عید کے بعد پیپلز پارٹی کا حکومت کیخلاف تحریک چلانے کا اعلان

پیپلز پارٹی سندھ میں احتجاجی تحریک چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

پیپلز پارٹی سندھ میں احتجاجی تحریک چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ فوٹو: فائل

پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے عید کے بعد پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا ہے۔

اس تحریک میں سندھ کیا کردار ادا کرے گا اور وفاقی حکومت کی جانب سے سندھ میں جوابی کارروائی کیا ہو گی؟ اس کے بارے میں اندازوں اور قیاس آرائیوں کا سلسلہ جاری ہے تاہم اس بات پر زیادہ حلقے متفق ہیں کہ دیگر صوبوں کے مقابلے میں سندھ سیاسی کشمکش سے زیادہ متاثر ہو گا۔ سندھ کے سیاسی حالات آئندہ کیا رخ اختیار کریں گے اس کے بارے میں بات کرنے سے پہلے سندھ اسمبلی کے طویل ترین اجلاس کا تذکرہ ضروری ہے۔

9 جنوری 2019 کو شروع ہونے والا سندھ اسمبلی کا اجلاس 18 مئی 2019 کو پورے 130 دن کے بعد اختتام پذیر ہوا ۔ 130 دنوں کے اس سیشن میں 69 اجلاس ہوئے۔ یہ سندھ اسمبلی کی تاریخ کا طویل ترین سیشن تھا۔ اب تک سندھ اسمبلی اپنے پہلے پارلیمانی سال کے 100 میں سے 99 اجلاس کر چکی ہے۔ اس طویل ترین سیشن میں اپوزیشن نے احتجاج کا بھی اپنا ریکارڈ قائم کیا لیکن اپوزیشن کا اتحاد کارگر نہ ہو سکا ۔ اپوزیشن کو نہ تو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ ملی اور نہ ہی دیگر اسٹینڈنگ کمیٹیوں کی مطلوبہ سربراہی۔ اپوزیشن کا کوئی بھی رکن پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اور اسٹینڈنگ کمیٹیوں میں شامل نہیں ہے۔ کچھ اسٹینڈنگ کمیٹیاں اپوزیشن کے انتظار میں ابھی تک قائم نہیں کی گئی ہیں۔ اس وقت سندھ میں اپوزیشن صرف ایوان میں ہنگامہ کرتی ہے۔

پارلیمانی اداروں میں اس کی نمائندگی نہیں ہے۔ حکومت نے اپنی مرضی کی قانون سازی بھی کر لی ہے۔ خاص طور پر سندھ اسمبلی سے حکومت نے اپوزیشن کے زبردست احتجاج کے باوجود نیا پولیس قانون منظور کرا لیا ہے۔ اس قانون کے تحت پولیس ایکٹ 1861 صوبے میں منسوخ کر دیا گیا ہے اور جنرل پرویز مشرف کے دور کا پولیس آرڈر 2002 بحال کر دیا گیا لیکن اس پولیس آرڈر میں بہت سی ترامیم کی گئی ہیں۔ نئے پولیس قانون سے پولیس کے امور میں وزیر اعلی سندھ اور حکومت سندھ کو زیادہ اختیارات حاصل ہو گئے ہیں اور آئی جی سندھ کے اختیارات کم ہو گئے ہیں۔


ڈی ایس پی سے لے کر ایڈیشنل آئی جی کے تبادلے و تقرریاں وزیر اعلی، چیف سیکرٹری یا ہوم سیکرٹری کر سکیں گے۔ جونیئر رینکس کے افسروں کے تبادلوں اور تقرریوں کا اختیار اگرچہ آئی جی سندھ کے پاس ہو گا لیکن وہ اس کے لیے حکومت سندھ سے مشاورت کریں گے۔ نئے پولیس قانون کے تحت صوبائی اور ضلعی سطح پر پبلک سیفٹی اینڈ پولیس کمپلینٹس سنٹر قائم کیے جائیں گے ، جو پولیس کی کارکردگی کو مانیٹر کریں گے اور پولیس کے خلاف شکایات کے ازالے کی سفارش کریں گے۔ صوبائی کمیشن تحریری اسباب بیان کرکے آئی جی سندھ کو ہٹانے کی سفارش بھی کر سکتا ہے۔

صوبائی اور ضلعی کمیشنز کے ارکان کی نامزدگی میں بھی حکومت سندھ کے اختیارات زیادہ ہیں۔ حکومت سندھ آئی جی سندھ کی خدمات وفاق کو واپس بھی کر سکتی ہے۔ اپوزیشن نے اس بل پر بہت اعتراضات کیے ہیں۔ اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وہ اس بل کو عدالت میں چیلنج کریں گے کیونکہ اس قانون سے پولیس کو بے اختیار بنادیا گیا ہے اور پولیس میں سیاسی مداخلت زیادہ ہو جائے گی۔ سندھ حکومت کے ذمہ داروں کا کہنا یہ ہے کہ دیگر صوبوں سے یکسانیت پیدا کرنے کے لیے یہ قانون منظور کیا گیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن کی عدالتی چارہ جوئی کی صورت میں عدالت اس قانون کے بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہے۔

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت کے خلاف عید کے بعد احتجاج کی صورت میں سندھ پر لوگوں کی زیادہ نظر ہو گی کیونکہ سندھ پیپلز پارٹی کا سیاسی قلعہ ہے۔ پیپلز پارٹی کے خلاف سندھ میں مخالف سیاسی جماعتیں کئی بار احتجاجی مہم شروع کرنے کا اعلان کر چکی ہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئی ہیں۔

پیپلز پارٹی سندھ میں احتجاجی تحریک چلانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی سندھ میں عوامی رابطہ مہم کے دوران یہاں کے لوگوں نے توقع سے زیادہ بلاول بھٹو زرداری کی پذیرائی کی۔ اس کی وجہ سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سندھ تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ممکنہ تحریک کا مرکز بن سکتا ہے لیکن وفاقی حکومت کے پاس بھی کارڈز موجو د ہیں۔ سندھ میں قومی احتساب بیورو ، ایف بی اے اور دیگر وفاقی اداروں کی پہلے سے جاری کارروائیوں میں اگرچہ شدت پیدا ہوئی تو اس صورت میں یہ دیکھنا ہو گا کہ پیپلز پارٹی احتجاجی تحریک کو کتنی مدت تک چلا سکتی ہے۔
Load Next Story