کراچی کے مسئلے کا سیاسی حل
قائد الطاف حسین کے کراچی شہر میں فوج کے مطالبے نے سیاسی فضا میں ہلچل مچا دی۔
منی پاکستان میں برسوں سے جاری بدامنی کی لہرکے باعث حالات اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ منگل کو اہم ترین اور مقبول سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے سندھ حکومت کو ناکام قرار دیتے ہوئے وفاقی حکومت سے کراچی کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کر کے سیاسی فضا میں ہلچل مچا دی، جس کے باعث قومی اسمبلی و سینیٹ میں متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی کے اراکین کے درمیان اس موضوع پر خاصی گرما گرمی بھی ہوئی، جب کہ دیگر سیاسی جماعتوں اور وفاقی و صوبائی حکومتوں نے بھی اپنی متضاد آرا کا اظہارکیا۔ شدید ترین ردعمل اپوزیشن رہنما خورشید شاہ کا تھا جن کے خیال میں متحدہ کا یہ مطالبہ سیاسی غلطی اور جمہوریت کے منہ پر طمانچہ ہے۔ سینیٹر پرویز رشید کے مطابق اگر سندھ حکومت کہے تو سول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج بلائی جا سکتی ہے۔
دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان چوہدری افتخار نے کوئٹہ میں بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے کیس کی سماعت کے دوران لاپتہ افراد کی لاشیں کراچی سے ملنے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہ ملک دشمن ہیں، اگر کوئی جرم میں ملوث ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ سیاسی رہنمائوں کے خیالات ومطالبات اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس وقت فوج صوبہ خبیر پختونخوا، فاٹا، سوات اور جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے قلع قمع کے لیے مصروف عمل ہے اور پاک بھارت سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہو چکا ہے، ایسے میں فوج کا کراچی میں آنا اس کے مسائل میں مزید اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور اس میں برسوں سے جاری بدامنی نے ملکی معیشت کو کمزور کر دیا ہے۔
شہر میں تاجروں اور صنعتکاروں کے قتل، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات کا تدارک نہ ہونے اور ہڑتالوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں کے باعث سرمایہ کار ملک چھوڑ کر چلے گئے اور اپنا سرمایہ بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائیشیا، دبئی اور افریقہ کے بعض ممالک میں لگا دیا، جب کہ بعض صنعتکار پنجاب کے مختلف شہروں میں صنعتی یونٹوں سمیت منتقل ہو گئے۔ وہ کراچی جو ملک بھر کے بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرنے میں مشہور تھا آج وہاں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث لاکھوں افراد پر روزگار کے دروازے بند ہو چکے ہیں، اسٹریٹ کرائمز تھمنے کا نام نہیں لیتے۔ امن و امان کی خرابی کا ذمے دار کسی ایک فرد، ادارے، حکومت یا جماعت کو ہرگز نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے، بلکہ اس کے مختلف سماجی، سیاسی اور انتظامی مسائل ہیں جن کا بہتر حل تلاش کیے بغیر کراچی میں دیرپا امن قائم نہیں ہو سکتا۔ غریب پرور شہر قائد میں پاکستان کی تمام قومیتوں کے افراد رہتے ہیں اور یہ پاکستان کی ثقافتی اور لسانی اکائیوں کا ایک حسین گلدستہ ہے جس کی مہک سے پورا پاکستان مہکتا تھا، لیکن ارباب بست و کشاد کی غلط پالیسیوں نے ایسے مسائل کو جنم دیا کہ امن کا گہوارہ کراچی جہنم زار بن گیا۔
