نئے صوبوں کی بحث اور بنیادی حقائق
ملک کے عوام کو ہر سہولت ملنی چاہیے، لیکن اس کے لیے صوبوں میں ترقی کے پیرامیٹرز قابل عمل ہوں۔
وزیراعظم عمران خان نے سندھ میں ایک اور صوبہ بنانے کی مخالفت کر دی ہے۔ انھوں نے واضح کیا کہ تحریک انصاف سندھ میں ایک اور صوبہ بنانے کے خلاف ہے، انھوں نے وضاحت کی کہ پی ٹی آئی کے نئے بلدیاتی نظام کے تعارف کے بعد سندھ میں کسی تقسیم کی ضرورت نہیں رہے گی ۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارے 2 مہینے اور مشکل ہیں، اس کے بعد معاشی حالات بہتر ہوجائیں گے۔ تاہم وزیراعظم نے نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے جنوبی پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں انتظامی یا سیاسی مطالبے کی بنیاد پر نئے صوبوں کے بارے میں اظہار خیال نہیں کیا ، لیکن حکومت اور پی ٹی آئی کا نئے صوبوں کے حوالے سے بے لاگ اور غیر مبہم انداز نظر اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ نئے صوبوں کے قیام کی پیچیدہ بحث کے مختلف النوع مضمرات اور خدشات وزیر اعظم کے موقف میں ایک بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
موجودہ حالات میں واقعتاً ملک کو جن ہمہ جہتی اور اعصاب شکن چیلنجز کا سامنا ہے اور حکومت معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے جتنے جتن کر رہی ہے، اس میں کسی نئے صوبے کے قیام کی باتیں پینڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہیں اور ملکی تاریخ کے اندوہ ناک ابواب ، سیاسی اتھل پتھل، سیاسی نشیب و فراز، سیاسی جماعتوں کے جمہوری طرز عمل اور عوام کو درپیش مسائل کے پیش نظر سیاسی جماعتوں کو نئے ایشوز اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ جمہوری طرز حکمرانی تو گڈ گورننس کی محتاج ہوتی ہے۔
جمعے کو گورنر ہاؤس کراچی میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کے وفد اور پی ٹی آئی کے ارکان قومی و سندھ اسمبلی فردوس شمیم نقوی، خرم شیر زمان، حلیم عادل شیخ ، فیصل واوڈا، اشرف قریشی، ارباب غلام رحیم، نندکمار، نصرت سحر عباسی، صدرالدین شاہ راشدی و دیگر سے ملاقات کے دوران سندھ کی مجموعی سیاسی صورتحال، سندھ میں وفاقی حکومت کی جانب سے جاری مختلف تر قیاتی منصوبوں اور اتحادی امور کے علاوہ کراچی سمیت صوبہ سندھ کو درپیش مسائل کو اجاگرکرتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لیے مختلف تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اراکین اسمبلی اپنے اپنے حلقوں میں عوام کی فلاح و بہبود خصوصاً صحت، تعلیم کے مسائل پر خصوصی توجہ دیں، غربت کے خاتمہ کے پروگرام ''احساس'' اور صحت و انصاف کے پروگرام کو سندھ میں جاری کیا جائے۔ وفاقی حکومت کراچی سمیت سندھ بھر کی ترقی کے لیے بھرپور تعاون کرے گی ۔
