آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے نئے پہلو
تعلیم بیروزگاری اور بڑھاپے میں اخراجات کے لیے رقم محفوظ کرنا چاہتے ہیں
حساس قیمتوں کا اشاریہ ،7 مارچ2019 : 248.29 ... 9 مئی، 2019 : 254.38
فرق: 6.09 (17 شہری مراکز سے 53 آئٹمزکی قیمتوں کی بنیاد پر) اس سے پہلے بھی ہم22 مرتبہ آئی ایم ایف کی راہ اختیارکرچکے ہیں اور ہر بار آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے ناقدین کی طرف سے ملکی معیشت کا نظام چلانے والوںکو برا بھلا کہا گیا۔
اس بار آئی ایم ایف نے واضح کر دیا ہے کہ 6 بلین ڈالر کا اسٹاف لیول ایگریمنٹ '' پیشگی اقدامات پر بر وقت عمل درآمد اور بین الاقوامی شراکت داروں کے مالیاتی وعدوں کی تصدیق'' کے ساتھ مشروط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایف بی آر کو یہ بتانا ہے کہ وہ اگلے بجٹ میں کس طرح محاصل کو بڑھائے گا۔ اسٹیٹ بینک کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدر اب مارکیٹ کے آزادانہ بہاؤکی بنیاد پر طے ہو رہی ہے اور قرض کی بنیادی شرح سود میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس سے ڈالرکے مقابلہ میں روپے کی قدرکے بلا روک ٹوک گرنے میں جلد بازی اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے پہلے ہی بہت زیادہ شرح سود میں اضافہ کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاہدے پر اظہار خیال سے پہلے کچھ حقائق پر روشنی ڈالنا مناسب ہوگا۔
آئی ایم ایف ہمیں کیا کہہ رہا ہے۔ یہ کہ ملک اتنا ہی خرچ کرے جتنا ریونیو وہ حاصل کرتا ہے، یہ کہ ملک کو اپنے کرنٹ اکاؤنٹس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وسائل سے زیادہ خرچ کرنے کا سلسلہ رکے اور خسارہ اتنا رہنا چاہیے جو اپنے وسائل کے ذریعے پورا ہو سکے۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ہم 39 ماہ طویل اس پروگرام کے پہلے سال میں اپنے محاصل کی آمدنی میں 700 بلین روپے تک اضافہ کریں۔آئی ایم ایف ان اصلاحات پر عمل درآمد کا سہ ماہی بنیاد پر بغور جائزہ لے گا۔ عمل درآمد کے پراسیس میں ناکامی کی صورت میں وہ پاکستان کو قرضہ کی اگلی قسط روک سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 6 بلین ڈالرکی جس رقم کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ یک مشت نہیں ملے گی بلکہ کئی اقساط میں ادا کی جائے گی۔
مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مطابق پاکستان کو اگلے سال قرض کی ادائیگی کی اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے 12 بلین ڈالرکا فنانسنگ خلاء پورا کرنا ہے، مگر فی الوقت 6 بلین ڈالر آئی ایم ایف سے ملیں گے اور وہ بھی قسطوں میں جن کی مدت تین سال پر محیط ہے۔اضافی خلاء پرکرنے کے لیے پاکستان کو عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک کے ذریعے رقم اکٹھا کرنا ہو گی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ادارے اخراجات جاریہ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے نہیں بلکہ ترقیاتی مقاصد کے لیے قرض دیتے ہیں، جو بات حفیظ شیخ نے نہیں بتائی وہ یہ ہے کہ وہ اس وسیع خلا کوکس طرح پورا کریں گے۔