منگل کو بھی کراچی میں فائرنگ اور پرتشدد واقعات کے دوران 2 سیاسی کارکنوں سمیت 15 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ سازشوں کا ایک جال ہے جو بُنا جا چکا ہے۔ کراچی میں سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ کشیدگی تو ایک طرف رہی، جرائم پیشہ گروہوں کی بھرمار نے اغوا برائے تاوان کو ایک منافع بخش انڈسٹری کی شکل دے دی ہے جس کی وجہ سے با اثر اور دولت مند افراد نے بلٹ پروف کے ساتھ اب بم پروف گاڑیاں بنوانا شروع کر دی ہیں۔ لیکن عام آدمی کا لہوگلی، کوچوں اور سڑکوں پر بہایا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ کراچی اتنا بڑا شہر ہے اور اتنے بڑے شہر میں دو چار قتل کی وارداتیں تو ہو ہی جاتی ہیں، جب کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں ماہ میں 19 سے 25 اگست کے دوران صرف 7 روز میں 61 افراد قتل ہو چکے ہیں۔ ملک میں جمہوریت اور جمہوری روایات پروان چڑھ رہی ہیں، ایسے میں کراچی جیسے شہر میں فوج کو مصروف کرنا جمہوری عمل کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے، سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ مسائل کا حل مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر نکالیں۔
کراچی میں پی پی پی، اے این پی، پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اورایم کیو ایم اپنا اپنا حلقہ اثر اور مینڈیٹ رکھتی ہیں، ان سب کو کراچی کے حالات کی بہتری کے لیے تجاویز دینی چاہئیں۔ جب تک ساری سیاسی قوتیں متفقہ طور پر ایک رائے قائم نہیں کر لیتیں انھیں مذاکرات کی میز پر سے نہیں اٹھنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں غیر جانبدار افسران کی فہرست بنا کر ان کو تعینات کیا جائے اور آپس میں مل بیٹھ کر معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں رینجرز اور پولیس ناکام ہو چکی ہیں اور اس کی ذمے داری سندھ حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن ان مسائل کو حل کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر سوچنا ہو گا۔ کراچی کے تاجروں نے شہر میں جاری بدامنی کا ذمے دار صوبائی حکومت کو قرار دیتے ہوئے سندھ اسمبلی کے گھیرائو کا اعلان کیا ہے۔ کراچی میں پہلے بھی فوجی آپریشنز ہو چکے ہیں، فوج بلانے سے مسائل کا عارضی حل تو ممکن ہو جاتا ہے لیکن مستقل حل ممکن نہیں ہے۔
پائیدار اور پر امن حل کے لیے ضروری ہے کہ کراچی کے تمام سیاسی، اقتصادی، لسانی اور سماجی مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی رہنما سر جوڑ کر بیٹھیں، سیاست دان آخر اس اہم ترین نقطے پر غور کیوں نہیں کرتے کہ فوج آنے کے بعد سول کورٹس غیر فعال اور جمہوریت معطل ہو جائے گی جو کہ سیاست دانوں کی ناکامی ہی کہلائے گی۔ وفاقی حکومت کو بھی کراچی میں امن و امان کی بحالی کو صوبائی مسئلہ قرار دے کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ تمام جمہوریت پسندوں کی آرا اور تجاویز کی روشنی میں امن و امان کی بحالی اور قاتلوں اور دہشت گردوں کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کے ساتھ ساتھ ایسے دور رس اقدامات اٹھانے چاہئیں جس سے مستقل طور پر یہاں امن بحال ہو سکے۔ کراچی میں امن و امان کی بحالی سے ہی ترقی کے روڈ میپ پر عملدرآمد ممکن ہو گا۔
دوسری جانب چیف جسٹس آف پاکستان چوہدری افتخار نے کوئٹہ میں بلوچستان سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے کیس کی سماعت کے دوران لاپتہ افراد کی لاشیں کراچی سے ملنے کو تشویشناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو لوگ ایسا کر رہے ہیں وہ ملک دشمن ہیں، اگر کوئی جرم میں ملوث ہے تو اس کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ سیاسی رہنمائوں کے خیالات ومطالبات اپنی جگہ لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس وقت فوج صوبہ خبیر پختونخوا، فاٹا، سوات اور جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے قلع قمع کے لیے مصروف عمل ہے اور پاک بھارت سرحد پر کشیدگی میں اضافہ ہو چکا ہے، ایسے میں فوج کا کراچی میں آنا اس کے مسائل میں مزید اضافے کا سبب بن سکتا ہے۔ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے اور اس میں برسوں سے جاری بدامنی نے ملکی معیشت کو کمزور کر دیا ہے۔
