سرکلر ریلوے صدی کا معجزہ
سپریم کورٹ کی توجہ سے برسوں سے التواء کے شکار مسئلے کے حل کے درمیان رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں۔
سپریم کورٹ کے فاضل جج جسٹس گلزار احمد نے 15 دن میں سرکلر ریلوے چلانے کا حکم دیا ۔ سپریم کورٹ کے خوف سے کراچی کے انتظامی افراد سرجوڑ کر بیٹھ گئے۔ 20برس سے ریلوے لائن پر قائم تجاوزات کے خاتمے کے لیے حکمت عملی طے ہوئی ۔کراچی کے کمشنر افتخار شلوانی کی صدارت میں ضلع اور ریلوے کے افسروں کا اجلاس ہوا۔ ریلوے ٹریک پر قائم تجاوزات کے خاتمے کے لیے 10 دن کا ہدف طے ہوا۔ اس فیصلے پر فوری طور پر عملدرآمد شروع ہوا۔ ریلوے ٹریک پر قائم تجاوزات کے خاتمے کے لیے کام شروع ہوگیا۔
پولیس کا عملہ حفاظت کے لیے موجود رہا، یوں کئی سو مکانات ڈھائے جانے کے باوجود کوئی نا خوشگوار واقعہ نہیں ہوا اور تجاوزات کے خاتمے کے لیے سرکلر ریلوے کی بحالی کے ابھی کئی مراحل باقی ہیں۔ کراچی کی انتظامیہ نے جس ٹریک پر تجاوزات ختم کیے ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہاں پٹری کے نشانات بھی موجود نہیں رہے، سرکلر ریلوے کے اسٹیشنوں کی عمارتیں ٹوٹ چکی ہیں اور بیشتر مقامات پر اب پلیٹ فارم تک موجود نہیں ہیں۔ ریلوے کے عملے کو ریل کی پٹری کی دوبارہ تعمیر ومرمت کے ساتھ سگنلنگ کا نظام بھی دوبارہ نصب کرنا ہوگا۔ ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کے بلند و بالا دعوؤں کے باوجود ریل کے انجن اور ڈبے بھی دستیاب نہیں ہیں۔
گزشتہ صدی کے آخری عشرے سے اب تک کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو ریلوے کی انتظامیہ نہ سندھ میں برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں اور نہ وفاقی حکومتوں نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی پاسداری سے سرکلر ریلوے بحال ہو جائے گی تو اس سے اس صدی کا ایک بڑا معجزہ قرار دیا جاسکے گا۔ کراچی اگرچہ دنیا کے بڑے شہروں کی فہرست میںشامل ہے مگر اس شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ختم ہوئے عرصہ بیت گیا۔
اب کراچی میں عام آدمی کے لیے نہ تو بڑی بسیں ، نہ سرکلر ریلوے اور نہ ٹرام موجود ہے۔کراچی کے مکین چین کی مال برداری کے لیے بنائی جانے والی موٹر سائیکل چنگ چی میں سفرکرنے کو غنیمت جانتے ہیں۔ یہ چنگ چی زیادہ وزن ہونے کی بناء پر سڑک کے درمیان الٹ جاتی ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ 6 نشستوں کی گنجائش ہے مگر 8 سے 10 افراد اس سواری میں سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
کراچی کے بعض روٹس پر اب بھی بسیں چلتی ہیں مگر ان بسوں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ ان کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جارہی ہے، یہی صورتحال منی بسوں کی ہے۔ ان بسوں اور منی بسوں کی سیٹیں پھٹ چکی ہیں، پائیدان ٹوٹے ہوئے ہیں۔ پھر یہ گاڑیاں سی این جی کے سلینڈروں سے لیس ہو چکی ہیں۔ بعض دفعہ تو مسافر سلینڈروں پر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جب سی این جی اسٹیشن بند ہوتے ہیں تو بسوں اور منی بسوں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے مسافروں کو بسوں اور منی بسوں کی چھت پر سفر کرنا پڑتا ہے۔
کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے بسوں میں سفرکرنے والے مسافر متاثر ہوئے ہیں۔ مہینے کے آغاز کے دنوں میں مسلح افراد بسوں میں سوار ہوکر مسافروں سے نقدی ، موبائل فون اور گھڑیاں چھین کر اطمینان سے اپنی کمین گاہوں میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ کراچی کے امور پر رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ بسوں اور منی بسوں کی چھتوں پر سفر کرنا موت کو چھونے کے مترادف ہے اور رہزن بھی چھتوں پر لوٹ مار کرنے نہیں آتے۔
کراچی کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل کراچی میں ڈبل ڈیکر بسیں چلا کرتی تھیں۔ شہر میں بس اسٹاپ موجود تھے۔شہر میں ٹرام وے کا ایک نظام شہریوں کی مدد کے لیے قائم تھا۔ مگر شہر کی آبادی بڑھنے کے باوجود پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کبھی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہوئی۔ جب شہر سے دور بستیاں آباد ہوئیں تو سرکاری شعبے میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن قائم ہوئی۔ جنرل ایوب خان نے کراچی کے صنعتی علاقوں اور بندرگاہ آنے جانے والے مسافروں کے لیے سرکلر ریلوے تعمیرکی۔ 60ء اور 70ء کی دہائی میں لانڈھی، ملیر سے سٹی اسٹیشن اور سٹی اسٹیشن سے سائٹ جانے کے لیے سرکلر ریلوے سستی، تیز رفتار اور آرام دہ سواری تھی۔
یوں ملیر اور لانڈھی سے 45 منٹ میں شہر کے مرکزی کاروباری علاقے آئی آئی چندریگر روڈ تک پہنچا جاسکتا تھا۔ پرانے شہر میں ٹرام وے سروس موجود تھی۔ ٹرام وے کراچی کینٹ سے ٹاور، چاکیواڑہ اور سولجر بازار تک جاتی تھی۔ دنیا کے جدید شہروں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکلر ریلوے کو زیر زمین نظام ، ٹرام کو بجلی سے منسلک کرنے اور بڑی بسوں کو دور دراز علاقوں کے مسافروں کو استعمال کرنے کے لیے منصوبہ بندی وقت کی ضرورت تھی۔70ء کی دھائی میں ٹرانسپورٹ مافیا اور بیوروکریسی میں گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا۔
بڑی بسوں کی جگہ منی بسیں سڑکوں پر چلنے لگیں۔کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن بیوروکریسی کی کرپشن کی نظر ہوئی۔ بھٹو کے دور میں ٹرام سروس کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ٹرانسپورٹ مافیا نے سرکلر ریلوے کے نظام میں رخنہ ڈالنے شروع کیے۔ ایک طرف کے ٹی سی خسارے کا شکار ہوئی تو دوسری طرف سرکلر ریلوے نے عوام کا اعتماد کھو دیا۔ ادارے کا خسارہ بڑھنے لگا جس کی بناء پر ریل گاڑیوں کی تعداد کم ہونے لگی۔ جنرل ضیاء کا دور منی بسوں کا دور رہا۔
