عبدالرزاق کی موت کے بعد…
لیاری کے علاقے کلاکوٹ عمر لائن سے تعلق رکھنے والے صحافی عبدالرزاق سربازی مارچ 2013 کو لاپتہ ہوگئے تھے.
لیاری کے علاقے کلاکوٹ عمر لائن سے تعلق رکھنے والے صحافی عبدالرزاق سربازی مارچ 2013 کو لاپتہ ہوگئے تھے۔ اس وقت پیپلز پارٹی وفاق میں اقتدار میں تھی۔ مسلم لیگ کی حکومت کے دور میں 21 اگست کو ان کی لاش بلوچستان اور کراچی کی سرحد سے متصل حب ڈیم سے برآمد ہوئی۔ عبدالرزاق کی مسخ شدہ لاش کے ساتھ ایک اور لاش ملی جس کے ساتھ پٹھان رحیم بخش کی تحریر تھی۔ عبدالرزاق کی بہن سعیدہ سربازی نے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے بھائی پر اتنا تشدد کیا گیا تھا کہ لاش کی آسانی سے شناخت تک ممکن نہیں تھی۔ یوں ان کی بہن پہلے دن لاش کی شناخت نہ کرسکی مگر پھر دوسرے دن رزاق کے چہرے پر بچپن کے نشانات کی بنیاد پر شناخت ممکن ہوسکی۔ رزاق کے اہلِ خانہ نے خوف، مایوسی اور اضطراب کے ماحول میں اپنے پیارے کو میوہ شاہ قبرستان میں دفنا دیا۔
اسی طرح بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 24 سیاسی کارکنوں کی لاشیں کراچی کے مضافاتی علاقوں سے برآمد ہوچکی ہیں۔ عبدالرزاق سربازی مستونگ سے شایع ہونے والے اخبار ''توار ''میں سب ایڈیٹر تھے۔ مارچ میں ممتاز صحافی محمد حنیف کی بلوچستان کے لاپتہ افراد کے بارے میں کتاب غائبستان میں بلوچ انسانی حقوق کمیشن HRCP نے شایع کی تھی۔ اس کتاب کی تقریبِ اجراء پاکستان آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوئی تھی۔ نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل خان بزنجو اور جناب خان بلیدی اور لاپتہ ہونے والے کارکنوں میں سے ایک کی بہن اس تقریب کے مقررین میں شامل تھیں۔ جب یہ تقریب منعقد ہورہی تھی تو عبدالرزاق سربازی کے بچے، بہن اور بھائی اس کی زندگی بچانے کے لیے ہال کے باہر مظاہرے کررہے تھے۔ عبدالرزاق کی بازیابی کے لیے خبریں شایع ہورہی تھیں۔ رقم الحروف سمیت کئی کالم نگاروں نے مضامین لکھے مگر یہ سب کوششیں رائیگاں چلی گئیں۔ ملک میں لاپتہ افراد کا معاملہ پرویز مشرف کے دور سے شروع ہوا جب ایک طرف القاعدہ، طالبان اور انتہاپسند مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد لاپتہ ہونے لگے تو دوسری طرف بلوچ قوم پرستوں کو اغواء کیا جانے لگا۔ پہلے مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد لاپتہ ہوئے، پھر اس کا دائرہ پھیلتا چلا گیا۔ اخبارات میں اس بارے میں خبریں شایع ہونے لگیں۔ سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے مزاحمتی آوازیں بلند کیں۔
جب 2007میں پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور پھر مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف اپنی 10 سالہ جلاوطنی کے خاتمے کے بعد وطن واپس آئے تو ان رہنماؤں نے گمشدہ افراد کے مسئلے کی سنگینی کو محسوس کیا اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ حکومت تمام گمشدہ افراد کو برآمد کرے۔ اس وقت کے صدر پرویز مشرف سرکاری اداروں کے ہاتھوں اغواء کے معاملے سے انکار کرتے رہے مگر چیف جسٹس افتخار چوہدری کی قیادت میں سپریم کورٹ نے نیا جنم لیا تو پھر لاپتہ افراد کے معاملے پر اعلیٰ عدالت نے نوٹس لیا اور پرویز مشرف حکومت کو ایجنسیوں کی تحویل میں چند افراد کی موجودگی کو تسلیم کرنا پڑا۔ 