شہر میں تاجروں اور صنعتکاروں کے قتل، اغوا برائے تاوان اور بھتہ خوری کے واقعات کا تدارک نہ ہونے اور ہڑتالوں کے نہ ختم ہونے والے سلسلوں کے باعث سرمایہ کار ملک چھوڑ کر چلے گئے اور اپنا سرمایہ بنگلہ دیش، انڈونیشیا، ملائیشیا، دبئی اور افریقہ کے بعض ممالک میں لگا دیا، جب کہ بعض صنعتکار پنجاب کے مختلف شہروں میں صنعتی یونٹوں سمیت منتقل ہو گئے۔ وہ کراچی جو ملک بھر کے بے روزگار افراد کو روزگار فراہم کرنے میں مشہور تھا آج وہاں امن و امان کی مخدوش صورتحال کے باعث لاکھوں افراد پر روزگار کے دروازے بند ہو چکے ہیں، اسٹریٹ کرائمز تھمنے کا نام نہیں لیتے۔ امن و امان کی خرابی کا ذمے دار کسی ایک فرد، ادارے، حکومت یا جماعت کو ہرگز نہیں ٹھہرایا جا سکتا ہے، بلکہ اس کے مختلف سماجی، سیاسی اور انتظامی مسائل ہیں جن کا بہتر حل تلاش کیے بغیر کراچی میں دیرپا امن قائم نہیں ہو سکتا۔ غریب پرور شہر قائد میں پاکستان کی تمام قومیتوں کے افراد رہتے ہیں اور یہ پاکستان کی ثقافتی اور لسانی اکائیوں کا ایک حسین گلدستہ ہے جس کی مہک سے پورا پاکستان مہکتا تھا، لیکن ارباب بست و کشاد کی غلط پالیسیوں نے ایسے مسائل کو جنم دیا کہ امن کا گہوارہ کراچی جہنم زار بن گیا۔
منگل کو بھی کراچی میں فائرنگ اور پرتشدد واقعات کے دوران 2 سیاسی کارکنوں سمیت 15 افراد کو قتل کر دیا گیا۔ سازشوں کا ایک جال ہے جو بُنا جا چکا ہے۔ کراچی میں سیاسی، لسانی اور فرقہ وارانہ کشیدگی تو ایک طرف رہی، جرائم پیشہ گروہوں کی بھرمار نے اغوا برائے تاوان کو ایک منافع بخش انڈسٹری کی شکل دے دی ہے جس کی وجہ سے با اثر اور دولت مند افراد نے بلٹ پروف کے ساتھ اب بم پروف گاڑیاں بنوانا شروع کر دی ہیں۔ لیکن عام آدمی کا لہوگلی، کوچوں اور سڑکوں پر بہایا جا رہا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ کہتے ہیں کہ کراچی اتنا بڑا شہر ہے اور اتنے بڑے شہر میں دو چار قتل کی وارداتیں تو ہو ہی جاتی ہیں، جب کہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق رواں ماہ میں 19 سے 25 اگست کے دوران صرف 7 روز میں 61 افراد قتل ہو چکے ہیں۔ ملک میں جمہوریت اور جمہوری روایات پروان چڑھ رہی ہیں، ایسے میں کراچی جیسے شہر میں فوج کو مصروف کرنا جمہوری عمل کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے، سیاست دانوں کو چاہیے کہ وہ مسائل کا حل مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر نکالیں۔
کراچی میں پی پی پی، اے این پی، پی ٹی آئی، مسلم لیگ ن اورایم کیو ایم اپنا اپنا حلقہ اثر اور مینڈیٹ رکھتی ہیں، ان سب کو کراچی کے حالات کی بہتری کے لیے تجاویز دینی چاہئیں۔ جب تک ساری سیاسی قوتیں متفقہ طور پر ایک رائے قائم نہیں کر لیتیں انھیں مذاکرات کی میز پر سے نہیں اٹھنا چاہیے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں غیر جانبدار افسران کی فہرست بنا کر ان کو تعینات کیا جائے اور آپس میں مل بیٹھ کر معاملات کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ یہ حقیقت ہے کہ کراچی میں رینجرز اور پولیس ناکام ہو چکی ہیں اور اس کی ذمے داری سندھ حکومت پر بھی عائد ہوتی ہے لیکن ان مسائل کو حل کرنے کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر سوچنا ہو گا۔ کراچی کے تاجروں نے شہر میں جاری بدامنی کا ذمے دار صوبائی حکومت کو قرار دیتے ہوئے سندھ اسمبلی کے گھیرائو کا اعلان کیا ہے۔ کراچی میں پہلے بھی فوجی آپریشنز ہو چکے ہیں، فوج بلانے سے مسائل کا عارضی حل تو ممکن ہو جاتا ہے لیکن مستقل حل ممکن نہیں ہے۔
پائیدار اور پر امن حل کے لیے ضروری ہے کہ کراچی کے تمام سیاسی، اقتصادی، لسانی اور سماجی مسائل کے حل کے لیے تمام سیاسی رہنما سر جوڑ کر بیٹھیں، سیاست دان آخر اس اہم ترین نقطے پر غور کیوں نہیں کرتے کہ فوج آنے کے بعد سول کورٹس غیر فعال اور جمہوریت معطل ہو جائے گی جو کہ سیاست دانوں کی ناکامی ہی کہلائے گی۔ وفاقی حکومت کو بھی کراچی میں امن و امان کی بحالی کو صوبائی مسئلہ قرار دے کر نظر انداز نہیں کرنا چاہیے بلکہ تمام جمہوریت پسندوں کی آرا اور تجاویز کی روشنی میں امن و امان کی بحالی اور قاتلوں اور دہشت گردوں کے خلاف بے رحمانہ آپریشن کے ساتھ ساتھ ایسے دور رس اقدامات اٹھانے چاہئیں جس سے مستقل طور پر یہاں امن بحال ہو سکے۔ کراچی میں امن و امان کی بحالی سے ہی ترقی کے روڈ میپ پر عملدرآمد ممکن ہو گا۔