1986 میں دو منی بسوں کی دوڑ کے نتیجے میں سرسید گرلزکالج کی طالبہ بشری زیدی کی جان گئی۔ اس سے قبل ایک منی بس لانڈھی میں ریلوے پھاٹک عبور کرتے ہوئے ریل گاڑی سے ٹکرا گئی جس سے شہر میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے۔ برسر اقتدار آنے والی پیپلزپارٹی کی دوسری اور تیسری حکومتوں نے کراچی میں اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ بے نظیر بھٹوکے دوسرے دور میں کراچی ماس ٹرانزٹ پروگرام کی تکمیل کی بازگشت سنائی دی مگر عملاً کچھ نہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نچلی سطح تک بلدیاتی نظام کے قیام سے شہرکے انفرا اسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، انڈرپاسز اور اوور ہیڈ برج تعمیر ہوئے مگر پبلک ٹرانسپورٹ کو بینکوں کے لیز سے بسوں کو چلانے شہر کے چند علاقوں میں صرف میٹرو بس کو شروع کرنے کے منصوبے ضرور شروع ہوئے مگر یہ منصوبہ بندی عارضی بنیادوں پر ہوئی۔
پہلے ناظم نعمت اﷲ خان کے رخصت ہوتے ہی جدید بسیں غائب ہوگئیں۔ کچھ بسوں کے مالکان انھیں پنجاب لے گئے اورکچھ نے بینکوں کے قرض ادا نہ کیے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت 2008 سے 2013تک وفاق میں برسر اقتدار رہی۔ 2008 سے پیپلز پارٹی صوبہ سندھ میں حکومت کررہی ہے۔ سابق صدر زرداری نے اپنے دور اقتدار میں چین کے کئی دورے کیے ۔ وہ یورپ اور امریکا کے دوروں پر بار بار گئے مگر کبھی آصف زرداری کو اس بات کا خیال نہیں آیا کہ ان جدید ممالک کے ٹرانسپورٹ کے نظام کا تجربہ کراچی میں کیا جائے اور شہر میں ماس ٹرانزٹ نظام قائم کیا جائے۔ حکومت کی عدم توجہ اور امن و امان کی خراب صورتحال کی بناء پر ٹرانسپورٹ کا برسوں سے کاروبارکرنے والے مایوس ہوئے اور بسوں میں سرمایہ کاری ختم ہوگئی۔
گزشتہ دور حکومت میں چین کے تعاون سے سی پیک کا منصوبہ شروع ہوا تو یہ خوش خبری سنائی گئی کہ لاہور اورنج ٹرین کا منصوبہ اورکراچی ریلوے سی پیک کے منصوبے میں شامل ہیں۔ لاہور اور اسلام آباد میں میٹرو بسوں کا جدید نظام قائم ہوا اوراورنج ٹرین کی تعمیر شروع ہوئی۔ مگر کچھ عرصے بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے یہ بری خبر سچائی سے سنائی کہ چین نے کراچی سرکلر ریلوے کی دوبارہ تعمیر میں دلچسپی لینے سے انکارکردیا ہے۔ جاپان کی حکومت اس منصوبے کے لیے تیار تھی مگر سندھ حکومت اسے پہلے ہی مایوس کرچکی تھی، یوں سرکلر ریلوے کی بحالی خواب بن گئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بڑا بورڈ سے گرومندر تک میٹرو بس کا منصوبہ شروع کیا مگر یہ منصوبہ ہنوز التواء کا شکار ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے طویل دور اقتدار میں صرف دس بڑی بسوں کا شہرکو تحفہ دیا، اب یہ امید دلائی جارہی ہے کہ کراچی میں کئی درجن بسیں سڑکوں پر دوڑیں گی۔ سرکلر ریلوے کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے انتہائی اہم ہے مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کبھی اس منصوبے میں دلچسپی نہیں لی۔ سپریم کورٹ نے سرکلر ریلوے اور ٹرام وے کی سروس کی بحالی کا حکم دے کر عام آدمی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ افسران کا کہنا ہے کہ ریلوے ٹریک کی بحالی میں چھ ماہ کا عرصہ لگے گا، اگر جسٹس گلزار ریٹائر ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟
