتے ہیں۔
'پھر ایسا کیا ہو کہ دونوں طرف کے لوگ باقی شہر میں بھی ایسے ہم آہنگ ہو کر رہا کریں؟' ہم نے اُن سے تجویز لینا چاہی، تو انہوں نے دونوں جماعتوں کی مرکزی سطح پر ہم آہنگی کا ایک واقعہ سنایا، کہتے ہیں کہ یہ ایم کیو ایم کے بالکل عروج کی بات ہے، جب رمضان المبارک میں 'ٹی' گراؤنڈ میں ایم کیو ایم کے لیبر ڈویژن کی افطار کا اہتمام تھا، اور گراؤنڈ کے باہر ہمارا دعوت افطار، جس میں امیر جماعت اسلامی قاضی حسین احمد بھی آرہے تھے۔
میں نے انہیں اپنا پروگرام بتایا اور کہا کہ وہ اپنے اسپیکر کا رخ ذرا دوسری طرف کر لیں، یہ ان کی محبت اور بھائی چارہ تھا کہ انہوں نے میری بات کو اچھی طرح سے نبھایا اور کوئی شکایت پیدا نہیں ہوئی۔ اسی طرح ایک مرتبہ 'ٹی' گراؤنڈ میں ہی ایم کیو ایم کی سندھ بھر کی خواتین کا کوئی جلسہ ہو رہا تھا، دوسری طرف شاہ راہ قائدین پر ہمارے ایک جلسے کی تیاریوں کے سلسلے میں ایوب منزل پر ہمارا ایک کیمپ لگا ہوا تھا۔ ایم کیو ایم کے راہ نما عامر خان نے ہم سے کہا کہ ہم یہ کیمپ بند کر دیں، ہم نے کہا کہ ہماری جلسے کی مہم کل 12 بجے تک چل رہی ہے، اس لیے ہم اس کے بعد ہی یہ کیمپ ختم کریں گے، وہ ہماری بات مان گئے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ سیاسی اختلاف کو سمجھ بوجھ کے ساتھ حل کرنا چاہیے، اسے مار دھاڑ تک لایا ہی کیوں جائے۔ عام کارکنوں کو بھی سوچنا چاہیے کہ وہ باہم دست بہ گریباں کیوں ہوتے ہیں۔ یہاں پھر وہی سماج کی مجموعی عدم برداشت کی بات آجاتی ہے، اب تو دو سیاسی جماعتوں کو چھوڑیے، ایک تحریک انصاف کے جلسے میں بھی ان کے حامی آپس میں لڑ پڑتے ہیں۔
مسلم پرویز کہتے ہیں کہ ہمارے ملک میں بدعنوانی کی صورت حال یہ ہے کہ یوٹیلیٹی اسٹور کا سامان عام دکانوں پر فروخت ہوتا ہے، حکومت کی یوٹیلیٹی اسٹور کے لیے ساڑھے چار ارب کی زرتلافی ضایع ہو جاتی ہے۔ حکومت کو معاشی مسائل حل کرنے کے لیے پیٹرول پر لیوی ڈیوٹی کم اور مختلف غیر ضروری زرتلافیوں کو ختم کرنا چاہیے۔
مسلم پرویز حکومتی وظیفے پر پوسٹ ہارویسٹ ٹیکنالوجی پر تعلیم کے لیے فلپائن اور یو کے گئے۔ بے نظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں ان کی مشاورتی کمیٹی کا حصہ رہے۔ 'پی ایس آئی' (پاکستان اسٹینڈرائزڈ سوسائٹی) میں چار سال بطور رکن شامل رہے۔ اس کے علاوہ اسٹیٹ بینک کے 'فارن ریزرو فنڈز' کو پلیس بھی کرتے رہے۔
سیاسی مصروفیات کاروبار پر غالب ہیں
