دور حاضر کا ایک نازک وحساس سوال مسجد اقصیٰ کیا ہیکل سلیمانی کی جگہ تعمیر ہوئی
تاریخ اور علمِ اثریات کی روشنی میں مسلمانانِ عالم کے قبلۂ اوّل کا حیرت انگیز ماضی وحال۔
GUATEMALA CITY:
چند ماہ قبل فرانس کے مشہور گرجا گھر نوٹرے ڈیم میں آگ لگی اور اس کا بڑا حصہ جل کر خاکستر ہو گیا۔ عجب اتفاق ' اسی دن بیت ا لمقدس یایروشلم میں بھی مسجد اقصیٰ کو آگ لگ گئی تھی تاہم محافظ اسے بروقت بجھانے میں کامیاب رہے۔ یوں مسجد کو نقصان نہیں پہنچ سکا۔یہ امر پُراسرار ہی ہے کہ مسجد اقصیٰ میں آگ کیسے لگی؟
اکثر لوگوں پر گمان گزرا کہ کسی انتہا پسند یہودی نے یہ ناپسندیدہ حرکت کی ہوگی۔نصف صدی قبل 21اگست 1969ء کو بھی ایک انتہا پسند آسٹریلوی نوجوان نے مسجد اقصیٰ میں آگ لگانی چاہی تھی۔ اس حادثے نے دنیا بھر میں مسلمانوں کو مشتعل کر دیا ۔ چنانچہ سعودی عرب کے شاہ فیصلؒ کی سعی سے سربراہان اسلامی ممالک کااجلاس ہوا جس میں آئندہ مسائل پر متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کی خاطر ایک تنظیم (او آئی سی) کی بنیاد رکھی گئی۔
اسرائیل میں انتہا پسند یہودی خصوصاً بیت المقدس سے دین اسلام اور اسلامی تہذیب و تمدن کے سبھی نمونے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں نہ صرف یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت بن سکے بلکہ ٹیمپل ماؤنٹ پر تیسرا ہیکل تعمیر کر لیا جائے۔ مگر مسجد اقصیٰ کی موجودگی کے باعث وہ ا بھی تک اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکے۔واضح رہے، یہ معاملہ دنیا کے چند بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ اگر انتہا پسندوں نے خصوصاً مسجد اقصیٰ کو شہید کرنا چاہا توعالمی جنگ ناگزیر ہوجائے گی۔انتہا پسند یہود کا دعویٰ ہے کہ جس جگہ مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی، وہاں ہیکل سلیمانی موجود تھا۔ آئیے تاریخ کی روشنی میں ان کے اس دعویٰ کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ تاریخی حقائق مسلم اور غیر مسلم مورخین کی مستند کتب میں موجود و محفوظ ہیں۔
مسجد اقصیٰ کی تعمیر
یروشلم یھودا ( Judaean Mountains)نامی سلسلہ ہائے کوہ میں سطح مرتفع پر واقع ہے۔ شہر میں جابجا ٹیلے پھیلے ہیں۔چاروں سمت وادیاں یا نشیبی علاقے دکھائی دیتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں سبھی اولیں انسانی بستیاں' چشموں' ندی نالوں اور دریاؤں کے کنارے آباد ہوئیں اور یروشلم کی بنیاد بھی اسی طریقے سے رکھی گئی۔سات آٹھ ہزار سال پہلے کچھ خانہ بدوشوں نے یروشلم میں ایک چشمہ دریافت کیا جو آج ''نبع ام الدرج''(Gihon Spring) کہلاتا ہے ۔ چنانچہ انہوںنے چشمے کے کنارے ڈیرے ڈال دیئے۔ یوں یروشلم کی انسانی تاریخ کا آغاز ہوا۔
2400 ق م (قبل مسیح )کے لگ بھگ عراق سے حضرت ابراہیم علیہ السلام ارض فلسطین تشریف لائے۔آپ پھر طویل عرصہ ارض فلسطین میں مقیم رہے۔آپ نے چشمے کے نزدیک ایک ٹیلے پر عبادت گاہ بھی تعمیر فرمائی تاکہ وہاں نماز پڑھی جاسکے۔ کتب تاریخ میں ایسی عبادت گاہ کا ذکر نہیں ملتا مگر قرآن پاک کی سورہ بنی اسرائیل آیت 1 میں جس ''دور کی مسجد'' (مسجد اقصیٰ) کا تذکرہ کیا گیا، وہ یہی عبادت گاہ ہے۔''پاک ہے وہ جو اپنے بندے کو ایک رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ کو ،جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی تھیں،لے گیا تاکہ ہم اسے اپنے بعض نشان دکھا سکیں۔بے شک وہی سننے والا،دیکھنے والا ہے۔''
اس آیت مبارکہ میں اسراء و معراج شریف کا ذکر ہے جب حکم ربی پر نبی کریم ﷺ مکہ معظمہ سے بیت المقدس تشریف لے گئے۔یہ واقعہ ''اسرا'' کہلاتا ہے۔حرم الشریف ہی وہ مقام ہے جہاں سے آپﷺ کو آسمانوں پر لے جایا گیا۔اس واقعے کو ''معراج'' کہا جاتا ہے۔یہ دونوں واقعات ہجرت ِمدینہ سے قبل پیش آئے۔آیت مبارکہ سے عیاں ہے کہ ان اسفار کے ذریعے رب کریم اپنے پیارے رسولﷺ کو اپنی قدرت کی عظیم الشان نشانیاں دکھانا چاہتے تھے۔حضرت انسؓ بن مالک کی حدیث کے مطابق معراج شریف کے سفر ہی میں پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی۔(البخاری و مسلم)قران کریم میں حضرت ابراہیم ؑکو ''اقوام عالم کے امام'' (سورہ البقرہ آیت 124) اور ''مسلمانوں کا جد'' (سورہ الحج آیت 78) کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے جب حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابو طالبؒ کی وفات کے بعد نبی کریمﷺ تنہائی محسوس کرنے لگے تو ایک رات حکم ربی سے آپؐ کو بذریعہ ''اسراء'' بیت المقدس لے جایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ نبی کریمؐ کی تنہائی دور کی جاسکے۔ اللہ تعالیٰ یوں اپنے محبوب پیغمبرؐ کو یہ بھی دکھانا چاہتے تھے کہ وہ کفار مکہ کے مقابلے میں تنہا نہیں ۔
سورہ بنی اسرائیل آیت 1 میں پہلے مسجد الحرام کا ذکر فرمایا گیا۔ یہ احادیث کی رو سے کرہ ارض پر پہلی مسجد ہے جسے پہلے حضرت آدم ؑ نے تعمیر فرمایا۔ پھر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد ازسر نو بنایا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے ''میں نے ایک بار نبی اکرم ﷺ سے دریافت فرمایا کہ روئے ارض پر کون سی پہلی مسجد تعمیر ہوئی؟'' آپؐ نے فرمایا ''مسجد الحرام۔'' میں نے پوچھا ''اس کے بعد؟'' آپؐ نے فرمایا ''مسجد الاقصیٰ۔'' میں نے دریافت کیا ''ان دونوں مساجد کی تعمیر کے درمیان کتنا وقفہ ہے؟'' آپؐ نے فرمایا ''چالیس برس۔'' (صحیح بخاری)
معراج سے واپسی کے بعد نبی کریمؐ نے صحابہ کرام کو یقینا ''دور کی مسجد'' کے مقام سے مطلع فرمایا ہوگاجو تاریخ اسلام میں مسجد اقصیٰ کے نام سے مشہور ہوئی۔جب اسراء و معراج پیش آیا، تو بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ موجود نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے معراج سے رسول کریمؐ پر القا فرمایا کہ اس جگہ ایک مسجد موجود تھی۔یہی وجہ ہے، جب 638ء میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا، تو خلیفہ دوم حضرت عمرؓ نے اس مقام پر ایک عارضی مسجد تعمیر فرمادی۔ اموی خلفا کے دور میں اس مقام پر مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی۔ اموی خلفا ہی نے ٹیلے کے وسط میں گنبد قبتہ الصخرہ بھی تعمیر کرایا۔ گنبد کے درمیان میں ایک چٹان ''صخرہ مشرفہ'' واقع ہے۔ روایت ہے کہ حضور اکرمﷺؐ اسی چٹان پر قدم رکھ کر آسمان کی جانب روانہ ہوئے تھے۔