پھر خطرہ اس بات کا ہے کہ انتظامیہ محض توہین عدالت سے بچاؤ کے لیے سرکلر ریلوے اس طرح بحال کرے کہ عوام کا بڑا حصہ مستفید نہ ہو اور کچھ عرصے بعد سرکلر ریلوے پھر بند ہوجائے۔ سپریم کورٹ کی توجہ سے برسوں سے التواء کے شکار مسئلے کے حل کے درمیان رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں۔ اب ریلوے حکام اور سندھ حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس طرح کے اقدامات کریں کہ سرکلر ریلوے کا دائرہ بڑھ سکے، دوسرے زیادہ سے زیادہ مسافر اس سے مستفید ہوسکیں۔
پولیس کا عملہ حفاظت کے لیے موجود رہا، یوں کئی سو مکانات ڈھائے جانے کے باوجود کوئی نا خوشگوار واقعہ نہیں ہوا اور تجاوزات کے خاتمے کے لیے سرکلر ریلوے کی بحالی کے ابھی کئی مراحل باقی ہیں۔ کراچی کی انتظامیہ نے جس ٹریک پر تجاوزات ختم کیے ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ وہاں پٹری کے نشانات بھی موجود نہیں رہے، سرکلر ریلوے کے اسٹیشنوں کی عمارتیں ٹوٹ چکی ہیں اور بیشتر مقامات پر اب پلیٹ فارم تک موجود نہیں ہیں۔ ریلوے کے عملے کو ریل کی پٹری کی دوبارہ تعمیر ومرمت کے ساتھ سگنلنگ کا نظام بھی دوبارہ نصب کرنا ہوگا۔ ریلوے کے وفاقی وزیر شیخ رشید احمد کے بلند و بالا دعوؤں کے باوجود ریل کے انجن اور ڈبے بھی دستیاب نہیں ہیں۔
گزشتہ صدی کے آخری عشرے سے اب تک کے تجزیے سے ظاہر ہوتا ہے کہ نہ تو ریلوے کی انتظامیہ نہ سندھ میں برسر اقتدار آنے والے حکمرانوں اور نہ وفاقی حکومتوں نے کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کو اپنی ترجیحات میں شامل کیا تھا۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی پاسداری سے سرکلر ریلوے بحال ہو جائے گی تو اس سے اس صدی کا ایک بڑا معجزہ قرار دیا جاسکے گا۔ کراچی اگرچہ دنیا کے بڑے شہروں کی فہرست میںشامل ہے مگر اس شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام ختم ہوئے عرصہ بیت گیا۔
اب کراچی میں عام آدمی کے لیے نہ تو بڑی بسیں ، نہ سرکلر ریلوے اور نہ ٹرام موجود ہے۔کراچی کے مکین چین کی مال برداری کے لیے بنائی جانے والی موٹر سائیکل چنگ چی میں سفرکرنے کو غنیمت جانتے ہیں۔ یہ چنگ چی زیادہ وزن ہونے کی بناء پر سڑک کے درمیان الٹ جاتی ہے۔ اس میں زیادہ سے زیادہ 6 نشستوں کی گنجائش ہے مگر 8 سے 10 افراد اس سواری میں سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
کراچی کے بعض روٹس پر اب بھی بسیں چلتی ہیں مگر ان بسوں کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ ان کی تعداد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہوتی جارہی ہے، یہی صورتحال منی بسوں کی ہے۔ ان بسوں اور منی بسوں کی سیٹیں پھٹ چکی ہیں، پائیدان ٹوٹے ہوئے ہیں۔ پھر یہ گاڑیاں سی این جی کے سلینڈروں سے لیس ہو چکی ہیں۔ بعض دفعہ تو مسافر سلینڈروں پر سفر کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ جب سی این جی اسٹیشن بند ہوتے ہیں تو بسوں اور منی بسوں کی تعداد کم ہوتی جاتی ہے مسافروں کو بسوں اور منی بسوں کی چھت پر سفر کرنا پڑتا ہے۔
