ماڈل بازار عوام بے زار
اگر رمضان بازار کے معاملات میں اس قدر مداخلت کی جارہی ہے تو ماڈل بازاروں کی صورتحال کیا ہوگی؟
رمضان المبارک کے بابرکت ماہ میں جہاں پیسہ گردش کرتا ہے، وہیں مہنگائی میں بھی ہوشربا اضافہ ہوجاتا ہے۔ رواں سال تو اس مہینے میں غریب آدمی کی گویا کمر ہی ٹوٹ گئی۔ پھل، سبزی اور اشیائے خورونوش کی قیمتیں آسمان کو پہنچ گئیں۔ افطار دسترخوانوں کی رونقیں ماند پڑگئیں۔ لیکن اس دوران پنجاب بھر میں خصوصی رمضان بازار لگائے گئے، جن سے عام آدمی کو لائن میں لگ کر ریلیف تلاش کرنا پڑا۔
اس وقت صرف لاہور شہر ہی میں 30 کے قریب رمضان بازار ہیں۔ گزشتہ دنوں ان رمضان بازاروں کے دورے کا موقع ملا۔ وہاں لوگوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگا۔ پھر دل میں خیال آیا کہ مہنگائی کے اس دور میں جہاں عام آدمی کےلیے چولہا جلانا مشکل ہورہا ہے، وہیں یہ رمضان بازار ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہیں۔ لیکن دفعتاً خیال آیا کہ رمضان کے بعد عوام کا کیا ہوگا؟
اس اہم مسئلے کا حل سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ماڈل بازار کمپنی بنا کر نکالا۔ اس کمپنی کے تحت پنجاب بھر میں ماڈل بازار لگائے گئے۔ جن کو چلانے کےلیے ایک آزاد اور خودمختار بورڈ آف ڈائریکٹرز بنایا، جس میں سات ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی جبکہ پانچ سابق سرکاری آفیسرز شامل تھے۔ اس وقت پنجاب بھر میں 32 ماڈل بازار قائم ہیں، جن میں سے صرف لاہور میں 9 ماڈل بازار موجود ہیں۔
ماڈل بازار کمپنی ایک آزاد ادارہ ہے، جو اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ جن میں گورنمنٹ آف پنجاب ماڈل بازار کےلیے جگہ فراہم کرتی ہے، جبکہ بازار کے دیگر معاملات بورڈ آف ڈائریکٹرز چلاتا ہے۔ ماڈل بازار میں اشیائے ضروریہ اور خورونوش ارزاں اور کنٹرولڈ نرخوں پر دستیاب ہیں۔ یہی نہیں اس ماڈل بازار میں شہریوں کےلیے مرغی اور گوشت مارکیٹ ریٹ سے سستا ملتا ہے۔
کمپنی نے بین الاقوامی معیار کے مطابق خوبصورت ماڈل بازار بنائے۔ جن کے خارجی اور داخلے راستے الگ الگ ہیں۔ صارفین کےلیے جدید واک تھرو گیٹ تعمیر کیے۔ ماڈل بازاروں کی باؤنڈری والز خوبصورت تیار کیں۔ بازاروں کو تخریب کاری سے بچانے کےلیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے۔ چاروں اطراف خاردار تاریں لگائی گئیں۔ شکایات اور تجاویز کےلیے خصوصی کاؤنٹرز لگائے گئے۔ جدید انداز میں دکانیں تعمیر ہوئیں۔ ماڈل بازار میں بچوں کےلیے پلے لینڈز بھی تعمیر کیے گئے۔ الغرض ماڈل بازار میں داخل ہوتے ہی خوشگوار حیرت کا احساس ہوتا ہے۔ اپنی بہترین اور منظم کارکردگی کے باعث گزشتہ سال تک کمپنی خودکفیل ہوگئی تھی۔ جو اپنے وسائل کے ذریعے معاملات کو بحسن چلا رہی تھی۔
لا ڈپارٹمنٹ کے تحت ماڈل بازاروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ایک تہائی آزاد اور غیر سیاسی ممبران کی تعیناتی ضروری ہے۔ لیکن یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پنجاب حکومت گزشتہ ایک سال سے بعض مبینہ سیاسی وجوہات کی بنا پر کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تعینات نہیں کرسکی۔ کیوں کہ گزشتہ سال پنجاب حکومت کے خاتمے اور ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ڈی نوٹیفائی ہونے کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبران کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہوسکی۔ جبکہ ان ہی مبینہ سیاسی وجوہات کی بنا پر تجربہ کار، اہل اور قابل غیر سیاسی افراد کو بھی بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل نہیں کیا جاسکا۔
