عمران شہباز اور دستی…خلق خدا کی آواز سن لیں
حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج آنے کے فوری بعد مجھے یقین سا آ گیا کہ پاکستان مثبت راستوں پر چل نکلا ہے۔
QUETTA/PESHAWAR:
حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج آنے کے فوری بعد مجھے فخر بھرا اطمینان ہوا۔ یقین سا آ گیا کہ پاکستان مثبت راستوں پر چل نکلا ہے۔ صحافت سے مستقل طور پر وابستہ ہو جانے کے بعد بطور رپورٹر میں نے پہلا ضمنی انتخاب 1975 کے ان دنوں میں دیکھا تھا جب غلام مصطفیٰ کھر پیپلز پارٹی سے ناراض ہو کر پیر پگاڑا والی مسلم لیگ میں چلے گئے تھے۔ لاہور کے حلقہ نمبر 6 سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست خالی ہوئی تو اسے جیت کر پنجاب اسمبلی پہنچنے کی کوشش کی۔
بھٹو صاحب نے اپنے ایک عام سے جیالے شیر محمد بھٹی کو ان کے مقابل کھڑا کر دیا۔ پیپلز پارٹی ان دنوں لاہور میں بہت مقبول ہوا کرتی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ انتخاب منصفانہ ہونے دیا جاتا تو بھٹی صاحب غیر معمولی نہ سہی کچھ ووٹوں کی برتری سے ضرور کامیاب ہو جاتے۔ مگر بھٹو صاحب اور ان کے چند ضرورت سے زیادہ وفادار مشیروں کو اپنی حکومت کی دہشت ثابت کرنے کی دھن سمائی رہتی تھی۔ کھر صاحب کے ایک بہت بڑے جلسے میں سانپ چھوڑ کر کافی تماشا رچایا گیا۔ مجھے ذاتی طور پر زیادہ دُکھ اس بات کا بھی ہوا کہ صحافت پر ناروا پابندیوں کے باعث میں ریاستی دہشت کے اس مضحکہ خیز مگر آمرانہ استعمال کو اپنی بنائی خبر میں پوری طرح بیان نہ کر پایا۔
اس دن کے بعد سے پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں اور اپنی معیاد پوری کیے یا نہ کیے بغیر فارغ ہو گئیں۔ ضمنی انتخابات جب بھی ہوئے مرکز یا صوبے میں بیٹھی حکومتوں نے ہی جیتے۔ اپوزیشن کا کوئی امیدوار ایسے انتخابات میں اپنی جیت کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔ حکومتی امیدوار کے مقابل صرف اس لیے کھڑا ہوا جاتا کہ اپوزیشن میں بیٹھے لوگوں کے دلوں میں انتخابی مہم کے ذریعے کچھ جان ڈالی جا سکے۔ 2013کے ضمنی انتخابات نے اس حوالے سے خوش گوار حیرانیاں فراہم کی ہیں۔ اسلام آباد سے عمران خان کا امیدوار ہی جیتا۔ مگر ان کی پشاور سے چھوڑی نشست پرویز خٹک کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے بھی حاجی غلام احمد بلور جیت گئے۔ شہباز شریف بڑے دھانسو وزیر اعلیٰ مانے جاتے ہیں۔ مگر صوبائی اسمبلی کی جو نشست انھوں نے راجن پور میں چھوڑی تھی وہاں سے تحریک انصاف کے دریشک جیت گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی سے میانوالی والی نشست ہار گئی۔