اگر ہم آئی ایم ایف کی ترکیب پر عمل کرتے ہیں جو یہ ہے کہ آہستہ آہستہ بنیادی شرح سود میں اضافہ کیا جائے اور ڈالرکے مقابلہ میں روپے کی قدرکے تعین کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑ دیا جائے تو اس کا نتیجہ معیشت کے سکڑنے کی صورت میں نکلے گا جس کے آثار پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق رواں مالی سال (2018-19)کے دوران معاشی نمو مجموعی قومی پیداوار کے3.3 فیصد تک رہنے کی امید ہے،جو پچھلے آٹھ سالوں کی سب سے کم شرح ہے۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان اس پروگرام کے آخر تک کس طرح ایک ٹریلین روپے کا ریونیو جمع کرسکتا ہے اور وہ بھی ایسے حالات میں جب معیشت سکڑ رہی ہے؟
ایف بی آر کے نئے ذہین چیئر پرسن کہتے ہیں کہ وہ ایک ایسا کلچر پیدا کریں گے جس میں ٹیکس دہندگان کا احترام کیا جائے اور ٹیکس دینے والے نئے لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے سے خوفزدہ نہ ہوں ۔ پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ پاکستان میں لوگ ٹیکس کیوں نہیں دیتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ ریاست ان کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر رہی، اس لیے وہ اپنی بیماری، بچوں کی تعلیم بیروزگاری اور بڑھاپے میں اخراجات کے لیے رقم محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔
ایف بی آر کے چیئرمین چاہتے ہیں کہ جب لوگ علاج معالجے کے لیے ڈاکٹر کے پاس یا کھانے پینے کے لیے کسی ریسٹورنٹ میں جائیں تو وہاں سے رسید لیں تاکہ معیشت کو ضابطے میں لانے کا کلچر پیدا ہو، یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ گوشوارے داخل کراتے وقت رقم کا ایک چھوٹا سا حصہ اخراجات کے طور پر کلیم کر سکیں۔معیشت کو با ضابطہ بناتے وقت لوگوں کے مفادات کا خیال رکھنا ہو گا۔ بے ضابطہ معیشت کا حجم کئی گنا بڑھ چکا ہے اور اندازہ ہے کہ اب یہ مجموعی قومی پیداوارکا لگ بھگ 100 فیصد ہے۔ متوازی یا غیر دستاویزی معیشت تیز رفتاری سے ترقی کرتی ہے کیونکہ اس پرکو ئی حکومتی پابندی نہیں ہوتی۔
لوگوں کے ٹیکس نہ دینے کا ایک اور بڑا محرک ملکی عدم استحکام ہے۔ لوگ ہمیشہ اس غیر یقینی میں مبتلا رہتے ہیں کہ آگے کیا ہوگا، اگرچہ آئی ایم ایف کے پریس ریلیز میں بجا طور پر اس جانب اشارہ کیا گیاہے کہ '' سست رفتار ترقی، زیادہ افراط زر، بھاری قرضوں اور کمزور خارجی پوزیشن کے ساتھ پاکستان ایک چیلنجنگ معاشی صورت حال کا سامنا کر رہا ہے'' اگر ہم کوئی ریلیف لیے بغیر آئی ایم ایف کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں تو افزائش سست رہنے کا امکان ہے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ '' یہ حالیہ برسوں میں غیر ہموار اور procyclical معاشی پالیسیوں کے ورثے کی عکاسی کرتا ہے جن کا مقصد خطرات کو بڑھانے اور اساسی و اداراتی کمزوریوں کو طول دینے کی قیمت پر افزائش میں اضافہ کرنا تھا۔''
اس پیکیج میں ایک اور بڑا فرق یہ ہے کہ یہFATF کی شرائط پر پاکستان کے کاربند رہنے کو بھی مانیٹرکرے گا۔
آئی ایم ایف نے جوکچھ بھی تجویزکیا ہے ، وہ یہ کہنے کے مترادف ہے کہ پاکستان کو اپنے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ کو کم کرنا چاہیے کیونکہ اس ملک کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ڈیبٹ سروسنگ میں ڈیفالٹ کرے۔ ڈیبٹ سروسنگ کے بعد جو غیر ترقیاتی بجٹ میں واحد بڑی مد ہے، حکومت دفاعی بجٹ کم نہیں کرے گی ۔
اس پوری کہانی میں کہیں یہ ذکر موجود نہیں ہے کہ پاکستان کو CPEC پیکیج سے جس کا بہت چرچا کیا جاتا ہے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی صورت میں کتنی رقم ملے گی،کیونکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اکاؤنٹس میںاسے الگ سے نہیں دکھایا گیا۔یہ سوال بدستور اپنی جگہ موجود ہے کہ CPEC سے FDI کی صورت میں ملنے والی رقم کے بارے میں شفافیت نہیں ہے۔
