پیپلزپارٹی کی سیاسی سرگرمیاں عروج پر
بلدیاتی انتخابات میں متحدہ سے بھر پور مقابلے کی شنید
حیدرآباد کے سیاسی منظرنامے کا جائزہ لیا جائے تو لگتا ہے کہ پیپلز پارٹی کے وزرا نے اسے اپنا سیاسی محور بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے،کیوں کہ پی پی کے وزرا عوام کو اپنی موجودگی کا بھر پور احساس دلانے کے لیے متحرک ہونے لگے ہیں، کیوں کہ سیاسی دنگل کے لیے اب اگلا مورچہ بلدیاتی انتخابات کا ہے۔
حیدرآباد کی سطح پر بالخصوص پیپلزپارٹی اب متحدہ سے مقابلے کے لیے تیاریوں میں مصروف نظر آتی ہے۔ سندھ کے وزیر تعلیم نثار کھوڑو اور وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے الگ الگ حیدرآباد کا دورہ کیا۔ نثار کھوڑو نے ذرایع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ 2013ء کے بلدیاتی نظام میں 1979ء کے نظام کی خامیوں کو دور کر دیا گیا ہے۔ اس میں مزید ترامیم بھی ہو سکتی ہیں اور چند ماہ میں اسی بل کے تحت ہی بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی نظام کے حوالے سے متحدہ کا سب سے بڑا اعتراض صرف کراچی کو پانچ اضلاع میں تقسیم کیے جانے پر ہے، باقی سیاسی، انتظامی اور معاشی مسائل پر کوئی خاص اعتراضات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں حیدرآباد سمیت دادو، لاڑکانہ میں ضلع بنائے جانے پر اعتراض ہوتا ہے، لیکن ہم نے بلدیاتی بل منظور کر کے لوگوں کی تنقید کا خاتمہ کیا ہے، کراچی میں صرف ایم کیو ایم ہی نہیں، بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی ہیں، جن سے بھی ہم نے بلدیاتی بل کے لیے مشاورت کی ہے، بلدیاتی بل صرف کراچی نہیں بلکہ پورے سندھ کے لیے لایا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سندھ بھر میں شرح خواندگی بڑھانے کے لیے ستائیس اگست سے ضلع بے نظیر آباد میں پروگرام کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب شرجیل میمن نے بھی حیدرآباد میں اپنے حلقہ انتخاب کے دورے کے دوران سندھ میں کسی بھی سیلابی صورت حال کے خدشے کو رد کردیا اور کہا کہ بندوں کو اتنا اونچا اور مضبوط کردیا گیا ہے کہ 2010ء جیسا بڑا سیلاب بھی خیریت سے گزر سکتا ہے۔ شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ کچے کے علاقے دریائے سندھ کے پانی کی قدرتی گزرگاہ ہے، دریائے سندھ میں اگر سیلابی کیفیت نہ بھی ہو اور ڈیڑھ یا دو لاکھ پانی آرہا تو اس وقت بھی کچے کے علاقے میں پانی پھیل جاتا ہے، اس وقت دریائے سندھ میں سیلابی کیفیت ہے، جس کی وجہ سے پورے سندھ کے کچے کے علاقے میں پانی آیا ہے لیکن تمام پکے علاقے محفوظ ہیں، جب کہ تاحال کسی بھی جگہ کسی بھی بند میں شگاف نہیں پڑا۔
کچے کے علاقوں گھوٹکی، جیکب آباد، خیرپور اور سکھر میں فصلوں کو نقصان پہنچا ہے اور لوگوں نے نقل مکانی بھی کی ہے، تاہم سندھ حکومت اس کا ازالہ کر رہی ہے، متاثرین کی مدد کے لیے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو الگ سے اضافی فنڈ جاری کرنے کے علاوہ ریلیف کیمپ بھی لگائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیراج اور بندوں کی چوبیس گھنٹے نگرانی کی جارہی ہے۔ موجودہ حکومت نے جہاں کہیں بھی بندوں کی مرمت اور مضبوطی کا کام کرایا ہے وہ تسلی بخش ہے اورکہیں بھی اس حوالے سے کوئی بھی شکایت سامنے نہیں آئیں۔کچے کے علاقوں میں لوگوں کو تجاوزات قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے ورنہ سب کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں، دو یا تین سال قبل میرپور خاص سمیت اس سے ملحقہ علاقوں میں پانی کی گزرگاہوں پر تجاوزات ختم کرائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلا سندھ کی ہدایت کے مطابق تمام وزرا، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اپنے اپنے علاقوں کے حفاظتی بندوں اور بیراجز کی نگرانی کر رہے ہیں۔
ادھر پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر کا کہنا تھا کہ پی پی کی حکومت بلدیاتی نظام کے بل کی منظوری کے بعد بلدیاتی انتخابات جلد کرانے کے لیے کوشاں ہے اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن سے بھی رابطے میں ہیں، انتخابات کو ہر صورت میں شفاف بنایا جائے گا، کیوں کہ شفاف انتخابات کے بغیر جمہوریت آگے نہیں بڑھ سکتی، ملک کے اندر الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے انتخابات کو شفاف بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سندھ اور خصوصاً کراچی کی انتخابی فہرستوں میں درستگی کی گنجایش موجود ہے، ایک سروے کے تحت 2010ء کے سیلاب کے بعد اندرون سندھ کے مکینوں کی بڑی تعداد کراچی منتقل ہو چکی ہے، لیکن ان کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ متحدہ قومی موومنٹ نے بل کے حوالے سے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کو ایک ایک ضلع کی حیثیت دی جائے، حالاںکہ کراچی میں پانچ اضلاع سے زاید اضلاع قائم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ماضی میں پیش کیے جانے والے بلدیاتی نظام کے بل کے لیے مکمل طور پر مشاورت نہ کرنے کے باعث جذباتی رد عمل سامنے آیا تھا۔ اس بار ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بعد ہی بلدیاتی بل سندھ اسمبلی میں منظورکیا گیا ہے۔
حیدرآباد میں پے درپے پی پی راہ نمائوں کے دورے کے بعد توقع ہے کہ آیندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ پی پی پی کے اندرونی ذرایع کے مطابق پی پی پی نے حیدرآباد کے تمام وارڈز میں اپنے امیدواروں کو کھڑا کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ جس کے لیے ایم کیو ایم کے علاوہ وارڈز کی سطح پر دیگر جماعتوں، مختلف بااثر خاندانوں کے عمائدین اور تاجر قیادت سے رابطہ بھی کیا جائے گا، جب کہ مختلف لوگوں کو وزرا کے ساتھ بیٹھنے کا موقع بھی دیا جائے گا تاکہ ان کے چھوٹے بڑے مسائل حل کر کے ان سے بلدیاتی الیکشن میں ووٹ لیے جائیں۔ جس کے لیے بلدیاتی الیکشن سے پہلے حیدرآباد میں بلدیاتی انتظامیہ، ضلعی انتظامیہ خصوصاً پولیس کے افسران کو تبدیل کر کے دیگر افسران کی تعیناتی بھی شامل ہے، جب کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل اساتذہ کی بھرتی پر بھی غور کیا جا رہا ہے تاکہ وہ بلدیاتی انتخابات میں بھرپور انداز میں اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایاز لطیف پلیجونے کہا ہے کہ سندھ سے اربوں ڈالر کا تیل اور گیس نکالنے والی کمپنیوں میں مقامی لوگوں کو روزگار نہ دینا مقامی محنت کشوں کے حق پرا ڈاکا ہے۔ انہوںنے قومی اداروں کی نج کاری کے خلاف حکومت کومتنبہ کیا اور کہا کہ اسٹیل مل، پاکستان مشین ٹول فیکٹری، واپڈا اور ریلوے جیسے اداروں کی نج کاری حکمت عملی ختم کرکے محنت کشوں کو تنخواہیں دی جائیں۔