عمران خان اور شہباز شریف کی چھوڑی ہوئی نشستوں سے اپوزیشن کے لوگوں کا جیت جانا ہمارے عوام کی سیاسی بلوغت کا ایک متاثر کن اظہار ہے۔ پشاور اور میانوالی کے شہریوں نے عمران خان کو صاف طور پر بتا دیا کہ وہ ان کی کرشماتی شخصیت سے محبت ضرور کرتے ہیں مگر ان کی ذات سے اندھی عقیدت کے ساتھ وابستہ نہیں۔ وہ ان کے ساتھ محبوبوں والی من مانیاں نہیں کر سکتے۔ شہباز شریف کو بھی راجن پور سے ایسا ہی پیغام دیا گیا ہے۔
عمران خان اور شہباز شریف تو قومی سطح کے رہنما ہیں۔ پاکستان کے عام لوگوں میں پائے جانے والے سیاسی شعور اور بلوغت کا پورا اندازہ لگانا ہو تو ذرا غور سے قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 177 کے نتائج کا جائزہ لیجیے۔ مظفر گڑھ کی ایک اور نشست کی طرح یہ حلقہ بھی جمشید دستی نے جیتا تھا۔ دستی صاحب کو پاکستان کے لوگوں کی بے پناہ اکثریت نے 2009کے ان آخری ہفتوں میں دریافت کیا تھا جب 24/7 چینلوں کے فروغ پارسائی کے نیک کام میں مبتلا اینکروں نے جعلی ڈگری والوں کے خلاف بھرپور ماتم کنائی فرمائی تھی۔ ان کے سیاپے کی تمام تر شدت جمشید دستی کو استعفیٰ دے کر ایک بار اپنے حلقے سے دوبارہ قومی اسمبلی میں پہنچانے سے نہ روک سکی۔ ہم لوگوں نے دستی کے اس جادو پر کوئی تحقیق نہ کی۔ مگر امریکا اور یورپ کے کئی محققین نے اس جادو کی بنیادوں کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کی۔ میں محقق تو بالکل نہیں۔ محض اتفاق ہوا کہ 2010کے سیلاب کے دوران تقریباََ ایک ہفتہ مظفر گڑھ کے ان علاقوں میں خوار ہوتا رہا جو پانی کی ظالمانہ لہروں کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔
سیلاب کے ان طوفانی دنوں میں جمشید دستی اکثر مجھے گہرے پانیوں میں مصیبت زدگان کے ہمراہ پناہ گاہوں کی طرف سفر کرتے نظر آئے۔ واضح ہو گیا کہ ائر کنڈیشنڈ اسٹوڈیوز میں سرخی پائوڈر لگائے پارسائی فروش جو بھی کہتے رہیں، دستی کا جینا مرنا اپنے غریب لوگوں کے ساتھ ہے۔ میں نے اپنے قیام کے دوران ان کے بارے میں کئی داسانیں سنیں جو میری دانست میں لوگ رابن ہڈ جیسے ''سلطانہ ڈاکوئوں'' کے بارے میں کسی زمانے میں بتایا کرتے تھے۔ مجھے ٹی وی اسکرین پر سیلاب زدہ علاقوں میں مسلسل دیکھتے ہوئے ایک دن صدر زرداری نے طویل فون کیا اور صورتحال کو پوری تفصیلات کے ساتھ جاننا چاہا۔ میری جمشید دستی سے کوئی ذاتی شناسائی نہ تھی۔ مگر میں نے ان کے بارے میں صدر زرداری کو وہی کچھ بتایا جو زبان زد عام تھا۔ دو دن بعد صدر زرداری خود اس علاقے میں آ گئے۔ صدارتی طیارے میں ان کے ہمراہ اس شہر سے منتخب حنا ربانی کھر جو اُس وقت وزیر خارجہ بھی تھیں موجود نہ تھیں۔
