زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو
عوام نے ثابت کر دیا کہ اپنے ووٹوں کی طاقت سے اگر سیاسی رہنمائوں کو سر پر بٹھا سکتے ہیں تو انھیں گرا بھی سکتے ہیں۔
ISLAMABAD:
ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات نتائج کے حوالے سے وفاق، پنجاب اور کے پی کے میں برسر اقتدار جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے لیے بڑا دھچکا جب کہ پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے۔ اہم اور فتح گر سیٹوں پر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی شکست اور پیپلز پارٹی اور اے این پی کی فتح نے ثابت کر دیا کہ عوام اپنے ووٹوں کی طاقت سے اگر سیاسی رہنمائوں کو سر پر بٹھا سکتے ہیں تو انھیں گرا بھی سکتے ہیں۔ اسی کا نام جمہوریت ہے، سابق چیف الیکشن کمیشن جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم 11 مئی کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے شور و غل کے طوفان اور صدارتی انتخابات کے تنازعے کا دبائو برداشت نہ کر سکے اور مستعفی ہو گئے۔
قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے بڑے حوصلے اور ہمت کے ساتھ شفاف ضمنی انتخابات کرانے کا بیڑہ اٹھایا اور حساس پولنگ اسٹیشنوں پر فوجی جوان بھی تعینات کیے گئے، توقع یہ کی جا رہی تھی کہ فوج کی نگرانی میں ہونے والے ضمنی انتخابات مبینہ دھاندلی سے پاک اور شفاف ہوں گے اور 11 مئی کو مجروح ہونے والی الیکشن کمیشن کی ساکھ بحال ہو جائے گی اگرچہ مسلم لیگ ن، پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم کی جانب سے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کی کوئی قابل ذکر شکایت سامنے نہیں آئی، تاہم تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی کی نشست حلقہ150 میں اپنے امیدوار کی شکست پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ محض چند سو ووٹوں کے فرق سے ن لیگ کے امیدوار کو کامیاب کرایا گیا جس پر ریٹرننگ آفیسر سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست بھی کی گئی جسے مسترد کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی نے مال روڈ لاہور پر احتجاجی کیمپ لگا دیا، پھر پولیس کی بھاری نفری نے اس کیمپ کا دھاوا بول دیا۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، بعدازاں وزیر اعلیٰ پنجاب کے حکم پر گرفتار افراد کو رہا کر دیا گیا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے اور لاہور پولیس نے پر امن احتجاجی کیمپ پر دھاوا بولا جو سراسر زیادتی ہے، پی ٹی آئی کا احتجاج تا دم تحریر جاری ہے، ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے تحریک انصاف کے نہتے کارکنوں پر لاٹھی چارج اور تشدد کی شدید مذمت کی ہے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں پر تشدد کی مذمت کی اور کہا کہ اس سے ضیاء دور یاد آ گیا۔
ضمنی انتخابات میں رائے دہندگان نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا اور 11 مئی کے فاتح اہم سیاسی کھلاڑیوں کی نشستوں پر حریف جماعتوں کے امیدواروں کو کامیاب کرایا وہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں، یہ ٹھیک ہے کہ محض دو ڈھائی ماہ کی حکومتی کارکردگی کو ضمنی انتخابات میں فتح و شکست کی بنیاد بنانا مناسب نہیں ہو گا لیکن یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ عوام نے مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کو ''تبدیلی'' اور ''انقلاب'' کے بلند و بانگ دعوئوں کے جواب میں ووٹ دے کر ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا تھا وہ بری طرح مجروح ہوا ہے کیوں کہ حکمرانوں نے سو دنوں میں ''نمایاں کارکردگی'' دکھانے کے بڑے دعوے کیے تھے لیکن ڈھائی ماہ گزرنے کے باوجود ملک کے طول و عرض میں ''نمایاں کارکردگی'' کی ایک جھلک بھی نظر نہ آئی۔