حیدرآباد کی سطح پر بالخصوص پیپلزپارٹی اب متحدہ سے مقابلے کے لیے تیاریوں میں مصروف نظر آتی ہے۔ سندھ کے وزیر تعلیم نثار کھوڑو اور وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے الگ الگ حیدرآباد کا دورہ کیا۔ نثار کھوڑو نے ذرایع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ 2013ء کے بلدیاتی نظام میں 1979ء کے نظام کی خامیوں کو دور کر دیا گیا ہے۔ اس میں مزید ترامیم بھی ہو سکتی ہیں اور چند ماہ میں اسی بل کے تحت ہی بلدیاتی انتخابات ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ بلدیاتی نظام کے حوالے سے متحدہ کا سب سے بڑا اعتراض صرف کراچی کو پانچ اضلاع میں تقسیم کیے جانے پر ہے، باقی سیاسی، انتظامی اور معاشی مسائل پر کوئی خاص اعتراضات نہیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سندھ میں حیدرآباد سمیت دادو، لاڑکانہ میں ضلع بنائے جانے پر اعتراض ہوتا ہے، لیکن ہم نے بلدیاتی بل منظور کر کے لوگوں کی تنقید کا خاتمہ کیا ہے، کراچی میں صرف ایم کیو ایم ہی نہیں، بلکہ دیگر سیاسی جماعتیں بھی ہیں، جن سے بھی ہم نے بلدیاتی بل کے لیے مشاورت کی ہے، بلدیاتی بل صرف کراچی نہیں بلکہ پورے سندھ کے لیے لایا گیا ہے۔ انھوں نے کہا کہ سندھ بھر میں شرح خواندگی بڑھانے کے لیے ستائیس اگست سے ضلع بے نظیر آباد میں پروگرام کا آغاز کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب شرجیل میمن نے بھی حیدرآباد میں اپنے حلقہ انتخاب کے دورے کے دوران سندھ میں کسی بھی سیلابی صورت حال کے خدشے کو رد کردیا اور کہا کہ بندوں کو اتنا اونچا اور مضبوط کردیا گیا ہے کہ 2010ء جیسا بڑا سیلاب بھی خیریت سے گزر سکتا ہے۔ شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ کچے کے علاقے دریائے سندھ کے پانی کی قدرتی گزرگاہ ہے، دریائے سندھ میں اگر سیلابی کیفیت نہ بھی ہو اور ڈیڑھ یا دو لاکھ پانی آرہا تو اس وقت بھی کچے کے علاقے میں پانی پھیل جاتا ہے، اس وقت دریائے سندھ میں سیلابی کیفیت ہے، جس کی وجہ سے پورے سندھ کے کچے کے علاقے میں پانی آیا ہے لیکن تمام پکے علاقے محفوظ ہیں، جب کہ تاحال کسی بھی جگہ کسی بھی بند میں شگاف نہیں پڑا۔
کچے کے علاقوں گھوٹکی، جیکب آباد، خیرپور اور سکھر میں فصلوں کو نقصان پہنچا ہے اور لوگوں نے نقل مکانی بھی کی ہے، تاہم سندھ حکومت اس کا ازالہ کر رہی ہے، متاثرین کی مدد کے لیے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو الگ سے اضافی فنڈ جاری کرنے کے علاوہ ریلیف کیمپ بھی لگائے گئے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بیراج اور بندوں کی چوبیس گھنٹے نگرانی کی جارہی ہے۔ موجودہ حکومت نے جہاں کہیں بھی بندوں کی مرمت اور مضبوطی کا کام کرایا ہے وہ تسلی بخش ہے اورکہیں بھی اس حوالے سے کوئی بھی شکایت سامنے نہیں آئیں۔کچے کے علاقوں میں لوگوں کو تجاوزات قائم کرنے سے گریز کرنا چاہیے ورنہ سب کے لیے مشکلات پیدا ہوتی ہیں، دو یا تین سال قبل میرپور خاص سمیت اس سے ملحقہ علاقوں میں پانی کی گزرگاہوں پر تجاوزات ختم کرائیں۔ ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعلا سندھ کی ہدایت کے مطابق تمام وزرا، اراکین قومی و صوبائی اسمبلی اپنے اپنے علاقوں کے حفاظتی بندوں اور بیراجز کی نگرانی کر رہے ہیں۔