اب عوام کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ لاہور کے علاقے سبزہ زار میں رمضان بازار کے دورے کے دوران شہریوں اور انتظامیہ نے بازاروں میں سیاسی مداخلت کے الزامات عائد کیے۔ ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ رمضان بازار کے انتظامات کے حوالے سے کمشنر لاہور کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس ہوا۔ جس میں تمام ضلعی افسران نے وزیر صنعت کی جانب سے بازاروں کے معاملے میں دباؤ ڈالنے کی شکایت کی۔ افسران کے مطابق وزیر موصوف انہیں من پسند افراد کو نوازنے کےلیے خود فون کرکے دباؤ ڈالتے ہیں۔ جبکہ وزیر صنعت اپنے چند کارندوں کو رمضان بازار کے معاملات کو چلانے کےلیے بھیج دیتے ہیں۔ دوسری جانب ضلعی انتظامیہ کے افسر نے الزام عائد کیا کہ کئی افراد پر جھوٹی ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی ہے۔
اگر رمضان بازار کے معاملات میں اس قدر مداخلت کی جارہی ہے تو ماڈل بازاروں کی صورتحال کیا ہوگی؟ ماڈل بازار وزارت صنعت کی سربراہی میں کام کرتے ہیں۔ وزیر صنعت کا رمضان بازاروں کے حوالے سے رویہ ماڈل بازاروں کےلیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
گزشتہ دنوں رمضان بازاروں کے دورے کے دوران جب وزیر صنعت سے ماڈل بازاروں کے حوالے سے سوال کیا گیا تو وہ اس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دے سکے۔ ماڈل بازار کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی عدم تعیناتی کے باعث کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ گزشتہ سال دسمبر میں بہاولپور کا ماڈل بازار آتشزدگی کے باعث تباہ ہوگیا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے29 دسمبر کو بہاولپور کا دورہ کیا اور ماڈل بازار کی تعمیر کا فوری حکم جاری کیا۔ لیکن پانچ ماہ گزرنے کے باوجود ماڈل بازار کی تعمیر نہ ہوسکی۔ جبکہ شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ریڑھیوں اور ٹھیلوں پر اپنی دکانیں سجا رکھی ہیں۔ محکمہ خزانہ کے مطابق وزرات صنعت کی جانب سے انہیں تاحال فنڈز جاری نہیں ہوسکے، جس کے باعث ماڈل بازار بہاولپور کو تاحال تعمیر نہیں کیا جاسکا۔ اسی طرح بورے والا میں بھی ماڈل بازار کی منظوری گزشتہ دور حکومت میں ہوگئی تھی۔ لیکن بورڈ آف ڈائریکٹرز تعینات نہ ہونے کے باعث اس ماڈل بازار کو بھی تعمیر نہیں کیا جاسکا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب حکومت اپنے دعوؤں اور وعدوں کو پورا کرتے ہوئے اداروں کو خودمختار بنائے اور ماڈل بازار کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو غیر سیاسی بنائے، تاکہ عام آدمی کو ریلیف دیا جاسکے۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تعیناتی جہاں وزیراعلیٰ پنجاب کےلیے ایک کڑا امتحان ہے، وہیں وزیر صنعت کےلیے بھی اپنی پارٹی کے منشور کو پورا کرنے کےلیے ایک بہترین موقع ہوگا۔
