جسٹس سید جمشید علی کی تلاش
کامیاب لیگل پریکٹس کے باوجود جب انھیں ہائیکورٹ کا جج بنانے کی آفر ہوئی تو انھوں نے اسے قبول کر لیا۔
سمجھ نہیں آ رہی پہلے جسٹس سید جمشید علی کا ذکر کروں یا ان کی مرتب کی ہوئی شعری کتاب ''تلاش'' کا ، کیونکہ شاہ جی کا ذکر کرنے پر تو مجھ سے آنسو ضبط کرنا مشکل ہو جائیں گے اور وہ بھی اس لیے کہ پردیس میں مجھے سید جمشید کی رحلت کی خبر ٹیلی فون پر پروفیسر ڈاکٹر عبدالاحد نے دی جو خود بھی اس وقت ملک سے باہر ہیں۔
جب شاہ جی سے پہلی ملاقات ہوئی تو وہ صوبائی سول سروس میں میرے کولیگ تھے، انھوں نے جب وہ اسسٹنٹ کمشنر تھے تو ملازمت سے استعفیٰ دے کر لاہور ہائیکورٹ میں وکالت شروع کر دی تھی، وہ ایک قابل وکیل تھے اسی لیے جب نواز شریف نے پانچ افراد کو خلاف ضابطہ صوبائی سول سروس میں بھرتی کر کے ہماری پروموشن لٹکا دی تو ہمارے متاثر ہونے والے ساتھیوں نے جمشید صاحب کے ذریعے ہائیکورٹ میں Writ کر دی اور ہم نے انھیں صرف نو ہزار روپے فیس دی۔ وہ فیس لینے سے انکاری ہوئے لیکن ہم نے اصرار کیا کہ یہ تو صرف چیمبر کا خرچہ ہے۔
کامیاب لیگل پریکٹس کے باوجود جب انھیں ہائیکورٹ کا جج بنانے کی آفر ہوئی تو انھوں نے اسے قبول کر لیا۔ ان کا ہائیکورٹ کا دور بھی مثالی رہا، پھر ان کے ٹیلنٹ اور شہرت کی بناء پر انھیں سپریم کورٹ کی سطح پر جج Elevate کر دیا گیا۔ انھوں نے باوقار عدالتی کیریئر مکمل ہونے پر بھی چیمبر پریکٹس جاری رکھ کر خود کو مصروف رکھا اور کئی سال پہلے کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص ہونے کے باوجود خدا، کتاب اور احباب کے ساتھ تعلق میں کوتاہی نہیںکی اور نہ ہی کبھی شکوہ شکایت، ناراضی، غصہ، رعونت، ناشکری کے مرتکب ہوئے۔ وہ نہ کبھی ضرورت مند کی مدد میں غفلت کے مرتکب ہوئے اور نہ تعلق، دوستی نبھانے میں پس وپیش کرتے پائے گئے۔ شدید بیماری کی گرفت میں آنے سے پہلے انھوں نے کبھی کسی سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا نہ اپنی نارمل مصروفیات سے روگردانی کی۔
میرے ساتھ ان کا تعلق مسلسل اور مستقل رہا جو ہر ملاقات کے بعد خوشی اور تقویت کا باعث ہوتا۔ عدلیہ کے اعلیٰ ترین منصب پر ہوتے ہوئے بھی کبھی ان کو مغرور یا فاصلے پر نہ پایا۔ وہ روزِاول کی ملاقات کی سطح پر رہتے اور بیرونی دروازے پر آ کر استقبال کرتے اور الوداع کہتے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا دفتر یعنی چیمبر آمدنی کا ذریعہ نہیں، خدمت خلق واحباب کی مدد ورہنمائی کا ڈیرہ تھا۔
