خزانے کے خالی ہونے کا واویلا اور اصل حقائق
تمام ترقیاتی کاموں پر قدغن لگائی جاچکی ہے۔ملک آگے کی بجائے اُلٹی جانب یعنی مخالف سمت چل پڑا ہے۔
خزانے کے خالی ہونے کا واویلا ویسے تو ہماری ہر نئی حکومت مچایا کرتی رہی ہے لیکن پی ٹی آئی نے جس مبالغہ آرائی سے اِسکے بارے میں عوام کو غلط اعداد و شمارپیش کر کے بیوقوف بنایا وہ شاید ہی کوئی اور کر سکے۔
یہ پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں ہی کا خاصہ ہے کہ وہ جھوٹ بھی بولتے ہیں تو بڑے اعتماد اور یقین سے۔ وہ اپنی حکومت کی نااہلی اور ناکامی کو ابھی تک صرف یہ کہہ کر چھپاتے رہے ہیں کہ ہم کیا کریں یہ سب سابقہ حکومت کا کیا دھرا ہے۔ حالانکہ اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ 25جولائی 2018ء کو جب اِس ملک میں نئے الیکشن ہورہے تھے اُس وقت بھی ملک کے معاشی حالات اتنے دگر گوں نہیں تھے جتنے آج ہوچکے ہیں۔
اگر پی ٹی آئی والوں کاموقف درست تسلیم کرلیاجائے توپھرقابل غور بات یہ ہے کہ نگراں حکومت نے کیونکر یہ بات عوام کے سامنے نہیں رکھی۔اگر حالات اس قدر ہولناک تھے تو نگراں حکومت بھلاکیسے خاموش رہ سکتی تھی۔ہم سب جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے دور میں ملک کی معیشت کے بارے میں تمام عاملی مالیاتی اداروں کی رپورٹیں مثبت ریٹنگ دے رہی تھیں۔یہ رپورٹیں آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔مودی سمیت تمام مالیاتی اداروں کو ہماری کسی سیاسی شخصیت یاسیاسی پارٹی سے بھلا کیونکرہمدردی ہوسکتی تھی کہ وہ ایسی رپورٹس پیش کرتے۔ ساری دنیا حیران و پریشان تھی کہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کس تیزی سے دنیا کے ابھرتی ہوئی اسٹاک مارکیٹ کا درجہ حاصل کر رہی ہے۔ دوسری جانب ٹیکس ریونیو اپنے مقررہ ٹارگٹ سے ذیادہ حاصل ہو رہا تھا۔
ٹیکس فائلرز کی تعداد 18لاکھ کو چھونے لگی تھی۔اتنے کم عرصے میں ایک ملین ٹیکس فائلرز کا اضافہ خود ایک ریکارڈ ہے جسے ہمارے موجودہ چیئرمین ایف بی آربھی تسلیم کرچکے ہیں۔زرمبادلہ کے ذخائر 24ارب ڈالرز تک پہنچ چکے تھے۔ پانامہ اسکینڈل کو لے کراگر سازش کے جال بچھائے نہیں جاتے تو معیشت اور بھی پروان چڑھ جاتی۔ اِن ذخائر میں کمی کا رجحان میاں نواز شریف کو معزول کیے جانے کے بعد ہی سامنے آیا۔جب ایک اچھی بھلی حکومت کو یوں اچانک چلتا کردیا جائے تو پھر بزنس مینوں اور سرمایہ داروں کا اعتما د کیونکر بحال رہے گا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے 2013ء میں جب عنان حکومت سنبھالا تھا تو حالات کس قدر خراب تھے۔ ملک میں دہشتگردوں کا راج تھا۔ کوئی شہر اور قصبہ خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے محفوظ نہ تھا۔ کراچی شہر جسے ہم تجارت اور بزنس کا ہب تصور کرتے ہیں، عرصہ دراز سے خون خرابے ، احتجاجی مظاہرے اور آئے دن کی ہڑتالوں کے عذاب سے دوچارتھا۔ زبردستی چندہ جمع کرنے والوں اور بھتہ مافیاکے کارندوں نے شہریوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ کوئی پرسان حال نہیں تھا۔
