پیپلز پارٹی نے سندھ میں اپنی برتری ایک مرتبہ پھر ثابت کردی
ضمنی انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ اے این 235 سانگھڑ کا نتیجہ انتہائی حیرت انگیز تھا۔۔
ضمنی انتخابات میں باقی نتائج تو سندھ میں توقع کے مطابق آئے لیکن قومی اسمبلی کے حلقہ اے این 235 سانگھڑ کا نتیجہ انتہائی حیرت انگیز تھا۔
اس نشست پر قیام پاکستان کے بعد سے اب تک صرف وہی امید وار کامیاب ہوتا آیا ہے، جسے حروں کے روحانی پیشوا پیرپگارا کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اس مرتبہ ضمنی انتخابات میں بڑا '' اپ سیٹ'' ہوا ہے اور یہ نشست پاکستان پیپلز پارٹی کی خاتون رہنما شازیہ مری نے سخت مقابلے کے بعد جیت لی ہے۔ حروں کے روحانی پیشوا پیرپگارا اور مسلم لیگ (فنکشنل ) کے امیدوار خدا بخش درس کی شکست سندھ کی سیاست میں ایک تبدیلی کی طرف اشارہ کررہی ہے ۔ یہ صرف ایک نشست پر پیپلزپارٹی کی فتح نہیں ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ آگے کی بات ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مذکورہ حلقے میں حروں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، جو صرف اسی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں ، جسے پیرپگارا نے ٹکٹ دیا ہو ۔
ایسے حلقے میں جہاں سیاسی اور نظریاتی ووٹ نہ ہو ، صرف عقیدت کا ووٹ ہو ، وہاں پیپلز پارٹی کی فتح معمولی بات نہیں ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ نشست پیر پگارا کے چھوٹے بھائی پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) سندھ کے صدر پیرصدر الدین شاہ راشدی عرف یونس سائیں نے چھوڑی تھی ۔ یونس سائیں اس وقت وفاقی وزیر بھی ہیں ۔ عام انتخابات میں انہوںنے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور سانگھڑ والی یہ نشست اس لیے چھوڑی تھی کہ اس نشست پر مسلم لیگ (فنکشنل ) کا امیدوار ہر حال میںکامیاب ہوگا۔ پیر پگارا اور یونس سائیں نے بھی ضمنی انتخابات میں اپنے مریدین کو مسلم لیگ (فنکشنل) کے امیدوار کے لیے مہم چلانے کی بھی ہدایت کی تھی ۔ لیکن نتیجہ ان کی توقع کے خلاف تھا ۔
مذکورہ نشست پر پیپلز پارٹی کی کامیابی اس لیے بھی ایک بڑی تبدیلی سے تعبیر کی جاسکتی ہے کہ عام انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (فنکشنل) نے سندھ کی دیگر سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مل کر سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012ء کے خلاف ایک بہت بڑی تحریک چلائی تھی ۔ سیاسی مبصرین تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی) کے بعد اسے سندھ کی انتہائی اہم سیاسی تحریک قرار دیتے ہیں اور اس تحریک کی خاص بات یہ تھی کہ سندھ میں لوگ پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ تأثر قائم کیا جارہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ میںمقبولیت ختم ہوگئی ہے اور مسلم لیگ (فنکشنل) ایک ایسی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے ، جس کاپیپلز پارٹی کی طرح قوم پرستانہ رنگ ہے اور وہ سندھ کے عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ایک مقبول سیاسی جماعت بن کر سامنے آرہی ہے ۔
