یہ بھی ہیں کرپشن و ناانصافی کا شکار
پولیس کے محکمے کو سب سے زیادہ برا اور رشوت خور سمجھا جاتا ہے جس میں کسی حد تک حقیقت بھی ہے.
پولیس کے محکمے کو سب سے زیادہ برا اور رشوت خور سمجھا جاتا ہے جس میں کسی حد تک حقیقت بھی ہے مگر اصل حقیقت یہ بھی ہے کہ ملک میں پولیس سے زیادہ کرپٹ محکمے بھی ہیں جن سے عوام کا کم ہی واسطہ پڑتا ہے اور ان کی کرپشن بھی زیادہ ہوتی ہے مگر ان سے عوام کو شکایات ہوتی ہیں نہ وہ بدنام ہیں اور رشوت کوئی اور کروڑوں اربوں میں کھا گیا ہے جب کہ بدنامی ہزاروں روپے رشوت لینے والی پولیس کے حصے میں آتی ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ہزاروں روپے لوگوں کی جیبوں سے جاتے ہیں جس کی وجہ سے شکایات پولیس سے زیادہ ہیں سرکاری مال کوئی اور کھاتا ہے۔ کرپشن میں بدنام محکمہ پولیس میں ایس پی سطح سے اوپر کے تمام اعلیٰ افسر پارسا بنے رہتے ہیں اور عوام کو شکایات سپاہی سے ڈی ایس پی سطح کے اہلکاروں سے ہوتی ہیں کیونکہ کہا جاتا ہے کہ یہی پولیس اہلکار نیچے سے کما کر اوپر تک پہنچاتے ہیں ۔
تھانوں میں تقرر و تبادلے ڈی ایس پی کے بعد ہوتے ہیں اور فنڈز بھی ہر ضلع کی پولیس کے لیے ضلع کے ایس ایس پی ڈویژن و رینج کے لیے ڈی آئی جی اور آر پی او جب کہ صوبائی فنڈ آئی جی پولیس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اور ڈی ایس پی سے آئی جی پی کے دفاتر میں سویلین ملازمین بھی مختلف عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں اور یہی لوگ پولیس انسپکٹر کی سطح کے اہلکاروں کو نچا کر رکھتے ہیں اور یہ پولیس اہلکاروں سے رشوت لیے بغیر انھیں قانونی چھٹی بھی نہیں دلاتے اور عوام پر رعب جھاڑنے والے پولیس اہلکار ان سویلینز کے آگے بلی بنے ہوتے ہیں۔ پولیس رولز کے مطابق کوئی ڈائریکٹ اعلیٰ افسر کے سامنے پیش نہیں ہو سکتا لہٰذا شکایات اور معاملہ نیچے ہی دبا رہتا ہے۔
پولیس کے تربیتی اداروں میں رشوت عروج پر ہوتی ہے جہاں ٹریننگ کرنے والے قدم قدم پر ہر کام کے لیے رشوت دیتے ہیں اور فحش گالیاں بھی یہیں سے سیکھتے ہیں اور تربیت مکمل کر کے عوام میں جا کر لوٹاتے اور دی گئی رشوت بمع سود وصول کرتے ہیں۔ محکمہ پولیس میں سیاسی سفارش اور رشوت پر غیر قانونی ترقیاں ملتی ہیں اور کارکردگی دکھانے والے پیچھے رہ جاتے ہیں غرض کہ محکمہ پولیس کے وردی والے اہلکار اور نچلے افسران خود کرپشن اور ناانصافیوں کا شکار ہیں مگر ان کی عدالتوں کے بغیر کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔
کراچی پولیس کی کارکردگی میں بہتری نہ آنے کی ذمے داری اعلیٰ پولیس افسران پر زیادہ عائد ہوتی ہے۔ غیر ممالک میں تربیت کے لیے جب پولیس افسروں کو بھیجنا ہوتا ہے تو اپنے اے سی کمروں میں رہ کر زیادہ وقت گزارنے والے اعلیٰ افسران باہر جانے کے لیے وہ اپنے نام پیش کر دیتے ہیں جہاں وہ تربیت کم اور تفریح زیادہ کر کے وطن واپس آنے کے بعد بیرون ملک حاصل کی گئی تربیت کو خود تک محدود رکھتے ہیں اور اپنے ماتحت افسروں کی تربیت نہیں کرتے جب کہ غیر ممالک میں تربیت حاصل کرنے کی زیادہ ضرورت فیلڈ میں کام کرنے والے پولیس افسروں کو ہوتی ہے۔ مگر اعلیٰ پولیس افسران ان کا حق مار لیتے ہیں اور اس طرح پولیس افسروں کی بیرون ملک تربیت ضایع ہو جاتی ہے اور حکومت کے کروڑوں روپے بھی ضایع ہو جاتے ہیں۔