وہ ایک اور طیارے میں جسے ہنگامی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے صدارتی طیارے کے ساتھ اُڑایا جاتا ہے صرف فرحت اللہ بابر کے ساتھ بیٹھ کر وہاں آئیں۔ صدر زرداری اپنے دورے کے بعد واپس جانے لگے تو انھوں نے جمشید دستی کو اپنے ہمراہ کر لیا۔ مقامی سیاست کے حوالے سے ان کا یہ قدم حنا ربانی کھر کے لیے بہت بڑا دھچکہ تھا۔ مجھے آج بھی ان کا وہ اداس چہرہ یاد ہے جو ''ان کے علاقے'' میں صدر زرداری کے ہاتھوں جمشید دستی کی ناز برداری سے بجھ سا گیا تھا۔ اس دن کے بعد سے دستی صاحب پیپلز پارٹی کے ہر وزیر کے بڑے لاڈلے بن گئے۔ قومی اسمبلی کی اسپیکر بھی انھیں بڑے ادب سے ''تختِ لاہور'' کے خلاف جوشیلی تقریریں کرنے کے بھرپور اور متواتر مواقعے فراہم کرتیں۔ ان سب ناز برداریوں کے باوجود مئی 2013 کے انتخابات آئے تو دستی صاحب مظفر گڑھ سے دو حلقوں پر ''آزاد'' حیثیت میں کھڑے ہو گئے۔
دونوں حلقے جیت کر وہ ''تختِ لاہور'' کے رائے ونڈ والے محل پہنچے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے بغیر نواز شریف کو اپنی حمایت کا یقین دلا دیا اور بدلے میں ''سرائیکی وسیب'' نامی کسی شے کے لیے کچھ بھی طلب نہ کیا۔ ضمنی انتخاب ہوئے تو ''جاگیرداروں'' کی طرح جنھیں وہ برسوں سے لعن طعن کر رہے ہیں انھوں نے اپنے کسی بے وسیلہ کارکن کو نہیں بلکہ سگے بھائی جاوید کو کھڑا کر دیا، صاف ظاہر تھا ''کھروں'' ''گورمانیوں'' اور ''نوابزادوں'' کی ''خاندانی وراثتوں'' کے خلاف جدوجہد کے بعد اب وہ مظفر گڑھ میں اپنا ذاتی ''خانوادئہ دستی'' بنانا چاہ رہے تھے۔ مظفر گڑھ کے لوگوں کو یہ عمل پسند نہ آیا۔ انھوں نے انگریزی محاورے والے اُسی "Devil" یعنی کھر خاندان کے غلام ربانی سے دوبارہ رجوع کر لیا جنھیں وہ برسوں سے جانتے ہیں۔ ضمنی انتخابات کا پیغام بڑا واضح ہے۔ عمران خان یا شہباز شریف جیسے سپر اسٹار لیڈر ہوں یا جمشید دستی جیسے ''مقامی فن کار'' ان سب کو خلقِ خدا کی رائے سن کر اور انھیں اپنی بات پر قائل کرنے کے بعد آگے بڑھنا ہو گا۔ محبوبوں والے نخروں اور من مانیوں کے دن ہوا ہوئے۔
حال ہی میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج آنے کے فوری بعد مجھے فخر بھرا اطمینان ہوا۔ یقین سا آ گیا کہ پاکستان مثبت راستوں پر چل نکلا ہے۔ صحافت سے مستقل طور پر وابستہ ہو جانے کے بعد بطور رپورٹر میں نے پہلا ضمنی انتخاب 1975 کے ان دنوں میں دیکھا تھا جب غلام مصطفیٰ کھر پیپلز پارٹی سے ناراض ہو کر پیر پگاڑا والی مسلم لیگ میں چلے گئے تھے۔ لاہور کے حلقہ نمبر 6 سے صوبائی اسمبلی کی ایک نشست خالی ہوئی تو اسے جیت کر پنجاب اسمبلی پہنچنے کی کوشش کی۔
بھٹو صاحب نے اپنے ایک عام سے جیالے شیر محمد بھٹی کو ان کے مقابل کھڑا کر دیا۔ پیپلز پارٹی ان دنوں لاہور میں بہت مقبول ہوا کرتی تھی۔ مجھے یقین ہے کہ وہ انتخاب منصفانہ ہونے دیا جاتا تو بھٹی صاحب غیر معمولی نہ سہی کچھ ووٹوں کی برتری سے ضرور کامیاب ہو جاتے۔ مگر بھٹو صاحب اور ان کے چند ضرورت سے زیادہ وفادار مشیروں کو اپنی حکومت کی دہشت ثابت کرنے کی دھن سمائی رہتی تھی۔ کھر صاحب کے ایک بہت بڑے جلسے میں سانپ چھوڑ کر کافی تماشا رچایا گیا۔ مجھے ذاتی طور پر زیادہ دُکھ اس بات کا بھی ہوا کہ صحافت پر ناروا پابندیوں کے باعث میں ریاستی دہشت کے اس مضحکہ خیز مگر آمرانہ استعمال کو اپنی بنائی خبر میں پوری طرح بیان نہ کر پایا۔