اس تحریک کی وجہ سے وہ قوم پرست جماعتیں بھی پیپلز پارٹی کو چھوڑکر مسلم لیگ (ن) کے قریب ہوگئی تھیں ، جو اینٹی کالا باغ ڈیم اور گریٹر تھل کینال کے خلاف جدوجہد میں پیپلز پارٹی کے ساتھ تھیں۔ پیپلز پارٹی کے بارے میںبعض حلقے یہ بھی کہتے تھے کہ اس نے مبینہ طور پر سندھ کے عوام کے حقوق پر سمجھوتا کرلیا ہے اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ اور نئے پیر پگارا سید صبغت اللہ شاہ راشدی اپنے دادا شہید صبغت اللہ شاہ راشدی (سورھیہ بادشاہ) کی طرح سندھ دھرتی کے حقوق کی جنگ لڑیں گے ۔ مذکورہ نشست پر عام انتخابات میں یونس سائیں نے نمایاں برتری کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو شازیہ مری کی کامیابی ایک بہت بڑا واقعہ ہے ۔
اس کامیابی نے یہ تأثر زائل کردیا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت ختم ہو گئی ہے اور مسلم لیگ (فنکشنل) پیپلز پارٹی سے زیادہ مقبول ہوگئی ہے ۔ ضمنی انتخابات نے مزید کئی زمینی حقائق کو بھی واضح کردیا ہے ۔ چونکہ ان ضمنی انتخابات میں ان قوتوں کی زیادہ مداخلت نظر نہیں آئی ، جو '' پاکستان کے بہترین مفاد'' میں عام انتخابات کے نتائج پہلے سے تیارکرلیتی ہیں اور یہ فیصلہ بھی ہوجاتا ہے کہ کون کون سی سیاسی جماعتوں کو کتنی کتنی نشستیں دینی ہیں اور ہر سیاسی جماعت کے کس کس امیدوار کو کامیاب کرانا ہے۔ ان قوتوں کی مداخلت کی وجہ سے بعض نشستوں کو ہر عام انتخابات میں روایتی طور پر کچھ لوگوں کے حوالے کردیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ان نشستوں پر کوئی دوسرا نہیں جیت سکتا ہے۔ لیکن حالیہ ضمنی انتخابات میں ایسا نہیں کیا جاسکا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے تھے ۔
اس سے الیکشن کمیشن پر یہ دباؤ تھا کہ وہ شفاف انتخابات کرائے ۔ پولنگ اسٹیشنز پر فوج کی تعیناتی سے بھی کسی حد تک شفاف انتخابات کرانے میں مدد ملی ۔ اس سے نہ صرف پیپلز پارٹی نے سانگھڑ کی نشست پر فتح حاصل کی بلکہ ٹھٹھہ میں بھی قومی اسمبلی کی ایک نشست پر پیپلز پارٹی کی خاتون امیدوار شمس النساء نے ٹھٹھہ کے طاقت ور شیرازی گروپ کے امیدوار کو شکست دی جبکہ شکار میں پیپلز پارٹی کے امیدوار نے میر عابد خان جتوئی کے بیٹے کو شکست دے کر جتوئی خاندان کی یہ روایتی نشست بھی چھین لی ۔ کراچی میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پر اگرچہ ایم کیو ایم کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی لیکن ٹرن آؤٹ حیرت انگیز طور پر کم رہا ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انتخابی عمل میں نادیدہ قوتوں کی مداخلت نہ ہو تو نتائج وہ نہیں ہوں گے ، جو بنائے جاتے ہیں اور ٹرن آؤٹ بھی وہ نہیں ہو گا ، جو دکھایا جاتا ہے ۔ ضمنی انتخابات نے عام انتخابات پر بھی سوالیہ نشان لگادیا ہے اور عام انتخابات میںدھاندلی کے الزامات میں وزن نظر آنے لگا ہے ۔