فرق: 6.09 (17 شہری مراکز سے 53 آئٹمزکی قیمتوں کی بنیاد پر) اس سے پہلے بھی ہم22 مرتبہ آئی ایم ایف کی راہ اختیارکرچکے ہیں اور ہر بار آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط کے ناقدین کی طرف سے ملکی معیشت کا نظام چلانے والوںکو برا بھلا کہا گیا۔
اس بار آئی ایم ایف نے واضح کر دیا ہے کہ 6 بلین ڈالر کا اسٹاف لیول ایگریمنٹ '' پیشگی اقدامات پر بر وقت عمل درآمد اور بین الاقوامی شراکت داروں کے مالیاتی وعدوں کی تصدیق'' کے ساتھ مشروط ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایف بی آر کو یہ بتانا ہے کہ وہ اگلے بجٹ میں کس طرح محاصل کو بڑھائے گا۔ اسٹیٹ بینک کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ ڈالرکے مقابلے میں روپے کی قدر اب مارکیٹ کے آزادانہ بہاؤکی بنیاد پر طے ہو رہی ہے اور قرض کی بنیادی شرح سود میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اس سے ڈالرکے مقابلہ میں روپے کی قدرکے بلا روک ٹوک گرنے میں جلد بازی اور اسٹیٹ بینک کی جانب سے پہلے ہی بہت زیادہ شرح سود میں اضافہ کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔
آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاہدے پر اظہار خیال سے پہلے کچھ حقائق پر روشنی ڈالنا مناسب ہوگا۔
آئی ایم ایف ہمیں کیا کہہ رہا ہے۔ یہ کہ ملک اتنا ہی خرچ کرے جتنا ریونیو وہ حاصل کرتا ہے، یہ کہ ملک کو اپنے کرنٹ اکاؤنٹس کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ وسائل سے زیادہ خرچ کرنے کا سلسلہ رکے اور خسارہ اتنا رہنا چاہیے جو اپنے وسائل کے ذریعے پورا ہو سکے۔
ان مقاصد کے حصول کے لیے آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ ہم 39 ماہ طویل اس پروگرام کے پہلے سال میں اپنے محاصل کی آمدنی میں 700 بلین روپے تک اضافہ کریں۔آئی ایم ایف ان اصلاحات پر عمل درآمد کا سہ ماہی بنیاد پر بغور جائزہ لے گا۔ عمل درآمد کے پراسیس میں ناکامی کی صورت میں وہ پاکستان کو قرضہ کی اگلی قسط روک سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 6 بلین ڈالرکی جس رقم کا وعدہ کیا گیا ہے، وہ یک مشت نہیں ملے گی بلکہ کئی اقساط میں ادا کی جائے گی۔
مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ کے مطابق پاکستان کو اگلے سال قرض کی ادائیگی کی اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے لیے 12 بلین ڈالرکا فنانسنگ خلاء پورا کرنا ہے، مگر فی الوقت 6 بلین ڈالر آئی ایم ایف سے ملیں گے اور وہ بھی قسطوں میں جن کی مدت تین سال پر محیط ہے۔اضافی خلاء پرکرنے کے لیے پاکستان کو عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک اور اسلامی ترقیاتی بینک کے ذریعے رقم اکٹھا کرنا ہو گی، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہ ادارے اخراجات جاریہ کا خسارہ پورا کرنے کے لیے نہیں بلکہ ترقیاتی مقاصد کے لیے قرض دیتے ہیں، جو بات حفیظ شیخ نے نہیں بتائی وہ یہ ہے کہ وہ اس وسیع خلا کوکس طرح پورا کریں گے۔
اگر ہم آئی ایم ایف کی ترکیب پر عمل کرتے ہیں جو یہ ہے کہ آہستہ آہستہ بنیادی شرح سود میں اضافہ کیا جائے اور ڈالرکے مقابلہ میں روپے کی قدرکے تعین کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑ دیا جائے تو اس کا نتیجہ معیشت کے سکڑنے کی صورت میں نکلے گا جس کے آثار پہلے ہی ظاہر ہونا شروع ہوگئے ہیں۔