نائب امیر جماعت اسلامی، کراچی مسلم پرویز 22 ستمبر 1952ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ وہ سات بہنیں اور تین بھائی تھے، جن میں سے اب چھے حیات ہیں۔ اُن کا تعلق دہلی کی راعیان برادری سے ہے، جسے آرائیں بھی کہا جاتا ہے، والد ہندوستان میں تجارت سے وابستہ تھے۔ یہاں ہجرت کے بعد ملازمت اختیار کی۔ 1966ء میں سینٹ پال اسکول سے میٹرک کے بعد ایس ایم سائنس کالج اور جناح کالج کے طالب علم رہے، پھر 2006ء میں جامعہ کراچی سے اِبلاغ عامہ میں ماسٹرز کیا۔ کہتے ہیں کہ لکھنے پڑھنے کا رجحان تھا، اخبارات و جرائد میں بہت سی چیزیں شایع ہوتی رہیں، لاتعداد کالم بھی شایع ہوئے، لیکن ان کا کوئی ریکارڈ نہیں رکھا۔ مسلم پرویز 1987ء میں رشتہ ازدواج سے منسلک ہوئے، ایک بیٹی اور بیٹے کے والد ہیں۔ صاحب زادے انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے 'اسلامی جمعیت طلبہ' سے وابستہ ہیں۔
مسلم پرویز نے تعلیم مکمل کر کے چھے، سات برس ایک بینک میں کام کیا، پھر 1982ء میں پھلوں کی تجارت کا آبائی پیشہ چُن لیا۔ پھلوں کا ذکر ہوا تو ہم گراں فروشی کا سوال کیے بنا نہ رہے سکے، وہ بولے کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ گراں فروشی ہے، لیکن یہ ساری چیزیں ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔ میں نے آم کی ایک پیٹی 70 روپے کی بھی لی ہے۔ کینو کی پیٹی 30 روپے میں بھی لی ہے، اب صورت حال یہ ہے کہ کینو کی خالی پیٹی ہی 80 روپے کی ہے۔ ابھی آڑو خریدے ہیں، جس کا خالی کارٹن ہی 100 روپے کا ہے، اب یہ ساری لاگت بھی تو اسی قیمت میں ہی شامل ہوگی۔ ہم سے کہا گیا کہ دام کم ہوں، مگر جب بولی لگائی، تو دام اوپر گئے، کیوں کہ یہ تو طلب اور رسد کا معاملہ ہے۔
ہم نے مسلم پرویز سے سیاست اور کاروبار میں وقت کی تقسیم پوچھی تو وہ بولے کہ سیاسی مصروفیت کے باعث دو ماہ بعد کاروبار کی طرف متوجہ ہو سکا۔ ہم سیاست نہیں، بلکہ جماعت اسلامی کا مشن سمجھ کر کام کرتے ہیں، اگر کوئی کسی مفاد کے لیے کام کرتا ہو تو کرتا ہو، مگر ہم اللہ کے نظام کا عہد کرتے ہیں۔ سماج میں جو بھی دیانت داری سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہے وہ دراصل اللہ کے نظام کے لیے کام کر رہا ہے۔ ہم نے آج کی سیاست کا بڑا مسئلہ پوچھا، تو انہوں نے کہا ''ذاتی مفاد!'' پھر پوچھا کہ جماعت اسلامی کی جدوجہد سے اب تک کتنے مقاصد حاصل ہوئے؟ وہ بولے کہ ہم نظام کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں، ہمارا کام جدوجہد ہے، نتائج کا معاملہ تو اللہ پر ہے۔
مجھے اندازہ تھا کہ کراچی میں ہمیں ایک نشست ہی ملے گی!