اس دن کے بعد سے پاکستان میں کئی حکومتیں آئیں اور اپنی معیاد پوری کیے یا نہ کیے بغیر فارغ ہو گئیں۔ ضمنی انتخابات جب بھی ہوئے مرکز یا صوبے میں بیٹھی حکومتوں نے ہی جیتے۔ اپوزیشن کا کوئی امیدوار ایسے انتخابات میں اپنی جیت کا تصور نہیں کر سکتا تھا۔ حکومتی امیدوار کے مقابل صرف اس لیے کھڑا ہوا جاتا کہ اپوزیشن میں بیٹھے لوگوں کے دلوں میں انتخابی مہم کے ذریعے کچھ جان ڈالی جا سکے۔ 2013کے ضمنی انتخابات نے اس حوالے سے خوش گوار حیرانیاں فراہم کی ہیں۔ اسلام آباد سے عمران خان کا امیدوار ہی جیتا۔ مگر ان کی پشاور سے چھوڑی نشست پرویز خٹک کے وزیر اعلیٰ ہوتے ہوئے بھی حاجی غلام احمد بلور جیت گئے۔ شہباز شریف بڑے دھانسو وزیر اعلیٰ مانے جاتے ہیں۔ مگر صوبائی اسمبلی کی جو نشست انھوں نے راجن پور میں چھوڑی تھی وہاں سے تحریک انصاف کے دریشک جیت گئے۔ یہ الگ بات ہے کہ تحریک انصاف قومی اسمبلی سے میانوالی والی نشست ہار گئی۔
عمران خان اور شہباز شریف کی چھوڑی ہوئی نشستوں سے اپوزیشن کے لوگوں کا جیت جانا ہمارے عوام کی سیاسی بلوغت کا ایک متاثر کن اظہار ہے۔ پشاور اور میانوالی کے شہریوں نے عمران خان کو صاف طور پر بتا دیا کہ وہ ان کی کرشماتی شخصیت سے محبت ضرور کرتے ہیں مگر ان کی ذات سے اندھی عقیدت کے ساتھ وابستہ نہیں۔ وہ ان کے ساتھ محبوبوں والی من مانیاں نہیں کر سکتے۔ شہباز شریف کو بھی راجن پور سے ایسا ہی پیغام دیا گیا ہے۔
عمران خان اور شہباز شریف تو قومی سطح کے رہنما ہیں۔ پاکستان کے عام لوگوں میں پائے جانے والے سیاسی شعور اور بلوغت کا پورا اندازہ لگانا ہو تو ذرا غور سے قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 177 کے نتائج کا جائزہ لیجیے۔ مظفر گڑھ کی ایک اور نشست کی طرح یہ حلقہ بھی جمشید دستی نے جیتا تھا۔ دستی صاحب کو پاکستان کے لوگوں کی بے پناہ اکثریت نے 2009کے ان آخری ہفتوں میں دریافت کیا تھا جب 24/7 چینلوں کے فروغ پارسائی کے نیک کام میں مبتلا اینکروں نے جعلی ڈگری والوں کے خلاف بھرپور ماتم کنائی فرمائی تھی۔ ان کے سیاپے کی تمام تر شدت جمشید دستی کو استعفیٰ دے کر ایک بار اپنے حلقے سے دوبارہ قومی اسمبلی میں پہنچانے سے نہ روک سکی۔ ہم لوگوں نے دستی کے اس جادو پر کوئی تحقیق نہ کی۔ مگر امریکا اور یورپ کے کئی محققین نے اس جادو کی بنیادوں کو سائنسی بنیادوں پر سمجھنے کی کوشش کی۔ میں محقق تو بالکل نہیں۔ محض اتفاق ہوا کہ 2010کے سیلاب کے دوران تقریباََ ایک ہفتہ مظفر گڑھ کے ان علاقوں میں خوار ہوتا رہا جو پانی کی ظالمانہ لہروں کا نشانہ بنے ہوئے تھے۔