ادھر پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر کا کہنا تھا کہ پی پی کی حکومت بلدیاتی نظام کے بل کی منظوری کے بعد بلدیاتی انتخابات جلد کرانے کے لیے کوشاں ہے اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن سے بھی رابطے میں ہیں، انتخابات کو ہر صورت میں شفاف بنایا جائے گا، کیوں کہ شفاف انتخابات کے بغیر جمہوریت آگے نہیں بڑھ سکتی، ملک کے اندر الیکٹرانک ووٹنگ کے ذریعے انتخابات کو شفاف بنایا جا سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت سندھ اور خصوصاً کراچی کی انتخابی فہرستوں میں درستگی کی گنجایش موجود ہے، ایک سروے کے تحت 2010ء کے سیلاب کے بعد اندرون سندھ کے مکینوں کی بڑی تعداد کراچی منتقل ہو چکی ہے، لیکن ان کو ووٹ دینے کا حق حاصل نہیں ہے۔ انہوں نے بتایا کہ متحدہ قومی موومنٹ نے بل کے حوالے سے مطالبہ کیا ہے کہ کراچی اور حیدرآباد کو ایک ایک ضلع کی حیثیت دی جائے، حالاںکہ کراچی میں پانچ اضلاع سے زاید اضلاع قائم کرنے کی گنجائش موجود ہے۔ ماضی میں پیش کیے جانے والے بلدیاتی نظام کے بل کے لیے مکمل طور پر مشاورت نہ کرنے کے باعث جذباتی رد عمل سامنے آیا تھا۔ اس بار ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتوں سے مشاورت کے بعد ہی بلدیاتی بل سندھ اسمبلی میں منظورکیا گیا ہے۔
حیدرآباد میں پے درپے پی پی راہ نمائوں کے دورے کے بعد توقع ہے کہ آیندہ بھی یہ سلسلہ جاری رہے گا۔ پی پی پی کے اندرونی ذرایع کے مطابق پی پی پی نے حیدرآباد کے تمام وارڈز میں اپنے امیدواروں کو کھڑا کرنے کا پروگرام بنا لیا ہے۔ جس کے لیے ایم کیو ایم کے علاوہ وارڈز کی سطح پر دیگر جماعتوں، مختلف بااثر خاندانوں کے عمائدین اور تاجر قیادت سے رابطہ بھی کیا جائے گا، جب کہ مختلف لوگوں کو وزرا کے ساتھ بیٹھنے کا موقع بھی دیا جائے گا تاکہ ان کے چھوٹے بڑے مسائل حل کر کے ان سے بلدیاتی الیکشن میں ووٹ لیے جائیں۔ جس کے لیے بلدیاتی الیکشن سے پہلے حیدرآباد میں بلدیاتی انتظامیہ، ضلعی انتظامیہ خصوصاً پولیس کے افسران کو تبدیل کر کے دیگر افسران کی تعیناتی بھی شامل ہے، جب کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل اساتذہ کی بھرتی پر بھی غور کیا جا رہا ہے تاکہ وہ بلدیاتی انتخابات میں بھرپور انداز میں اپنے فرائض انجام دے سکیں۔
عوامی تحریک کے مرکزی صدر ایاز لطیف پلیجونے کہا ہے کہ سندھ سے اربوں ڈالر کا تیل اور گیس نکالنے والی کمپنیوں میں مقامی لوگوں کو روزگار نہ دینا مقامی محنت کشوں کے حق پرا ڈاکا ہے۔ انہوںنے قومی اداروں کی نج کاری کے خلاف حکومت کومتنبہ کیا اور کہا کہ اسٹیل مل، پاکستان مشین ٹول فیکٹری، واپڈا اور ریلوے جیسے اداروں کی نج کاری حکمت عملی ختم کرکے محنت کشوں کو تنخواہیں دی جائیں۔