تازہ ترین اعداد وشمار کے مطابق رواں مالی سال (2018-19)کے دوران معاشی نمو مجموعی قومی پیداوار کے3.3 فیصد تک رہنے کی امید ہے،جو پچھلے آٹھ سالوں کی سب سے کم شرح ہے۔اب سوال یہ ہے کہ پاکستان اس پروگرام کے آخر تک کس طرح ایک ٹریلین روپے کا ریونیو جمع کرسکتا ہے اور وہ بھی ایسے حالات میں جب معیشت سکڑ رہی ہے؟
ایف بی آر کے نئے ذہین چیئر پرسن کہتے ہیں کہ وہ ایک ایسا کلچر پیدا کریں گے جس میں ٹیکس دہندگان کا احترام کیا جائے اور ٹیکس دینے والے نئے لوگ ٹیکس نیٹ میں آنے سے خوفزدہ نہ ہوں ۔ پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ پاکستان میں لوگ ٹیکس کیوں نہیں دیتے۔ مسئلہ یہ ہے کہ زیادہ تر لوگوں کا خیال ہے کہ ریاست ان کی بنیادی ضروریات پوری نہیں کر رہی، اس لیے وہ اپنی بیماری، بچوں کی تعلیم بیروزگاری اور بڑھاپے میں اخراجات کے لیے رقم محفوظ کرنا چاہتے ہیں۔
ایف بی آر کے چیئرمین چاہتے ہیں کہ جب لوگ علاج معالجے کے لیے ڈاکٹر کے پاس یا کھانے پینے کے لیے کسی ریسٹورنٹ میں جائیں تو وہاں سے رسید لیں تاکہ معیشت کو ضابطے میں لانے کا کلچر پیدا ہو، یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب وہ گوشوارے داخل کراتے وقت رقم کا ایک چھوٹا سا حصہ اخراجات کے طور پر کلیم کر سکیں۔معیشت کو با ضابطہ بناتے وقت لوگوں کے مفادات کا خیال رکھنا ہو گا۔ بے ضابطہ معیشت کا حجم کئی گنا بڑھ چکا ہے اور اندازہ ہے کہ اب یہ مجموعی قومی پیداوارکا لگ بھگ 100 فیصد ہے۔ متوازی یا غیر دستاویزی معیشت تیز رفتاری سے ترقی کرتی ہے کیونکہ اس پرکو ئی حکومتی پابندی نہیں ہوتی۔
لوگوں کے ٹیکس نہ دینے کا ایک اور بڑا محرک ملکی عدم استحکام ہے۔ لوگ ہمیشہ اس غیر یقینی میں مبتلا رہتے ہیں کہ آگے کیا ہوگا، اگرچہ آئی ایم ایف کے پریس ریلیز میں بجا طور پر اس جانب اشارہ کیا گیاہے کہ '' سست رفتار ترقی، زیادہ افراط زر، بھاری قرضوں اور کمزور خارجی پوزیشن کے ساتھ پاکستان ایک چیلنجنگ معاشی صورت حال کا سامنا کر رہا ہے'' اگر ہم کوئی ریلیف لیے بغیر آئی ایم ایف کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں تو افزائش سست رہنے کا امکان ہے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ '' یہ حالیہ برسوں میں غیر ہموار اور procyclical معاشی پالیسیوں کے ورثے کی عکاسی کرتا ہے جن کا مقصد خطرات کو بڑھانے اور اساسی و اداراتی کمزوریوں کو طول دینے کی قیمت پر افزائش میں اضافہ کرنا تھا۔''
اس پیکیج میں ایک اور بڑا فرق یہ ہے کہ یہFATF کی شرائط پر پاکستان کے کاربند رہنے کو بھی مانیٹرکرے گا۔
آئی ایم ایف نے جوکچھ بھی تجویزکیا ہے ، وہ یہ کہنے کے مترادف ہے کہ پاکستان کو اپنے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی بجٹ کو کم کرنا چاہیے کیونکہ اس ملک کے لیے یہ ممکن نہیں ہے کہ وہ ڈیبٹ سروسنگ میں ڈیفالٹ کرے۔ ڈیبٹ سروسنگ کے بعد جو غیر ترقیاتی بجٹ میں واحد بڑی مد ہے، حکومت دفاعی بجٹ کم نہیں کرے گی ۔
اس پوری کہانی میں کہیں یہ ذکر موجود نہیں ہے کہ پاکستان کو CPEC پیکیج سے جس کا بہت چرچا کیا جاتا ہے، براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی صورت میں کتنی رقم ملے گی،کیونکہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے اکاؤنٹس میںاسے الگ سے نہیں دکھایا گیا۔یہ سوال بدستور اپنی جگہ موجود ہے کہ CPEC سے FDI کی صورت میں ملنے والی رقم کے بارے میں شفافیت نہیں ہے۔