کے پی کے میں ڈی جی خاں جیل کا واقعہ پی ٹی آئی حکومت کی عین ناک کے نیچے پیش آیا وہاں دہشت گردی کے واقعات میں بھی بجائے کمی کے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشاور میں پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی کا تاثر ابھر رہا ہے۔ عمران خان نے پشاور سے ایک لاکھ کے قریب ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی جب کہ ضمنی انتخابات میں اسی حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار محض 29 ہزار ووٹ حاصل کر سکے اور ان کے مقابل اے این پی کے غلام احمد بلور34 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے،11 مئی کی افسوسناک شکست کے بعد ضمنی انتخابات میں بلور صاحب کی کامیابی سے کے پی کے میں اے این پی کو نئی زندگی ملی ہے۔
عمران خان اپنے آبائی حلقے میانوالی سے 11 مئی کو بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے لیکن حیران کن طور پر اسی حلقے سے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار عبیداﷲ شادی خیل نے 95 ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل کی اور ان کے مقابل پی ٹی آئی کے امیدوار ملک وحید خان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دو اہم نشستوں پر شکست سے عمران خان کو دھچکا ضرور لگا ہے تاہم اسلام آباد میں ان کے نامزد امیدوار اسد عمر کی کامیابی سے خان صاحب کی ڈھارس بھی بندھی ہے۔ مرکز اور پنجاب میں حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کو بھی ضمنی انتخابات میں بعض اپ سیٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسلام آباد میں ن لیگ پی ٹی آئی کے اسد عمر کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہو گئی جب کہ پنجاب میں میاں شہباز شریف اور سردار ذوالفقار علی کھوسہ کی خالی کردہ اہم نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کی کامیابی نے ن لیگ کے بھاری مینڈیٹ پر کاری ضرب لگائی ہے۔ محض ڈھائی ماہ میں مسلم لیگ ن اپنے ووٹروں کا اعتماد کھو بیٹھی، ن لیگ کی ''گڈ گورننس'' اور ''نمایاں کارکردگی'' کے دعوئوں کی قلعی تو چھ گھنٹے تک اسلام آباد کو یرغمال بنانے والے سکندر نے کھول کر رکھ دی۔
نواز حکومت کے ماتحت انتظامی مشینری اور سیکیورٹی ادارے ایک مسلح شخص کو چھ گھنٹے تک پلاننگ، منصوبہ بندی اور سر توڑ کوشش کے باوجود قابو نہ کر سکے تو مسلح شدت پسندوں کے درجن بھر سے زائد جتھوں کو مذاکرات کے ذریعے کیونکر ہتھیار پھینکنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو نہتے زمرد خان کا جس نے جرأت وبہادری سے ''سکندری ڈرامے'' کا خاتمہ کر دیا۔ کوئی زمرد خان پر لاکھ کیچڑ اچھالے لیکن اس نے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کا آئینہ دکھا دیا ہے اور زمرد خان عوام کا ہیرو بن گیا۔ ضمنی انتخابات میں پی پی پی نے پنجاب میں کم بیک کیا ہے، قومی اسمبلی کے لیے مظفر گڑھ سے غلام ربانی کھر اور صوبائی اسمبلی کے لیے اوکاڑہ سے میاں خرم جہانگیر اور رحیم یار خان سے مخدوم سعید علی اکبر کی کامیابی نے مخالفین اور ان تجزیہ نگاروں کو ششدر کر دیا ہے جو یہ کہتے تھے کہ پنجاب سے پی پی پی کا صفایا ہو گیا اور بھٹو کی پارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، حالیہ کامیابی اسی بات کی غماز ہے کہ پنجاب کے عوام ن لیگ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور دوبارہ پی پی پی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
بقول اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ صاحب کے ہمیں ایسی نشستوں پر کامیابی ملی جو ہم 1977میں بھی نہیں جیت سکے تھے، ضمنی انتخابات میں پی پی پی کی سندھ و پنجاب میں فتح سے اس امر کی تصدیق ہو گئی کہ عوام پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں، پارٹی میں کسی فارورڈ بلاک کا کوئی امکان نہیں ہے اس حوالے سے پی پی پی میں سرگرم گروپ کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا، بہر حال ضمنی انتخابات میں تینوں بڑی جماعتوں پی پی پی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کو رائے دہندگان کی جانب سے جو ''پیغام'' دیا گیا ہے قائدین کو اسے سمجھنا چاہیے، ان نتائج سے آیندہ کا لائحہ عمل طے کرنے میں آسانی ہو گی، بقول شاعر: ''زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو''