سندھ سیاسی طور پر ایک انتہائی حساس صوبہ ہے اور یہاں کے لوگوں کا سیاسی شعور بہت بلند ہے ۔ پورے ملک کی طرح سندھ میں بھی عوام کو سیاسی طور پر گمراہ کرنے کے لیے کئی سیاسی چالیں چلی جاتی ہیں لیکن سندھ کے لوگ ان سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رہنما شازیہ عطا مری نے عام انتخابات میں بھی این اے 235 سانگھڑ کی نشست پر الیکشن لڑا تھا ۔ اس وقت نتیجہ ان کے حق میں نہیں آیا لیکن انہیں زمینی حقائق کا اندازہ ہوگیا تھا ۔ وہ اگرچہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئی تھیں ، اس کے باوجود انہوںنے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا اور محنت کرکے یہ نشست جیت لی ۔ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک موجود ہے ۔
انہوں نے اپنے عزم اور محنت سے اس ووٹ بینک کو متحرک کیا اور مسلم لیگ (فنکشنل ) سے وہ نشست چھین لی ، جس کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا ۔ عام انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات میں یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک نہیں ہے ۔ سندھ میں جو بھی لوگ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر جیت کر آئے ہیں ، وہ اپنی ذاتی حیثیت میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) سندھ کی قیادت کو یہ بھی احساس ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے نام پر یہاں ووٹ نہیں ملتا ہے ۔ یہاں ووٹ حاصل کرنے کے لیے سندھ کے عوام کے سیاسی شعور کے مطابق سیاست کرنی ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (فنکشنل) نے سندھ لوکل گورنمنٹ بل 2013ء کی منظوری میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا ۔ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت کی پالیسیوں کی وجہ سے سندھ میں مسلم لیگ (ن) کے اندرونی اختلافات کسی وقت بھی منظر عام پر آسکتے ہیں ۔
اس نشست پر قیام پاکستان کے بعد سے اب تک صرف وہی امید وار کامیاب ہوتا آیا ہے، جسے حروں کے روحانی پیشوا پیرپگارا کی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ اس مرتبہ ضمنی انتخابات میں بڑا '' اپ سیٹ'' ہوا ہے اور یہ نشست پاکستان پیپلز پارٹی کی خاتون رہنما شازیہ مری نے سخت مقابلے کے بعد جیت لی ہے۔ حروں کے روحانی پیشوا پیرپگارا اور مسلم لیگ (فنکشنل ) کے امیدوار خدا بخش درس کی شکست سندھ کی سیاست میں ایک تبدیلی کی طرف اشارہ کررہی ہے ۔ یہ صرف ایک نشست پر پیپلزپارٹی کی فتح نہیں ہے بلکہ اس سے بہت زیادہ آگے کی بات ہے ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مذکورہ حلقے میں حروں کی تعداد بہت زیادہ ہے ، جو صرف اسی امیدوار کو ووٹ دیتے ہیں ، جسے پیرپگارا نے ٹکٹ دیا ہو ۔
ایسے حلقے میں جہاں سیاسی اور نظریاتی ووٹ نہ ہو ، صرف عقیدت کا ووٹ ہو ، وہاں پیپلز پارٹی کی فتح معمولی بات نہیں ہے ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ نشست پیر پگارا کے چھوٹے بھائی پاکستان مسلم لیگ (فنکشنل) سندھ کے صدر پیرصدر الدین شاہ راشدی عرف یونس سائیں نے چھوڑی تھی ۔ یونس سائیں اس وقت وفاقی وزیر بھی ہیں ۔ عام انتخابات میں انہوںنے دو نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور سانگھڑ والی یہ نشست اس لیے چھوڑی تھی کہ اس نشست پر مسلم لیگ (فنکشنل ) کا امیدوار ہر حال میںکامیاب ہوگا۔ پیر پگارا اور یونس سائیں نے بھی ضمنی انتخابات میں اپنے مریدین کو مسلم لیگ (فنکشنل) کے امیدوار کے لیے مہم چلانے کی بھی ہدایت کی تھی ۔ لیکن نتیجہ ان کی توقع کے خلاف تھا ۔