جبران حمید کی دعوت ولیمہ کے دن وہ ایک قریبی دوست کے ہاں مدعو تھے لیکن وہ میری خاطر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ جناب عابد حسن منٹو، جسٹس تصدق حسین جیلانی کے ہمراہ موجود رہے۔ جب بھی ان سے ملاقات کی خواہش کی، وہ اسی روز شام چائے پر بلا لیتے اور وہ صرف چائے نہیں ہوتی تھی، دعوت شیراز ہوتی تھی۔ ان کی شدید علالت کا پتہ چلتے ہی ان کے گھر جا کر خیریت معلوم کرنے کی غرض سے ٹیلی فون کیا تو انھوں نے کال سننے کی بجائے فوری میسیج کیا کہ ضروری بات ہے تو فون پر میسیج کر دو۔ میسیج تو میں نے کر دیا لیکن پریشان ہو کرلینڈلائن پر ان کی بیگم سے بات کی۔ انھوں نے کہا دو تین دن بعد جمشید صاحب کی طبیعت بہتر ہو گی تو بات کراؤں گی، پھر فوراً ہی کہا، لیجیے بات کریں۔ انھوں نے ڈیڑھ فقرہ بات کی اور فون بند ہو گیا۔ اب مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں۔
میں نے انھیں دعائیہ میسیج کر دیا۔ جوابی میسیج آیا ''I am fighting with cancer''۔ جسٹس سید جمشید علی شاہ سے یہ میرا آخری رابطہ تھا۔ میں اور بیگم نے بچوں سے ملنے جانے کے لیے 7 مئی کی جہاز کی بکنگ کرا رکھی تھی۔ Houston پہنچ کر میں نے بی اے ناصر سے رابطہ رکھا۔ ناصر کے شاہ جی سے قریبی تعلقات تھے۔ مجھے پریشان کن خبریں آتی رہیں، پھر بی اے ناصر ان سے مل کر آئے اور مجھے بتایا کہ شاہ جی کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، پھر ڈاکٹر عبدالاحد نے مجھے شاہ جی کی رحلت کی خبر دی اور اس سے اگلے روز 22 مئی 2019ء کی دوپہر جب پاکستان میں نصف شب تھی، بی اے ناصر نے مجھے فون پر بتایا کہ شاہ جی جو عالم فانی سے عالم بقا چلے گئے تھے، اب منوں مٹی تلے سو رہے ہیں۔
نہ تو میں شاعر ہوں نہ سید جمشید علی شاعر تھے لیکن جب بھی ٹیلی فون پر بات ہوتی تو کوئی اچھا شعر سنا کر شعر کی فرمائش کرتے، وہ کمال کا شعری ذوق رکھتے تھے۔ انھوں نے شیخ محمد اکرم ایڈووکیٹ سے شعر سنا جو یوں تھا:
ابھی کچھ دیر کڑی دھوپ میں چلنا ہو گا
ربط اتنا نہ بڑھا سایۂ دیوار کے ساتھ
شاہ جی نے شاعر اور پوری غزل کا کھوج لگانے کی کوشش میں اس پسند آنے والے شعر کے بعد مزید ہم قافیہ و ہم ردیف شعروں کا تعاقب شروع کر دیا تو جسٹس انوارالحق نے ان کو ظہیر کاشمیری کا دوسرا شعر سنا کر تلاش والی مشکل حل کر دی:
رات بھر بیٹھے رہے دیدۂ بیدار کے ساتھ
ظلمتیں کم نہ ہوئیں صبح کے آثار کے ساتھ
جسٹس جمشید علی نے سالہاسال کی کاوش سے معروف شعراء کے کہیں تین اور کہیں چھ ''ہم قافیہ وہم ردیف'' اشعار بڑی محنت، محبت، خلوص اور لگن سے تلاش کیے اور 220 صفحات پر مشتمل کتاب میں جمع کر کے دیدہ ودل کی خوش کن ضیافت اور علمی وادبی مرقع کی شکل دے دی۔ اس مجموعے میں سے جس کا نام ''تلاش'' ہے، چند شعر پیش دوستاں ہیں جن میں سید جمشید علی کی شخصیت کو تلاش کر کے ان کی یاد کو زندہ رکھا جا سکتا ہے:
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
(احمد فراز)
جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی کسی روز نہ جانے کے لیے آ
(طالب پانی پتی)
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
(غالب)
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تم ہی منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا
(داغ)
توبہ کیجیے اب فریب دوستی کھائیں گے کیا
آج تک پچھتا رہے ہیں اور پچھتائیں گے کیا
(قمر جلالوی)
آپ کے بس میں تو اپنی زلف برہم بھی نہیں
آپ میری الجھنوں کے پیچ سلجھائیں گے کیا
(عدم)
جب شاہ جی سے پہلی ملاقات ہوئی تو وہ صوبائی سول سروس میں میرے کولیگ تھے، انھوں نے جب وہ اسسٹنٹ کمشنر تھے تو ملازمت سے استعفیٰ دے کر لاہور ہائیکورٹ میں وکالت شروع کر دی تھی، وہ ایک قابل وکیل تھے اسی لیے جب نواز شریف نے پانچ افراد کو خلاف ضابطہ صوبائی سول سروس میں بھرتی کر کے ہماری پروموشن لٹکا دی تو ہمارے متاثر ہونے والے ساتھیوں نے جمشید صاحب کے ذریعے ہائیکورٹ میں Writ کر دی اور ہم نے انھیں صرف نو ہزار روپے فیس دی۔ وہ فیس لینے سے انکاری ہوئے لیکن ہم نے اصرار کیا کہ یہ تو صرف چیمبر کا خرچہ ہے۔
کامیاب لیگل پریکٹس کے باوجود جب انھیں ہائیکورٹ کا جج بنانے کی آفر ہوئی تو انھوں نے اسے قبول کر لیا۔ ان کا ہائیکورٹ کا دور بھی مثالی رہا، پھر ان کے ٹیلنٹ اور شہرت کی بناء پر انھیں سپریم کورٹ کی سطح پر جج Elevate کر دیا گیا۔ انھوں نے باوقار عدالتی کیریئر مکمل ہونے پر بھی چیمبر پریکٹس جاری رکھ کر خود کو مصروف رکھا اور کئی سال پہلے کینسر جیسے موذی مرض کی تشخیص ہونے کے باوجود خدا، کتاب اور احباب کے ساتھ تعلق میں کوتاہی نہیںکی اور نہ ہی کبھی شکوہ شکایت، ناراضی، غصہ، رعونت، ناشکری کے مرتکب ہوئے۔ وہ نہ کبھی ضرورت مند کی مدد میں غفلت کے مرتکب ہوئے اور نہ تعلق، دوستی نبھانے میں پس وپیش کرتے پائے گئے۔ شدید بیماری کی گرفت میں آنے سے پہلے انھوں نے کبھی کسی سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا نہ اپنی نارمل مصروفیات سے روگردانی کی۔
میرے ساتھ ان کا تعلق مسلسل اور مستقل رہا جو ہر ملاقات کے بعد خوشی اور تقویت کا باعث ہوتا۔ عدلیہ کے اعلیٰ ترین منصب پر ہوتے ہوئے بھی کبھی ان کو مغرور یا فاصلے پر نہ پایا۔ وہ روزِاول کی ملاقات کی سطح پر رہتے اور بیرونی دروازے پر آ کر استقبال کرتے اور الوداع کہتے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد ان کا دفتر یعنی چیمبر آمدنی کا ذریعہ نہیں، خدمت خلق واحباب کی مدد ورہنمائی کا ڈیرہ تھا۔
جبران حمید کی دعوت ولیمہ کے دن وہ ایک قریبی دوست کے ہاں مدعو تھے لیکن وہ میری خاطر گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ جناب عابد حسن منٹو، جسٹس تصدق حسین جیلانی کے ہمراہ موجود رہے۔ جب بھی ان سے ملاقات کی خواہش کی، وہ اسی روز شام چائے پر بلا لیتے اور وہ صرف چائے نہیں ہوتی تھی، دعوت شیراز ہوتی تھی۔ ان کی شدید علالت کا پتہ چلتے ہی ان کے گھر جا کر خیریت معلوم کرنے کی غرض سے ٹیلی فون کیا تو انھوں نے کال سننے کی بجائے فوری میسیج کیا کہ ضروری بات ہے تو فون پر میسیج کر دو۔ میسیج تو میں نے کر دیا لیکن پریشان ہو کرلینڈلائن پر ان کی بیگم سے بات کی۔ انھوں نے کہا دو تین دن بعد جمشید صاحب کی طبیعت بہتر ہو گی تو بات کراؤں گی، پھر فوراً ہی کہا، لیجیے بات کریں۔ انھوں نے ڈیڑھ فقرہ بات کی اور فون بند ہو گیا۔ اب مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کروں۔