ملکی تاریخ کے سب سے بڑے ضمنی انتخابات نتائج کے حوالے سے وفاق، پنجاب اور کے پی کے میں برسر اقتدار جماعتوں مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے لیے بڑا دھچکا جب کہ پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے۔ اہم اور فتح گر سیٹوں پر مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی شکست اور پیپلز پارٹی اور اے این پی کی فتح نے ثابت کر دیا کہ عوام اپنے ووٹوں کی طاقت سے اگر سیاسی رہنمائوں کو سر پر بٹھا سکتے ہیں تو انھیں گرا بھی سکتے ہیں۔ اسی کا نام جمہوریت ہے، سابق چیف الیکشن کمیشن جسٹس ریٹائرڈ فخر الدین جی ابراہیم 11 مئی کے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے شور و غل کے طوفان اور صدارتی انتخابات کے تنازعے کا دبائو برداشت نہ کر سکے اور مستعفی ہو گئے۔
قائم مقام چیف الیکشن کمشنر جسٹس تصدق حسین جیلانی نے بڑے حوصلے اور ہمت کے ساتھ شفاف ضمنی انتخابات کرانے کا بیڑہ اٹھایا اور حساس پولنگ اسٹیشنوں پر فوجی جوان بھی تعینات کیے گئے، توقع یہ کی جا رہی تھی کہ فوج کی نگرانی میں ہونے والے ضمنی انتخابات مبینہ دھاندلی سے پاک اور شفاف ہوں گے اور 11 مئی کو مجروح ہونے والی الیکشن کمیشن کی ساکھ بحال ہو جائے گی اگرچہ مسلم لیگ ن، پی پی پی، اے این پی اور ایم کیو ایم کی جانب سے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کی کوئی قابل ذکر شکایت سامنے نہیں آئی، تاہم تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی کی نشست حلقہ150 میں اپنے امیدوار کی شکست پر دھاندلی کے الزامات عائد کیے ہیں۔ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ محض چند سو ووٹوں کے فرق سے ن لیگ کے امیدوار کو کامیاب کرایا گیا جس پر ریٹرننگ آفیسر سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کی درخواست بھی کی گئی جسے مسترد کر دیا گیا۔ پی ٹی آئی نے مال روڈ لاہور پر احتجاجی کیمپ لگا دیا، پھر پولیس کی بھاری نفری نے اس کیمپ کا دھاوا بول دیا۔ پی ٹی آئی کے رہنمائوں اور کارکنوں کو گرفتار کیا گیا، بعدازاں وزیر اعلیٰ پنجاب کے حکم پر گرفتار افراد کو رہا کر دیا گیا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے اس واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ احتجاج ہمارا جمہوری حق ہے اور لاہور پولیس نے پر امن احتجاجی کیمپ پر دھاوا بولا جو سراسر زیادتی ہے، پی ٹی آئی کا احتجاج تا دم تحریر جاری ہے، ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی نے تحریک انصاف کے نہتے کارکنوں پر لاٹھی چارج اور تشدد کی شدید مذمت کی ہے، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے بھی پی ٹی آئی کے کارکنوں پر تشدد کی مذمت کی اور کہا کہ اس سے ضیاء دور یاد آ گیا۔
ضمنی انتخابات میں رائے دہندگان نے جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا اور 11 مئی کے فاتح اہم سیاسی کھلاڑیوں کی نشستوں پر حریف جماعتوں کے امیدواروں کو کامیاب کرایا وہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے لیے کسی صدمے سے کم نہیں، یہ ٹھیک ہے کہ محض دو ڈھائی ماہ کی حکومتی کارکردگی کو ضمنی انتخابات میں فتح و شکست کی بنیاد بنانا مناسب نہیں ہو گا لیکن یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ عوام نے مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کو ''تبدیلی'' اور ''انقلاب'' کے بلند و بانگ دعوئوں کے جواب میں ووٹ دے کر ان پر اپنے اعتماد کا اظہار کیا تھا وہ بری طرح مجروح ہوا ہے کیوں کہ حکمرانوں نے سو دنوں میں ''نمایاں کارکردگی'' دکھانے کے بڑے دعوے کیے تھے لیکن ڈھائی ماہ گزرنے کے باوجود ملک کے طول و عرض میں ''نمایاں کارکردگی'' کی ایک جھلک بھی نظر نہ آئی۔