2008 میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے لاپتہ افراد کے معاملے کی سنگینی کو محسوس کیا۔ وفاقی حکومت کے دباؤ پر کچھ قوم پرستوں کو رہا کیا گیا جب کہ باقی کے معاملے پر پیش رفت کی یقین دھانی کرائی گئی۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جاوید اقبال پر مشتمل ایک کمیشن قائم ہوا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کی۔ بلوچستان میں دوسرے صوبوں سے آکر آباد ہونے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے اور لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔
اس وقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے بلوچستان کے معاملات میں غیر ملکی مداخلت کا ذکرکیا۔ سپریم کورٹ، سندھ ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی عرض داشتوں کی مسلسل سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے خفیہ ایجنسیوں اور وزارت دفاع کے افسران کو طلب کیا۔ کئی معاملات میں تو ایسا ہوا کہ لاپتہ افراد کے عزیزوں نے فوری طور پر ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ پولیس اور ایجنسیوں کے وکلاء نے ان افراد کی گرفتاری سے انکار کیا۔ پھر ان افراد کی لاشیں مل گئیں۔ یوں عدالتوں نے معاملات کو نپٹا دیا۔ مگر جب لاپتہ افراد کے معاملے کی بازگشت بین الاقوامی فورم پر ہوئی اور اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے جنیوا میں ہونے والے اجلاس میں اس بارے میں مزاحمتی قرارداد منظور ہوئی تو اقوامِ متحدہ کی کونسل نے حقائق جاننے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا اعلان کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس مشن کی آمد پر ناراضی کا اظہار کیا۔ مسلم لیگی اراکین قومی اسمبلی نے ناراضگی کا ذکر قومی اسمبلی میں کیا۔ یوں صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اس مشن کے اراکین سے ملاقات کے لیے آمادہ نہیں ہوئے۔ مگر اس مشن کی رپورٹ سے ثابت ہوگیا کہ ایجنسیاں اپنے شہریوں کے اغواء میں ملوث ہیں۔
مئی 2013 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے سیاسی بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے بلوچستان میں نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا۔ نیشنل پارٹی کے رہنماؤں میر حاصل بزنجو نے اس موقعے پرکہاتھا کہ ان کی حکومت کی بنیادی ترجیح گمشدہ افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنا ہے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے واضح کیا کہ پولیس، سول انٹیلی جنس نیٹ ورک، خفیہ عسکری ایجنسیاں اور فرنٹیئر کانسٹیبلری ان کی حکومت کی پالیسی پر عمل پیرا ہونگی تو بلوچستان کے حالات ٹھیک ہوجائیں گے مگر ان کے حلف اٹھاتے ہی زیارت میں قائد اعظم ریزیڈنسی کو نامعلوم افراد نے نذرِ آتش کردیا۔
کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات میں شدت آگئی۔ بلوچستان سے عید منانے کے لیے پنجاب جانے والے مزدوروں کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ صوبائی حکومت کو بے بس کیا جارہا ہے۔ پھر خضدار میں دو پروفیسروں پر فائرنگ ہوئی۔ ایک پروفیسر جاں بحق ہوگئے۔ بلوچستان کے تحفظ کے نام پر قائم ہونے والی نامعلوم تنظیم نے ان پروفیسروں پر حملے کی ذمے داری قبول کی۔ عبدالرزاق کا اغواء لیاری کے علاقے کلا کوٹ سے ہوا۔ لیاری کی رپورٹنگ کرنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ عبدالرزاق کا کلاکوٹ سے اغواء جرائم پیشہ افراد یا گروہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ اس گروہ کی اس علاقے پر مکمل اجارہ داری ہے۔
گزشتہ سال انکوائری کمیشن کی فہرست میں 500 سے زائد واقعات کے اندراج کی اطلاعات موصول ہوئیں، تاہم گمشدگی کے نئے واقعات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ مختلف مقامات پر نقشوں کی برآمدگی نے لوگوں کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اگرچہ زیادہ تر لاشیں بلوچستان سے برآمد ہوئی ہیں تاہم اس طرح کے واقعات سندھ اور خیبر پختونخواہ میں بھی سامنے آئے ہیں۔ بلوچستان کے قوم پرست رہنما ثناء اﷲ بلوچ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (ICRC)کے آپریشن کے بند ہونے اور غیر ملکی صحافیوں کو بلوچستان میں داخلے کی اجازت نہ دینے کے بعد انسانی حقوق کی صورتحال زیادہ خراب ہوگئی ہے۔ ایک اور سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے بلوچ قوم پرستوں کی لاشیں کراچی کے مضافاتی علاقوں میں پھینکی جارہی ہیں۔ یوں اس صورتحال میں کراچی میں لسانی کشیدگی بڑھی تھی مگر ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کی جانب سے اس صورتحال پر واضح مؤقف کے بعد حقائق واضح ہوگئے ہیں۔ میاں نواز شریف گوادر فری پورٹ ،گوادر سے کاشغر تک موٹر وے اور ریل چلانے کا اعلان کررہے ہیں مگر وہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کو تبدیل نہیں کرپارہے، یوں ڈاکٹر مالک کی حکومت کو ناکام بنادینے کی صورتحال واضح ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور بلوچ انتہاپسند ڈاکٹر مالک کو ناکام بنانے پر متفق ہیں، اس صورتحال میں عبدالرزاق کی موت پر ماتم کے ساتھ کسی اور صدمے کے لیے بھی تیار رہیں۔
اسی طرح بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 24 سیاسی کارکنوں کی لاشیں کراچی کے مضافاتی علاقوں سے برآمد ہوچکی ہیں۔ عبدالرزاق سربازی مستونگ سے شایع ہونے والے اخبار ''توار ''میں سب ایڈیٹر تھے۔ مارچ میں ممتاز صحافی محمد حنیف کی بلوچستان کے لاپتہ افراد کے بارے میں کتاب غائبستان میں بلوچ انسانی حقوق کمیشن HRCP نے شایع کی تھی۔ اس کتاب کی تقریبِ اجراء پاکستان آرٹس کونسل کراچی میں منعقد ہوئی تھی۔ نیشنل پارٹی کے رہنما میر حاصل خان بزنجو اور جناب خان بلیدی اور لاپتہ ہونے والے کارکنوں میں سے ایک کی بہن اس تقریب کے مقررین میں شامل تھیں۔ جب یہ تقریب منعقد ہورہی تھی تو عبدالرزاق سربازی کے بچے، بہن اور بھائی اس کی زندگی بچانے کے لیے ہال کے باہر مظاہرے کررہے تھے۔ عبدالرزاق کی بازیابی کے لیے خبریں شایع ہورہی تھیں۔ رقم الحروف سمیت کئی کالم نگاروں نے مضامین لکھے مگر یہ سب کوششیں رائیگاں چلی گئیں۔ ملک میں لاپتہ افراد کا معاملہ پرویز مشرف کے دور سے شروع ہوا جب ایک طرف القاعدہ، طالبان اور انتہاپسند مذہبی تنظیموں سے تعلق رکھنے والے افراد لاپتہ ہونے لگے تو دوسری طرف بلوچ قوم پرستوں کو اغواء کیا جانے لگا۔ پہلے مری قبیلے سے تعلق رکھنے والے افراد لاپتہ ہوئے، پھر اس کا دائرہ پھیلتا چلا گیا۔ اخبارات میں اس بارے میں خبریں شایع ہونے لگیں۔ سیاسی جماعتوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے مزاحمتی آوازیں بلند کیں۔
