انتظامی معاملات ضابطے کے تحت نمٹانے پر توجہ دینے کی ضرورت

جب حکومت معاملات کو قدرے سہولت سے لیتی ہے تواس کا فائدہ اپوزیشن لینے کے لیے تیار ہوتی ہے۔

جب حکومت معاملات کو قدرے سہولت سے لیتی ہے تواس کا فائدہ اپوزیشن لینے کے لیے تیار ہوتی ہے۔فوٹو: فائل

وزیراعظم عمران خان کے دورہ پشاور کا بنیادی مقصد توشوکت خانم ہسپتال کے لیے فنڈ ریزنگ ہی تھا جو وہ ہر سال کرتے ہیں تاہم اس مرتبہ صورت حال کچھ یوں تبدیل رہی کہ یہ دورہ ان کا بطور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف یا شوکت خانم ہسپتال کے نگران کی حیثیت سے نہیں بلکہ وزیراعظم پاکستان کی حیثیت سے تھا اس لیے فوکس میں رہا۔

اس دورے کے بہانے انہوں نے صوبائی کابینہ کو بھی لائن اپ کیا کیونکہ صوبہ میں ڈاکٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے جو صورت حال بنی ہوئی ہے اور جس طریقے سے وزیراعظم کے کزن نوشیروان برکی پر انڈے پھینکے گئے وہ یقینی طور پر وزیراعظم نہ تو بھلا سکتے ہیں اور نہ ہی نظر انداز کر سکتے ہیں اسی لیے انہوں نے یہ معاملہ سنجیدگی سے لیا اور اسی بات کو مد نظررکھتے ہوئے وہ صوبائی کابینہ کو بھی ہدایت کرگئے ہیں کہ معاملات کو اس طریقے سے چلایا جائے کہ وہ کنٹرول میں رہیں کیونکہ جب حکومت معاملات کو قدرے سہولت سے لیتی ہے تواس کا فائدہ اپوزیشن لینے کے لیے تیار ہوتی ہے جیسے اپوزیشن نے ڈاکٹروں کے ہڑتال کے دوران فائدہ لینے کی کوشش کی۔


چونکہ ہفتہ رفتہ کے دوران صوبہ کی سیاست پر ڈاکٹروں کی ہڑتال اور احتجاج چھایا رہا اس لیے صوبہ کی سیاست اور صوبائی حکومت کی سرگرمیاں بھی اسی ایشو کے گرد گھومتی رہیں،ایک ڈاکٹر کی وجہ سے یہ مسلہ پیدا ہوا جس نے وزیراعظم کے کزن نوشیران برکی پر انڈے پھینکے تاہم اس کے بعد وزیر صحت ہشام انعام اللہ اور ان کے گارڈز کی جانب سے جس انداز سے اس کا جواب دیاگیا اس سے یہ مسلہ شدت اختیار کرگیا حالانکہ اگر صوبائی حکومت مذکورہ ڈاکٹر کے خلاف انڈے پھینکے جانے کے حوالے سے ضابطے کی کاروائی کرتی تو معاملہ کنٹرول میں رہتا، تاہم صوبائی وزیر صحت ہوں یا ان کے گارڈز،ان کی جانب سے کی جانے والی ایک لوز بال نے سارا معاملہ گھمبیر بنا دیا جس کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ تین، چار دن ہسپتالوں میں ہڑتال ہوئی اور عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا بلکہ حکومت اور ڈاکٹر برادری آمنے سامنے آگئے اور حکومت ڈاکٹروں کے خلاف انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہوگئی جو یقینی طور پر کوئی اچھی صورت حال نہیں اور نہ ہی حکومتوں میں ہوتے ہوئے ایسی کوئی لوز بال کرنی چاہیے۔