میں نے انھیں دعائیہ میسیج کر دیا۔ جوابی میسیج آیا ''I am fighting with cancer''۔ جسٹس سید جمشید علی شاہ سے یہ میرا آخری رابطہ تھا۔ میں اور بیگم نے بچوں سے ملنے جانے کے لیے 7 مئی کی جہاز کی بکنگ کرا رکھی تھی۔ Houston پہنچ کر میں نے بی اے ناصر سے رابطہ رکھا۔ ناصر کے شاہ جی سے قریبی تعلقات تھے۔ مجھے پریشان کن خبریں آتی رہیں، پھر بی اے ناصر ان سے مل کر آئے اور مجھے بتایا کہ شاہ جی کو اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، پھر ڈاکٹر عبدالاحد نے مجھے شاہ جی کی رحلت کی خبر دی اور اس سے اگلے روز 22 مئی 2019ء کی دوپہر جب پاکستان میں نصف شب تھی، بی اے ناصر نے مجھے فون پر بتایا کہ شاہ جی جو عالم فانی سے عالم بقا چلے گئے تھے، اب منوں مٹی تلے سو رہے ہیں۔
نہ تو میں شاعر ہوں نہ سید جمشید علی شاعر تھے لیکن جب بھی ٹیلی فون پر بات ہوتی تو کوئی اچھا شعر سنا کر شعر کی فرمائش کرتے، وہ کمال کا شعری ذوق رکھتے تھے۔ انھوں نے شیخ محمد اکرم ایڈووکیٹ سے شعر سنا جو یوں تھا:
ابھی کچھ دیر کڑی دھوپ میں چلنا ہو گا
ربط اتنا نہ بڑھا سایۂ دیوار کے ساتھ
شاہ جی نے شاعر اور پوری غزل کا کھوج لگانے کی کوشش میں اس پسند آنے والے شعر کے بعد مزید ہم قافیہ و ہم ردیف شعروں کا تعاقب شروع کر دیا تو جسٹس انوارالحق نے ان کو ظہیر کاشمیری کا دوسرا شعر سنا کر تلاش والی مشکل حل کر دی:
رات بھر بیٹھے رہے دیدۂ بیدار کے ساتھ
ظلمتیں کم نہ ہوئیں صبح کے آثار کے ساتھ
جسٹس جمشید علی نے سالہاسال کی کاوش سے معروف شعراء کے کہیں تین اور کہیں چھ ''ہم قافیہ وہم ردیف'' اشعار بڑی محنت، محبت، خلوص اور لگن سے تلاش کیے اور 220 صفحات پر مشتمل کتاب میں جمع کر کے دیدہ ودل کی خوش کن ضیافت اور علمی وادبی مرقع کی شکل دے دی۔ اس مجموعے میں سے جس کا نام ''تلاش'' ہے، چند شعر پیش دوستاں ہیں جن میں سید جمشید علی کی شخصیت کو تلاش کر کے ان کی یاد کو زندہ رکھا جا سکتا ہے:
رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لیے آ
(احمد فراز)
جیسے تجھے آتے ہیں نہ آنے کے بہانے
ایسے ہی کسی روز نہ جانے کے لیے آ
(طالب پانی پتی)
عشرت قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
(غالب)
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تم ہی منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا
(داغ)
توبہ کیجیے اب فریب دوستی کھائیں گے کیا
آج تک پچھتا رہے ہیں اور پچھتائیں گے کیا
(قمر جلالوی)
آپ کے بس میں تو اپنی زلف برہم بھی نہیں
آپ میری الجھنوں کے پیچ سلجھائیں گے کیا
(عدم)