جب 2007میں پیپلز پارٹی کی سربراہ بے نظیر بھٹو اور پھر مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف اپنی 10 سالہ جلاوطنی کے خاتمے کے بعد وطن واپس آئے تو ان رہنماؤں نے گمشدہ افراد کے مسئلے کی سنگینی کو محسوس کیا اور یہ مطالبہ کیا گیا کہ حکومت تمام گمشدہ افراد کو برآمد کرے۔ اس وقت کے صدر پرویز مشرف سرکاری اداروں کے ہاتھوں اغواء کے معاملے سے انکار کرتے رہے مگر چیف جسٹس افتخار چوہدری کی قیادت میں سپریم کورٹ نے نیا جنم لیا تو پھر لاپتہ افراد کے معاملے پر اعلیٰ عدالت نے نوٹس لیا اور پرویز مشرف حکومت کو ایجنسیوں کی تحویل میں چند افراد کی موجودگی کو تسلیم کرنا پڑا۔ 2008 میں پیپلز پارٹی اقتدار میں آئی تو یوسف رضا گیلانی کی حکومت نے لاپتہ افراد کے معاملے کی سنگینی کو محسوس کیا۔ وفاقی حکومت کے دباؤ پر کچھ قوم پرستوں کو رہا کیا گیا جب کہ باقی کے معاملے پر پیش رفت کی یقین دھانی کرائی گئی۔ سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس جاوید اقبال پر مشتمل ایک کمیشن قائم ہوا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے لاپتہ افراد کے مقدمے کی سماعت کی۔ بلوچستان میں دوسرے صوبوں سے آکر آباد ہونے والے افراد کی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ بھی جاری ہے اور لاپتہ افراد کی مسخ شدہ لاشیں ملنے کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوا۔
اس وقت کے وزیر داخلہ رحمن ملک نے بلوچستان کے معاملات میں غیر ملکی مداخلت کا ذکرکیا۔ سپریم کورٹ، سندھ ہائی کورٹ اور پشاور ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کے لواحقین کی عرض داشتوں کی مسلسل سماعت ہوئی۔ سپریم کورٹ نے خفیہ ایجنسیوں اور وزارت دفاع کے افسران کو طلب کیا۔ کئی معاملات میں تو ایسا ہوا کہ لاپتہ افراد کے عزیزوں نے فوری طور پر ہائی کورٹ سے رجوع کیا۔ پولیس اور ایجنسیوں کے وکلاء نے ان افراد کی گرفتاری سے انکار کیا۔ پھر ان افراد کی لاشیں مل گئیں۔ یوں عدالتوں نے معاملات کو نپٹا دیا۔ مگر جب لاپتہ افراد کے معاملے کی بازگشت بین الاقوامی فورم پر ہوئی اور اقوامِ متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل کے جنیوا میں ہونے والے اجلاس میں اس بارے میں مزاحمتی قرارداد منظور ہوئی تو اقوامِ متحدہ کی کونسل نے حقائق جاننے کے لیے فیکٹ فائنڈنگ مشن بھیجنے کا اعلان کیا۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس مشن کی آمد پر ناراضی کا اظہار کیا۔ مسلم لیگی اراکین قومی اسمبلی نے ناراضگی کا ذکر قومی اسمبلی میں کیا۔ یوں صدر آصف علی زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اس مشن کے اراکین سے ملاقات کے لیے آمادہ نہیں ہوئے۔ مگر اس مشن کی رپورٹ سے ثابت ہوگیا کہ ایجنسیاں اپنے شہریوں کے اغواء میں ملوث ہیں۔