واقفان حال کا کہنا ہے کہ وزیرصحت اور ڈاکٹرکے درمیان جو مار پٹائی ہوئی اس کے بعد کی صورت حال میں انھیں اپنی ہی حکومت کی جانب سے پس منظر میں چلے جانے کے لیے کہا گیا تاکہ سیاسی محاذ پر کھیلتے ہوئے بہتر طریقے سے اس ایشو کو سنبھالا جا سکے یہی وجہ ہے کہ اس کے بعد وزیراعلیٰ کی ہدایات کے مطابق صوبائی وزیر اطلاعات شوکت علی یوسفزئی ہی محکمہ صحت سے متعلق تمام معاملات کو لے کر میڈیا کے سامنے آتے رہے جن کے پہلو میں محکمہ صحت کے حکام تو ضرور موجود رہتے تاہم وزیر صحت نظر نہیں آئے، صورت حال کوئی سی بھی کیوں نہ ہو لیکن بہرکیف اس صورت حال کی وجہ سے حکومت مشکلات کا شکار رہی اور اب وزیراعلیٰ محمود خان خود میدان میں آگئے ہیں جو یقینی طور پربردبار اور تحمل مزاج انسان ہونے کے ناطے اس ایشو کو باریکی سے دیکھتے ہوئے معاملہ سنبھال لیں گے۔ تاہم یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت جو اصلاحات ہسپتالوں میں لانے کی خواہاں ہے اور جو پالیسی بنائی گئی اس کا نفاذ وہ ہر صورت چاہتی ہے اور اس سلسلے میں حکومت ہو یا پی ٹی آئی کسی سمجھوتے کے موڈ میں نظر نہیں آتی۔


خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کی صورت حال یہ ہے کہ صوبائی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں سے مستعفی ہونے کے بعد تاحال وہ استعفے واپس لینے کے لیے تیار نہیں ہوئے، حکومت کی جانب سے صوبائی وزیراطلاعات اور وزیرقانون نے اپوزیشن کے ساتھ رابطہ بھی کیا اور نشست بھی لیکن بات بن نہیں سکی۔ کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ صوبائی وزراء کی کمیٹی ہی نے پہلے بھی مذاکرات کیے تھے جس میں ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کا فارمولے طے پانے کے علاوہ دیگر امور پر بھی اتفاق رائے کیا گیا تھا تاہم اس کے بعد ان امور پر عمل درآمد نہیں ہو سکا اور اسی وجہ سے اب اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی اور دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے پارلیمانی لیڈروں نے صوبائی وزراء کے ساتھ نشست کو بے معنی قراردیتے ہوئے واضح کردیا کہ اب جو بھی بات ہوگی جس کے بعد ہی اپوزیشن جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی قائمہ کمیٹیوں سے دیئے گئے اپنے استعفے واپس لیں گے۔

سیاسی جماعتوں میں قبائلی اضلاع میں صوبائی اسمبلی کے انتخابات کے انعقاد اور کاغذات نامزدگی جمع کرانے کی وجہ سے ہلچل پیدا ہوئی تھی تاہم چھبیسویں آئینی ترمیم کے تحت ان قبائلی اضلاع کے لیے نشستوں کی تعداد میں اضافہ اور الیکشن کے چھ ماہ سے ایک سال تک کے لیے ملتوی ہونے کے امکانات کی وجہ سے اچانک پیداہونے والی یہ ہلچل پھر تھم گئی ہے۔ دوسری جانب سیاسی جماعتوں نے عید کے بعد حکومت کے خلاف میدان میں نکلنے کی بھی تیاریاں شروع کردی ہیں اور یہ مرحلہ اپوزیشن جماعتوں کے لیے زیادہ سخت ہوگا کیونکہ تحریک انصاف حکومت کے وجود میں آنے کے بعد ہی سے مولانا فضل الرحمن حکومت کے خلاف متحرک ہیں تاہم اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں مسلم لیگ(ن) اورپیپلزپارٹی ان کے ساتھ اتفاق کرتے ہوئے حکومت مخالف تحریک چلانے کے لیے اکٹھی نہیں ہو رہی تھیں۔

لیکن اب صورت حال تبدیل ہوئی ہے اور پیپلزپارٹی ہو یا مسلم لیگ(ن) دونوں ہی کی قیادت نے عید کے بعد حکومت کے خلاف میدان میں نکلنے کا عندیہ دے دیا ہے ۔اپوزیشن جماعتوں کی عید کے بعد آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوگی اور یہ اے پی سی بھی مولانا فضل الرحمن کی سربراہی میں منعقد ہوگی اس لیے آثار بتا رہے ہیں کہ اس اے پی سی کے ذریعے اپوزیشن جماعتیں احتجاجی پروگرام کا باقاعدہ طور پر اعلان کر دیں گی۔
Load Next Story