زرداری حکومت اور اُن سے پہلے کی پرویز مشرف حکومت اُن دہشتگردوں کے ہاتھوں بلیک میلنگ کاشکار تھی۔ ملک میں توانائی کا شدید بحران تھا جو ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہا تھا۔چودہ چودہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ نے انڈسٹریل سیکٹر کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا تھا۔میاں صاحب نے بہت مختصر وقت میںاِن سارے مسائل پر نہ صرف قابو پایا بلکہ اِنہیں مکمل طور پر ختم بھی کیا۔ خان صاحب کو میاں نواز شریف کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اُنہوں نے ورثہ میں وہ حالات نہیں چھوڑے جن کا سامنا وہ خوداپنے دور میں کرچکے تھے۔
خان صاحب کو آج اگر وہی حالات ملے ہوتے تو نجانے وہ اُن سے کیسے نبرد آزما ہوتے۔ابھی جب اُنہیں ایسی کوئی مشکل درپیش نہیں ہے تو پھر بھی اُنہوں نے اپنی ساری ناکامیوں کا ملبہ سابقہ حکومت کے سر دے ڈالا ہے ورنہ بصور ت دیگر وہ کیا کرتے۔ستم بالائے ستم اُنہوں نے میاں نواز شریف کو ناکام بنانے کے لیے علامہ طاہرالقادری سے ملکرلانگ مارچ اور دھرنے کیے اور 126دنوں تک دارالحکومت اسلام آباد میں ڈی چوک پر دھرنا دیاجس کے وجہ سے بھی نہ صرف ہمار ی ترقی میں زبرست رخنہ پڑابلکہ سارا نظام ہی معطل ہوکر رہ گیا۔ دھرنے کے دوران ایک موقعہ تو ایسا بھی آیا کہ لاقانونیت اور انارکی نے حکومت کی رٹ ہی ختم کرڈالی اور پارلیمنٹ سمیت ساری حکومت خود اپنے ایوانوں میں محصور ہوکر رہ گئی۔
دھرنے کی ناکامی کے بعد میاں نواز شریف کو صرف دو سال سکون سے حکومت کرنے کے لیے میسرآئے اور اِن دوسالوں میں اُنہوں نے وہ سارے کام سر انجام دے ڈالے جن کے کرنے کے لیے کم از کم پانچ سال درکار ہوتے ہیں۔اُنہوں نے نہ صرف ملک سے دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کیا بلکہ کراچی شہر کو بھی پھرسے امن کا گہوارہ بھی بناد یا۔دیکھا جائے تو یہ کوئی انتا سہل اور آسان کام نہیں تھا۔اُن سے پہلے کی حکومتیں چاہتے ہوئے بھی یہ کام نہ کرسکیں۔۔پرویز مشرف بھی یہ دونوں کام سرانجام نہ دے سکے۔
بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مشرف کے دور میںہی یہ دونوں مسائل عفریت بنکر پاکستان کے عوام کرسروں پرمنڈلانے لگے۔میاں صاحب نے اِن دونوں مسائل کو بڑی دانشمندی اور ہشیاری سے افواج پاکستان اور رینجرز کی مدد سے حل کیا۔اِس کے علاوہ اُنہوں نے بجلی اور گیس کے بحران کو بھی اپنے اِس مختصر سے دور میں جانفشانی سے حل کیا۔ورثہ میں ملنے والے قومی خزانے سے یہ مسائل یقینا حل نہیں کیے جاسکتے تھے ۔لہذا اگر اُنہوں نے اگر قرضے لیے تو اُنہیں ترقی و خوشحالی کے اِن مثبت کاموں میں خرچ بھی کیا۔وہ جب برسراقتدار آئے تھے تو قومی خزانے میں محض 6 ا رب ڈالرز باقی رہ گئے تھے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب اُنہیں معزول کیاگیا تو ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 18ارب ڈالرز سے زائد تھے۔اِسی طرح اُن کے جانشیں جناب شاہد خاقان عباسی نے بھی جب اقتدار نگرانوں کے حوالے کیاتو قومی خزانے میں 16ارب ڈالرز سے زائد کی رقم محفوظ تھی۔اِس کے باوجود اگر کوئی یہ کہے کہ خزانہ خالی تھاتو وہ یقینا جھوٹ اور مکروفریب سے قوم کو ورغلا رہاہے۔
