سمندروں کی سطح میں چھ فٹ اضافے کا احتمال
امریکا کو دوسروں کے بھلے کی کوئی بات قابل قبول نہیں لگتی
اقوام متحدہ کے دفتر نے اندازہ لگایا ہے کہ اس صدی کے آخر تک سمندر کے گلیشیئروں اور برف کے بڑے بڑے تودوں کے پگھلنے سے سمندر کے پانی کی سطح میں دو میٹر یا 6.5 فٹ تک کا اضافہ ہو سکتا ہے جس کے نتیجے میں ساحلوں کے قرب و جوار میں رہنے والے لاکھوں کروڑوں لوگ ڈوب جائیں گے۔
گرین لینڈ اور انٹارکٹک میں برف کے بہت بہت بڑے تودے اگر پگھل جائیں تو سمندروں کی سطح میں کئی میٹر کا اضافہ کر سکتے ہیں لیکن اس بات کا ابھی تک درست اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ کرہ ارض کی حدت میں کتنا اضافہ ہونے سے یہ ساری برف پگھل جائے گی کیونکہ معمول کے حالات میں برف پگھلتی بھی ہے اور سرد موسم اور سرد علاقوں میں مزید برف بنتی بھی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر بنایا جانے والا اقوم متحدہ کا پینل (آئی پی سی سی) نے 2013ء میں جاری کردہ اپنی پانچویں اسسمنٹ رپورٹ میں کہا ہے کہ عالمی حدت میں موجودہ رفتار سے ہونے والے اضافے کے نتیجے میں 2100ء تک برفوں کے پگھلنے میں مطلوبہ اضافہ ضرور ہو سکے گا اس کے لیے لازم ہے کہ صنعتی طور پر زیادہ ترقی یافتہ ممالک اپنی صنعتوں سے زہریلی گیسوں کے اخراج کو ممکن حد تک کم کرنے پر رضا مند ہو جائیں جس مقصد کے لیے پیرس میں ایک عالمی اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں زہریلی گیسوں کے بے محابہ اخراج پر کسی حد تک قدغن عاید کرنے پر اتفاق کیا گیا لیکن امریکا اس پر راضی نہ ہوا کیونکہ اس طرح اس کی بعض صنعتوں کے بند ہونے کا خدشہ تھا یا پھر ان کی کارکردگی میں قدرے تحفیف کی تجویز دی گئی تھی لیکن امریکا کو دوسروں کے بھلے کی کوئی بات قابل قبول نہیں لگتی۔
اس کے لیے اقرار کر کے مکر جانے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے حالانکہ ایک سپر پاور ہونے کی حیثیت سے اسے اپنے وعدوں کا ہر حال میں پاس کرنا چاہیے۔ ہمارے قارئین کے لیے ممکن ہے یہ اطلاع حیرت کا باعث ہو کہ آئس سائنٹسٹوں کے ایک گروپ نے اسی ہفتے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں ان چوٹی کے سائنس دانوں نے اپنے ذاتی تجربات اور زمینی حقائق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانی کی نذر ہو جانے والا خشکی کا علاقہ فرانس' جرمنی' اسپین اور برطانیہ کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے جس سے 180ملین (اٹھارہ کروڑ) لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔گلیشئیر پگھلنے سے سیلاب آ سکتے ہیں جس سے بڑے پیمانے میں جانی و مالی نقصان ہوسکتا ہے،کھڑی فصلیں تباہ ہونے سے خوراک کا بحران بہت سے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلاب آچکے ہیں مگر یہاں کی حکومتیں سیلاب پر قابو پانے یا سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کا اب تک کوئی انتظام نہیں کرسکیں۔جب سیلاب آتا ہے تو حکومت وقتی طور پر متحرک ہو جاتی ہے اورپھر اس کے بعد اس مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کرتی۔
گرین لینڈ اور انٹارکٹک میں برف کے بہت بہت بڑے تودے اگر پگھل جائیں تو سمندروں کی سطح میں کئی میٹر کا اضافہ کر سکتے ہیں لیکن اس بات کا ابھی تک درست اندازہ نہیں لگایا جا سکا کہ کرہ ارض کی حدت میں کتنا اضافہ ہونے سے یہ ساری برف پگھل جائے گی کیونکہ معمول کے حالات میں برف پگھلتی بھی ہے اور سرد موسم اور سرد علاقوں میں مزید برف بنتی بھی ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں پر بنایا جانے والا اقوم متحدہ کا پینل (آئی پی سی سی) نے 2013ء میں جاری کردہ اپنی پانچویں اسسمنٹ رپورٹ میں کہا ہے کہ عالمی حدت میں موجودہ رفتار سے ہونے والے اضافے کے نتیجے میں 2100ء تک برفوں کے پگھلنے میں مطلوبہ اضافہ ضرور ہو سکے گا اس کے لیے لازم ہے کہ صنعتی طور پر زیادہ ترقی یافتہ ممالک اپنی صنعتوں سے زہریلی گیسوں کے اخراج کو ممکن حد تک کم کرنے پر رضا مند ہو جائیں جس مقصد کے لیے پیرس میں ایک عالمی اجلاس بھی منعقد ہوا جس میں زہریلی گیسوں کے بے محابہ اخراج پر کسی حد تک قدغن عاید کرنے پر اتفاق کیا گیا لیکن امریکا اس پر راضی نہ ہوا کیونکہ اس طرح اس کی بعض صنعتوں کے بند ہونے کا خدشہ تھا یا پھر ان کی کارکردگی میں قدرے تحفیف کی تجویز دی گئی تھی لیکن امریکا کو دوسروں کے بھلے کی کوئی بات قابل قبول نہیں لگتی۔
اس کے لیے اقرار کر کے مکر جانے میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے حالانکہ ایک سپر پاور ہونے کی حیثیت سے اسے اپنے وعدوں کا ہر حال میں پاس کرنا چاہیے۔ ہمارے قارئین کے لیے ممکن ہے یہ اطلاع حیرت کا باعث ہو کہ آئس سائنٹسٹوں کے ایک گروپ نے اسی ہفتے ایک رپورٹ جاری کی ہے جس میں ان چوٹی کے سائنس دانوں نے اپنے ذاتی تجربات اور زمینی حقائق کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ پانی کی نذر ہو جانے والا خشکی کا علاقہ فرانس' جرمنی' اسپین اور برطانیہ کے مجموعی رقبے سے بھی زیادہ ہو سکتا ہے جس سے 180ملین (اٹھارہ کروڑ) لوگ متاثر ہو سکتے ہیں۔گلیشئیر پگھلنے سے سیلاب آ سکتے ہیں جس سے بڑے پیمانے میں جانی و مالی نقصان ہوسکتا ہے،کھڑی فصلیں تباہ ہونے سے خوراک کا بحران بہت سے مسائل پیدا کرسکتا ہے۔پاکستان میں بڑے پیمانے پر سیلاب آچکے ہیں مگر یہاں کی حکومتیں سیلاب پر قابو پانے یا سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کا اب تک کوئی انتظام نہیں کرسکیں۔جب سیلاب آتا ہے تو حکومت وقتی طور پر متحرک ہو جاتی ہے اورپھر اس کے بعد اس مسئلے کا کوئی حل تلاش نہیں کرتی۔