اعلیٰ پولیس افسروں خصوصاً ایس ایس پی کو ہر سال کروڑوں روپے پولیس اہلکاروں کو ڈیوٹی کے دوران خوراک فراہم کرنے، پولیس گاڑیوں کی مرمت اور پٹرول کے علاوہ اپنے علاقے میں مخبری حاصل کرنے کے لیے مخبروں کو دینے کے لیے ملتے ہیں مگر یہ رقم حق داروں پر خرچ کرنے کی بجائے ہڑپ اور خوردبرد ہو جاتی ہے۔ اہم قومی دنوں اور مذہبی جلسے جلوسوں میں ڈیوٹی دینے والے پولیس اہلکار گرمی سردی سڑکوں پر ڈیوٹی دے کر بیزار ہو جاتے ہیں مگر وقت پر انھیں کھانا نہیں ملتا اور اگر کچھ ملتا بھی ہے تو وہ پولیس فنڈ سے نہیں ملتا بلکہ علاقہ ایس ایچ او محدود طور پر اپنے ہیڈ محرر کے ذریعے فراہم کراتا ہے۔ ہر تھانے کا ہیڈ محرر تھانہ انچارج کا خزانچی ہوتا ہے جس کے پاس ہر بیٹ سے رقم اور بھتہ اور ساری غیر قانونی کمائی جمع ہوتی ہے جس سے ہیڈ محرر کو اپنے افسروں کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ پولیس گاڑی کی چھوٹی موٹی مرمت، پٹرول، تھانے کی اسٹیشنری پر رقم خرچ کرنے کے علاوہ اپنے خلاف خبروں کی اشاعت رکوانے کے لیے بھی چائے پانی پر بھی کافی اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ رہنما ارشاد بخاری نے خود کہا تھا کہ ٹرانسپورٹروں کو تو ٹریفک کے اعلیٰ افسران کی بیگمات کی ساڑھیوں کے لیے بھی رقم فراہم کرنا پڑتی ہے اس الزام کی تردید نہیں ہوئی۔
محکمہ پولیس میں زیادہ جانی نقصان سپاہیوں کے علاوہ نچلے درجے کے پولیس افسروں کا ہوتا ہے کیونکہ یہی فیلڈ میں ہوتے ہیں اور دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں جب کہ اعلیٰ افسران خود سیکیورٹی میں سفر کرتے ہیں اور اپنے دفاتر تک محدود رہتے ہیں۔ کراچی کے سینٹرل پولیس آفس میں تو کیا اب دیگر اعلیٰ افسران کے پاس ایک عام آدمی تو کیا میڈیا والوں کا بھی جانا آسان نہیں رہا ہے۔ اعلیٰ پولیس افسروں نے سائلین تو کیا اپنے علاقے کے معززین سے ملنا بند کر رکھا ہے وہ صرف اپنے خاص ملنے والوں سے ہی ملنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ عوام کا پولیس افسروں سے رابطہ ختم ہو چکا ہے۔ عام لوگ اپنے علاقے کے ایس ایچ او سے ملنے کی پہنچ نہیں رکھتے۔ پولیس افسروں کی کچہریوں کا دور ختم ہو چکا۔ اب تھانوں میں داخلہ آسان نہیں رہا۔ اکثر تھانوں کے آہنی گیٹ بند ملتے ہیں کیونکہ دہشت گردی کا خطرہ دن رات رہتا ہے۔ دہشت گردی کا نشانہ سڑکوں پر موجود رہنے والے اہلکار بنتے ہیں۔
