جعلی نان ریذیڈنٹ کمپنیوں کوبھاری ادائیگی کا معاملہ

پاکستان میں اعلیٰ سطح پر بدعنوانی اور ہیر پھیر کے کیسز اکثر منظر عام پر آ رہے ہیں۔

بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے کئی مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور نیب کے زیر تفتیش بھی ہیں۔ فوٹو: فائل

جعلی نان ریذیڈنٹ کمپنیوں کو ریفنڈز کی مد میں 25کھرب روپے کی ادائیگیوں اور پے فون کمپنیوں کو 46ارب روپے کا ٹیکس استثنیٰ دینے کا معاملہ یقینی طور پر اعلیٰ حکام کے لیے قابل غور ہونا چاہیے۔ فیڈرل ریونیو الائنس ایمپلائز یونین کا یہ مطالبہ درست نظر آتا ہے کہ اس معاملے کی جوڈیشل انکوائری ہونی چاہیے۔ پاکستان میں اعلیٰ سطح پر بدعنوانی اور ہیر پھیر کے کیسز اکثر منظر عام پر آتے رہتے ہیں۔ بدعنوانی اور بے ضابطگیوں کے کئی مقدمات اعلیٰ عدالتوں میں زیر سماعت ہیں اور نیب کے زیر تفتیش بھی ہیں۔ رینٹل پاور کیس ہو یا حج اسکینڈل یہ سارے معاملات ظاہر کرتے ہیں کہ اعلیٰ سطح پر مالیاتی امور میںشفافیت کا وہ معیار نہیں ہے جو ہونا چاہیے۔


موجودہ حکومت نے ملک میں بے ضابطگیوں اور بدعنوانیوں کے خلاف ایک مہم شروع کر رکھی ہے۔ بجلی چوروں کو پکڑنے کی مہم بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ ملک میں نچلی سطح سے لے کر اعلیٰ سطح تک رشوت اور کک بیکس کے بغیر کام ممکن نہیں ہے۔ سرکاری تعمیراتی شعبوں میں بھی اس قسم کی بدعنوانی معمول کا حصہ ہے۔ ٹیکسوں کے معاملات میں بھی ہیر پھیر کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں گڈ گورننس کے لیے لازم ہے کہ سرکاری محکموں کے معاملات کو درست طریقے سے چلایا جائے۔ جب تک مالی امور میں شفافیت یقینی نہیں بنائی جاتی اس وقت تک گڈ گورننس کا تصور بھی عملی شکل اختیار نہیں کر سکتا۔
Load Next Story