نیم فاقہ کشی کی نوبت

دال، چا ول،آٹا ، دودھ، تیل،گوشت، انڈے، مکھن، سبزی وغیرہ کے بغیر انسان کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے

zb0322-2284142@gmail.com

پاکستان بننے کے بعد 1947 میں ایک روپے کا ایک ڈالر تھا، پھر جب ہم نے pl480 اور امریکی امدادی گندم اور دودھ لینا شروع کیا تو تین اور پھر پانچ روپے کا ڈالر ہوگیا۔ مہنگائی اس وقت بھی تھی مگر ایک دو پیسے بڑھتی تھی، جب لیاقت علی خان نے ویتنام کی جنگ آزادی کی حمایت کی اور ایرانی آئل کمپنی جوکہ برطانیہ کے زیر تسلط تھی کوامریکا کے حوالے کرنے سے انکارکرنے پر، سامراجی اشاروں پر انھیں قتل کردیا گیا ۔ ملک کو سامراج مخالف اور خود مختار رکھنے کی جدوجہد میں کمیونسٹ پارٹی آف پا کستان کے رہنما حسن ناصر نے مختلف سامراج مخالف حلقہ اثر رکھنے والوں کو یکجا کرنے نکلے تو پارٹی پر پابندی لگادی گئی اور 1960میں انھیں لاہور شاہی قلعہ میں شدید جسمانی تشدد کرکے قتل کردیا گیا ، فیض احمد فیض بھی ان کے ساتھ قید میں تھے،اس وقت بھی مہنگائی تھی۔

ذوالفقارعلی بھٹو نے جب صنعتوں، اداروں اور ملوں کو قومی ملکیت میں لیا اور صحت وتعلیم کے شعبوں کے بجٹ میں خاطر خواہ اضافہ کیا تو انھیں بھی عدالتی قتل کرکے شہیدکردیا گیا۔کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں نذیرعباسی اور ڈاکٹر تاج کو بھی شہیدکردیا گیا، پھر بے نظیر بھٹو جب کار سازکراچی میں بیس لاکھ کے مجمعے سے مخاطب ہوئیں تو اصلی حکمران بوکھلا ہٹ کا شکار ہوگئے اور اپنے کارندوں کے ذریعے انھیں مارنے کی کوشش میں ناکام ہوئے تو لیاقت باغ میں خود شہید کردیا۔ مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی حکومتیں آئیں اور وہ بھی کوئی خالص عوام دوست حکومتیں نہیں تھیں۔اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ انھوں نے لوٹ مارکی انتہاکردی، لیکن موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنے کے بعد مہنگائی بڑھادی ہے یہ کوئی قطعی سچائی نہیں ہے بلکہ جب سے پی ٹی آئی نے حکومت سنبھالی ہے اسی وقت سے مہنگائی بڑھنا شروع ہوگئی ہے۔خفیہ طور پہ حکمران بنتے ہی عمران خان آئی ایم ایف سے عہد کرچکے تھے کہ ہم آپ کے احکامات کی بجا آوری کریں گے ۔

اس لیے بھی کہ وہ اقتدار میں آنے سے قبل جس طرح بھڑک بازی اور سبزباغ عوام کو دیکھائے تھے، اس کا نتیجہ کچھ ایسا ہی نکلنا تھا ۔ ہٹلر، ٹرمپ اور مودی نے بھی ایسی ہی بھڑک بازی کی تھی ، چونکہ آئی ایم ایف نے موجودہ حکومت کوکہہ رکھا تھا کہ عوام پر ٹیکس لگانے ، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کرنے، عوام کو دی جانے والی رعایتیں واپس لیے بغیر قرضے نہیں ملیں گے۔ پٹرول اور اشیاء خورونوش کی قیمتوں میں کئی بار اضافہ کیا گیا اور ہر تقریر میں کہا گیا کہ پچھلی حکومتوں کی مقروضیت کی وجہ سے ایسا کرنا پڑ رہا ہے۔ چلیے اس بات کو مان لیتے ہیں، مگر حکومت نے کیا عوام کو سہولت دینے کی خاطر ایک بھی بھلا کام کیا؟


دال، چا ول،آٹا ، دودھ، تیل،گوشت، انڈے، مکھن، سبزی وغیرہ کے بغیر انسان کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے، جب کہ انھیں چیزوں کی نرخوں میں اضافہ کیا گیا۔ جاگیرداروں اور سرمایہ داروںخاص کر ملٹی نیشنل اور ٹرانس نیشنل کمپنیوں پرکوئی ٹیکس لگانا تو درکنار مزید انھیں سہولتیں فرا ہم کی گئی ہیں ۔ایسی حکومت پاکستان میں اب تک نہیں آئی جس نے اسٹیٹ بینک، ایف بی آر اور مشیرخزانہ برائے وزیراعظم کو درآمد کرکے مقررکیا اور وہ ٹی وی چینلز پرآکر عوام کو سامرا جی اقتصادیات کا مثبت درس دیتے ہیں۔ ڈھٹائی کی حد یہ ہے کہ جنھیں سب پہچانتے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ '' ہم عوام کی بھلائی کے لیے کام کررہے ہیں اور تین سال میں سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا ۔''