کراچی میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے بسوں میں سفرکرنے والے مسافر متاثر ہوئے ہیں۔ مہینے کے آغاز کے دنوں میں مسلح افراد بسوں میں سوار ہوکر مسافروں سے نقدی ، موبائل فون اور گھڑیاں چھین کر اطمینان سے اپنی کمین گاہوں میں روپوش ہو جاتے ہیں۔ کراچی کے امور پر رپورٹنگ کرنے والے ایک صحافی کا کہنا ہے کہ بسوں اور منی بسوں کی چھتوں پر سفر کرنا موت کو چھونے کے مترادف ہے اور رہزن بھی چھتوں پر لوٹ مار کرنے نہیں آتے۔
کراچی کی تاریخ پر تحقیق کرنے والے دانشوروں کا کہنا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل کراچی میں ڈبل ڈیکر بسیں چلا کرتی تھیں۔ شہر میں بس اسٹاپ موجود تھے۔شہر میں ٹرام وے کا ایک نظام شہریوں کی مدد کے لیے قائم تھا۔ مگر شہر کی آبادی بڑھنے کے باوجود پبلک ٹرانسپورٹ سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کرنے کے لیے کبھی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں ہوئی۔ جب شہر سے دور بستیاں آباد ہوئیں تو سرکاری شعبے میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن قائم ہوئی۔ جنرل ایوب خان نے کراچی کے صنعتی علاقوں اور بندرگاہ آنے جانے والے مسافروں کے لیے سرکلر ریلوے تعمیرکی۔ 60ء اور 70ء کی دہائی میں لانڈھی، ملیر سے سٹی اسٹیشن اور سٹی اسٹیشن سے سائٹ جانے کے لیے سرکلر ریلوے سستی، تیز رفتار اور آرام دہ سواری تھی۔
یوں ملیر اور لانڈھی سے 45 منٹ میں شہر کے مرکزی کاروباری علاقے آئی آئی چندریگر روڈ تک پہنچا جاسکتا تھا۔ پرانے شہر میں ٹرام وے سروس موجود تھی۔ ٹرام وے کراچی کینٹ سے ٹاور، چاکیواڑہ اور سولجر بازار تک جاتی تھی۔ دنیا کے جدید شہروں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے سرکلر ریلوے کو زیر زمین نظام ، ٹرام کو بجلی سے منسلک کرنے اور بڑی بسوں کو دور دراز علاقوں کے مسافروں کو استعمال کرنے کے لیے منصوبہ بندی وقت کی ضرورت تھی۔70ء کی دھائی میں ٹرانسپورٹ مافیا اور بیوروکریسی میں گٹھ جوڑ کھل کر سامنے آگیا۔
بڑی بسوں کی جگہ منی بسیں سڑکوں پر چلنے لگیں۔کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن بیوروکریسی کی کرپشن کی نظر ہوئی۔ بھٹو کے دور میں ٹرام سروس کو ختم کرنے کا فیصلہ ہوا۔ ٹرانسپورٹ مافیا نے سرکلر ریلوے کے نظام میں رخنہ ڈالنے شروع کیے۔ ایک طرف کے ٹی سی خسارے کا شکار ہوئی تو دوسری طرف سرکلر ریلوے نے عوام کا اعتماد کھو دیا۔ ادارے کا خسارہ بڑھنے لگا جس کی بناء پر ریل گاڑیوں کی تعداد کم ہونے لگی۔ جنرل ضیاء کا دور منی بسوں کا دور رہا۔
1986 میں دو منی بسوں کی دوڑ کے نتیجے میں سرسید گرلزکالج کی طالبہ بشری زیدی کی جان گئی۔ اس سے قبل ایک منی بس لانڈھی میں ریلوے پھاٹک عبور کرتے ہوئے ریل گاڑی سے ٹکرا گئی جس سے شہر میں لسانی فسادات پھوٹ پڑے۔ برسر اقتدار آنے والی پیپلزپارٹی کی دوسری اور تیسری حکومتوں نے کراچی میں اس مسئلے کے حل کے لیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ بے نظیر بھٹوکے دوسرے دور میں کراچی ماس ٹرانزٹ پروگرام کی تکمیل کی بازگشت سنائی دی مگر عملاً کچھ نہ ہوا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں نچلی سطح تک بلدیاتی نظام کے قیام سے شہرکے انفرا اسٹرکچر کو جدید خطوط پر استوار کرنے کا سلسلہ شروع ہوا، انڈرپاسز اور اوور ہیڈ برج تعمیر ہوئے مگر پبلک ٹرانسپورٹ کو بینکوں کے لیز سے بسوں کو چلانے شہر کے چند علاقوں میں صرف میٹرو بس کو شروع کرنے کے منصوبے ضرور شروع ہوئے مگر یہ منصوبہ بندی عارضی بنیادوں پر ہوئی۔