کراچی کے نائب امیر ہونے کے ناتے ہم نے مسلم پرویز سے شہر میں جماعت اسلامی کی ناکامی کا ذکر کیا کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پانی و بجلی جیسے مسائل پر جدوجہد کرنے کے باوجود پذیرائی نہ مل سکی؟ وہ کہتے ہیں کہ 'مجھے تو معلوم تھا، اور میں نے تو بتا بھی دیا تھا کہ ایک ہی نشست ملے گی اور وہی ہوا۔ میں خیالی دنیا میں نہیں رہتا، زمینی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے بات کرتا ہوں۔ مجھے تو اسی انتخابی نتائج کی توقع تھی۔' ہم نے پوچھا کہ زیادہ کی توقع کیوں نہ تھی؟ جس پر وہ بولے کہ عمران خان جدوجہد کر رہے تھے، پھر انہیں مینار پاکستان پر ایک بڑا جلسہ کرا کے دیا گیا، اسی طرح 1985ء میں ایم کیو ایم کو لیاقت آباد، ڈاک خانے پر ایک جلسہ کرا کے دیا گیا، جس کے شرکا عوام میں سے نہ تھے۔
'تو کیا جماعت اسلامی کو بھی کام یابی کے لیے 'وہاں' سے مدد درکار ہوگی؟' ہم نے ان کے جواب سے ایک سوال تراشا۔ وہ بولے کہ مدد تو صرف اللہ کی چاہیے۔ اسے اگر قوم کی حالت بدلنا ہوئی، تو قوم کی بہتری چاہنے والے چاہیں تو کچھ کریں۔ اللہ کو اگر کام لینا ہو تو وہ کسی سے بھی لے لے گا۔ جماعت اسلامی تو اسلام کے پیغام اور سماج کی بھلائی کے لیے کام کر رہی ہے، ہمیں جب بھی موقع ملا ہم نے کام کر کے دکھایا۔ آج بھی جماعت کے وابستگان کو 'مشرقی پاکستان' میں پھانسیاں دی جا رہی ہیں، کشمیر کی جدوجہد میں بھی وہاں کی جماعت اسلامی سرگرم ہے، ایران کے انقلاب کے بعد یہاں سے سب سے پہلے جماعت اسلامی کو مدعو کیا گیا۔ الغرض فلسطین سے لے کر دنیا بھر تک جتنی بھی اسلامی تحریکیں ہیں، ان میں جماعت اسلامی اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔
کراچی کے مسائل آپریشن سے نہیں، بلکہ حل کرنے سے حل ہوں گے
2001ء میں کراچی کی ضلعی حکومت کا مرکزی حصہ اور قائم مقام ناظم کراچی رہنے والے مسلم پرویز سے جب یہ دریافت کرنا چاہا کہ اب تو آپریشن بھی ہو رہا ہے، مگر شہر کے بنیادی مسائل میں خاطر خواہ بہتری دکھائی نہیں دے رہی؟ تو وہ بولے کہ آپریشن سے کبھی مسائل حل نہیں ہوتے، ایسا سوچنا بھی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ مسئلے صرف حل کرنے سے ہی حل ہوتے ہیں۔ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ کراچی کے مسائل کو حل کیا جائے۔ یہاں پانی کا 'کے فور' کا منصوبہ ہمارے زمانے کا ابھی تک زیر التوا ہے، سابق وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے اسے دو سال میں مکمل کرنے کا عزم کیا، میں نے ان سے تب ہی کہا کہ یہ ایسے پورا نہیں ہوگا، دو سال میں تو لاگت اور بڑھ جائے گی۔ آپ میرے ساتھ اپنے کسی نمائندے کو لگائیں۔ میں چھے ماہ میں یہ مکمل کر کے دکھاتا ہوں۔ جب تک اس کا کام پورا نہ ہوگا، میں کیمپ سے نہیں اٹھوں گا۔ ایک مرتبہ سٹی کونسل میں بجٹ پیش کیا، جس کی منظور کے بعد 'ڈان' اخبار نے سرخی لگائی تھی کی پہلی بار کوئی بجٹ 'پن ڈراپ سائلنس' میں منظور ہوا۔ بات یہ ہے کہ جب آپ سچ بات کرتے ہیں، تو لوگ آپ کا ساتھ دیتے ہیں۔ بس اپنی ذات کو پس پشت ڈال کر جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