مذکورہ نشست پر پیپلز پارٹی کی کامیابی اس لیے بھی ایک بڑی تبدیلی سے تعبیر کی جاسکتی ہے کہ عام انتخابات سے پہلے مسلم لیگ (فنکشنل) نے سندھ کی دیگر سیاسی اور قوم پرست جماعتوں کے ساتھ مل کر سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2012ء کے خلاف ایک بہت بڑی تحریک چلائی تھی ۔ سیاسی مبصرین تحریک بحالی جمہوریت ( ایم آر ڈی) کے بعد اسے سندھ کی انتہائی اہم سیاسی تحریک قرار دیتے ہیں اور اس تحریک کی خاص بات یہ تھی کہ سندھ میں لوگ پہلی مرتبہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ اس کے بعد یہ تأثر قائم کیا جارہا تھا کہ پیپلز پارٹی کی سندھ میںمقبولیت ختم ہوگئی ہے اور مسلم لیگ (فنکشنل) ایک ایسی سیاسی جماعت بن کر ابھری ہے ، جس کاپیپلز پارٹی کی طرح قوم پرستانہ رنگ ہے اور وہ سندھ کے عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والی ایک مقبول سیاسی جماعت بن کر سامنے آرہی ہے ۔
اس تحریک کی وجہ سے وہ قوم پرست جماعتیں بھی پیپلز پارٹی کو چھوڑکر مسلم لیگ (ن) کے قریب ہوگئی تھیں ، جو اینٹی کالا باغ ڈیم اور گریٹر تھل کینال کے خلاف جدوجہد میں پیپلز پارٹی کے ساتھ تھیں۔ پیپلز پارٹی کے بارے میںبعض حلقے یہ بھی کہتے تھے کہ اس نے مبینہ طور پر سندھ کے عوام کے حقوق پر سمجھوتا کرلیا ہے اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے سربراہ اور نئے پیر پگارا سید صبغت اللہ شاہ راشدی اپنے دادا شہید صبغت اللہ شاہ راشدی (سورھیہ بادشاہ) کی طرح سندھ دھرتی کے حقوق کی جنگ لڑیں گے ۔ مذکورہ نشست پر عام انتخابات میں یونس سائیں نے نمایاں برتری کے ساتھ کامیابی حاصل کی تھی ۔ اس پس منظر میں اگر دیکھا جائے تو شازیہ مری کی کامیابی ایک بہت بڑا واقعہ ہے ۔
اس کامیابی نے یہ تأثر زائل کردیا ہے کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت ختم ہو گئی ہے اور مسلم لیگ (فنکشنل) پیپلز پارٹی سے زیادہ مقبول ہوگئی ہے ۔ ضمنی انتخابات نے مزید کئی زمینی حقائق کو بھی واضح کردیا ہے ۔ چونکہ ان ضمنی انتخابات میں ان قوتوں کی زیادہ مداخلت نظر نہیں آئی ، جو '' پاکستان کے بہترین مفاد'' میں عام انتخابات کے نتائج پہلے سے تیارکرلیتی ہیں اور یہ فیصلہ بھی ہوجاتا ہے کہ کون کون سی سیاسی جماعتوں کو کتنی کتنی نشستیں دینی ہیں اور ہر سیاسی جماعت کے کس کس امیدوار کو کامیاب کرانا ہے۔ ان قوتوں کی مداخلت کی وجہ سے بعض نشستوں کو ہر عام انتخابات میں روایتی طور پر کچھ لوگوں کے حوالے کردیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ ان نشستوں پر کوئی دوسرا نہیں جیت سکتا ہے۔ لیکن حالیہ ضمنی انتخابات میں ایسا نہیں کیا جاسکا ۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا اور عام انتخابات میں تمام سیاسی جماعتوں کی طرف سے دھاندلی کے الزامات عائد کئے گئے تھے ۔