پہلے ناظم نعمت اﷲ خان کے رخصت ہوتے ہی جدید بسیں غائب ہوگئیں۔ کچھ بسوں کے مالکان انھیں پنجاب لے گئے اورکچھ نے بینکوں کے قرض ادا نہ کیے۔ پیپلزپارٹی کی حکومت 2008 سے 2013تک وفاق میں برسر اقتدار رہی۔ 2008 سے پیپلز پارٹی صوبہ سندھ میں حکومت کررہی ہے۔ سابق صدر زرداری نے اپنے دور اقتدار میں چین کے کئی دورے کیے ۔ وہ یورپ اور امریکا کے دوروں پر بار بار گئے مگر کبھی آصف زرداری کو اس بات کا خیال نہیں آیا کہ ان جدید ممالک کے ٹرانسپورٹ کے نظام کا تجربہ کراچی میں کیا جائے اور شہر میں ماس ٹرانزٹ نظام قائم کیا جائے۔ حکومت کی عدم توجہ اور امن و امان کی خراب صورتحال کی بناء پر ٹرانسپورٹ کا برسوں سے کاروبارکرنے والے مایوس ہوئے اور بسوں میں سرمایہ کاری ختم ہوگئی۔
گزشتہ دور حکومت میں چین کے تعاون سے سی پیک کا منصوبہ شروع ہوا تو یہ خوش خبری سنائی گئی کہ لاہور اورنج ٹرین کا منصوبہ اورکراچی ریلوے سی پیک کے منصوبے میں شامل ہیں۔ لاہور اور اسلام آباد میں میٹرو بسوں کا جدید نظام قائم ہوا اوراورنج ٹرین کی تعمیر شروع ہوئی۔ مگر کچھ عرصے بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے یہ بری خبر سچائی سے سنائی کہ چین نے کراچی سرکلر ریلوے کی دوبارہ تعمیر میں دلچسپی لینے سے انکارکردیا ہے۔ جاپان کی حکومت اس منصوبے کے لیے تیار تھی مگر سندھ حکومت اسے پہلے ہی مایوس کرچکی تھی، یوں سرکلر ریلوے کی بحالی خواب بن گئی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے بڑا بورڈ سے گرومندر تک میٹرو بس کا منصوبہ شروع کیا مگر یہ منصوبہ ہنوز التواء کا شکار ہے۔
پیپلز پارٹی کی حکومت نے اپنے طویل دور اقتدار میں صرف دس بڑی بسوں کا شہرکو تحفہ دیا، اب یہ امید دلائی جارہی ہے کہ کراچی میں کئی درجن بسیں سڑکوں پر دوڑیں گی۔ سرکلر ریلوے کراچی کی پبلک ٹرانسپورٹ کے لیے انتہائی اہم ہے مگر وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے کبھی اس منصوبے میں دلچسپی نہیں لی۔ سپریم کورٹ نے سرکلر ریلوے اور ٹرام وے کی سروس کی بحالی کا حکم دے کر عام آدمی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ افسران کا کہنا ہے کہ ریلوے ٹریک کی بحالی میں چھ ماہ کا عرصہ لگے گا، اگر جسٹس گلزار ریٹائر ہوگئے تو پھر کیا ہوگا؟
پھر خطرہ اس بات کا ہے کہ انتظامیہ محض توہین عدالت سے بچاؤ کے لیے سرکلر ریلوے اس طرح بحال کرے کہ عوام کا بڑا حصہ مستفید نہ ہو اور کچھ عرصے بعد سرکلر ریلوے پھر بند ہوجائے۔ سپریم کورٹ کی توجہ سے برسوں سے التواء کے شکار مسئلے کے حل کے درمیان رکاوٹیں دور ہوگئی ہیں۔ اب ریلوے حکام اور سندھ حکومت کی ذمے داری ہے کہ اس طرح کے اقدامات کریں کہ سرکلر ریلوے کا دائرہ بڑھ سکے، دوسرے زیادہ سے زیادہ مسافر اس سے مستفید ہوسکیں۔