حکومت پنجاب کو چاہیے کہ صوبہ بھر میں نہ صرف ضلعی سطح پر بلکہ تحصیل اور قصبوں میں بھی ماڈل بازار تعمیر کیے جائیں تاکہ صوبے کے عوام کو سہولیات میسر آسکیں اور رمضان المبارک کے اختتام کے بعد بھی انہیں فائدہ پہنچے۔ پنجاب کی طرح دیگر صوبوں کو بھی اس کی پیروی کرنا ہوگی، کیوں کہ اس وقت عام آدمی کو ریلیف کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اس وقت صرف لاہور شہر ہی میں 30 کے قریب رمضان بازار ہیں۔ گزشتہ دنوں ان رمضان بازاروں کے دورے کا موقع ملا۔ وہاں لوگوں کو دیکھ کر دل خون کے آنسو رونے لگا۔ پھر دل میں خیال آیا کہ مہنگائی کے اس دور میں جہاں عام آدمی کےلیے چولہا جلانا مشکل ہورہا ہے، وہیں یہ رمضان بازار ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہیں۔ لیکن دفعتاً خیال آیا کہ رمضان کے بعد عوام کا کیا ہوگا؟
اس اہم مسئلے کا حل سابق وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ماڈل بازار کمپنی بنا کر نکالا۔ اس کمپنی کے تحت پنجاب بھر میں ماڈل بازار لگائے گئے۔ جن کو چلانے کےلیے ایک آزاد اور خودمختار بورڈ آف ڈائریکٹرز بنایا، جس میں سات ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی جبکہ پانچ سابق سرکاری آفیسرز شامل تھے۔ اس وقت پنجاب بھر میں 32 ماڈل بازار قائم ہیں، جن میں سے صرف لاہور میں 9 ماڈل بازار موجود ہیں۔
ماڈل بازار کمپنی ایک آزاد ادارہ ہے، جو اپنے فیصلے خود کرتی ہے۔ جن میں گورنمنٹ آف پنجاب ماڈل بازار کےلیے جگہ فراہم کرتی ہے، جبکہ بازار کے دیگر معاملات بورڈ آف ڈائریکٹرز چلاتا ہے۔ ماڈل بازار میں اشیائے ضروریہ اور خورونوش ارزاں اور کنٹرولڈ نرخوں پر دستیاب ہیں۔ یہی نہیں اس ماڈل بازار میں شہریوں کےلیے مرغی اور گوشت مارکیٹ ریٹ سے سستا ملتا ہے۔
کمپنی نے بین الاقوامی معیار کے مطابق خوبصورت ماڈل بازار بنائے۔ جن کے خارجی اور داخلے راستے الگ الگ ہیں۔ صارفین کےلیے جدید واک تھرو گیٹ تعمیر کیے۔ ماڈل بازاروں کی باؤنڈری والز خوبصورت تیار کیں۔ بازاروں کو تخریب کاری سے بچانے کےلیے سی سی ٹی وی کیمرے نصب کیے گئے۔ چاروں اطراف خاردار تاریں لگائی گئیں۔ شکایات اور تجاویز کےلیے خصوصی کاؤنٹرز لگائے گئے۔ جدید انداز میں دکانیں تعمیر ہوئیں۔ ماڈل بازار میں بچوں کےلیے پلے لینڈز بھی تعمیر کیے گئے۔ الغرض ماڈل بازار میں داخل ہوتے ہی خوشگوار حیرت کا احساس ہوتا ہے۔ اپنی بہترین اور منظم کارکردگی کے باعث گزشتہ سال تک کمپنی خودکفیل ہوگئی تھی۔ جو اپنے وسائل کے ذریعے معاملات کو بحسن چلا رہی تھی۔
لا ڈپارٹمنٹ کے تحت ماڈل بازاروں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں ایک تہائی آزاد اور غیر سیاسی ممبران کی تعیناتی ضروری ہے۔ لیکن یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ پنجاب حکومت گزشتہ ایک سال سے بعض مبینہ سیاسی وجوہات کی بنا پر کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو تعینات نہیں کرسکی۔ کیوں کہ گزشتہ سال پنجاب حکومت کے خاتمے اور ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ڈی نوٹیفائی ہونے کے بعد بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبران کی مطلوبہ تعداد پوری نہ ہوسکی۔ جبکہ ان ہی مبینہ سیاسی وجوہات کی بنا پر تجربہ کار، اہل اور قابل غیر سیاسی افراد کو بھی بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل نہیں کیا جاسکا۔