وقت تیزی سے گزرتا جارہا ہے اور لوگوں پریہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ کون اِس ملک کو بہتر طریقے سے چلاسکتا ہے اور کون صرف باتیں کرکے بڑی بڑی شیخیاں بھگارکے قوم کو بے قوف بناتا رہا ہے۔ہمارا وطن عزیز حکمرانوں کے نااہلی اور نا عقلی کے وجہ سے آج جس بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے 70 سال میں کبھی نہیں تھا۔حکومت کی کوئی سمت اور کوئی منزل مقرر نہیں ہے۔
تمام ترقیاتی کاموں پر قدغن لگائی جاچکی ہے۔ملک آگے کی بجائے اُلٹی جانب یعنی مخالف سمت چل پڑا ہے۔ GDPکے شرح 5.8سے کم ہوکر2.5تک پہنچ گئی ہے۔ملکی کرنسی کے حیثیت تمام پڑوسی ممالک کے نسبت اتنی گر چکی ہے کہ ہمارے لوگوں کو خود اپنے پاکستانی ہونے پر شرم آنے لگی ہے۔ بھارت ہم سے جنگ کرکے ہمیں کیاتباہ کرتا ہم نے خود ہی اپنے آپ کو تباہ و برباد کرڈالا ہے۔ 6ارب ڈالرز کے قرضے کے لیے IMFکے اس قدر سخت شرائط مان لی گئیں ہیں کہ اب ہماری خود مختاری اور سا لمیت بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔سی پیک جیسے عظیم منصوبے کی رفتار بھی اُن کے اعتراضات کی بدولت سست کردی گئی ہے۔ اِس کے باوجود ہمارے وزیراعظم فرماتے ہیں کہ لوگو گھبرانا نہیں ۔مرغیوں ، بھینسوں او ر کٹوں کی پرورش کے دلکش منصوبے پیش کرنے والے ذہین و فتین، قابل وحسین ، ہینڈ سم اور اسمارٹ وزیراعظم کو شاید پتا ہی نہیں کہ دنیا آج کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔
18مئی کی شام کو پشاور میں وہ شوکت خانم اسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قوم کو دلاسہ دے رہے تھے کہ دوچار دنوں میں سمندر سے تیل اور گیس کے ذخائر نکل آئیں گے تو سارے مسائل فوراً حل ہوجائیں گے۔ جب کہ دوسرے جانب اُسی شام اُن کے ایک مشیر توانائی جناب ندیم بابراِن پروجیکٹ کو ناکامی کے سبب بند کردینے کا اعلان فرما رہے تھے۔غفلت اور لاعلمی کی ایسے بہت سے واقعات اور قصے اِس قوم نے اِن نو مہینوں میں دیکھے بھی ہیں اور سنے بھی ہیں۔مایوسیوں اور بد اعتمادیوں کے اِن سنگین حالات میں بھی اگر کوئی مست اور سرشار ہے تو وہ صرف ہماری حکومت اور پی ٹی آئی ہیں۔اللہ ہماری اِس حالت پررحم فرمائے (آمین)۔
یہ پی ٹی آئی کے بعض رہنماؤں ہی کا خاصہ ہے کہ وہ جھوٹ بھی بولتے ہیں تو بڑے اعتماد اور یقین سے۔ وہ اپنی حکومت کی نااہلی اور ناکامی کو ابھی تک صرف یہ کہہ کر چھپاتے رہے ہیں کہ ہم کیا کریں یہ سب سابقہ حکومت کا کیا دھرا ہے۔ حالانکہ اگر غیر جانبدارانہ جائزہ لیاجائے تو معلوم ہوگا کہ 25جولائی 2018ء کو جب اِس ملک میں نئے الیکشن ہورہے تھے اُس وقت بھی ملک کے معاشی حالات اتنے دگر گوں نہیں تھے جتنے آج ہوچکے ہیں۔
اگر پی ٹی آئی والوں کاموقف درست تسلیم کرلیاجائے توپھرقابل غور بات یہ ہے کہ نگراں حکومت نے کیونکر یہ بات عوام کے سامنے نہیں رکھی۔اگر حالات اس قدر ہولناک تھے تو نگراں حکومت بھلاکیسے خاموش رہ سکتی تھی۔ہم سب جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف کے دور میں ملک کی معیشت کے بارے میں تمام عاملی مالیاتی اداروں کی رپورٹیں مثبت ریٹنگ دے رہی تھیں۔یہ رپورٹیں آج بھی ریکارڈ پر موجود ہیں۔مودی سمیت تمام مالیاتی اداروں کو ہماری کسی سیاسی شخصیت یاسیاسی پارٹی سے بھلا کیونکرہمدردی ہوسکتی تھی کہ وہ ایسی رپورٹس پیش کرتے۔ ساری دنیا حیران و پریشان تھی کہ پاکستان کی اسٹاک مارکیٹ کس تیزی سے دنیا کے ابھرتی ہوئی اسٹاک مارکیٹ کا درجہ حاصل کر رہی ہے۔ دوسری جانب ٹیکس ریونیو اپنے مقررہ ٹارگٹ سے ذیادہ حاصل ہو رہا تھا۔