اس سے الیکشن کمیشن پر یہ دباؤ تھا کہ وہ شفاف انتخابات کرائے ۔ پولنگ اسٹیشنز پر فوج کی تعیناتی سے بھی کسی حد تک شفاف انتخابات کرانے میں مدد ملی ۔ اس سے نہ صرف پیپلز پارٹی نے سانگھڑ کی نشست پر فتح حاصل کی بلکہ ٹھٹھہ میں بھی قومی اسمبلی کی ایک نشست پر پیپلز پارٹی کی خاتون امیدوار شمس النساء نے ٹھٹھہ کے طاقت ور شیرازی گروپ کے امیدوار کو شکست دی جبکہ شکار میں پیپلز پارٹی کے امیدوار نے میر عابد خان جتوئی کے بیٹے کو شکست دے کر جتوئی خاندان کی یہ روایتی نشست بھی چھین لی ۔ کراچی میں قومی اسمبلی کی ایک اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پر اگرچہ ایم کیو ایم کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی لیکن ٹرن آؤٹ حیرت انگیز طور پر کم رہا ۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ انتخابی عمل میں نادیدہ قوتوں کی مداخلت نہ ہو تو نتائج وہ نہیں ہوں گے ، جو بنائے جاتے ہیں اور ٹرن آؤٹ بھی وہ نہیں ہو گا ، جو دکھایا جاتا ہے ۔ ضمنی انتخابات نے عام انتخابات پر بھی سوالیہ نشان لگادیا ہے اور عام انتخابات میںدھاندلی کے الزامات میں وزن نظر آنے لگا ہے ۔
سندھ سیاسی طور پر ایک انتہائی حساس صوبہ ہے اور یہاں کے لوگوں کا سیاسی شعور بہت بلند ہے ۔ پورے ملک کی طرح سندھ میں بھی عوام کو سیاسی طور پر گمراہ کرنے کے لیے کئی سیاسی چالیں چلی جاتی ہیں لیکن سندھ کے لوگ ان سے زیادہ متاثر نہیں ہوتے۔ پیپلز پارٹی کی خاتون رہنما شازیہ عطا مری نے عام انتخابات میں بھی این اے 235 سانگھڑ کی نشست پر الیکشن لڑا تھا ۔ اس وقت نتیجہ ان کے حق میں نہیں آیا لیکن انہیں زمینی حقائق کا اندازہ ہوگیا تھا ۔ وہ اگرچہ خواتین کی مخصوص نشستوں پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہوگئی تھیں ، اس کے باوجود انہوںنے ضمنی انتخابات میں حصہ لیا اور محنت کرکے یہ نشست جیت لی ۔ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ سندھ میں پیپلزپارٹی کا ووٹ بینک موجود ہے ۔
انہوں نے اپنے عزم اور محنت سے اس ووٹ بینک کو متحرک کیا اور مسلم لیگ (فنکشنل ) سے وہ نشست چھین لی ، جس کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا ۔ عام انتخابات کے بعد ضمنی انتخابات میں یہ بات بھی ثابت ہوگئی ہے کہ سندھ میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک نہیں ہے ۔ سندھ میں جو بھی لوگ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر جیت کر آئے ہیں ، وہ اپنی ذاتی حیثیت میں کامیاب ہوئے ہیں ۔ مسلم لیگ (ن) سندھ کی قیادت کو یہ بھی احساس ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے نام پر یہاں ووٹ نہیں ملتا ہے ۔ یہاں ووٹ حاصل کرنے کے لیے سندھ کے عوام کے سیاسی شعور کے مطابق سیاست کرنی ہوگی ۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ (ن) اور مسلم لیگ (فنکشنل) نے سندھ لوکل گورنمنٹ بل 2013ء کی منظوری میں پیپلز پارٹی کا ساتھ دیا ۔ مسلم لیگ (ن) کی مرکزی قیادت کی پالیسیوں کی وجہ سے سندھ میں مسلم لیگ (ن) کے اندرونی اختلافات کسی وقت بھی منظر عام پر آسکتے ہیں ۔