پولیس اور عوام کے مابین خلیج کراچی آپریشن سے شروع ہوئی تھی جسے پولیس افسروں نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا تھا جس کے نتیجے میں آپریشن میں حصہ لینے والوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں اور پولیس کا مورال بھی بری طرح متاثر ہوا تھا۔اب تو یہ حال ہے کہ حکمران پی پی کی رکن سندھ اسمبلی شرمیلا فاروقی نے بھی شکایت کی ہے کہ پولیس ان کی بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے تو عوام کس گنتی میں ہیں کہ پولیس افسران عام لوگوں سے ملیں۔ اصل میں سیاسی مداخلت، غیر قانونی ترقی اور من پسند تعیناتیوں نے کراچی پولیس کو ناکامیوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے اچھی قابلیت کے حامل اعلیٰ پولیس افسران بھی کوششوں کے باوجود کامیاب نہیں ہوئے اور تبادلے کروا کر جان چھڑا گئے۔ جہاں اعلیٰ پولیس افسران ہی محفوظ اور دلیر نہ ہوں وہاں نچلا عملہ غیر محفوظ پھر کب تک جانیں گنوائے گا اور عوام کو کیسے تحفظ دے سکے گا۔
تھانوں میں تقرر و تبادلے ڈی ایس پی کے بعد ہوتے ہیں اور فنڈز بھی ہر ضلع کی پولیس کے لیے ضلع کے ایس ایس پی ڈویژن و رینج کے لیے ڈی آئی جی اور آر پی او جب کہ صوبائی فنڈ آئی جی پولیس کے کنٹرول میں ہوتے ہیں اور ڈی ایس پی سے آئی جی پی کے دفاتر میں سویلین ملازمین بھی مختلف عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں اور یہی لوگ پولیس انسپکٹر کی سطح کے اہلکاروں کو نچا کر رکھتے ہیں اور یہ پولیس اہلکاروں سے رشوت لیے بغیر انھیں قانونی چھٹی بھی نہیں دلاتے اور عوام پر رعب جھاڑنے والے پولیس اہلکار ان سویلینز کے آگے بلی بنے ہوتے ہیں۔ پولیس رولز کے مطابق کوئی ڈائریکٹ اعلیٰ افسر کے سامنے پیش نہیں ہو سکتا لہٰذا شکایات اور معاملہ نیچے ہی دبا رہتا ہے۔
پولیس کے تربیتی اداروں میں رشوت عروج پر ہوتی ہے جہاں ٹریننگ کرنے والے قدم قدم پر ہر کام کے لیے رشوت دیتے ہیں اور فحش گالیاں بھی یہیں سے سیکھتے ہیں اور تربیت مکمل کر کے عوام میں جا کر لوٹاتے اور دی گئی رشوت بمع سود وصول کرتے ہیں۔ محکمہ پولیس میں سیاسی سفارش اور رشوت پر غیر قانونی ترقیاں ملتی ہیں اور کارکردگی دکھانے والے پیچھے رہ جاتے ہیں غرض کہ محکمہ پولیس کے وردی والے اہلکار اور نچلے افسران خود کرپشن اور ناانصافیوں کا شکار ہیں مگر ان کی عدالتوں کے بغیر کہیں شنوائی نہیں ہوتی۔
کراچی پولیس کی کارکردگی میں بہتری نہ آنے کی ذمے داری اعلیٰ پولیس افسران پر زیادہ عائد ہوتی ہے۔ غیر ممالک میں تربیت کے لیے جب پولیس افسروں کو بھیجنا ہوتا ہے تو اپنے اے سی کمروں میں رہ کر زیادہ وقت گزارنے والے اعلیٰ افسران باہر جانے کے لیے وہ اپنے نام پیش کر دیتے ہیں جہاں وہ تربیت کم اور تفریح زیادہ کر کے وطن واپس آنے کے بعد بیرون ملک حاصل کی گئی تربیت کو خود تک محدود رکھتے ہیں اور اپنے ماتحت افسروں کی تربیت نہیں کرتے جب کہ غیر ممالک میں تربیت حاصل کرنے کی زیادہ ضرورت فیلڈ میں کام کرنے والے پولیس افسروں کو ہوتی ہے۔ مگر اعلیٰ پولیس افسران ان کا حق مار لیتے ہیں اور اس طرح پولیس افسروں کی بیرون ملک تربیت ضایع ہو جاتی ہے اور حکومت کے کروڑوں روپے بھی ضایع ہو جاتے ہیں۔