کے پی کے میں ڈی جی خاں جیل کا واقعہ پی ٹی آئی حکومت کی عین ناک کے نیچے پیش آیا وہاں دہشت گردی کے واقعات میں بھی بجائے کمی کے مسلسل اضافہ ہو رہا ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت عوام کے جان و مال کے تحفظ میں کامیاب نہیں ہو پا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پشاور میں پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی کا تاثر ابھر رہا ہے۔ عمران خان نے پشاور سے ایک لاکھ کے قریب ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی جب کہ ضمنی انتخابات میں اسی حلقے سے پی ٹی آئی کے امیدوار محض 29 ہزار ووٹ حاصل کر سکے اور ان کے مقابل اے این پی کے غلام احمد بلور34 ہزار ووٹ لے کر کامیاب ہو گئے،11 مئی کی افسوسناک شکست کے بعد ضمنی انتخابات میں بلور صاحب کی کامیابی سے کے پی کے میں اے این پی کو نئی زندگی ملی ہے۔
عمران خان اپنے آبائی حلقے میانوالی سے 11 مئی کو بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے تھے لیکن حیران کن طور پر اسی حلقے سے ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار عبیداﷲ شادی خیل نے 95 ہزار ووٹوں سے کامیابی حاصل کی اور ان کے مقابل پی ٹی آئی کے امیدوار ملک وحید خان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ دو اہم نشستوں پر شکست سے عمران خان کو دھچکا ضرور لگا ہے تاہم اسلام آباد میں ان کے نامزد امیدوار اسد عمر کی کامیابی سے خان صاحب کی ڈھارس بھی بندھی ہے۔ مرکز اور پنجاب میں حکمراں جماعت مسلم لیگ ن کو بھی ضمنی انتخابات میں بعض اپ سیٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسلام آباد میں ن لیگ پی ٹی آئی کے اسد عمر کے ہاتھوں شکست سے دو چار ہو گئی جب کہ پنجاب میں میاں شہباز شریف اور سردار ذوالفقار علی کھوسہ کی خالی کردہ اہم نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدواروں کی کامیابی نے ن لیگ کے بھاری مینڈیٹ پر کاری ضرب لگائی ہے۔ محض ڈھائی ماہ میں مسلم لیگ ن اپنے ووٹروں کا اعتماد کھو بیٹھی، ن لیگ کی ''گڈ گورننس'' اور ''نمایاں کارکردگی'' کے دعوئوں کی قلعی تو چھ گھنٹے تک اسلام آباد کو یرغمال بنانے والے سکندر نے کھول کر رکھ دی۔
نواز حکومت کے ماتحت انتظامی مشینری اور سیکیورٹی ادارے ایک مسلح شخص کو چھ گھنٹے تک پلاننگ، منصوبہ بندی اور سر توڑ کوشش کے باوجود قابو نہ کر سکے تو مسلح شدت پسندوں کے درجن بھر سے زائد جتھوں کو مذاکرات کے ذریعے کیونکر ہتھیار پھینکنے پر آمادہ کر سکتے ہیں۔ وہ تو بھلا ہو نہتے زمرد خان کا جس نے جرأت وبہادری سے ''سکندری ڈرامے'' کا خاتمہ کر دیا۔ کوئی زمرد خان پر لاکھ کیچڑ اچھالے لیکن اس نے حکومت اور سیکیورٹی اداروں کا آئینہ دکھا دیا ہے اور زمرد خان عوام کا ہیرو بن گیا۔ ضمنی انتخابات میں پی پی پی نے پنجاب میں کم بیک کیا ہے، قومی اسمبلی کے لیے مظفر گڑھ سے غلام ربانی کھر اور صوبائی اسمبلی کے لیے اوکاڑہ سے میاں خرم جہانگیر اور رحیم یار خان سے مخدوم سعید علی اکبر کی کامیابی نے مخالفین اور ان تجزیہ نگاروں کو ششدر کر دیا ہے جو یہ کہتے تھے کہ پنجاب سے پی پی پی کا صفایا ہو گیا اور بھٹو کی پارٹی سندھ تک محدود ہو کر رہ گئی ہے، حالیہ کامیابی اسی بات کی غماز ہے کہ پنجاب کے عوام ن لیگ کی کارکردگی سے مطمئن نہیں اور دوبارہ پی پی پی کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
بقول اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ صاحب کے ہمیں ایسی نشستوں پر کامیابی ملی جو ہم 1977میں بھی نہیں جیت سکے تھے، ضمنی انتخابات میں پی پی پی کی سندھ و پنجاب میں فتح سے اس امر کی تصدیق ہو گئی کہ عوام پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری پر بھرپور اعتماد کرتے ہیں، پارٹی میں کسی فارورڈ بلاک کا کوئی امکان نہیں ہے اس حوالے سے پی پی پی میں سرگرم گروپ کو سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا، بہر حال ضمنی انتخابات میں تینوں بڑی جماعتوں پی پی پی، مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کو رائے دہندگان کی جانب سے جو ''پیغام'' دیا گیا ہے قائدین کو اسے سمجھنا چاہیے، ان نتائج سے آیندہ کا لائحہ عمل طے کرنے میں آسانی ہو گی، بقول شاعر: ''زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو''