مہنگائی اور نئے صوبے

پی پی کئی مرتبہ ملک میں برسراقتدار آچکی ہے وہ چاہتی تو کبھی کا سرائیکی صوبہ بن جاتا۔

usmandamohi@yahoo.com

RAWALPINDI:
آج کل ملک میں ہر طرف مہنگائی کا نوحہ پڑھا جا رہا ہے۔ ڈالرکی اونچی اڑان نے عوام کو حیران و پریشان کردیا ہے۔ شاید عوام کو بہلانے کے لیے پہلے تیل وگیس کے بڑے ذخائرکی خوش خبری سنائی گئی ساتھ ہی پنجاب میں نئے صوبے کے قیام کے لیے پیش رفت بھی سامنے آگئی۔ تیل وگیس کے ذخائر کی خوشخبری تو اب ہوا ہوچکی ہے البتہ ملک میں نئے صوبے کے قیام کے لیے پیش رفت ایک اچھی خبر ہے۔

گزشتہ دنوں وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقے جسے فاٹا کا نام دیا جاتا ہے کو قومی دھارے میں لانے کے لیے آئینی ترمیم کرکے قومی اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی متفقہ منظوری کے بعد کے پی کے کے ساتھ منسلک کردیا گیا۔ یہ کارروائی 13 مئی 2019 کو عمل میں آئی۔ اتفاق سے اسی دن سے پنجاب میں ایک نیا صوبہ بنانے کے لیے اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے سیاسی رابطے شروع کردیے گئے ہیں۔

پنجاب میں نئے صوبے کی تشکیل کے لیے یہ جواز پیش کیا جا رہا ہے کہ چھوٹے انتظامی یونٹوں کی تشکیل سے اختیارات نچلی سطح تک منتقل کیے جاسکتے ہیں۔ اس سے عام لوگوں کے گھروں کے قریب تک سہولتیں بہم پہنچائی جاسکتی ہیں اور یوں ملکی وسائل میں صوبے کے دور دراز علاقوں میں رہائش پذیر لوگوں کو بھی شریک کیا جاسکتا ہے، اگر یہی کارگر اصول ہے اور چھوٹے صوبوں کے یہی فوائد ہیں اور اسی میں محروم عوام کی بھلائی مضمر ہے تو پھر فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ فاٹا کو بھی ایک صوبے کا درجہ کیوں نہ دے دیا گیا جہاں تک اس کی مالی پسماندگی کا معاملہ ہے تو وہاں کے عوام کی مدد کے لیے وفاق نے پہلے ہی تمام صوبوں کو ان کی مدد کرنے پر آمادہ کرلیا ہے۔

اس کے علاوہ وزیر اعظم عمران خان فاٹا کے دوروں کے دوران کہہ چکے ہیں کہ وفاق بھی وہاں کے عوام کی بھرپور مدد کرے گا اور عوام کی تمام گزشتہ محرومیوں کا ازالہ کیا جائے گا۔ یہ بات بھی سب ہی جانتے ہیں کہ فاٹا کو ایک علیحدہ صوبے کا درجہ دینے کی کئی سیاسی پارٹیاں حمایت کر رہی تھیں ان پارٹیوں میں مولانا فضل الرحمن اور محمود خان اچکزئی کی پارٹیاں پیش پیش تھیں۔ چونکہ یہ دونوں پارٹیاں مسلم لیگ (ن) کی حلیف ہیں چنانچہ انھوں نے اس وقت نواز حکومت سے رابطہ کرکے فاٹا کے کے پی کے میں انضمام کے معاملے کو ایک خاص مدت تک کے لیے ملتوی کرا دیا تھا جب کہ عمران خان فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے میں خاص دلچسپی رکھتے تھے اور وہ حالیہ الیکشن سے قبل ہی فاٹا کو کے پی کے میں ضم کرنے کا اعلان کرچکے تھے چنانچہ اب ان کی حکومت نے اسے کے پی کے کا حصہ بنادیا ہے۔

محب وطن عناصر اس اقدام کو کھل کر سراہ رہے ہیں۔ کیونکہ خود پاکستان میں موجودہ کچھ لوگ فاٹا کو افغانستان کا حصہ قرار دے رہے ہیں جوکہ ان کی بھول ہی نہیں بلکہ یہ تاریخی غلطی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ فاٹا کے کے پی کے میں انضمام کے بعض مخالفین کی پیداوار ہے مگر وطن مخالف کسی تحریک کو اب کوئی پاکستانی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ اب جہاں تک ملک میں نئے صوبوں کے قیام کا معاملہ ہے، اب اس کام میں دیر نہ کی جائے۔ خوش قسمتی سے ملک کے دو صوبوں میں اتنی گنجائش ہے کہ انھیں چھوٹا کرکے وہاں کے عوام کی مشکلات کو دورکیا جاسکتا ہے۔ جنوبی پنجاب کے عوام ایک زمانے سے سرائیکی صوبہ بنانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حالیہ عام انتخاب مہم کے دوران عمران خان نے کھل کر اس کے قیام کی حمایت کی تھی اور اسے بنانے کا وعدہ کیا تھا۔


اسی وجہ سے ہی وہاں کے کئی رہنماؤں نے اپنی پارٹیاں چھوڑ کر پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرلی تھی اور عمران خان کا بھرپور ساتھ دیا تھا۔ جنوبی پنجاب کے عوام دراصل گمبھیر مسائل میں گھرے ہوئے ہیں۔ ایک عرصے تک یہاں کے ایک رہنما تاج محمد لنگاہ سرائکستان کے نام سے ایک صوبے کے قیام کے لیے جدوجہد کرتے رہے تھے۔ عمران خان نے (ن) لیگ کے خلاف جو مہم چلائی تھی اس میں پنجاب حکومت پر صوبے کے سارے وسائل کو خصوصاً لاہور کو چمکانے پر خرچ کرنے کا الزام لگایا تھا۔

عمران خان کے اس نظریے نے جنوبی پنجاب کے عوام کو ان کی جانب مائل کردیا تھا اور اسی لیے انھیں جنوبی پنجاب سے اچھا رسپانس ملا تھا۔ پیپلز پارٹی کی پنجاب میں بساط الٹنے یعنی حالیہ الیکشن میں قومی اسمبلی کی چند ہی سیٹوں تک محدود رہنا پڑا تھا۔ اس کی وجہ بعض تجزیہ کار یہ بتاتے ہیں کہ وہ بات تو ملک کے مظلوم اور مجبور لوگوں کی کرتی ہے اور مزدوروں کسانوں اور عوام پسے ہوئے طبقوں کو مشکل زندگی سے نکال کر خوش حال زندگی کی طرف لے جائے گی مگر عملی طور پر اس نے کچھ نہیں کیا حالانکہ اس کے منشور میں غریب طبقے کے مسائل کو حل کرنے کو اولیت دی گئی ہے۔

پی پی کئی مرتبہ ملک میں برسراقتدار آچکی ہے وہ چاہتی تو کبھی کا سرائیکی صوبہ بن جاتا۔ کہتے ہیں 2008 میں جب پی پی اقتدار میں آئی تو اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے جنوبی پنجاب میں نیا صوبہ بنانے کے لیے کافی کوششیں کی تھیں مگر پارٹی کی اعلیٰ کمان کی عدم توجہ کی وجہ سے یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکا۔جہاں تک مسلم لیگ (ن) کا تعلق ہے وہ پنجاب میں کسی نئے صوبے کے قیام میں کم ہی دلچسپی رکھتی ہے اس لیے کہ وہ یہ خیال کرتی ہے کہ اگر پنجاب کے ٹکڑے کیے گئے تو اس کے ووٹ بینک پر کاری ضرب پڑے گی اس لیے کہ ملتان، بھاولپور اور ڈیرہ غازی خان وغیرہ کے علاقے اس کے قیمتی ووٹ بینک ہیں۔ وہ اگر چاہتی تو 1997 میں سرائیکی صوبہ وجود میں آسکتا تھا کیونکہ اس وقت قومی اور پنجاب اسمبلی میں اس کی اکثریت تھی۔ بہرحال اب لگتا ہے کہ عمران خان نے سرائیکی صوبہ بنانے کا پکا عزم کرلیا ہے۔

مگر چونکہ پی ٹی آئی کو نہ تو قومی اسمبلی اور نہ ہی پنجاب اسمبلی میں اکثریت حاصل ہے چنانچہ اسے لازمی طور پر دوسری پارٹیوں سے رابطہ کرنا ہوگا۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سرائیکی صوبہ بنانے میں گہری دلچسپی دکھا رہے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب کے عوام نے انتخابات میں پی ٹی آئی کو نئے صوبے کا جو مینڈیٹ دیا تھا اس کے پیش نظر آئین کی بعض شقوں میں ترامیم لانا ہوں گی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ماضی میں جب وہ پیپلز پارٹی میں تھے وہ جنوبی پنجاب صوبے کے حق میں تھے مگر اس وقت ان کی کوششوں کے باوجود یہ کام نہ ہوسکا۔ تاہم اب پیپلز پارٹی کو جو خود کو مظلوموں اور غریبوں کی نمایندہ پارٹی کہتی ہے اسے پاکستان تحریک انصاف کا ساتھ دینا چاہیے تاکہ جنوبی پنجاب کے مظلوم عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوسکے۔ اس وقت جب کہ سرائیکی صوبے کی تشکیل ہوتی نظر آرہی ہے مسلم لیگ (ن) کی جانب سے بھاولپور کو بھی صوبے کا درجہ دینے کی بات کی جا رہی ہے۔

دراصل بھاولپور کو ایک صوبے کا درجہ دینے کا وہاں کے عوام کا بھی دیرینہ مطالبہ ہے وہاں کے عوام چونکہ پہلے ریاست بھاولپور سے وابستہ تھے چنانچہ وہ چاہتے ہیں کہ اس مثالی ریاست کی یاد کو پھر سے تازہ کردیا جائے۔ صوبہ سندھ میں بھی جنوبی سندھ صوبے کا مطالبہ کافی پرانا ہے۔ کراچی کو صوبہ بنانے کے لیے ایم کیو ایم کے وجود میں آنے سے پہلے سے تحریک جاری ہے۔ جناب جواد حسن اس تحریک کے ایک سرگرم رہنما تھے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پیپلز پارٹی جوکہ مہاجروں کے لیے ہمیشہ ایک پرکشش پارٹی رہی ہے اور آج بھی کراچی کے عوام اس کا دم بھرتے ہیں۔

بدقسمتی سے کراچی صوبے کی تشکیل کی سندھ کے مفادات کے خلاف تصور کرتی ہے جب کہ ماہرین کے مطابق کراچی کے ایک صوبہ بننے سے سندھ کے مفادات پرکوئی ضرب نہیں پڑے گی بلکہ انتظامی امور میں انقلابی بہتری رونما ہوگی، پھر سندھ ایک زرعی صوبہ ہے یہ تیل گیس اور کوئلے کی دولت سے مالا مال ہے چنانچہ معاشی طور پر بھی مستحکم رہے گا اس طرح عوام کی خوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔
Load Next Story