مئی 2013 کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف نے سیاسی بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے بلوچستان میں نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک کو وزیر اعلیٰ بنانے کا فیصلہ کیا۔ نیشنل پارٹی کے رہنماؤں میر حاصل بزنجو نے اس موقعے پرکہاتھا کہ ان کی حکومت کی بنیادی ترجیح گمشدہ افراد کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے حل کرنا ہے۔
بلوچستان کے وزیر اعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک نے واضح کیا کہ پولیس، سول انٹیلی جنس نیٹ ورک، خفیہ عسکری ایجنسیاں اور فرنٹیئر کانسٹیبلری ان کی حکومت کی پالیسی پر عمل پیرا ہونگی تو بلوچستان کے حالات ٹھیک ہوجائیں گے مگر ان کے حلف اٹھاتے ہی زیارت میں قائد اعظم ریزیڈنسی کو نامعلوم افراد نے نذرِ آتش کردیا۔
کوئٹہ میں دہشت گردی کے واقعات میں شدت آگئی۔ بلوچستان سے عید منانے کے لیے پنجاب جانے والے مزدوروں کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔ یوں محسوس ہونے لگا کہ صوبائی حکومت کو بے بس کیا جارہا ہے۔ پھر خضدار میں دو پروفیسروں پر فائرنگ ہوئی۔ ایک پروفیسر جاں بحق ہوگئے۔ بلوچستان کے تحفظ کے نام پر قائم ہونے والی نامعلوم تنظیم نے ان پروفیسروں پر حملے کی ذمے داری قبول کی۔ عبدالرزاق کا اغواء لیاری کے علاقے کلا کوٹ سے ہوا۔ لیاری کی رپورٹنگ کرنے والے ایک سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ عبدالرزاق کا کلاکوٹ سے اغواء جرائم پیشہ افراد یا گروہ کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہے کیونکہ اس گروہ کی اس علاقے پر مکمل اجارہ داری ہے۔
گزشتہ سال انکوائری کمیشن کی فہرست میں 500 سے زائد واقعات کے اندراج کی اطلاعات موصول ہوئیں، تاہم گمشدگی کے نئے واقعات کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔ مختلف مقامات پر نقشوں کی برآمدگی نے لوگوں کو شدید تشویش میں مبتلا کردیا ہے۔ اگرچہ زیادہ تر لاشیں بلوچستان سے برآمد ہوئی ہیں تاہم اس طرح کے واقعات سندھ اور خیبر پختونخواہ میں بھی سامنے آئے ہیں۔ بلوچستان کے قوم پرست رہنما ثناء اﷲ بلوچ نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی (ICRC)کے آپریشن کے بند ہونے اور غیر ملکی صحافیوں کو بلوچستان میں داخلے کی اجازت نہ دینے کے بعد انسانی حقوق کی صورتحال زیادہ خراب ہوگئی ہے۔ ایک اور سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ گزشتہ ایک سال سے بلوچ قوم پرستوں کی لاشیں کراچی کے مضافاتی علاقوں میں پھینکی جارہی ہیں۔ یوں اس صورتحال میں کراچی میں لسانی کشیدگی بڑھی تھی مگر ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کی جانب سے اس صورتحال پر واضح مؤقف کے بعد حقائق واضح ہوگئے ہیں۔ میاں نواز شریف گوادر فری پورٹ ،گوادر سے کاشغر تک موٹر وے اور ریل چلانے کا اعلان کررہے ہیں مگر وہ اسٹیبلشمنٹ کی پالیسی کو تبدیل نہیں کرپارہے، یوں ڈاکٹر مالک کی حکومت کو ناکام بنادینے کی صورتحال واضح ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور بلوچ انتہاپسند ڈاکٹر مالک کو ناکام بنانے پر متفق ہیں، اس صورتحال میں عبدالرزاق کی موت پر ماتم کے ساتھ کسی اور صدمے کے لیے بھی تیار رہیں۔