سیلاب کے ان طوفانی دنوں میں جمشید دستی اکثر مجھے گہرے پانیوں میں مصیبت زدگان کے ہمراہ پناہ گاہوں کی طرف سفر کرتے نظر آئے۔ واضح ہو گیا کہ ائر کنڈیشنڈ اسٹوڈیوز میں سرخی پائوڈر لگائے پارسائی فروش جو بھی کہتے رہیں، دستی کا جینا مرنا اپنے غریب لوگوں کے ساتھ ہے۔ میں نے اپنے قیام کے دوران ان کے بارے میں کئی داسانیں سنیں جو میری دانست میں لوگ رابن ہڈ جیسے ''سلطانہ ڈاکوئوں'' کے بارے میں کسی زمانے میں بتایا کرتے تھے۔ مجھے ٹی وی اسکرین پر سیلاب زدہ علاقوں میں مسلسل دیکھتے ہوئے ایک دن صدر زرداری نے طویل فون کیا اور صورتحال کو پوری تفصیلات کے ساتھ جاننا چاہا۔ میری جمشید دستی سے کوئی ذاتی شناسائی نہ تھی۔ مگر میں نے ان کے بارے میں صدر زرداری کو وہی کچھ بتایا جو زبان زد عام تھا۔ دو دن بعد صدر زرداری خود اس علاقے میں آ گئے۔ صدارتی طیارے میں ان کے ہمراہ اس شہر سے منتخب حنا ربانی کھر جو اُس وقت وزیر خارجہ بھی تھیں موجود نہ تھیں۔
وہ ایک اور طیارے میں جسے ہنگامی ضروریات کو ذہن میں رکھتے ہوئے صدارتی طیارے کے ساتھ اُڑایا جاتا ہے صرف فرحت اللہ بابر کے ساتھ بیٹھ کر وہاں آئیں۔ صدر زرداری اپنے دورے کے بعد واپس جانے لگے تو انھوں نے جمشید دستی کو اپنے ہمراہ کر لیا۔ مقامی سیاست کے حوالے سے ان کا یہ قدم حنا ربانی کھر کے لیے بہت بڑا دھچکہ تھا۔ مجھے آج بھی ان کا وہ اداس چہرہ یاد ہے جو ''ان کے علاقے'' میں صدر زرداری کے ہاتھوں جمشید دستی کی ناز برداری سے بجھ سا گیا تھا۔ اس دن کے بعد سے دستی صاحب پیپلز پارٹی کے ہر وزیر کے بڑے لاڈلے بن گئے۔ قومی اسمبلی کی اسپیکر بھی انھیں بڑے ادب سے ''تختِ لاہور'' کے خلاف جوشیلی تقریریں کرنے کے بھرپور اور متواتر مواقعے فراہم کرتیں۔ ان سب ناز برداریوں کے باوجود مئی 2013 کے انتخابات آئے تو دستی صاحب مظفر گڑھ سے دو حلقوں پر ''آزاد'' حیثیت میں کھڑے ہو گئے۔
دونوں حلقے جیت کر وہ ''تختِ لاہور'' کے رائے ونڈ والے محل پہنچے اور مسلم لیگ میں شامل ہوئے بغیر نواز شریف کو اپنی حمایت کا یقین دلا دیا اور بدلے میں ''سرائیکی وسیب'' نامی کسی شے کے لیے کچھ بھی طلب نہ کیا۔ ضمنی انتخاب ہوئے تو ''جاگیرداروں'' کی طرح جنھیں وہ برسوں سے لعن طعن کر رہے ہیں انھوں نے اپنے کسی بے وسیلہ کارکن کو نہیں بلکہ سگے بھائی جاوید کو کھڑا کر دیا، صاف ظاہر تھا ''کھروں'' ''گورمانیوں'' اور ''نوابزادوں'' کی ''خاندانی وراثتوں'' کے خلاف جدوجہد کے بعد اب وہ مظفر گڑھ میں اپنا ذاتی ''خانوادئہ دستی'' بنانا چاہ رہے تھے۔ مظفر گڑھ کے لوگوں کو یہ عمل پسند نہ آیا۔ انھوں نے انگریزی محاورے والے اُسی "Devil" یعنی کھر خاندان کے غلام ربانی سے دوبارہ رجوع کر لیا جنھیں وہ برسوں سے جانتے ہیں۔ ضمنی انتخابات کا پیغام بڑا واضح ہے۔ عمران خان یا شہباز شریف جیسے سپر اسٹار لیڈر ہوں یا جمشید دستی جیسے ''مقامی فن کار'' ان سب کو خلقِ خدا کی رائے سن کر اور انھیں اپنی بات پر قائل کرنے کے بعد آگے بڑھنا ہو گا۔ محبوبوں والے نخروں اور من مانیوں کے دن ہوا ہوئے۔