وزارتوں کی تقسیم کے فارمولے پر مسلم لیگ ن کے ارکان تحفظات کا شکار

بلوچستان میں ضمنی انتخانبات میں قومی اسمبلی کی تین نشستوں میں دو پر مسلم لیگ (ن) اور ایک پر آزاد رکن کامیاب ہوا۔

ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے دو ارکان کی کامیابی کے بعد اس کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگئی ہے۔ فوٹو: فائل

بلوچستان میں ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کو ایک مرتبہ پھر کامیابی حاصل رہی۔

بلوچستان اسمبلی کی تین نشستوں میں دو پر مسلم لیگ (ن) اور ایک پر آزاد رکن کامیاب ہواجبکہ قومی اسمبلی کی نشست پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے حصے میں آئی۔ صوبائی اسمبلی کی نشست پی بی29 نصیر آباد2 جوکہ عام انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے میر عبدالغفور لہڑی کی نا اہلی کی وجہ سے خالی قرار دی گئی تھی پر ضمنی انتخاب میں ان کے بھائی محمد خان لہڑی بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے جن کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ پی بی32 جھل مگسی پر عام انتخابات میں اُمیدوار کے قتل کے باعث انتخاب ملتوی کردیا گیا تھا یہ نشست بھاری اکثریت سے آزاد اُمیدوار اور سابق گورنر نواب ذوالفقار مگسی کے بھائی نوابزادہ طارق مگسی نے جیتی حالانکہ اس نشست پر ضمنی انتخاب سے ایک روز قبل تک ہائی کورٹ میں سیلاب کے باعث الیکشن ملتوی کرنے کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے عدالت نے مسترد کردیا تھا۔

پی بی 44 لسبیلہ کی نشست جام کمال خان کی قومی اسمبلی کی نشست برقرار رکھنے کی وجہ سے خالی قرار دی گئی تھی اس نشست پر مسلم لیگ (ن) کے پرنس احمد علی کامیاب ہوئے جبکہ قومی اسمبلی کی ایک نشست این اے262 جو کہ پشتونخوامیپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی کی جانب سے کوئٹہ سٹی کی نشست برقرار رکھنے کی وجہ سے خالی ہوئی تھی پر پشتونخواملی عوامی پارٹی کے عبدالقہار ودان کامیاب ہوئے، قومی اسمبلی کی اس نشست پر انتخاب کے دوران ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا جس میں اے این پی کا ایک کارکن فائرنگ سے جاں بحق ہوا جبکہ بلوچستان کے دیگر علاقوں میں جہاں ضمنی انتخابات ہورہے تھے وہاں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا اور پرامن ماحول میں انتخابات کا عمل مکمل ہوا۔

دوسری جانب الیکشن کمیشن نے بلوچستان اسمبلی کے حلقہ پی بی49 پر ضمنی انتخابات کے شیڈول کا اعلان کردیا ہے جہاں ضمنی الیکشن7 اکتوبر کو ہوگا یہ سیٹ نیشنل پارٹی کے رکن صوبائی اسبملی عظیم جان بلیدی کے انتقال کی وجہ سے خالی قرار دی گئی تھی۔ بلوچستان اسمبلی میں ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کے دو ارکان کی کامیابی کے بعد اس کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگئی ہے اور مسلم لیگ (ن) بلوچستان کی ایک اکثریتی پارلیمانی پارٹی بن کر اُبھری ہے۔