اعلیٰ پولیس افسروں خصوصاً ایس ایس پی کو ہر سال کروڑوں روپے پولیس اہلکاروں کو ڈیوٹی کے دوران خوراک فراہم کرنے، پولیس گاڑیوں کی مرمت اور پٹرول کے علاوہ اپنے علاقے میں مخبری حاصل کرنے کے لیے مخبروں کو دینے کے لیے ملتے ہیں مگر یہ رقم حق داروں پر خرچ کرنے کی بجائے ہڑپ اور خوردبرد ہو جاتی ہے۔ اہم قومی دنوں اور مذہبی جلسے جلوسوں میں ڈیوٹی دینے والے پولیس اہلکار گرمی سردی سڑکوں پر ڈیوٹی دے کر بیزار ہو جاتے ہیں مگر وقت پر انھیں کھانا نہیں ملتا اور اگر کچھ ملتا بھی ہے تو وہ پولیس فنڈ سے نہیں ملتا بلکہ علاقہ ایس ایچ او محدود طور پر اپنے ہیڈ محرر کے ذریعے فراہم کراتا ہے۔ ہر تھانے کا ہیڈ محرر تھانہ انچارج کا خزانچی ہوتا ہے جس کے پاس ہر بیٹ سے رقم اور بھتہ اور ساری غیر قانونی کمائی جمع ہوتی ہے جس سے ہیڈ محرر کو اپنے افسروں کی ضروریات پوری کرنے کے علاوہ پولیس گاڑی کی چھوٹی موٹی مرمت، پٹرول، تھانے کی اسٹیشنری پر رقم خرچ کرنے کے علاوہ اپنے خلاف خبروں کی اشاعت رکوانے کے لیے بھی چائے پانی پر بھی کافی اخراجات کرنے پڑتے ہیں۔ ٹرانسپورٹ رہنما ارشاد بخاری نے خود کہا تھا کہ ٹرانسپورٹروں کو تو ٹریفک کے اعلیٰ افسران کی بیگمات کی ساڑھیوں کے لیے بھی رقم فراہم کرنا پڑتی ہے اس الزام کی تردید نہیں ہوئی۔
محکمہ پولیس میں زیادہ جانی نقصان سپاہیوں کے علاوہ نچلے درجے کے پولیس افسروں کا ہوتا ہے کیونکہ یہی فیلڈ میں ہوتے ہیں اور دہشت گردی کا نشانہ بنتے ہیں جب کہ اعلیٰ افسران خود سیکیورٹی میں سفر کرتے ہیں اور اپنے دفاتر تک محدود رہتے ہیں۔ کراچی کے سینٹرل پولیس آفس میں تو کیا اب دیگر اعلیٰ افسران کے پاس ایک عام آدمی تو کیا میڈیا والوں کا بھی جانا آسان نہیں رہا ہے۔ اعلیٰ پولیس افسروں نے سائلین تو کیا اپنے علاقے کے معززین سے ملنا بند کر رکھا ہے وہ صرف اپنے خاص ملنے والوں سے ہی ملنے پر اکتفا کرتے ہیں۔ عوام کا پولیس افسروں سے رابطہ ختم ہو چکا ہے۔ عام لوگ اپنے علاقے کے ایس ایچ او سے ملنے کی پہنچ نہیں رکھتے۔ پولیس افسروں کی کچہریوں کا دور ختم ہو چکا۔ اب تھانوں میں داخلہ آسان نہیں رہا۔ اکثر تھانوں کے آہنی گیٹ بند ملتے ہیں کیونکہ دہشت گردی کا خطرہ دن رات رہتا ہے۔ دہشت گردی کا نشانہ سڑکوں پر موجود رہنے والے اہلکار بنتے ہیں۔
پولیس اور عوام کے مابین خلیج کراچی آپریشن سے شروع ہوئی تھی جسے پولیس افسروں نے کمائی کا ذریعہ بنا لیا تھا جس کے نتیجے میں آپریشن میں حصہ لینے والوں کی ہلاکتیں بھی ہوئیں اور پولیس کا مورال بھی بری طرح متاثر ہوا تھا۔اب تو یہ حال ہے کہ حکمران پی پی کی رکن سندھ اسمبلی شرمیلا فاروقی نے بھی شکایت کی ہے کہ پولیس ان کی بات سننا بھی گوارا نہیں کرتے تو عوام کس گنتی میں ہیں کہ پولیس افسران عام لوگوں سے ملیں۔ اصل میں سیاسی مداخلت، غیر قانونی ترقی اور من پسند تعیناتیوں نے کراچی پولیس کو ناکامیوں سے دوچار کر رکھا ہے۔ جس کی وجہ سے اچھی قابلیت کے حامل اعلیٰ پولیس افسران بھی کوششوں کے باوجود کامیاب نہیں ہوئے اور تبادلے کروا کر جان چھڑا گئے۔ جہاں اعلیٰ پولیس افسران ہی محفوظ اور دلیر نہ ہوں وہاں نچلا عملہ غیر محفوظ پھر کب تک جانیں گنوائے گا اور عوام کو کیسے تحفظ دے سکے گا۔