اب عوام کو کئی مسائل کا سامنا ہے۔ لاہور کے علاقے سبزہ زار میں رمضان بازار کے دورے کے دوران شہریوں اور انتظامیہ نے بازاروں میں سیاسی مداخلت کے الزامات عائد کیے۔ ضلعی انتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا کہ رمضان بازار کے انتظامات کے حوالے سے کمشنر لاہور کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس ہوا۔ جس میں تمام ضلعی افسران نے وزیر صنعت کی جانب سے بازاروں کے معاملے میں دباؤ ڈالنے کی شکایت کی۔ افسران کے مطابق وزیر موصوف انہیں من پسند افراد کو نوازنے کےلیے خود فون کرکے دباؤ ڈالتے ہیں۔ جبکہ وزیر صنعت اپنے چند کارندوں کو رمضان بازار کے معاملات کو چلانے کےلیے بھیج دیتے ہیں۔ دوسری جانب ضلعی انتظامیہ کے افسر نے الزام عائد کیا کہ کئی افراد پر جھوٹی ایف آئی آر بھی درج کرائی گئی ہے۔
اگر رمضان بازار کے معاملات میں اس قدر مداخلت کی جارہی ہے تو ماڈل بازاروں کی صورتحال کیا ہوگی؟ ماڈل بازار وزارت صنعت کی سربراہی میں کام کرتے ہیں۔ وزیر صنعت کا رمضان بازاروں کے حوالے سے رویہ ماڈل بازاروں کےلیے بھی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
گزشتہ دنوں رمضان بازاروں کے دورے کے دوران جب وزیر صنعت سے ماڈل بازاروں کے حوالے سے سوال کیا گیا تو وہ اس کا کوئی خاطر خواہ جواب نہیں دے سکے۔ ماڈل بازار کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کی عدم تعیناتی کے باعث کئی مسائل جنم لے رہے ہیں۔ گزشتہ سال دسمبر میں بہاولپور کا ماڈل بازار آتشزدگی کے باعث تباہ ہوگیا تھا۔ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے29 دسمبر کو بہاولپور کا دورہ کیا اور ماڈل بازار کی تعمیر کا فوری حکم جاری کیا۔ لیکن پانچ ماہ گزرنے کے باوجود ماڈل بازار کی تعمیر نہ ہوسکی۔ جبکہ شہریوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ریڑھیوں اور ٹھیلوں پر اپنی دکانیں سجا رکھی ہیں۔ محکمہ خزانہ کے مطابق وزرات صنعت کی جانب سے انہیں تاحال فنڈز جاری نہیں ہوسکے، جس کے باعث ماڈل بازار بہاولپور کو تاحال تعمیر نہیں کیا جاسکا۔ اسی طرح بورے والا میں بھی ماڈل بازار کی منظوری گزشتہ دور حکومت میں ہوگئی تھی۔ لیکن بورڈ آف ڈائریکٹرز تعینات نہ ہونے کے باعث اس ماڈل بازار کو بھی تعمیر نہیں کیا جاسکا۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ پنجاب حکومت اپنے دعوؤں اور وعدوں کو پورا کرتے ہوئے اداروں کو خودمختار بنائے اور ماڈل بازار کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو غیر سیاسی بنائے، تاکہ عام آدمی کو ریلیف دیا جاسکے۔ بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تعیناتی جہاں وزیراعلیٰ پنجاب کےلیے ایک کڑا امتحان ہے، وہیں وزیر صنعت کےلیے بھی اپنی پارٹی کے منشور کو پورا کرنے کےلیے ایک بہترین موقع ہوگا۔
حکومت پنجاب کو چاہیے کہ صوبہ بھر میں نہ صرف ضلعی سطح پر بلکہ تحصیل اور قصبوں میں بھی ماڈل بازار تعمیر کیے جائیں تاکہ صوبے کے عوام کو سہولیات میسر آسکیں اور رمضان المبارک کے اختتام کے بعد بھی انہیں فائدہ پہنچے۔ پنجاب کی طرح دیگر صوبوں کو بھی اس کی پیروی کرنا ہوگی، کیوں کہ اس وقت عام آدمی کو ریلیف کی ضرورت ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