متحدہ اپوزیشن بلوچستان حکومت کیخلاف احتجاج کی راہ پر گامزن

فیڈریشن کو بچانے کیلئے صوبے کے سیاسی اکابرین متحرک ہوگئے ہیں۔

فیڈریشن کو بچانے کیلئے صوبے کے سیاسی اکابرین متحرک ہوگئے ہیں۔ فوٹو: فائل

بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن نے عید کے بعد جام حکومت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کردیا ہے۔

متحدہ اپوزیشن کی اپیل پر صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں شٹر ڈائون ہڑتال کی گئی جبکہ پریس کلب کے سامنے متحدہ اپوزیشن نے احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جن میں متحدہ اوزیشن کے رہنمائوں نے عید کے بعد جام حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ فیڈریشن کو بچانے کیلئے صوبے کے سیاسی اکابرین متحرک ہوگئے ہیں موجودہ حکومت میں شامل لوگ بلوچستان کے بگڑتے حالات کی تعبیر غلط کر رہے ہیں حکومت نے رویہ نہ بدلا تو وزیراعلیٰ ہائوس کا بھی گھیرائو کیا جائے گا ۔

اُن کا کہنا تھا کہ جام حکومت کی نا اہلی کے باعث صوبے کا80 فیصد بجٹ لیپس ہوگیا امن وا مان کی صورتحال ابتر ہوگئی ہے مہنگائی نے عوام کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم صرف پی ایس ڈی پی کی نہیں بلکہ پورے بلوچستان کی بات کر رہے ہیں موجودہ صوبائی حکومت کو ایک مخصوص ایجنڈے کے ذریعے عوام پر مسلط کیا گیا ہے اگر صوبائی حکومت نے اپنا رویہ نہ بدلا تو ہم اپنے احتجاج کا دائرہ مزید وسیع کریں گے اور حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلائیں گے۔

متحدہ اپوزیشن کی جانب سے حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے اعلان کے بعد صوبائی مخلوط حکومت کے وزراء نے متحدہ اپوزیشن سے رابطہ کیا اور حکومتی اور اپوزیشن ارکان کی ایک بیٹھک بھی ہوئی جس میں حکومتی ارکان نے ایک بار پھر یہ وضاحت کی کہ بجٹ لیپس ہونے کی باتیں محض افواہیں ہیں صوبائی پی ایس ڈی پی میں اب تک50.50 بلین روپے کی اتھارٹیزیشن ہوچکی ہے جس میں سے29 بلین روپے غیر کیش شدہ چیکس ، ساڑھے 12 بلین روپے صوبائی فنڈز اسکیمات اور5 بلین روپے وفاقی فنڈز اسکیمات کی مد میں خرچ ہوئے جبکہ دیگر اتھارٹیز شدہ رقم کے حوالے سے بھی اخراجات جاری ہیں، اپوزیشن ارکان سے ہونے والی اس بیٹھک میں محکمہ پی اینڈ ڈی نے پی ایس ڈی پی کے حوالے سے مکمل بریفنگ بھی دی اور اپوزیشن ارکان کے اس حوالے سے جو تحفظات و تجاویز ہیں وہ بھی سنی گئیں ۔

جبکہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کی ہدایت پر بلوچستان کے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاریوں کا بھی آغاز کردیا گیا ہے اور اس حوالے سے وزیراعلیٰ کی زیر صدارت اجلاسوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا ہے کہ اگر سابقہ ادوار میں پی ایس ڈی پی قواعد و ضوابط اور عوامی ضروریات کے مطابق بنائی جاتیں تو آج ترقی کے ثمرات عوام تک پہنچ رہے ہوتے ان کا کہنا ہے کہ سیاسی قیادت کی دی گئی گائیڈ لائن کے مطابق صوبائی محکموں کی جانب سے پی ایس ڈی پی کو درست سمت میں لے جانے کا عمل انتہائی خوش آئند ہے اس سے دستیاب وسائل اور اخراجات میں توازن پیدا ہوگا۔


ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ہم ترقیاتی عمل کو مائیکرو لیول تک لے جائیں گے جس سے چھوٹے پیمانے کے مسائل عوام کی دہلیز پرحل ہونگے جبکہ پی ایس ڈی پی میں ضلع اور صوبے کی سطح کے منصوبوں کو ترجیح دی جائے گی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ حکومتی سطح پر تھنک ٹینک کے قیام کی ضرورت ہے جو صوبے کی ترقیاتی ضروریات اور وسائل میں اضافے سمیت دیگر اُمور پر حکومت کو قابل عمل تجاویز اور رہنمائی فراہم کر سکیں۔ سیاسی حلقوں کے مطابق توقع کی جا رہی ہے کہ بلوچستان کا آئندہ مالی سال2019-20 کا بجٹ جون کے آخری ہفتے میں پیش کردیا جائے گا۔

اُدھر بی این پی مینگل کے سربراہ سردار اختر مینگل اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے امیر مولانا فضل الرحمان کی اسلام آباد میں ملاقات کو بھی سیاسی حلقے بہت اہمیت دے رہے ہیں کیونکہ بلوچستان میں یہ دونوں جماعتیں متحدہ اپوزیشن کا حصہ ہیں۔ سیاسی مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمان اور سردار اختر جان مینگل کی ملاقات کے بعد وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان بھی سرگرم ہوگئے ہیں اور اُنہوں نے وزیراعظم پاکستان عمران خان سے ملاقات کی ہے ملاقاتوں کا یہ سلسلہ اور سیاسی سرگرمیوں میں اچانک تیزی اور بلوچستان کی متحدہ اپوزیشن کے عید کے بعد جام حکومت کے خلاف بھرپور تحریک چلانے کے اعلان سے بھی اس بات کو تقویت مل رہی ہے کہ بلوچستان کی سیاست میں ہلچل سی آنے والی ہے جس کی باز گشت کچھ عرصے سے سیاسی حلقوں میں مختلف اطراف سے سنائی دے رہی تھی کہ بجٹ کے بعد جولائی کا مہینہ صوبے کی سیاست میں بہت اہم ہوگا۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق بعض سیاسی حلقوں میں یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی جا رہی ہے کہ ملکی سیاست کا رخ بلوچستان سے تبدیل ہوتا نظر آرہا ہے کیونکہ بڑے سیاسی برجوں نے سر جوڑ لئے ہیں اور بلوچستان میں تبدیلی کے اثرات وفاق تک جاسکتے ہیں؟ بعض سیاسی مبصرین کے مطابق مولانا فضل الرحمان اور سردار اختر مینگل کے درمیان ملاقات اس لئے بھی اہمیت اختیار کر گئی ہے کہ سردار اختر مینگل کی جماعت بی این پی مرکز میں حکومت کی حمایت کرنے کے باوجود آزاد بنچوں پر بیٹھی ہے اور بلوچستان میں اپوزیشن بنچوں پر جے یو آئی (ف) کی اتحادی جماعت ہے۔

مرکز میں اپنے6 نکات کے مطالبے پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث اس وقت تحریک انصاف کی حکومت سے سخت نالاں ہے اور دیئے گئے وقت کے مکمل ہونے کا انتظار کر رہی ہے جبکہ اس حوالے سے بی این پی مینگل کو اپنی جماعت کے اندر اور باہر سے بھی کافی سیاسی دبائو کا سامنا ہے۔ سیاسی مبصرین کے مطابق اگر بی این پی مینگل اس حوالے سے کوئی فیصلہ کرتی ہے اور مرکز میں تحریک انصاف کی حمایت چھوڑ دیتی ہے تو یقینا اس کے اثرات بلوچستان کی سیاست پر بھی ہونگے اور مرکز تک یہ اثرات جا سکتے ہیں۔

دوسری جانب تحریک انصاف کے صوبائی صدر اور رکن صوبائی اسمبلی سردار یار محمد رند کاجعلی ڈگری کیس سے باعزت بری ہونے کا فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب صوبے کی سیاست ہچکولے کھا رہی ہے ان سیاسی حلقوں کے مطابق صوبے کی ہچکولے کھاتی اس سیاست میں سردار یار محمد رند تازہ دم ہو کر حصہ لینے کی پوزیشن میں آگئے ہیں اور یقیناً وہ کچھ عرصے سے صوبے کی سیاست میں اُس طرح سے سرگرم نہیں تھے جس طرح سے وہ عام انتخابات سے قبل تھے۔
Load Next Story