مسجد اقصیٰ دین اسلام میں ایک اور وجہ سے بھی اہم ہے:یہ مسلمانان عالم کا قبلہ اول ہے۔ احادیث میں آیا ہے کہ نبی کریمؐ اور صحابہ کرام مکہ معظمہ میں پچھلے انبیاء کی پیروی کرتے ہوئے حرم الشریف کی سمت نماز ادا فرماتے تھے۔ یہ نماز اس طرح پڑھی جاتی کہ خانہ کعبہ اور مسجد اقصیٰ بیک وقت سامنے آ جاتے۔ہجرت مدینہ کے بعد بھی سولہ سترہ ماہ تک نبی کریمؐ مسجد اقصیٰ کی جانب رخ کرکے عبادت الٰہی فرماتے رہے۔ آخر سورہ البقرہ کی آیات 142 تا 144 نازل ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر فرمایا۔حیرت انگیز بات یہ کہ جب اسراء و معراج ظہور پذیر ہوئے اور نبی کریمؐ صحابہ کرام کی معیت میں مسجد اقصیٰ کی جانب رخ فرما کر نماز ادا فرماتے رہے، تو اس مسجد کا نام و نشان نہیں تھا۔ وجہ یہ کہ نصاریٰ نے اس مقام کو کوڑا خانہ بنا رکھا تھا۔یہ مقدس مقام بنی اسرائیل کے گناہوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے اس حال تک پہنچا۔ یہ مسلمان ہیں جنہوں نے اس مقام کو پستی کی انتہا سے نکالا اور اسے پھر دنیا بھر میںاعلی عزت و احترام کا مسکن بنادیا۔
مسلمانان عالم آج اس مقام کو ''حرم شریف'' کہتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ میں ''ٹیمپل ماؤنٹ'' کہلاتا ہے۔ یہ چشمہ ''نبع ام الدرج''کے نزدیک واقع ٹیلہ ہے جس کا قطر چھتیس ایکڑ ہے۔ عبرانی بائبل کی رو سے حضرت ابراہیمؑ نے اسی جگہ حضرت اسحاقؑ کی قربانی دینا چاہی تھی جبکہ سورہ بنی اسرائیل آیت 1 کے مطابق مسجد الحرام کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے وہاں مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی۔گویا مکہ معظمہ اور بیت المقدس، دو مقدس ترین شہروں کی بنیاد چشموں کے کنارے رکھی گئی۔حضرت ابراہیمؑ کی اولاد خوب پھلی پھولی اور ''بنی اسرائیل'' کے نام سے مشہور ہوئی۔ اسرائیل حضرت ابراہیمؑ کے پوتے، حضرت یعقوبؑ کا ایک نام ہے۔ حضرت یعقوبؑ کے فرزند، حضرت یوسفؑ کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر چلے گئے۔ مصریوں نے جب بنی اسرائیل کو غلام بنالیا اور ان پر ظلم کرنے لگے تو چار سو برس بعد حضرت موسیٰؑ انہیں واپس ارض فلسطین لے آئے۔ان چار سو برس کے دوران بنی اسرائیل میں بہت سی مشرکانہ عادات و خصائل پیدا ہوگئے تھے۔ یہی وجہ ہے، وہ وقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں و پیغمبروں سے سرکشی کرتے رہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے انہیں سزائیں دینے کے بعد معافی عطا فرمائی اور انہیں بار بار اصلاح احوال کا موقع دیتے رہے۔
ہیکل سلیمانی
بنی اسرائیل نے آخر یروشلم سمیت ارض فلسطین کی مختلف آبادیوں پر قبضہ کرلیا۔ عبرانی بائبل کی رو سے حضرت سلیمانؑ کے دور میں حرم شریف یا ٹیمپل ماؤنٹ کے مقام پر عبادت گاہ تعمیر ہوئی جو ہیکل سلیمانی کہلاتی ہے۔ قرآن پاک میں ہیکل سلیمانی کا تذکرہ موجود نہیں البتہ سورہ سبا کی آیات 12 اور 13 میں آیا ہے: ''کچھ جن اس کے (حضرت سلیمانؑ) کے تابع تھے۔ وہ جو چاہتا، اس کے لیے بناتے... قلعے، مجسّمے، حوض کی طرح کے لگن اور ایک جگہ جمی ہوئی دیگیں۔'' مسلمان تو یقین رکھتے ہیں کہ حضرت داؤدؑ اور ان کے فرزند،حضرت سلیمانؑ نے مسجد ابراہیمی کو نئے سرے سے تعمیر فرمایا مگر خود یہود و نصاری میں شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ اسرائیل فنکلسٹین(Israel Finkelstein) اور نیل ایشر(Neil Asher Silberman) اسرائیل کے دو ممتاز اثریات داں ہیں۔
ان دونوں نے 2002ء میں ایک کتاب''The Bible Unearthed: Archaeology's New Vision of Ancient Israel and the Origin of Its Sacred Texts'' لکھی۔ کتاب میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ہیکل سلیمانی یہود کی ریاست، یہودا کے بادشاہ، یوسیاہ (Josiah) نے تعمیر کرایا تھا۔ اس بادشاہ کا دور حکومت 649 ق م (قبل مسیح) سے 609 ق م رہا ہے ۔جبکہ عبرانی بائبل کی رو سے ہیکل سلیمانی 931 ق م تا 920 ق م کے مابین تعمیر ہوا۔ ان اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ کا دعویٰ ہے کہ یوسیاہ کے دور حکومت سے تین سو سال پہلے حضرت سلیمانؑ کی ریاست اتنی دولت مند اور طاقتور نہیں تھی کہ وہ ہیکل سلیمانی جیسی بڑی عمارت تعمیر کرلیتی۔
امریکا کی ماہر اثریات، کیتھلین کینیون (1906ء۔ 1978ء) بیسویں صدی کی نامور ماہر آثار قدیمہ ہے۔ اس نے 1961ء تا 1967ء ''شہر داؤد'' (City of David) میں کھدائیاں کی تھیں۔ ماضی میں حرم شریف کے اردگرد کا علاقہ ''شہر داؤد'' کہلاتا تھا۔ عبرانی بائبل کی رو سے اسے حضرت داؤدؑ نے آباد کیا تھا۔ کیتھلین کینیون(Kathleen Kenyon) نے شہر داؤد میں کھدائیوں کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس علاقے سے ہیکل سلیمانی کے کوئی آثار نہیں ملے۔
امریکا کا سائنس داں، ارنسٹ ایل مارٹن (1932ء۔ 2002ء) آثار قدیمہ سے بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ یہ 1961ء کی بات ہے، جب ارنسٹ مارٹن(Ernest L. Martin) کی ملاقات اسرائیل میں ''بابائے آثار قدیمہ'' بینجمن مازار ( Benjamin Mazar) سے ہوئی۔ بنجمن نے اپنے امریکی ممدوح کو بتایا کہ یروشلم میں یہ قدیم روایت ملتی ہے کہ ہیکل سلیمانی اور دوسرا ہیکل ''اوفل ''(Ophel) ٹیلے پر واقع تھے۔یروشلم میں حرم شریف اور شہر داؤد کے درمیان واقع بلند مقام اوفل کہلاتا ہے۔یہ چشمہ ام الدراج کے عین سامنے واقع تھا۔ ارنسٹ ایل مارٹن پھر تحقیق کرنے لگا کہ کیا ہیکل سلیمانی اور دوسرا ہیکل بھی اس جگہ واقع تھے؟ارنسٹ مارٹن نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر ایک کتاب''The Temples that Jerusalem Forgot'' لکھی جو 1999ء میں شائع ہوئی۔ کتاب میں اس نے دعویٰ کیا کہ ہیکل سلیمانی اور دوسرا ہیکل بھی اوفل ٹیلے پر واقع تھے۔ لیکن یروشلم کے حاکم، شمعون حسمونی(Simon the Hasmonean)نے اپنے دور حکومت( 142ق م تا 135 ق م)میں نیا ہیکل حرم شریف میں تعمیر کرا دیا۔ بعدازاں رومیوں کے باج گزار یہودی حکمران، ہیروداول(Herod the Great) نے اپنے دور (37 تا4 ق م )میں اسی ہیکل کو توسیع دی اور اسے عظیم الشان عمارت میں ڈھال دیا۔
یاد رہے، بابل کے بادشاہ، نبوکد نصر نے 586 ق م میں یروشلم تباہ کردیا تھا اور ہیکل سلیمانی بھی ملیامیٹ کرڈالا۔ وہ پھر تمام یہود کو غلام بناکر بابل لے گیا۔ صرف بوڑھے یہودی ہی یروشلم میں مقیم رہے۔ 539 ق م میں ایرانی بادشاہ، سائرس اعظم نے بابل فتح کرلیا۔ اس نے یہود کو واپس یروشلم جانے اور نیا ہیکل بنانے کی اجازت دے دی۔دوسرا ہیکل 537 تا 515 ق م کے درمیان تعمیر ہوا۔ یہ بھی ہیکل سلیمانی کے مانند تھا۔ عبرانی بائبل کے مطابق ہیرود اول نے اسی کو توسیع دی اور حرم الشریف میں عظیم الشان ہیکل تعمیر کروایا۔ مگر ارنسٹ مارٹن اور ان کے نظریات سے اتفاق کرنے والے دیگر ماہرین اثریات کا دعویٰ ہے کہ پہلے اور دوسرے ہیکل اوفل ٹیلے پر تعمیر ہوئے جو نسبتا ًچھوٹا ٹیلہ تھا۔گویا شمعون حسمونی اور ہیرود اول نے تیسرا ہیکل حرم الشریف میں تعمیر کرایا جو چوڑائی، لمبائی اور اونچائی میں زیادہ بڑا ٹیلہ تھا اور یہ کہ اس ٹیلے پر حضرت سلیمانؑ کے دور حکومت میں قلعے تعمیر ہوئے تھے۔
یہود پہ عذاب ِالٰہی
330ق م میں اسکندر اعظم نے فارسی حکمران،دارا سوم کو شکست دی تو ارض فلسطین رومی سلطنت کا حصہ بن گیا۔66ء میں علاقے کے یہود نے رومی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کردی جو چار برس تک جاری رہی۔ اپریل 70ء میں مستقبل کا رومی بادشاہ، شہزادہ تیوس ( Titus) کثیر فوج لیے یروشلم آپہنچا۔ اس نے پونے پانچ ماہ شہر کا محاصرہ کیے رکھا۔ آخر شہر پہ قبضہ کیا اور اسے ملیامیٹ کر ڈالا۔ یوں دوسرا ہیکل بھی تباہ ہوگیا۔ اس کی صرف کچھ دیواریں ہی کھنڈرات کی صورت باقی رہ گئیں۔ ہیرود اول نے حرم الشریف کے گرد چار دیواری تعمیر کرائی تھی۔رومی فوج کے حملوں سے علاقے میں آباد ہزارہا یہودی مارے گئے۔ جو نوجوان زندہ بچے، رومیوں نے انہیں غلام بنالیا۔ بقیہ یہودی جانیں بچانے کی خاطر دور دراز علاقوں میں چلے گئے۔ اسی طرح رومی حملے خدائی قہر بن کر یہودی قوم پر نازل ہوئے اور اسے تباہ و برباد کرگئے۔حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کے یہودی علما یعنی ''عموریم'' (Amoraim) کی رو سے یہودی قوم سر تا پا گناہوں میں لتھڑ چکی تھی۔
اسی لیے خداوند تعالیٰ نے رومیوں کو عذاب کی شکل میں یہود پر نازل کردیا ۔جبکہ عیسائی علماء کے نزدیک یہود نے حضرت عیسیٰؑ پر ظلم و ستم کیے تھے۔ اسی گناہ کی پاداش میں خدا تعالیٰ نے رومی فوج کے ہاتھوں یہودی قوم کو تتر بتر اور برباد کرڈالا۔ روایت ہے کہ یہودی علماء ہیکل کے کھنڈرات میں جاکر عبادت کرتے رہے۔ رومی بادشاہ ہیڈرین کے دور حکومت( 117ء تا 138ء) میں یہود نے پھر رومیوں کے خلاف بغاوت کردی۔ ہیڈرین کے احکامات پر اس بغاوت کو نہایت سختی سے کچلا گیا۔ہیڈرین نے پھر یروشلم کی جگہ نیا شہر بسایا۔ تمام مورخین متفق ہیں کہ جس جگہ ہیکل قائم تھا، وہاں اس نے ایک معبد تعمیر کرایا جہاں جوپیڑ (مشتری) دیوتا کی عبادت ہوتی تھی۔ بادشاہ ہیڈرین نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ نئے شہر میں کوئی یہودی داخل نہیں ہوسکتا۔ یوں یروشلم میں یہود کی آمد پر پابندی لگ گئی۔
312ء کے لگ بھگ رومی سلطنت کے بادشاہ، قسطنطین اعظم نے عیسائیت قبول کرلی۔ بادشاہ کو عیسائی بنانے میں اسی کی والدہ، ملکہ ہیلانہ نے بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ ملکہ ہیلانہ ہی ہے جس نے یروشلم میں اولیّں چرچ تعمیر کرائے۔ ان چرچوں کی تعمیر کے بعد ماؤنٹ ٹیمپل کی مذہبی اہمیت کم ہوگئی۔اکثر مغربی مورخین نے لکھا ہے کہ یروشلم کی عیسائی حکومت نے ٹیمپل ماؤنٹ کو کوڑے دان میں بدل دیا یعنی وہاں شہر کا کوڑا کرکٹ پھینکا جانے لگا۔ مقصد حضرت عیسیٰؑ کی یہ پیشن گوئی پورا کرنا تھا کہ ہیکل مکمل طور پر تباہ ہوجائے گا۔متی 2:24 میں ہے: ''جب حضرت عیسیٰؑ ہیکل سے نکلے اور چلنے لگے تو ان کے پیروکار بھی پیچھے آئے اور ہیکل کی عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ''آپ ان سب کو دیکھتے ہیں؟'' حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا ''میں تمہیں سچ بتاتا ہوں۔ اس جگہ ایک پتھر بھی دوسرے پتھر پر باقی نہیں رہے گا۔ سب کچھ ڈھایا جائے گا۔''قسطنطین اعظم کے حکم پر ٹیمپل ماؤنٹ کے کھنڈرات باقی رکھے گئے۔ مدعا یہ ظاہر کرنا تھا کہ یہودیت مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکی ۔جبکہ اللہ تعالیٰ کی منشا یہ تھی کہ انسان کھنڈرات دیکھ کر عبرت پکڑیں اور ایسے بداعمال کرنے سے باز رہیں جن کی وجہ سے یہود پر عذاب الٰہی نازل ہوا اور وہ برباد ہوگئے۔
قسطنطین نے بھی یروشلم میں یہود کے داخلے پر پابندی لگادی۔ تاہم وہ سال میں ایک مرتبہ ماؤنٹ ٹیمپل پر عبادت کرسکتے تھے۔ مگر عیسائی مذہبی رہنماؤں کو اس امر پر بھی اعتراض تھا۔ پوپ لیو اول (400ء تا 461ء) روم کو دنیائے عیسائیت میں مرکزی حیثیت دینا چاہتا تھا۔ مگر وہ سمجھتا تھا کہ ٹیمپل ماؤنٹ کے کھنڈرات اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔اسی طرح چوتھی صدی عیسوی کے دوران دنیائے عیسائیت میں ایتھناسیوس اسکندروی(Athanasius) مشہور مذہبی رہنما گزرا ہے ۔وہ اسکندریہ شہر کا بشپ تھا۔ وہ عیسائیوں میں یہ تبلیغ کرتا تھا کہ اگر یہود کو ٹیمپل ماؤنٹ پھر مل گیا، تو وہ نہایت خطرناک ہوجائیں گے۔311ء میں عیسائیت رومی سلطنت کا سرکاری مذہب قرار پایا۔ یہود نے حضرت عیسیٰؑ پر مظالم توڑے تھے۔ اسی لیے اب پوری سلطنت میں یہود کو مختلف طریقوں سے دق کیا جانے لگا۔ وہ ریاست کے ناپسندیدہ عناصر بن گئے۔ اکثر جگہوں پر عیسائیوں نے ان کا معاشرتی مقاطع (بائیکاٹ) کردیا۔ یہی وجہ ہے، یہود کی اکثریت رومی سلطنت سے نکل کر عرب ممالک، افریقا حتیٰ کہ افغانستان اور ہندوستان میں جابسی۔
عیسائی حکمرانوں اور عوام نے ٹیمپل ماؤنٹ کو بالکل نظر انداز کردیا۔ جیسا کہ بتایا گیا، وہ علاقہ فضلہ پھینکنے کی جگہ بن گیا۔ 381ء میں اسپین سے ایک نن، ایگیریا (egeria) ارض فلسطین پہنچی تاکہ اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرسکے۔ اس نے اسپین میں ساتھی ننوں کے نام طویل خط بھیجا جس میں یروشلم کا تذکرہ محفوظ ہے۔ اس تذکرے میں ٹیمپل ماؤنٹ کا کا کوئی ذکر نہیں۔ لگتا ہے، ہسپانوی نن کو علم ہی نہیں تھا کہ یہود کی اہم ترین عبادت گاہ شہر میں موجود ہے۔دنیائے عیسائیت میں حکمرانوں اور مذہبی رہنماؤں، دونوں کی سعی تھی کہ عوام کی یادداشت سے ٹیمپل ماؤنٹ کو نکال باہر کیا جائے۔ یہی وجہ ہے، ہمیں اردن کے شہر، مادبا میں سینٹ جارج چرچ کے فرش پر بنائے گئے یروشلم کے موزیک نقشے پر ٹیمپل ماؤنٹ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ موزیک نقشہ 542ء تا 570ء کے درمیان بنایا گیا۔
311ء کے بعد رومی سلطنت میں رفتہ رفتہ یہود کی سینکڑوں عبادت گاہیں،صومعہ (Synagogue) ڈھا دی گئیں۔ 425ء میں یہودی عدالت (Sanhedrin) کے جج (nasi) کا عہدہ بھی ختم کردیا گیا۔رومی شہنشاہ، تھیوڈویس دوم کی بیوی، ملکہ ایلیا جوڈویسیا (Aelia Eudocia) یہود سے ہمدردی رکھتی تھی۔438ء میں اس نے ارض فلسطین کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران بچے کھچے یہود نے رومی ملکہ سے درخواست کی کہ انہیں ماؤنٹ ٹیمپل پر عبادت کرنے کی اجازت دی جائے۔ ملکہ نے درخواست قبول کرلی۔انھوں نے پھر خوشی کی یہ خبر خطوط کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلے یہود تک پہنچادی۔ انہیں یہ بھی کہا گیا کہ وہ خوشی منانے یروشلم پہنچ جائیں۔ چناں چہ تقریباً ایک لاکھ یہودی ماؤنٹ ٹیمپل پر عبادت کرنے یروشلم آپہنچے۔ مگر یہود کا جم غفیر دیکھ کر عیسائی عوام گھبراگئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ یہود دوبارہ شہر پر قبضہ کرنے کی سعی کرسکتے ہیں اسی لیے وہ یہود کی راہ میں مزاحم ہوگئے۔مغربی مورخین لکھتے ہیں کہ ایک دن عیسائیوں اور یہود کے مابین زبردست تصادم ہوا۔لڑائی میں چار یہودی مارے گئے۔ جو یہودی ماؤنٹ ٹیمپل پر چڑھنے کی سعی کرتا، عیسائی اسے پتھر مارتے۔عیسائی تعداد میں کہیں زیادہ تھے۔ آخر کار انہوں نے تمام یہود کو شہر سے نکال دیا۔ اس کے بعد تقریباً دو سو برس تک ایک بھی یہودی یروشلم میں داخل نہیں ہوسکا۔ یہ عرصہ یہودی تاریخ میں ''مستور دور'' کہلاتا ہے۔
614ء میں فارس کی فوج نے یروشلم پر حملہ کیا۔ ارض فلسطین میں آباد یہود بھی اس فوج کا حصہ بن گئے۔ فارسی فوج نے یروشلم پر قبضہ کیا، تو انہوں نے ایک یہودی رہنماء نحمیا بن ہوشیل کو وہاں کا حاکم بنادیا۔ دو ہفتے بعد شہر کے عیسائیوں نے اسے ساتھیوں سمیت مار ڈالا۔ فارسی فوج نے یہود کے ساتھ مل کر دوبارہ یروشلم پر دھاوا بولا اور ہزارہا عیسائیوں کو قتل کر ڈلا۔ مغربی مورخین لکھتے ہیں کہ فارسی فوج نے بہت سے چرچ تباہ کردیئے اور وہ صومعہ بھی جو یہود نے ٹیمپل ماؤنٹ پر تعمیر کرلیا تھا۔ 628ء میں ایرانی بادشاہ، خسرو دوم اور رومی شہنشاہ ہرقل کے مابین دوستانہ معاہدہ طے پاگیا۔ 630 میں ہرقل فاتحانہ یروشلم میں داخل ہوا۔ شروع میں اس نے یہود کو امان دے دی۔ تاہم عیسائی مذہبی رہنماؤں کی سرزنش پر یہ امان ختم کردی گئی۔ چناں چہ یروشلم اور قرب و جوار کے علاقوں میں بیسیوں یہودی قتل کردیئے گئے۔ یروشلم میں ان کا داخلہ دوبارہ ممنوع قرار پایا۔
مسلمانوں نے یہود کو پناہ دی
صرف نو سال بعد اسلامی فوج نے یہ شہر فتح کرلیا۔ مگر اس موقع پر شہر کا کوئی باسی قتل نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی چرچ ڈھایا گیا۔ خلیفہ دوم، حضرت عمر فاروقؓ نے اہل شہر کو مکمل مذہبی و معاشرتی آزادی عطا فرمائی۔تاریخ طبری میں درج ہے کہ اسی دورے میں خلیفہ دوم حرم الشریف (ماؤنٹ ٹیمپل) بھی تشریف لے گئے جہاں کاٹھ کباڑ جمع تھا۔ آپؓ نے صحابہ کرام کی مدد سے سارا کوڑا کرکٹ صاف کیا۔ تبھی مسجد ابراہیمی کی جگہ ایک عارضی مسجد تعمیر کی گئی۔ نیز صخرہ مشرفہ کے گرد حصار بنایا گیا۔
آج بھی مسجد اقصیٰ کے بغل میں ایک کمرہ ''مسجد عمرؓ'' یا ''محراب عمرؓ'' کہلاتا ہے۔ روایت ہے حضرت عمرؓ نے اسی جگہ عارضی مسجد تعمیر فرمائی تھی۔تاریخ طبری میں یہ بھی درج ہے کہ اوائل میں حضرت عمر فاروقؓ اور یروشلم کے بشپ، صفرونیوس کے مابین یہ طے پایا تھا کہ یہود حسب دستور یروشلم میں آباد نہیں ہوں گے۔تاہم اٹھارہویں صدی میں قاہرہ، مصر کے ایک صومعہ کے جنیزہ (اسٹور روم) سے قدیم مخطوطے برآمد ہوئے جو 870ء میں لکھے گئے تھے۔ ان مخطوطوں(Cairo Geniza)میں درج ہے کہ بعدازاں یہود نے حضرت عمرؓ سے درخواست کی تھی کہ 200 خاندانوں کو یروشلم آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ حضرت عمرؓ نے 70 خاندانوں کو آباد ہونے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ یہ یہود شہر کے جنوبی حصے میں آباد ہوئے۔ یوں حضرت عمرؓ الفاروق کی مہربانی و کرم سے 438ء کے بعد پہلی بار یہود یروشلم میں مقیم ہوگئے۔
آنے والے ادوار میں بعض مسلم حکمرانوں نے یہود کے ساتھ سخت سلوک کیا لیکن مجموعی طور پر اسلامی حکومتوں میں یہود کو امن و امان میسر رہا بلکہ انہیں ترقی کرنے اور پھلنے پھولنے کے مواقع بھی میسر آئے۔ جب اسپین و پرتگال پہ دوبارہ قبضے کے بعد عیسائیوں نے وہاں یہود کا قتل عام کیا تو بیشتر یہودیوں نے اسلامی مملکتوں ہی میں پناہ لی ۔ حتیٰ کہ یہ ایک مسلمان بادشاہ ہے جس نے یہود کو ''مغربی دیوار'' (Western Wall) کا تحفہ عطا کیا۔ہوا یہ کہ 14 جنوری 1546ء کو یروشلم میں شدید زلزلہ آیا۔ اس باعث حرم الشریف کے اطراف میں بنے کئی گھر منہدم ہوگئے۔
اس وقت یروشلم ترک عثمانی سلطان، سلیمان عالیشان کی سلطنت میں شامل تھا۔ سلطان سلیمان یہود سے ہمدردی رکھتے تھے اور انہوں نے اسپین و پرتگال سے آئے کئی یہود کو یروشلم و ارض فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دی تھی۔سلطان سلیمان نے پھر مغربی دیوار کے نزدیک منہدم تمام گھر صاف کرائے اور وہاں یہود کو عبادت کرنے کی اجازت دے دی۔ آج مغربی دیوار یہود میں دوسری مقدس ترین یادگار ہے۔یہود کا دعویٰ ہے کہ یہ دیوار اس چار دیواری کا حصہ ہے جو ہیرود اول نے دوسرے ہیکل کے گرد بنوائی تھی۔یہودیت میں مقدس ترین جگہ ''قدس القدس'' (Holy of Holies) ہے۔ یہود کے نزدیک اس جگہ خدا تعالیٰ قیام فرماتاہے۔ یہ جگہ ایک خیمے (خیمہ اجتماع) کے اندر واقع تھی۔ عبرانی بائبل کی رو سے یہ خیمہ ہیکل سلیمانی کے مغربی کونے میں بنایا گیا تھا۔ اس خیمے میں تابوت سکینہ بھی رکھا تھا۔ تاہم نبوکدنصر کے حملے میں وہ تباہ ہوگیا ۔
حرف آخر
قران پاک ،احادیث بنویﷺ اور تاریخی حقائق سے عیاں ہے کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو پھلنے پھولنے کے بھرپور مواقع عطا فرمائے مگر وہ گناہ اور بد اعمال کرتے رہے۔چناں چہ بطور سزا نافرمان یہود کو پوری دنیا میں منتشر کردیا گیا۔اس کے بعد عیسائی قوم نے یہود پہ ظلم وستم توڑے اور ٹیمپل ماؤنٹ کو کوڑے دان بنا لیا۔پھر مسلم قوم کا ظہور ہوا۔مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کر کے حرم الشریف کی مقدس حیثیت بحال کر دی ۔وہاں حضرت ابراہیمؑ کی مسجد ازسرنو تعمیر کی اور صخرہ مشرفہ کو بھی چار دیواری میں محفوظ کر دیا۔یہی نہیں ،انھوں نے یہود کو بھی سہارا دیا اور ان کو ترقی کے مواقع فراہم کیے۔
بیسویں صدی میں یہود دوبارہ دنیا میں اہم قوم بن کر ابھر آئے۔اس حیرت انگیز کایاپلٹ نے کئی وجوہ کی بنا پر جنم لیا۔مثلاً مغربی دنیا میں سیکولرمت کا پھیلاؤ،یہود کا بینکار و سرمایہ دار بن جانا،سائنس وٹکنالوجی میں خوب ترقی کرنا اور مغربی حکمرانوں کو یہ باور کرانے میں کامیابی کہ قیام اسرائیل سے بائبلی پیش گوئیاں پوری ہو سکیں گی۔اب معاشی وعسکری طور پہ طاقتور بن کر اسرائیلی حکمران مسلمانوں کے احسان فراموش کر چکے۔وہ ٹیمپل ماؤنٹ پہ مسجد اقصیٰ ،گنبد صخرہ اور دیگر اسلامی تعمیرات شہید کر کے تیسرا ہیکل بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔اگر امت مسلمہ خواب غفلت سے نہ جاگی،مسلمان بدستور باہمی اختلافات کا شکار اور آپس میں لڑتے رہے تو انتہا پسند اسرائیلی حکمران اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔یہود کے مذہبی علما کا دعوی ہے کہ مسلمان اب اپنے گناہوں اور بداعمال کی وجہ سے ''امت وسط''(سورہ البقر ہ آیت 143)نہیں رہے جبکہ بنی اسرائیل نیکی وحق کی راہ اختیار کر کے دوبارہ خدا تعالیٰ کی چہیتی قوم بن چکے۔
چند ماہ قبل فرانس کے مشہور گرجا گھر نوٹرے ڈیم میں آگ لگی اور اس کا بڑا حصہ جل کر خاکستر ہو گیا۔ عجب اتفاق ' اسی دن بیت ا لمقدس یایروشلم میں بھی مسجد اقصیٰ کو آگ لگ گئی تھی تاہم محافظ اسے بروقت بجھانے میں کامیاب رہے۔ یوں مسجد کو نقصان نہیں پہنچ سکا۔یہ امر پُراسرار ہی ہے کہ مسجد اقصیٰ میں آگ کیسے لگی؟
اکثر لوگوں پر گمان گزرا کہ کسی انتہا پسند یہودی نے یہ ناپسندیدہ حرکت کی ہوگی۔نصف صدی قبل 21اگست 1969ء کو بھی ایک انتہا پسند آسٹریلوی نوجوان نے مسجد اقصیٰ میں آگ لگانی چاہی تھی۔ اس حادثے نے دنیا بھر میں مسلمانوں کو مشتعل کر دیا ۔ چنانچہ سعودی عرب کے شاہ فیصلؒ کی سعی سے سربراہان اسلامی ممالک کااجلاس ہوا جس میں آئندہ مسائل پر متفقہ لائحہ عمل طے کرنے کی خاطر ایک تنظیم (او آئی سی) کی بنیاد رکھی گئی۔
اسرائیل میں انتہا پسند یہودی خصوصاً بیت المقدس سے دین اسلام اور اسلامی تہذیب و تمدن کے سبھی نمونے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں نہ صرف یروشلم اسرائیل کا دارالحکومت بن سکے بلکہ ٹیمپل ماؤنٹ پر تیسرا ہیکل تعمیر کر لیا جائے۔ مگر مسجد اقصیٰ کی موجودگی کے باعث وہ ا بھی تک اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکے۔واضح رہے، یہ معاملہ دنیا کے چند بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔ اگر انتہا پسندوں نے خصوصاً مسجد اقصیٰ کو شہید کرنا چاہا توعالمی جنگ ناگزیر ہوجائے گی۔انتہا پسند یہود کا دعویٰ ہے کہ جس جگہ مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی، وہاں ہیکل سلیمانی موجود تھا۔ آئیے تاریخ کی روشنی میں ان کے اس دعویٰ کا جائزہ لیتے ہیں۔ یہ تاریخی حقائق مسلم اور غیر مسلم مورخین کی مستند کتب میں موجود و محفوظ ہیں۔
مسجد اقصیٰ کی تعمیر
یروشلم یھودا ( Judaean Mountains)نامی سلسلہ ہائے کوہ میں سطح مرتفع پر واقع ہے۔ شہر میں جابجا ٹیلے پھیلے ہیں۔چاروں سمت وادیاں یا نشیبی علاقے دکھائی دیتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں سبھی اولیں انسانی بستیاں' چشموں' ندی نالوں اور دریاؤں کے کنارے آباد ہوئیں اور یروشلم کی بنیاد بھی اسی طریقے سے رکھی گئی۔سات آٹھ ہزار سال پہلے کچھ خانہ بدوشوں نے یروشلم میں ایک چشمہ دریافت کیا جو آج ''نبع ام الدرج''(Gihon Spring) کہلاتا ہے ۔ چنانچہ انہوںنے چشمے کے کنارے ڈیرے ڈال دیئے۔ یوں یروشلم کی انسانی تاریخ کا آغاز ہوا۔
2400 ق م (قبل مسیح )کے لگ بھگ عراق سے حضرت ابراہیم علیہ السلام ارض فلسطین تشریف لائے۔آپ پھر طویل عرصہ ارض فلسطین میں مقیم رہے۔آپ نے چشمے کے نزدیک ایک ٹیلے پر عبادت گاہ بھی تعمیر فرمائی تاکہ وہاں نماز پڑھی جاسکے۔ کتب تاریخ میں ایسی عبادت گاہ کا ذکر نہیں ملتا مگر قرآن پاک کی سورہ بنی اسرائیل آیت 1 میں جس ''دور کی مسجد'' (مسجد اقصیٰ) کا تذکرہ کیا گیا، وہ یہی عبادت گاہ ہے۔''پاک ہے وہ جو اپنے بندے کو ایک رات مسجد الحرام سے مسجد اقصیٰ کو ،جس کے گرد ہم نے برکتیں رکھی تھیں،لے گیا تاکہ ہم اسے اپنے بعض نشان دکھا سکیں۔بے شک وہی سننے والا،دیکھنے والا ہے۔''
اس آیت مبارکہ میں اسراء و معراج شریف کا ذکر ہے جب حکم ربی پر نبی کریم ﷺ مکہ معظمہ سے بیت المقدس تشریف لے گئے۔یہ واقعہ ''اسرا'' کہلاتا ہے۔حرم الشریف ہی وہ مقام ہے جہاں سے آپﷺ کو آسمانوں پر لے جایا گیا۔اس واقعے کو ''معراج'' کہا جاتا ہے۔یہ دونوں واقعات ہجرت ِمدینہ سے قبل پیش آئے۔آیت مبارکہ سے عیاں ہے کہ ان اسفار کے ذریعے رب کریم اپنے پیارے رسولﷺ کو اپنی قدرت کی عظیم الشان نشانیاں دکھانا چاہتے تھے۔حضرت انسؓ بن مالک کی حدیث کے مطابق معراج شریف کے سفر ہی میں پانچ وقت کی نماز فرض کی گئی۔(البخاری و مسلم)قران کریم میں حضرت ابراہیم ؑکو ''اقوام عالم کے امام'' (سورہ البقرہ آیت 124) اور ''مسلمانوں کا جد'' (سورہ الحج آیت 78) کہا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے جب حضرت خدیجہؓ اور حضرت ابو طالبؒ کی وفات کے بعد نبی کریمﷺ تنہائی محسوس کرنے لگے تو ایک رات حکم ربی سے آپؐ کو بذریعہ ''اسراء'' بیت المقدس لے جایا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ نبی کریمؐ کی تنہائی دور کی جاسکے۔ اللہ تعالیٰ یوں اپنے محبوب پیغمبرؐ کو یہ بھی دکھانا چاہتے تھے کہ وہ کفار مکہ کے مقابلے میں تنہا نہیں ۔
سورہ بنی اسرائیل آیت 1 میں پہلے مسجد الحرام کا ذکر فرمایا گیا۔ یہ احادیث کی رو سے کرہ ارض پر پہلی مسجد ہے جسے پہلے حضرت آدم ؑ نے تعمیر فرمایا۔ پھر حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد ازسر نو بنایا۔ حضرت ابوذر غفاریؓ سے روایت ہے ''میں نے ایک بار نبی اکرم ﷺ سے دریافت فرمایا کہ روئے ارض پر کون سی پہلی مسجد تعمیر ہوئی؟'' آپؐ نے فرمایا ''مسجد الحرام۔'' میں نے پوچھا ''اس کے بعد؟'' آپؐ نے فرمایا ''مسجد الاقصیٰ۔'' میں نے دریافت کیا ''ان دونوں مساجد کی تعمیر کے درمیان کتنا وقفہ ہے؟'' آپؐ نے فرمایا ''چالیس برس۔'' (صحیح بخاری)
معراج سے واپسی کے بعد نبی کریمؐ نے صحابہ کرام کو یقینا ''دور کی مسجد'' کے مقام سے مطلع فرمایا ہوگاجو تاریخ اسلام میں مسجد اقصیٰ کے نام سے مشہور ہوئی۔جب اسراء و معراج پیش آیا، تو بیت المقدس میں مسجد اقصیٰ موجود نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے معراج سے رسول کریمؐ پر القا فرمایا کہ اس جگہ ایک مسجد موجود تھی۔یہی وجہ ہے، جب 638ء میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا، تو خلیفہ دوم حضرت عمرؓ نے اس مقام پر ایک عارضی مسجد تعمیر فرمادی۔ اموی خلفا کے دور میں اس مقام پر مسجد اقصیٰ تعمیر کی گئی۔ اموی خلفا ہی نے ٹیلے کے وسط میں گنبد قبتہ الصخرہ بھی تعمیر کرایا۔ گنبد کے درمیان میں ایک چٹان ''صخرہ مشرفہ'' واقع ہے۔ روایت ہے کہ حضور اکرمﷺؐ اسی چٹان پر قدم رکھ کر آسمان کی جانب روانہ ہوئے تھے۔
مسجد اقصیٰ دین اسلام میں ایک اور وجہ سے بھی اہم ہے:یہ مسلمانان عالم کا قبلہ اول ہے۔ احادیث میں آیا ہے کہ نبی کریمؐ اور صحابہ کرام مکہ معظمہ میں پچھلے انبیاء کی پیروی کرتے ہوئے حرم الشریف کی سمت نماز ادا فرماتے تھے۔ یہ نماز اس طرح پڑھی جاتی کہ خانہ کعبہ اور مسجد اقصیٰ بیک وقت سامنے آ جاتے۔ہجرت مدینہ کے بعد بھی سولہ سترہ ماہ تک نبی کریمؐ مسجد اقصیٰ کی جانب رخ کرکے عبادت الٰہی فرماتے رہے۔ آخر سورہ البقرہ کی آیات 142 تا 144 نازل ہوئیں اور اللہ تعالیٰ نے خانہ کعبہ کو مسلمانوں کا قبلہ مقرر فرمایا۔حیرت انگیز بات یہ کہ جب اسراء و معراج ظہور پذیر ہوئے اور نبی کریمؐ صحابہ کرام کی معیت میں مسجد اقصیٰ کی جانب رخ فرما کر نماز ادا فرماتے رہے، تو اس مسجد کا نام و نشان نہیں تھا۔ وجہ یہ کہ نصاریٰ نے اس مقام کو کوڑا خانہ بنا رکھا تھا۔یہ مقدس مقام بنی اسرائیل کے گناہوں اور بداعمالیوں کی وجہ سے اس حال تک پہنچا۔ یہ مسلمان ہیں جنہوں نے اس مقام کو پستی کی انتہا سے نکالا اور اسے پھر دنیا بھر میںاعلی عزت و احترام کا مسکن بنادیا۔
مسلمانان عالم آج اس مقام کو ''حرم شریف'' کہتے ہیں۔ یہود و نصاریٰ میں ''ٹیمپل ماؤنٹ'' کہلاتا ہے۔ یہ چشمہ ''نبع ام الدرج''کے نزدیک واقع ٹیلہ ہے جس کا قطر چھتیس ایکڑ ہے۔ عبرانی بائبل کی رو سے حضرت ابراہیمؑ نے اسی جگہ حضرت اسحاقؑ کی قربانی دینا چاہی تھی جبکہ سورہ بنی اسرائیل آیت 1 کے مطابق مسجد الحرام کی تعمیر کے بعد حضرت ابراہیمؑ نے وہاں مسجد اقصیٰ کی بنیاد رکھی۔گویا مکہ معظمہ اور بیت المقدس، دو مقدس ترین شہروں کی بنیاد چشموں کے کنارے رکھی گئی۔حضرت ابراہیمؑ کی اولاد خوب پھلی پھولی اور ''بنی اسرائیل'' کے نام سے مشہور ہوئی۔ اسرائیل حضرت ابراہیمؑ کے پوتے، حضرت یعقوبؑ کا ایک نام ہے۔ حضرت یعقوبؑ کے فرزند، حضرت یوسفؑ کے زمانے میں بنی اسرائیل مصر چلے گئے۔ مصریوں نے جب بنی اسرائیل کو غلام بنالیا اور ان پر ظلم کرنے لگے تو چار سو برس بعد حضرت موسیٰؑ انہیں واپس ارض فلسطین لے آئے۔ان چار سو برس کے دوران بنی اسرائیل میں بہت سی مشرکانہ عادات و خصائل پیدا ہوگئے تھے۔ یہی وجہ ہے، وہ وقتاً فوقتاً اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں و پیغمبروں سے سرکشی کرتے رہے۔ تاہم اللہ تعالیٰ نے انہیں سزائیں دینے کے بعد معافی عطا فرمائی اور انہیں بار بار اصلاح احوال کا موقع دیتے رہے۔
ہیکل سلیمانی
بنی اسرائیل نے آخر یروشلم سمیت ارض فلسطین کی مختلف آبادیوں پر قبضہ کرلیا۔ عبرانی بائبل کی رو سے حضرت سلیمانؑ کے دور میں حرم شریف یا ٹیمپل ماؤنٹ کے مقام پر عبادت گاہ تعمیر ہوئی جو ہیکل سلیمانی کہلاتی ہے۔ قرآن پاک میں ہیکل سلیمانی کا تذکرہ موجود نہیں البتہ سورہ سبا کی آیات 12 اور 13 میں آیا ہے: ''کچھ جن اس کے (حضرت سلیمانؑ) کے تابع تھے۔ وہ جو چاہتا، اس کے لیے بناتے... قلعے، مجسّمے، حوض کی طرح کے لگن اور ایک جگہ جمی ہوئی دیگیں۔'' مسلمان تو یقین رکھتے ہیں کہ حضرت داؤدؑ اور ان کے فرزند،حضرت سلیمانؑ نے مسجد ابراہیمی کو نئے سرے سے تعمیر فرمایا مگر خود یہود و نصاری میں شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں۔ اسرائیل فنکلسٹین(Israel Finkelstein) اور نیل ایشر(Neil Asher Silberman) اسرائیل کے دو ممتاز اثریات داں ہیں۔
ان دونوں نے 2002ء میں ایک کتاب''The Bible Unearthed: Archaeology's New Vision of Ancient Israel and the Origin of Its Sacred Texts'' لکھی۔ کتاب میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ ہیکل سلیمانی یہود کی ریاست، یہودا کے بادشاہ، یوسیاہ (Josiah) نے تعمیر کرایا تھا۔ اس بادشاہ کا دور حکومت 649 ق م (قبل مسیح) سے 609 ق م رہا ہے ۔جبکہ عبرانی بائبل کی رو سے ہیکل سلیمانی 931 ق م تا 920 ق م کے مابین تعمیر ہوا۔ ان اسرائیلی ماہرین آثار قدیمہ کا دعویٰ ہے کہ یوسیاہ کے دور حکومت سے تین سو سال پہلے حضرت سلیمانؑ کی ریاست اتنی دولت مند اور طاقتور نہیں تھی کہ وہ ہیکل سلیمانی جیسی بڑی عمارت تعمیر کرلیتی۔
امریکا کی ماہر اثریات، کیتھلین کینیون (1906ء۔ 1978ء) بیسویں صدی کی نامور ماہر آثار قدیمہ ہے۔ اس نے 1961ء تا 1967ء ''شہر داؤد'' (City of David) میں کھدائیاں کی تھیں۔ ماضی میں حرم شریف کے اردگرد کا علاقہ ''شہر داؤد'' کہلاتا تھا۔ عبرانی بائبل کی رو سے اسے حضرت داؤدؑ نے آباد کیا تھا۔ کیتھلین کینیون(Kathleen Kenyon) نے شہر داؤد میں کھدائیوں کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اس علاقے سے ہیکل سلیمانی کے کوئی آثار نہیں ملے۔
امریکا کا سائنس داں، ارنسٹ ایل مارٹن (1932ء۔ 2002ء) آثار قدیمہ سے بھی دلچسپی رکھتا تھا۔ یہ 1961ء کی بات ہے، جب ارنسٹ مارٹن(Ernest L. Martin) کی ملاقات اسرائیل میں ''بابائے آثار قدیمہ'' بینجمن مازار ( Benjamin Mazar) سے ہوئی۔ بنجمن نے اپنے امریکی ممدوح کو بتایا کہ یروشلم میں یہ قدیم روایت ملتی ہے کہ ہیکل سلیمانی اور دوسرا ہیکل ''اوفل ''(Ophel) ٹیلے پر واقع تھے۔یروشلم میں حرم شریف اور شہر داؤد کے درمیان واقع بلند مقام اوفل کہلاتا ہے۔یہ چشمہ ام الدراج کے عین سامنے واقع تھا۔ ارنسٹ ایل مارٹن پھر تحقیق کرنے لگا کہ کیا ہیکل سلیمانی اور دوسرا ہیکل بھی اس جگہ واقع تھے؟ارنسٹ مارٹن نے اپنی تحقیق کی بنیاد پر ایک کتاب''The Temples that Jerusalem Forgot'' لکھی جو 1999ء میں شائع ہوئی۔ کتاب میں اس نے دعویٰ کیا کہ ہیکل سلیمانی اور دوسرا ہیکل بھی اوفل ٹیلے پر واقع تھے۔ لیکن یروشلم کے حاکم، شمعون حسمونی(Simon the Hasmonean)نے اپنے دور حکومت( 142ق م تا 135 ق م)میں نیا ہیکل حرم شریف میں تعمیر کرا دیا۔ بعدازاں رومیوں کے باج گزار یہودی حکمران، ہیروداول(Herod the Great) نے اپنے دور (37 تا4 ق م )میں اسی ہیکل کو توسیع دی اور اسے عظیم الشان عمارت میں ڈھال دیا۔
یاد رہے، بابل کے بادشاہ، نبوکد نصر نے 586 ق م میں یروشلم تباہ کردیا تھا اور ہیکل سلیمانی بھی ملیامیٹ کرڈالا۔ وہ پھر تمام یہود کو غلام بناکر بابل لے گیا۔ صرف بوڑھے یہودی ہی یروشلم میں مقیم رہے۔ 539 ق م میں ایرانی بادشاہ، سائرس اعظم نے بابل فتح کرلیا۔ اس نے یہود کو واپس یروشلم جانے اور نیا ہیکل بنانے کی اجازت دے دی۔دوسرا ہیکل 537 تا 515 ق م کے درمیان تعمیر ہوا۔ یہ بھی ہیکل سلیمانی کے مانند تھا۔ عبرانی بائبل کے مطابق ہیرود اول نے اسی کو توسیع دی اور حرم الشریف میں عظیم الشان ہیکل تعمیر کروایا۔ مگر ارنسٹ مارٹن اور ان کے نظریات سے اتفاق کرنے والے دیگر ماہرین اثریات کا دعویٰ ہے کہ پہلے اور دوسرے ہیکل اوفل ٹیلے پر تعمیر ہوئے جو نسبتا ًچھوٹا ٹیلہ تھا۔گویا شمعون حسمونی اور ہیرود اول نے تیسرا ہیکل حرم الشریف میں تعمیر کرایا جو چوڑائی، لمبائی اور اونچائی میں زیادہ بڑا ٹیلہ تھا اور یہ کہ اس ٹیلے پر حضرت سلیمانؑ کے دور حکومت میں قلعے تعمیر ہوئے تھے۔
یہود پہ عذاب ِالٰہی
330ق م میں اسکندر اعظم نے فارسی حکمران،دارا سوم کو شکست دی تو ارض فلسطین رومی سلطنت کا حصہ بن گیا۔66ء میں علاقے کے یہود نے رومی حکمرانوں کے خلاف بغاوت کردی جو چار برس تک جاری رہی۔ اپریل 70ء میں مستقبل کا رومی بادشاہ، شہزادہ تیوس ( Titus) کثیر فوج لیے یروشلم آپہنچا۔ اس نے پونے پانچ ماہ شہر کا محاصرہ کیے رکھا۔ آخر شہر پہ قبضہ کیا اور اسے ملیامیٹ کر ڈالا۔ یوں دوسرا ہیکل بھی تباہ ہوگیا۔ اس کی صرف کچھ دیواریں ہی کھنڈرات کی صورت باقی رہ گئیں۔ ہیرود اول نے حرم الشریف کے گرد چار دیواری تعمیر کرائی تھی۔رومی فوج کے حملوں سے علاقے میں آباد ہزارہا یہودی مارے گئے۔ جو نوجوان زندہ بچے، رومیوں نے انہیں غلام بنالیا۔ بقیہ یہودی جانیں بچانے کی خاطر دور دراز علاقوں میں چلے گئے۔ اسی طرح رومی حملے خدائی قہر بن کر یہودی قوم پر نازل ہوئے اور اسے تباہ و برباد کرگئے۔حقیقت یہ ہے کہ اس زمانے کے یہودی علما یعنی ''عموریم'' (Amoraim) کی رو سے یہودی قوم سر تا پا گناہوں میں لتھڑ چکی تھی۔
اسی لیے خداوند تعالیٰ نے رومیوں کو عذاب کی شکل میں یہود پر نازل کردیا ۔جبکہ عیسائی علماء کے نزدیک یہود نے حضرت عیسیٰؑ پر ظلم و ستم کیے تھے۔ اسی گناہ کی پاداش میں خدا تعالیٰ نے رومی فوج کے ہاتھوں یہودی قوم کو تتر بتر اور برباد کرڈالا۔ روایت ہے کہ یہودی علماء ہیکل کے کھنڈرات میں جاکر عبادت کرتے رہے۔ رومی بادشاہ ہیڈرین کے دور حکومت( 117ء تا 138ء) میں یہود نے پھر رومیوں کے خلاف بغاوت کردی۔ ہیڈرین کے احکامات پر اس بغاوت کو نہایت سختی سے کچلا گیا۔ہیڈرین نے پھر یروشلم کی جگہ نیا شہر بسایا۔ تمام مورخین متفق ہیں کہ جس جگہ ہیکل قائم تھا، وہاں اس نے ایک معبد تعمیر کرایا جہاں جوپیڑ (مشتری) دیوتا کی عبادت ہوتی تھی۔ بادشاہ ہیڈرین نے یہ حکم بھی جاری کیا کہ نئے شہر میں کوئی یہودی داخل نہیں ہوسکتا۔ یوں یروشلم میں یہود کی آمد پر پابندی لگ گئی۔
312ء کے لگ بھگ رومی سلطنت کے بادشاہ، قسطنطین اعظم نے عیسائیت قبول کرلی۔ بادشاہ کو عیسائی بنانے میں اسی کی والدہ، ملکہ ہیلانہ نے بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ ملکہ ہیلانہ ہی ہے جس نے یروشلم میں اولیّں چرچ تعمیر کرائے۔ ان چرچوں کی تعمیر کے بعد ماؤنٹ ٹیمپل کی مذہبی اہمیت کم ہوگئی۔اکثر مغربی مورخین نے لکھا ہے کہ یروشلم کی عیسائی حکومت نے ٹیمپل ماؤنٹ کو کوڑے دان میں بدل دیا یعنی وہاں شہر کا کوڑا کرکٹ پھینکا جانے لگا۔ مقصد حضرت عیسیٰؑ کی یہ پیشن گوئی پورا کرنا تھا کہ ہیکل مکمل طور پر تباہ ہوجائے گا۔متی 2:24 میں ہے: ''جب حضرت عیسیٰؑ ہیکل سے نکلے اور چلنے لگے تو ان کے پیروکار بھی پیچھے آئے اور ہیکل کی عمارات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ''آپ ان سب کو دیکھتے ہیں؟'' حضرت عیسیٰؑ نے فرمایا ''میں تمہیں سچ بتاتا ہوں۔ اس جگہ ایک پتھر بھی دوسرے پتھر پر باقی نہیں رہے گا۔ سب کچھ ڈھایا جائے گا۔''قسطنطین اعظم کے حکم پر ٹیمپل ماؤنٹ کے کھنڈرات باقی رکھے گئے۔ مدعا یہ ظاہر کرنا تھا کہ یہودیت مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ چکی ۔جبکہ اللہ تعالیٰ کی منشا یہ تھی کہ انسان کھنڈرات دیکھ کر عبرت پکڑیں اور ایسے بداعمال کرنے سے باز رہیں جن کی وجہ سے یہود پر عذاب الٰہی نازل ہوا اور وہ برباد ہوگئے۔
قسطنطین نے بھی یروشلم میں یہود کے داخلے پر پابندی لگادی۔ تاہم وہ سال میں ایک مرتبہ ماؤنٹ ٹیمپل پر عبادت کرسکتے تھے۔ مگر عیسائی مذہبی رہنماؤں کو اس امر پر بھی اعتراض تھا۔ پوپ لیو اول (400ء تا 461ء) روم کو دنیائے عیسائیت میں مرکزی حیثیت دینا چاہتا تھا۔ مگر وہ سمجھتا تھا کہ ٹیمپل ماؤنٹ کے کھنڈرات اس راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔اسی طرح چوتھی صدی عیسوی کے دوران دنیائے عیسائیت میں ایتھناسیوس اسکندروی(Athanasius) مشہور مذہبی رہنما گزرا ہے ۔وہ اسکندریہ شہر کا بشپ تھا۔ وہ عیسائیوں میں یہ تبلیغ کرتا تھا کہ اگر یہود کو ٹیمپل ماؤنٹ پھر مل گیا، تو وہ نہایت خطرناک ہوجائیں گے۔311ء میں عیسائیت رومی سلطنت کا سرکاری مذہب قرار پایا۔ یہود نے حضرت عیسیٰؑ پر مظالم توڑے تھے۔ اسی لیے اب پوری سلطنت میں یہود کو مختلف طریقوں سے دق کیا جانے لگا۔ وہ ریاست کے ناپسندیدہ عناصر بن گئے۔ اکثر جگہوں پر عیسائیوں نے ان کا معاشرتی مقاطع (بائیکاٹ) کردیا۔ یہی وجہ ہے، یہود کی اکثریت رومی سلطنت سے نکل کر عرب ممالک، افریقا حتیٰ کہ افغانستان اور ہندوستان میں جابسی۔
عیسائی حکمرانوں اور عوام نے ٹیمپل ماؤنٹ کو بالکل نظر انداز کردیا۔ جیسا کہ بتایا گیا، وہ علاقہ فضلہ پھینکنے کی جگہ بن گیا۔ 381ء میں اسپین سے ایک نن، ایگیریا (egeria) ارض فلسطین پہنچی تاکہ اپنے مقدس مقامات کی زیارت کرسکے۔ اس نے اسپین میں ساتھی ننوں کے نام طویل خط بھیجا جس میں یروشلم کا تذکرہ محفوظ ہے۔ اس تذکرے میں ٹیمپل ماؤنٹ کا کا کوئی ذکر نہیں۔ لگتا ہے، ہسپانوی نن کو علم ہی نہیں تھا کہ یہود کی اہم ترین عبادت گاہ شہر میں موجود ہے۔دنیائے عیسائیت میں حکمرانوں اور مذہبی رہنماؤں، دونوں کی سعی تھی کہ عوام کی یادداشت سے ٹیمپل ماؤنٹ کو نکال باہر کیا جائے۔ یہی وجہ ہے، ہمیں اردن کے شہر، مادبا میں سینٹ جارج چرچ کے فرش پر بنائے گئے یروشلم کے موزیک نقشے پر ٹیمپل ماؤنٹ دکھائی نہیں دیتا۔ یہ موزیک نقشہ 542ء تا 570ء کے درمیان بنایا گیا۔
311ء کے بعد رومی سلطنت میں رفتہ رفتہ یہود کی سینکڑوں عبادت گاہیں،صومعہ (Synagogue) ڈھا دی گئیں۔ 425ء میں یہودی عدالت (Sanhedrin) کے جج (nasi) کا عہدہ بھی ختم کردیا گیا۔رومی شہنشاہ، تھیوڈویس دوم کی بیوی، ملکہ ایلیا جوڈویسیا (Aelia Eudocia) یہود سے ہمدردی رکھتی تھی۔438ء میں اس نے ارض فلسطین کا دورہ کیا۔ دورے کے دوران بچے کھچے یہود نے رومی ملکہ سے درخواست کی کہ انہیں ماؤنٹ ٹیمپل پر عبادت کرنے کی اجازت دی جائے۔ ملکہ نے درخواست قبول کرلی۔انھوں نے پھر خوشی کی یہ خبر خطوط کے ذریعے دنیا بھر میں پھیلے یہود تک پہنچادی۔ انہیں یہ بھی کہا گیا کہ وہ خوشی منانے یروشلم پہنچ جائیں۔ چناں چہ تقریباً ایک لاکھ یہودی ماؤنٹ ٹیمپل پر عبادت کرنے یروشلم آپہنچے۔ مگر یہود کا جم غفیر دیکھ کر عیسائی عوام گھبراگئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ یہود دوبارہ شہر پر قبضہ کرنے کی سعی کرسکتے ہیں اسی لیے وہ یہود کی راہ میں مزاحم ہوگئے۔مغربی مورخین لکھتے ہیں کہ ایک دن عیسائیوں اور یہود کے مابین زبردست تصادم ہوا۔لڑائی میں چار یہودی مارے گئے۔ جو یہودی ماؤنٹ ٹیمپل پر چڑھنے کی سعی کرتا، عیسائی اسے پتھر مارتے۔عیسائی تعداد میں کہیں زیادہ تھے۔ آخر کار انہوں نے تمام یہود کو شہر سے نکال دیا۔ اس کے بعد تقریباً دو سو برس تک ایک بھی یہودی یروشلم میں داخل نہیں ہوسکا۔ یہ عرصہ یہودی تاریخ میں ''مستور دور'' کہلاتا ہے۔
614ء میں فارس کی فوج نے یروشلم پر حملہ کیا۔ ارض فلسطین میں آباد یہود بھی اس فوج کا حصہ بن گئے۔ فارسی فوج نے یروشلم پر قبضہ کیا، تو انہوں نے ایک یہودی رہنماء نحمیا بن ہوشیل کو وہاں کا حاکم بنادیا۔ دو ہفتے بعد شہر کے عیسائیوں نے اسے ساتھیوں سمیت مار ڈالا۔ فارسی فوج نے یہود کے ساتھ مل کر دوبارہ یروشلم پر دھاوا بولا اور ہزارہا عیسائیوں کو قتل کر ڈلا۔ مغربی مورخین لکھتے ہیں کہ فارسی فوج نے بہت سے چرچ تباہ کردیئے اور وہ صومعہ بھی جو یہود نے ٹیمپل ماؤنٹ پر تعمیر کرلیا تھا۔ 628ء میں ایرانی بادشاہ، خسرو دوم اور رومی شہنشاہ ہرقل کے مابین دوستانہ معاہدہ طے پاگیا۔ 630 میں ہرقل فاتحانہ یروشلم میں داخل ہوا۔ شروع میں اس نے یہود کو امان دے دی۔ تاہم عیسائی مذہبی رہنماؤں کی سرزنش پر یہ امان ختم کردی گئی۔ چناں چہ یروشلم اور قرب و جوار کے علاقوں میں بیسیوں یہودی قتل کردیئے گئے۔ یروشلم میں ان کا داخلہ دوبارہ ممنوع قرار پایا۔
مسلمانوں نے یہود کو پناہ دی
صرف نو سال بعد اسلامی فوج نے یہ شہر فتح کرلیا۔ مگر اس موقع پر شہر کا کوئی باسی قتل نہیں ہوا اور نہ ہی کوئی چرچ ڈھایا گیا۔ خلیفہ دوم، حضرت عمر فاروقؓ نے اہل شہر کو مکمل مذہبی و معاشرتی آزادی عطا فرمائی۔تاریخ طبری میں درج ہے کہ اسی دورے میں خلیفہ دوم حرم الشریف (ماؤنٹ ٹیمپل) بھی تشریف لے گئے جہاں کاٹھ کباڑ جمع تھا۔ آپؓ نے صحابہ کرام کی مدد سے سارا کوڑا کرکٹ صاف کیا۔ تبھی مسجد ابراہیمی کی جگہ ایک عارضی مسجد تعمیر کی گئی۔ نیز صخرہ مشرفہ کے گرد حصار بنایا گیا۔
آج بھی مسجد اقصیٰ کے بغل میں ایک کمرہ ''مسجد عمرؓ'' یا ''محراب عمرؓ'' کہلاتا ہے۔ روایت ہے حضرت عمرؓ نے اسی جگہ عارضی مسجد تعمیر فرمائی تھی۔تاریخ طبری میں یہ بھی درج ہے کہ اوائل میں حضرت عمر فاروقؓ اور یروشلم کے بشپ، صفرونیوس کے مابین یہ طے پایا تھا کہ یہود حسب دستور یروشلم میں آباد نہیں ہوں گے۔تاہم اٹھارہویں صدی میں قاہرہ، مصر کے ایک صومعہ کے جنیزہ (اسٹور روم) سے قدیم مخطوطے برآمد ہوئے جو 870ء میں لکھے گئے تھے۔ ان مخطوطوں(Cairo Geniza)میں درج ہے کہ بعدازاں یہود نے حضرت عمرؓ سے درخواست کی تھی کہ 200 خاندانوں کو یروشلم آباد ہونے کی اجازت دی جائے۔ حضرت عمرؓ نے 70 خاندانوں کو آباد ہونے کی اجازت مرحمت فرمادی۔ یہ یہود شہر کے جنوبی حصے میں آباد ہوئے۔ یوں حضرت عمرؓ الفاروق کی مہربانی و کرم سے 438ء کے بعد پہلی بار یہود یروشلم میں مقیم ہوگئے۔
آنے والے ادوار میں بعض مسلم حکمرانوں نے یہود کے ساتھ سخت سلوک کیا لیکن مجموعی طور پر اسلامی حکومتوں میں یہود کو امن و امان میسر رہا بلکہ انہیں ترقی کرنے اور پھلنے پھولنے کے مواقع بھی میسر آئے۔ جب اسپین و پرتگال پہ دوبارہ قبضے کے بعد عیسائیوں نے وہاں یہود کا قتل عام کیا تو بیشتر یہودیوں نے اسلامی مملکتوں ہی میں پناہ لی ۔ حتیٰ کہ یہ ایک مسلمان بادشاہ ہے جس نے یہود کو ''مغربی دیوار'' (Western Wall) کا تحفہ عطا کیا۔ہوا یہ کہ 14 جنوری 1546ء کو یروشلم میں شدید زلزلہ آیا۔ اس باعث حرم الشریف کے اطراف میں بنے کئی گھر منہدم ہوگئے۔
اس وقت یروشلم ترک عثمانی سلطان، سلیمان عالیشان کی سلطنت میں شامل تھا۔ سلطان سلیمان یہود سے ہمدردی رکھتے تھے اور انہوں نے اسپین و پرتگال سے آئے کئی یہود کو یروشلم و ارض فلسطین میں آباد ہونے کی اجازت دے دی تھی۔سلطان سلیمان نے پھر مغربی دیوار کے نزدیک منہدم تمام گھر صاف کرائے اور وہاں یہود کو عبادت کرنے کی اجازت دے دی۔ آج مغربی دیوار یہود میں دوسری مقدس ترین یادگار ہے۔یہود کا دعویٰ ہے کہ یہ دیوار اس چار دیواری کا حصہ ہے جو ہیرود اول نے دوسرے ہیکل کے گرد بنوائی تھی۔یہودیت میں مقدس ترین جگہ ''قدس القدس'' (Holy of Holies) ہے۔ یہود کے نزدیک اس جگہ خدا تعالیٰ قیام فرماتاہے۔ یہ جگہ ایک خیمے (خیمہ اجتماع) کے اندر واقع تھی۔ عبرانی بائبل کی رو سے یہ خیمہ ہیکل سلیمانی کے مغربی کونے میں بنایا گیا تھا۔ اس خیمے میں تابوت سکینہ بھی رکھا تھا۔ تاہم نبوکدنصر کے حملے میں وہ تباہ ہوگیا ۔
حرف آخر
قران پاک ،احادیث بنویﷺ اور تاریخی حقائق سے عیاں ہے کہ اللہ تعالی نے بنی اسرائیل کو پھلنے پھولنے کے بھرپور مواقع عطا فرمائے مگر وہ گناہ اور بد اعمال کرتے رہے۔چناں چہ بطور سزا نافرمان یہود کو پوری دنیا میں منتشر کردیا گیا۔اس کے بعد عیسائی قوم نے یہود پہ ظلم وستم توڑے اور ٹیمپل ماؤنٹ کو کوڑے دان بنا لیا۔پھر مسلم قوم کا ظہور ہوا۔مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کر کے حرم الشریف کی مقدس حیثیت بحال کر دی ۔وہاں حضرت ابراہیمؑ کی مسجد ازسرنو تعمیر کی اور صخرہ مشرفہ کو بھی چار دیواری میں محفوظ کر دیا۔یہی نہیں ،انھوں نے یہود کو بھی سہارا دیا اور ان کو ترقی کے مواقع فراہم کیے۔
بیسویں صدی میں یہود دوبارہ دنیا میں اہم قوم بن کر ابھر آئے۔اس حیرت انگیز کایاپلٹ نے کئی وجوہ کی بنا پر جنم لیا۔مثلاً مغربی دنیا میں سیکولرمت کا پھیلاؤ،یہود کا بینکار و سرمایہ دار بن جانا،سائنس وٹکنالوجی میں خوب ترقی کرنا اور مغربی حکمرانوں کو یہ باور کرانے میں کامیابی کہ قیام اسرائیل سے بائبلی پیش گوئیاں پوری ہو سکیں گی۔اب معاشی وعسکری طور پہ طاقتور بن کر اسرائیلی حکمران مسلمانوں کے احسان فراموش کر چکے۔وہ ٹیمپل ماؤنٹ پہ مسجد اقصیٰ ،گنبد صخرہ اور دیگر اسلامی تعمیرات شہید کر کے تیسرا ہیکل بنانے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔اگر امت مسلمہ خواب غفلت سے نہ جاگی،مسلمان بدستور باہمی اختلافات کا شکار اور آپس میں لڑتے رہے تو انتہا پسند اسرائیلی حکمران اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔یہود کے مذہبی علما کا دعوی ہے کہ مسلمان اب اپنے گناہوں اور بداعمال کی وجہ سے ''امت وسط''(سورہ البقر ہ آیت 143)نہیں رہے جبکہ بنی اسرائیل نیکی وحق کی راہ اختیار کر کے دوبارہ خدا تعالیٰ کی چہیتی قوم بن چکے۔