یہ حقیقت ہے کہ خطرات کے سیاہ بادل چاروں طرف منڈلا رہے ہیں،خارجی عوامل بہت کچھ سوچنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ادھر داخلی سطح پر بھی بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں، سیاسی کشمکش اور کشیدگی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ، نیب کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس کے ساتھ کارروائیاں کر رہی ہے ، لیکن اگر احتسابی عمل کے خلاف سیاسی مزاحمت ، اضطراب اور برہمی سے میڈیا پر کہرام برپا ہو ، کیا ایسے ماحول میں جہاں وزیر اعظم یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آیندہ دو ماہ ہمارے لیے انتہائی مشکل ہیں نئے صوبوں کے قیام کی پوائنٹ اسکورنگ کا کوئی جواز ہے۔
لازمی طور پر اس کا جواب نفی میں ہو گا، ملک میں نئے صوبوں کی بحث سیاسی انتشار اور جھگڑے کا باعث بن سکتی ہے۔موجودہ حالات میں اس سے گریز ہی کیا جائے تو یہ ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں ہوگا۔ دوسری تلخ حقیقت دہشتگ ردی کے نت نئے فتنوں اور بچے کھچے دہشت گرد ٹولوں کی آسان ٹارگٹس کو نشانہ بنانا ہے، ملک دشمن عناصر نے سہولت کاروں کے ذریعے بلوچستان کو ہدف پر لے لیا ہے، بھارت پاکستان کو دہشت گری کا نشانہ بنانے کے مذموم عزائم کا برملا اظہار کر چکا ہے۔
افغانستان سے دہشت گردوں کو پاکستان بھیجنے اور تخریب کاری و دہشت گردی کی وارداتوں کی فنڈنگ کا عالمی گٹھ جوڑ توڑنے کے لیے حکومت اور ریاستی ادارے رات دن محنت کر رہے ہیں، پنجاب ، خیبرپختونخوا اور سندھ میں سیاسی پولیرائیزیشن عروج پر ہے، عدم رواداری، الزام تراشی اور پروپیگنڈا فیکٹریاں مسلسل اوور ٹائم کر رہی ہیں، سیاسی بے یقینی کے خاتمہ اور اقتصادی بریک تھرو کے لیے حکومت کی معاشی ٹیم چومکھی لڑائی لڑنے میں مصروف ہے لیکن افسوس ہے کہ درپیش مشکلات کا حل ڈھونڈنے کے بجائے ملکی سلامتی کے خلاف ہرزہ سرائی سے بھی اجتناب نہیں کیا جاتا ۔
جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے تو لازم ہے کہ سیاسی رہنما اپنے باہمی اختلافات ترک کریں، زیتون کی شاخ لے کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں ، ملک کو صحیح جمہوری ٹریک پر ڈالنے کے لیے کسی بھی قسم کا میثاق ہو اس پر بلا تاخیر اتفاق کریں، اسی میں ملک و قوم کا مفاد ہے۔
یہ درست ہے کہ دہشت گردی میں ملوث ماسٹر مائنڈز کا خاتمہ ہوا ہے، ان کے نیٹ ورکس تتربتر ہو چکے، کالعدم تنظیموں سے متعلق ریاست کے اقدامات نتجہ خیز ثابت ہو رہے ہیں مگر سوچنے کا مقام ہے کہ قوم کو ایک امید افزا معاشی روڈ میپ دینے میں حکومت کی مدد کرنے کے بجائے ملک کو نئی آزمائشوں میں مبتلا کرنے کی تدبیریں ہیں، جمہوریت کا حسن اختلاف رائے میں ہے مگر سوال اعصابی ، نفسیاتی یا فکری و جمہوری طور پر ہمیں ایک وسیع المشرب سماج کی نمائندگی اور ترجمانی کا ہے۔
نئے صوبے ضرور بنائیں جائیں ، انتظامی بنیادوں پر دنیا بھر میں اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم ایک معروف اور مسلمہ جمہوری طریقہ کار ہے ۔ ملک کے عوام کو ہر سہولت ملنی چاہیے، لیکن اس کے لیے صوبوں میں ترقی کے پیرامیٹرز قابل عمل ہوں۔ پسماندہ علاقے انفرا سٹرکچر، اقتصادی انقلاب اور بنیادی جمہوری ثمرات کے منتظر ہیں، وہ انھیں مہیا کریں تو نان ایشوز کا شور از خود تھم جائے گا۔
وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ ہمارے 2 مہینے اور مشکل ہیں، اس کے بعد معاشی حالات بہتر ہوجائیں گے۔ تاہم وزیراعظم نے نئے صوبوں کی تشکیل کے حوالے سے جنوبی پنجاب سمیت دیگر صوبوں میں انتظامی یا سیاسی مطالبے کی بنیاد پر نئے صوبوں کے بارے میں اظہار خیال نہیں کیا ، لیکن حکومت اور پی ٹی آئی کا نئے صوبوں کے حوالے سے بے لاگ اور غیر مبہم انداز نظر اس حقیقت کی عکاسی کرتا ہے کہ نئے صوبوں کے قیام کی پیچیدہ بحث کے مختلف النوع مضمرات اور خدشات وزیر اعظم کے موقف میں ایک بنیادی عنصر کی حیثیت رکھتے ہیں۔
موجودہ حالات میں واقعتاً ملک کو جن ہمہ جہتی اور اعصاب شکن چیلنجز کا سامنا ہے اور حکومت معاشی گرداب سے نکلنے کے لیے جتنے جتن کر رہی ہے، اس میں کسی نئے صوبے کے قیام کی باتیں پینڈورا باکس کھولنے کے مترادف ہیں اور ملکی تاریخ کے اندوہ ناک ابواب ، سیاسی اتھل پتھل، سیاسی نشیب و فراز، سیاسی جماعتوں کے جمہوری طرز عمل اور عوام کو درپیش مسائل کے پیش نظر سیاسی جماعتوں کو نئے ایشوز اٹھانے سے گریز کرنا چاہیے۔ جمہوری طرز حکمرانی تو گڈ گورننس کی محتاج ہوتی ہے۔
جمعے کو گورنر ہاؤس کراچی میں تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں کے وفد اور پی ٹی آئی کے ارکان قومی و سندھ اسمبلی فردوس شمیم نقوی، خرم شیر زمان، حلیم عادل شیخ ، فیصل واوڈا، اشرف قریشی، ارباب غلام رحیم، نندکمار، نصرت سحر عباسی، صدرالدین شاہ راشدی و دیگر سے ملاقات کے دوران سندھ کی مجموعی سیاسی صورتحال، سندھ میں وفاقی حکومت کی جانب سے جاری مختلف تر قیاتی منصوبوں اور اتحادی امور کے علاوہ کراچی سمیت صوبہ سندھ کو درپیش مسائل کو اجاگرکرتے ہوئے ان مسائل کے حل کے لیے مختلف تجاویز پر تبادلہ خیال کیا گیا۔
وزیراعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اراکین اسمبلی اپنے اپنے حلقوں میں عوام کی فلاح و بہبود خصوصاً صحت، تعلیم کے مسائل پر خصوصی توجہ دیں، غربت کے خاتمہ کے پروگرام ''احساس'' اور صحت و انصاف کے پروگرام کو سندھ میں جاری کیا جائے۔ وفاقی حکومت کراچی سمیت سندھ بھر کی ترقی کے لیے بھرپور تعاون کرے گی ۔
یہ حقیقت ہے کہ خطرات کے سیاہ بادل چاروں طرف منڈلا رہے ہیں،خارجی عوامل بہت کچھ سوچنے کی دعوت دے رہے ہیں۔ادھر داخلی سطح پر بھی بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں، سیاسی کشمکش اور کشیدگی تھمنے کا نام نہیں لے رہی ، نیب کرپشن کے خلاف زیرو ٹالرنس کے ساتھ کارروائیاں کر رہی ہے ، لیکن اگر احتسابی عمل کے خلاف سیاسی مزاحمت ، اضطراب اور برہمی سے میڈیا پر کہرام برپا ہو ، کیا ایسے ماحول میں جہاں وزیر اعظم یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ آیندہ دو ماہ ہمارے لیے انتہائی مشکل ہیں نئے صوبوں کے قیام کی پوائنٹ اسکورنگ کا کوئی جواز ہے۔
لازمی طور پر اس کا جواب نفی میں ہو گا، ملک میں نئے صوبوں کی بحث سیاسی انتشار اور جھگڑے کا باعث بن سکتی ہے۔موجودہ حالات میں اس سے گریز ہی کیا جائے تو یہ ملک اور قوم کے بہترین مفاد میں ہوگا۔ دوسری تلخ حقیقت دہشتگ ردی کے نت نئے فتنوں اور بچے کھچے دہشت گرد ٹولوں کی آسان ٹارگٹس کو نشانہ بنانا ہے، ملک دشمن عناصر نے سہولت کاروں کے ذریعے بلوچستان کو ہدف پر لے لیا ہے، بھارت پاکستان کو دہشت گری کا نشانہ بنانے کے مذموم عزائم کا برملا اظہار کر چکا ہے۔
افغانستان سے دہشت گردوں کو پاکستان بھیجنے اور تخریب کاری و دہشت گردی کی وارداتوں کی فنڈنگ کا عالمی گٹھ جوڑ توڑنے کے لیے حکومت اور ریاستی ادارے رات دن محنت کر رہے ہیں، پنجاب ، خیبرپختونخوا اور سندھ میں سیاسی پولیرائیزیشن عروج پر ہے، عدم رواداری، الزام تراشی اور پروپیگنڈا فیکٹریاں مسلسل اوور ٹائم کر رہی ہیں، سیاسی بے یقینی کے خاتمہ اور اقتصادی بریک تھرو کے لیے حکومت کی معاشی ٹیم چومکھی لڑائی لڑنے میں مصروف ہے لیکن افسوس ہے کہ درپیش مشکلات کا حل ڈھونڈنے کے بجائے ملکی سلامتی کے خلاف ہرزہ سرائی سے بھی اجتناب نہیں کیا جاتا ۔
جب نوبت یہاں تک پہنچ جائے تو لازم ہے کہ سیاسی رہنما اپنے باہمی اختلافات ترک کریں، زیتون کی شاخ لے کر ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں ، ملک کو صحیح جمہوری ٹریک پر ڈالنے کے لیے کسی بھی قسم کا میثاق ہو اس پر بلا تاخیر اتفاق کریں، اسی میں ملک و قوم کا مفاد ہے۔
یہ درست ہے کہ دہشت گردی میں ملوث ماسٹر مائنڈز کا خاتمہ ہوا ہے، ان کے نیٹ ورکس تتربتر ہو چکے، کالعدم تنظیموں سے متعلق ریاست کے اقدامات نتجہ خیز ثابت ہو رہے ہیں مگر سوچنے کا مقام ہے کہ قوم کو ایک امید افزا معاشی روڈ میپ دینے میں حکومت کی مدد کرنے کے بجائے ملک کو نئی آزمائشوں میں مبتلا کرنے کی تدبیریں ہیں، جمہوریت کا حسن اختلاف رائے میں ہے مگر سوال اعصابی ، نفسیاتی یا فکری و جمہوری طور پر ہمیں ایک وسیع المشرب سماج کی نمائندگی اور ترجمانی کا ہے۔
نئے صوبے ضرور بنائیں جائیں ، انتظامی بنیادوں پر دنیا بھر میں اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم ایک معروف اور مسلمہ جمہوری طریقہ کار ہے ۔ ملک کے عوام کو ہر سہولت ملنی چاہیے، لیکن اس کے لیے صوبوں میں ترقی کے پیرامیٹرز قابل عمل ہوں۔ پسماندہ علاقے انفرا سٹرکچر، اقتصادی انقلاب اور بنیادی جمہوری ثمرات کے منتظر ہیں، وہ انھیں مہیا کریں تو نان ایشوز کا شور از خود تھم جائے گا۔