اگر ایسا ہونا تھا تو آئی ایم ایف کی لوٹ کے خلاف، امریکی، مصری، برازیلی اور فلپائنی عوام سڑکوں پہ نہ نکلتے۔اس وقت امریکہ میں 10 فیصد، یعنی 30 کروڑکی آبادی میں 3 کروڑ، مصر میں22 فیصد، فلپائن میں 19فیصد اور برازیل میں 25فی صد لوگ بے روزگار نہ ہوتے۔ پاکستان میں ایک سال کے دوران ڈالرکم ازکم 250 روپے ہونے کا قوی امکان ہے۔غریب بستیوں یعنی 80 فیصد بازار میں ہم سودا لینے جاتے ہیں تو دکاندار سبزی ہو یا دال ، مصالحہ جات ہو یا اچار،گوشت ہو یا تیل کی قیمتیں دریافت کر نے سے ایک پاؤکی قیمت بتاتا ہے،اس لیے کہ اسے یہ معلوم ہے کہ عوام کی قوت خرید میں کمی آئی ہے۔مارکیٹ میں پھل نہیں ہیں ۔ دو چار سو روپے کلو وہ شخص جس کی تنخواہ یا آمدنی دس سے چالیس ہزار روپے ہے نہیں خرید سکتا ہے۔

اگرکوئی بچوں کی ضد میں لیتا بھی ہے تو ایک پاؤ سے زیادہ نہیں ۔ عام طور پرایک گھرانے کو ایک کلو دودھ ،ایک کلوگوشت، پانچ روٹی یا ایک پاؤ دال اور آدھاکلو سبزی اور آدھا کلو تیل کی ضرورت ناگزیر ہے تو دودھ ایک سو روپے،گوشت تین سے چار سو رو پے کلو، پانچ روٹی ساٹھ روپے، دال ایک پاؤ چالیس روپے ، سبزی ساٹھ روپے اور تیل سو روپے میں لینے ہونگے۔ پھر آپ ہی بتائیں کہ جس شخص کے لیے آدھا کلو دودھ پینے کی ضرورت ہے وہ ایک پاؤ پی رہا ہے، جسے کم ازکم ایک سیب کھانا ہے آدھا کھا رہا ہے ، دو انڈے کھانے کی ضرورت ہے تو ایک کھا رہا ہے، ایک پاؤ دال پکانے کی ضرورت ہے تو وہ آدھا پاؤ دال پکا رہا ہے ۔

پھر اس کی جسمانی لحمیات ، نشاستہ اور وٹامن کی ضرورتیں کیوں کر پوری ہونگی۔ اسی کوکہتے ہیں نیم فاقہ کشی کی زندگی ۔ جہاں تک یورپ ،امریکا ،آسٹریلیا، نیوزی لینڈ ، مشرق بعید کے ممالک ہیں تو انھوں نے لوٹ مار اور قتل وغارت گری کرکے پسماندہ ملکوں سے دولت لوٹی اور اب ترقی یافتہ، مہذب، متمدن اور جنٹل مین ہوگئے ہیں۔ اسپین، ڈچ، پرتگال اور برطانیہ نے پورے امریکا کو 1493سے 1890تک وہاں کی مقا می کروڑوں کی آ بادی کا قتل کیا اور یورپ کے لوگوں اور افریقہ سے غلاموں کو لے جاکر ان سے گنے کی کاشت کاری کروائی۔ اسی طرح برطانیہ ، پرتگال اور ڈچ سامراج نے جنوبی افریقہ ، انڈیا، چین ، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا میں کروڑوں عوام کا قتل کیا اور وہاں کی دولت کو لوٹا۔ نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کی تقریبا پوری آبادی کا قتل کیا گیا اور اب وہاں سارے یورپین ہیں، مقامی آبادی صرف چار فیصد ہے جب کہ امریکہ (جنوبی اورشمالی) میں مقامی آبادی صرف دو فیصد رہ گئی ہے اور اب بھی امریکی اور چینی سامراج پسماندہ ملکوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ پاکستان کی حزب اختلاف بھی مہنگائی کے خلاف عوامی تحریک چلانے سے ہچکچا رہی ہے کہ کہیں قیادت عوام کے ہا تھوں میں نہ آجائے ، اگر انھوں نے سڑکوں کا رخ نہ کیا تو عوام خود سڑکوں پہ آجائیں گے ، جیسا کہ فرانس میں آچکے ہیں ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تمام پارٹیاں مہنگائی کے خلاف عام ہڑتال کی کال دیں۔
Load Next Story