بلوچستان میں کابینہ کی تشکیل کے معاملے پر طے پانے والے فارمولے جس کے تحت نیشنل پارٹی کو چار، پشتونخواملی عوامی پارٹی کو چار اور مسلم لیگ (ن) کو چھ وزارتیں ملیں گی کے معاملے پر مسلم لیگ (ن) کے اندر سخت تحفظات پائے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے مسلم لیگ (ن) کے بعض اراکین اسمبلی نے مختلف اوقات میں مختلف مقامات پر اجلاس منعقد کرکے اپنی اس تشویش کا برملا اظہار کیا ان اراکین کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو وزیراعلیٰ کی جانب سے مسلسل نظر انداز کیا جارہا ہے خواہ وہ پوسٹنگ ٹرانسفر کا معاملہ ہو، ترقیاتی سکیموں کا معاملہ ہو یا دیگر اُمور ہوں ایک سازش کے تحت مسلم لیگ (ن) کو نظر انداز کرکے اسے دیوار سے لگایا جارہا ہے۔ ان اراکین نے اپنی قیادت کو اس حوالے سے یہ تجویز دی ہے کہ مسلم لیگ (ن) پارٹی کی مرکزی قیادت کے فیصلے کے مطابق موجودہ وزیراعلیٰ کو سپورٹ تو کرے تاہم وہ آزاد بنچوں پر بیٹھے وہ کابینہ کا حصہ نہیں بنیں گے، اسی طرح موجودہ حکومت کی کارکردگی سے انہیں اختلاف ہے اور وہ سمجھتے ہیں کہ موجودہ حکومت کی تین ماہ کی کارکردگی کوئی خاطر خواہ تبدیلی نہیں لاسکی اس لئے وہ ہر تین ماہ بعد حکومت کے کارناموں پر ایک وائٹ پیپر جاری کیا کریں گے۔

کابینہ کی تشکیل میں تاخیر سے حکومت اور خصوصاً وزیراعلیٰ کی کارکردگی پر کافی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ موجودہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو چاہیے کہ وہ جلد از جلد اپنی کابینہ کی تشکیل کے معاملے کو اتحادی جماعتوں کے ساتھ افہام و تفہیم سے حل کرلیں اور کابینہ تشکیل دے کر عوام کو جن تکالیف کا سامنا ہے اسے دور کریں ورنہ اتحادی جماعتوں کے درمیان جو لاوا اُبل رہا ہے وہ آگے جا کر خطرناک صورتحال اختیار کرلے گا جس سے ان تینوں اتحادی سیاسی جماعتوں میں دراڑیں پڑسکتی ہیں کیونکہ دوسری جانب اپوزیشن جماعت جمعیت علماء اسلام اور مسلم لیگ (ن) کے بعض اراکین کے درمیان اندرونی طور پر نئی حکومت تشکیل دینے کیلئے رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔

بلوچستان اسمبلی کا اجلاس بھی جاری ہے جہاں پر امن و امان سمیت مختلف معاملات پر گرما گرم بحث ہورہی ہے اور خود حکومتی ارکان بھی امن و امان کے حوالے سے شکایات کرتے نظر آئے ہیں جبکہ بلوچستان اسمبلی میں صوبے میں امن و امان کے حوالے پر بحث ابھی جاری ہے۔ گذشتہ دنوں ایک قرار داد کے ذریعے اسمبلی اراکین پی آئی اے پر برس پڑے، ان اراکین کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کا بلوچستان سے رویہ سوتیلی ماں جیسا ہے بلوچستان کیلئے پروازیں کم کردی گئی ہیں لہٰذا بلوچستان کے ساتھ پی آئی اے کے اس ناروا سلوک پر وزیراعلیٰ بلوچستان وفاقی حکومت اور پی آئی اے حکام سے بات کریں۔ اراکین اسمبلی نے پی آئی اے کے اس رویئے کے خلاف ایک قرار داد کو بھی اتفاق رائے سے منظور کیا۔

نواب اکبر خان بگٹی کی ساتویں برسی کے موقع پر بلوچستان بھر میں بی ۔آر ۔پی اور جے ۔ڈبلیو ۔ پی کی اپیل پر شٹر ڈائون رہا اور مختلف علاقوں میں پہیہ بھی جام رہا ۔ اس حوالے سے جے ڈبلیو پی اور بی آر پی نے کوئٹہ سمیت مختلف اضلاع میں عوامی اجتماعات اور تعزیتی ریفرنسز کے علاوہ قرآن خوانی کا بھی اہتمام کیا ان تعزیتی ریفرنسز اور عوامی اجتماعات میں نواب اکبر خان بگٹی کو زبردست خراج عقیدت پیش کیا گیا اور ان کی قربانی کو ایک عظیم مقصد سے تعبیر کرتے ہوئے اس بات کا عہد کیا گیا کہ ان کی اس جدوجہد کو مزید آگے بڑھایا جائے گا۔
Load Next Story