ٹیکس فائلرز کی تعداد 18لاکھ کو چھونے لگی تھی۔اتنے کم عرصے میں ایک ملین ٹیکس فائلرز کا اضافہ خود ایک ریکارڈ ہے جسے ہمارے موجودہ چیئرمین ایف بی آربھی تسلیم کرچکے ہیں۔زرمبادلہ کے ذخائر 24ارب ڈالرز تک پہنچ چکے تھے۔ پانامہ اسکینڈل کو لے کراگر سازش کے جال بچھائے نہیں جاتے تو معیشت اور بھی پروان چڑھ جاتی۔ اِن ذخائر میں کمی کا رجحان میاں نواز شریف کو معزول کیے جانے کے بعد ہی سامنے آیا۔جب ایک اچھی بھلی حکومت کو یوں اچانک چلتا کردیا جائے تو پھر بزنس مینوں اور سرمایہ داروں کا اعتما د کیونکر بحال رہے گا۔
ہم سب جانتے ہیں کہ میاں نواز شریف نے 2013ء میں جب عنان حکومت سنبھالا تھا تو حالات کس قدر خراب تھے۔ ملک میں دہشتگردوں کا راج تھا۔ کوئی شہر اور قصبہ خود کش حملوں اور بم دھماکوں سے محفوظ نہ تھا۔ کراچی شہر جسے ہم تجارت اور بزنس کا ہب تصور کرتے ہیں، عرصہ دراز سے خون خرابے ، احتجاجی مظاہرے اور آئے دن کی ہڑتالوں کے عذاب سے دوچارتھا۔ زبردستی چندہ جمع کرنے والوں اور بھتہ مافیاکے کارندوں نے شہریوں کا جینا حرام کر رکھا تھا۔ کوئی پرسان حال نہیں تھا۔
زرداری حکومت اور اُن سے پہلے کی پرویز مشرف حکومت اُن دہشتگردوں کے ہاتھوں بلیک میلنگ کاشکار تھی۔ ملک میں توانائی کا شدید بحران تھا جو ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہا تھا۔چودہ چودہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ نے انڈسٹریل سیکٹر کا بیڑہ غرق کرکے رکھ دیا تھا۔میاں صاحب نے بہت مختصر وقت میںاِن سارے مسائل پر نہ صرف قابو پایا بلکہ اِنہیں مکمل طور پر ختم بھی کیا۔ خان صاحب کو میاں نواز شریف کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ اُنہوں نے ورثہ میں وہ حالات نہیں چھوڑے جن کا سامنا وہ خوداپنے دور میں کرچکے تھے۔
خان صاحب کو آج اگر وہی حالات ملے ہوتے تو نجانے وہ اُن سے کیسے نبرد آزما ہوتے۔ابھی جب اُنہیں ایسی کوئی مشکل درپیش نہیں ہے تو پھر بھی اُنہوں نے اپنی ساری ناکامیوں کا ملبہ سابقہ حکومت کے سر دے ڈالا ہے ورنہ بصور ت دیگر وہ کیا کرتے۔ستم بالائے ستم اُنہوں نے میاں نواز شریف کو ناکام بنانے کے لیے علامہ طاہرالقادری سے ملکرلانگ مارچ اور دھرنے کیے اور 126دنوں تک دارالحکومت اسلام آباد میں ڈی چوک پر دھرنا دیاجس کے وجہ سے بھی نہ صرف ہمار ی ترقی میں زبرست رخنہ پڑابلکہ سارا نظام ہی معطل ہوکر رہ گیا۔ دھرنے کے دوران ایک موقعہ تو ایسا بھی آیا کہ لاقانونیت اور انارکی نے حکومت کی رٹ ہی ختم کرڈالی اور پارلیمنٹ سمیت ساری حکومت خود اپنے ایوانوں میں محصور ہوکر رہ گئی۔
دھرنے کی ناکامی کے بعد میاں نواز شریف کو صرف دو سال سکون سے حکومت کرنے کے لیے میسرآئے اور اِن دوسالوں میں اُنہوں نے وہ سارے کام سر انجام دے ڈالے جن کے کرنے کے لیے کم از کم پانچ سال درکار ہوتے ہیں۔اُنہوں نے نہ صرف ملک سے دہشتگردی کا مکمل خاتمہ کیا بلکہ کراچی شہر کو بھی پھرسے امن کا گہوارہ بھی بناد یا۔دیکھا جائے تو یہ کوئی انتا سہل اور آسان کام نہیں تھا۔اُن سے پہلے کی حکومتیں چاہتے ہوئے بھی یہ کام نہ کرسکیں۔۔پرویز مشرف بھی یہ دونوں کام سرانجام نہ دے سکے۔
بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ مشرف کے دور میںہی یہ دونوں مسائل عفریت بنکر پاکستان کے عوام کرسروں پرمنڈلانے لگے۔میاں صاحب نے اِن دونوں مسائل کو بڑی دانشمندی اور ہشیاری سے افواج پاکستان اور رینجرز کی مدد سے حل کیا۔اِس کے علاوہ اُنہوں نے بجلی اور گیس کے بحران کو بھی اپنے اِس مختصر سے دور میں جانفشانی سے حل کیا۔ورثہ میں ملنے والے قومی خزانے سے یہ مسائل یقینا حل نہیں کیے جاسکتے تھے ۔لہذا اگر اُنہوں نے اگر قرضے لیے تو اُنہیں ترقی و خوشحالی کے اِن مثبت کاموں میں خرچ بھی کیا۔وہ جب برسراقتدار آئے تھے تو قومی خزانے میں محض 6 ا رب ڈالرز باقی رہ گئے تھے لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جب اُنہیں معزول کیاگیا تو ملک میں زرمبادلہ کے ذخائر 18ارب ڈالرز سے زائد تھے۔اِسی طرح اُن کے جانشیں جناب شاہد خاقان عباسی نے بھی جب اقتدار نگرانوں کے حوالے کیاتو قومی خزانے میں 16ارب ڈالرز سے زائد کی رقم محفوظ تھی۔اِس کے باوجود اگر کوئی یہ کہے کہ خزانہ خالی تھاتو وہ یقینا جھوٹ اور مکروفریب سے قوم کو ورغلا رہاہے۔
وقت تیزی سے گزرتا جارہا ہے اور لوگوں پریہ واضح ہوتا جارہا ہے کہ کون اِس ملک کو بہتر طریقے سے چلاسکتا ہے اور کون صرف باتیں کرکے بڑی بڑی شیخیاں بھگارکے قوم کو بے قوف بناتا رہا ہے۔ہمارا وطن عزیز حکمرانوں کے نااہلی اور نا عقلی کے وجہ سے آج جس بحرانی کیفیت میں مبتلا ہے 70 سال میں کبھی نہیں تھا۔حکومت کی کوئی سمت اور کوئی منزل مقرر نہیں ہے۔
تمام ترقیاتی کاموں پر قدغن لگائی جاچکی ہے۔ملک آگے کی بجائے اُلٹی جانب یعنی مخالف سمت چل پڑا ہے۔ GDPکے شرح 5.8سے کم ہوکر2.5تک پہنچ گئی ہے۔ملکی کرنسی کے حیثیت تمام پڑوسی ممالک کے نسبت اتنی گر چکی ہے کہ ہمارے لوگوں کو خود اپنے پاکستانی ہونے پر شرم آنے لگی ہے۔ بھارت ہم سے جنگ کرکے ہمیں کیاتباہ کرتا ہم نے خود ہی اپنے آپ کو تباہ و برباد کرڈالا ہے۔ 6ارب ڈالرز کے قرضے کے لیے IMFکے اس قدر سخت شرائط مان لی گئیں ہیں کہ اب ہماری خود مختاری اور سا لمیت بھی داؤ پر لگ چکی ہے۔سی پیک جیسے عظیم منصوبے کی رفتار بھی اُن کے اعتراضات کی بدولت سست کردی گئی ہے۔ اِس کے باوجود ہمارے وزیراعظم فرماتے ہیں کہ لوگو گھبرانا نہیں ۔مرغیوں ، بھینسوں او ر کٹوں کی پرورش کے دلکش منصوبے پیش کرنے والے ذہین و فتین، قابل وحسین ، ہینڈ سم اور اسمارٹ وزیراعظم کو شاید پتا ہی نہیں کہ دنیا آج کہاں سے کہاں پہنچ گئی ہے۔
18مئی کی شام کو پشاور میں وہ شوکت خانم اسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے قوم کو دلاسہ دے رہے تھے کہ دوچار دنوں میں سمندر سے تیل اور گیس کے ذخائر نکل آئیں گے تو سارے مسائل فوراً حل ہوجائیں گے۔ جب کہ دوسرے جانب اُسی شام اُن کے ایک مشیر توانائی جناب ندیم بابراِن پروجیکٹ کو ناکامی کے سبب بند کردینے کا اعلان فرما رہے تھے۔غفلت اور لاعلمی کی ایسے بہت سے واقعات اور قصے اِس قوم نے اِن نو مہینوں میں دیکھے بھی ہیں اور سنے بھی ہیں۔مایوسیوں اور بد اعتمادیوں کے اِن سنگین حالات میں بھی اگر کوئی مست اور سرشار ہے تو وہ صرف ہماری حکومت اور پی ٹی آئی ہیں۔اللہ ہماری اِس حالت پررحم فرمائے (آمین)۔