رمضان اور عوام کی ریاستِ مدینہ
جو بھی تھوڑی بہت ریاستِ مدینہ عام آدمی نے عام آدمی کے لیے بنا رکھی ہے اسے کیوں نہ غنیمت سمجھا جائے ؟
لاہور:
ماہِ رمضان اختتامی عشرے میں داخل ہو گیا ہے۔ہر برس کی طرح اس بار بھی دو پاکستان دیکھنے کو ملے۔ایک وہ جس میں خشک اجناس ، سبزیوں اور پھلوں کے آڑھتیوں اور ذخیرہ اندوزوں نے بچت بازار ، سستا بازار اور قیمتوں پر کنٹرول کے سرکاری ہدایت ناموں کو اڑا کے پھینک دیا۔ دوسرا پاکستان وہ جس نے افطار و سحری کے دوران اپنا دل کھول کے اسے دسترخوان میں بدل دیا۔
حکومت تو جب ریاستِ مدینہ کی جھلک دکھائے گی تب دکھلائے گی مگر آج اگر ریاستِ مدینہ کا نظارہ دیکھنا ہو تو فجر اور مغرب سے ذرا پہلے اس ملک کے شہروں، قصبات بالخصوص سب سے بڑے شہر کراچی کی سڑکوں پر ملاحظہ ہو سکتا ہے۔
کل سحری کے وقت کراچی کی معروف نمائش چورنگی کی طرف جانا ہوا جہاں دسترِ خوان ِ امام حسین کے تحت معمول کا سحری لنگر رواں تھا۔قریباً دس ہزار مرد ، خواتین اور بچے نہایت ترتیب کے ساتھ بیٹھے سحری تناول کر رہے تھے۔ڈسپلن اس لیے تھا کہ ان سب کو یقین تھا کہ یہاں سے کوئی بھوکا نہیں اٹھے گا۔
جب سے رمضان شروع ہوا ہے، یہ دسترخوان جاری ہے۔مینیو میں شتر مرغ ، سیخ کباب ، روسٹ سمیت وہ تمام ڈشز ایک ایک کر کے ہفتے کے ساتوں دن تیار ہوتی ہیں۔ اس مینیو کے پیچھے فلسفہ یہ ہے کہ جو لوگ زندگی میں شائد ہی کبھی ایسے کھانے خریدنا یا کھانا افورڈ کر سکتے ہیں اور جو صرف خواب میں ہی یہ کھانے چکھ سکتے ہوں، ان نعمتوں اور ذائقوں پر زندگی میں کم ازکم ایک بار ان افتادگانِ خاک کا بھی حق ہے۔جو تنظیم یہ دسترخوان منظم کر رہی ہے اس کے ناظم ظفر عباس کا کہنا ہے کہ بارہ سو رضاکار یہ سیٹ اپ چلا رہے ہیں۔
ظاہر ہے اتنے بڑے دستر خوان کا خرچہ بھی لاکھوں روپے میں ہے۔مگر اس کے لیے چندہ جمع نہیں کیا جاتا۔ روزانہ کسی ایک صاحبِ حیثیت کی جانب سے ہزاروں مہمانوں کی خدمت کی جاتی ہے۔ان صاحبانِ حیثیت میں شیعہ ، بریلوی ، دیوبندی ، غیر مسلم پاکستانی ، دیارِ غیر میں مقیم پاکستانی سب ہی شامل ہیں۔کچھ اپنا نام خفیہ رکھنا چاہتے ہیں، کچھ تنظیم کی ویب سائٹ پر اپنا نام ڈالنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔اس تنظیم کے تحت اندرونِ سندھ ، لاہور اور پشاور میں بھی حسینی دسترخوان بچھائے جاتے ہیں مگر سب سے بڑی سرگرمی کراچی میں ہی ہے۔
جہاں تک افطار کا معاملہ ہے تو چند برس پہلے تک کراچی میں صرف مساجد ، بڑی خیراتی تنظیمیں ، جماعتِ اسلامی کی فلاحی شاخ الخدمت ، سیلانی دسترخوان ، اسٹاک ایکسچینج کے سیٹھ لوگ اور چند سرکردہ تجار ہی شاہراہوں ، محلوں ، گلیوں میں اجتماعی افطار کا اہتمام کرتے تھے۔مگر تین چار برس سے یہ دائرہ پھیلتا جا رہا ہے۔اب نسبتاً آسودہ حال علاقوں سے لے کر متوسط اور نچلے متوسط محلوں تک جس خاندان میں جتنی سکت ہے وہ اپنے طور پر راہگیروں کی افطاری کا اہتمام کرتا ہے۔اور نہیں تو گھر کے باہر ایک میز ہی لگا دیتا ہے جس پر شربت ، فروٹ چاٹ اور نمکیات پروسے جاتے ہیں۔
مگر وہ کون سا کام ہے جس پر نکتہ چینی نہ ہو۔مثلاً یہی کہ لوگوں کو اس طرح سے بھکاری ، ہڈ حرام اور نکما بنایا جا رہا ہے اور ان کی خودداری برباد کی جارہی ہے۔ اس دلیل میں بھی سو فیصد جان ہے۔
میں بھی اس دلیل سے مکمل طور پر قائل ہونا چاہتا ہوں۔اگر مجھے کوئی بتا دے کہ اس ملک میں بے روزگاری کی ٹھیک ٹھیک شرح کیا ہے ؟ کتنی آبادی واقعی خطِ غربت سے نیچے جوج رہی ہے۔کتنے پاکستانی گھرانے ہفتے میں ایک بار نہ سہی ، مہینے میں ہی ایک بار بکرے کا گوشت نہ سہی ، گائے کا یا گائے کا نہ سہی مرغی کا گوشت ہی خرید کر پکانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔
کہنے کو کم سے کم تنخواہ کا سرکاری معیار سولہ تا اٹھارہ ہزار روپے ماہانہ ہے۔اس کم از کم تنخواہ میں کوئی اسد عمر ، کوئی حفیظ شیخ ، کوئی آئی ایم ایف مجھے آج کے پاکستان میں چار سے پانچ افراد پر مشتمل کنبے کا ماہانہ بجٹ کچھ اس طرح بنا کے دکھا دے کہ جس میں دو وقت کا کھانا ، دوا دارو، بچوں کی تعلیم ، ایک کمرے کے گھر اور کام پر آنے جانے کا کرایہ نکل آوے۔
اس ملک کے سرکاری و نجی شعبوں میں جتنی بھی افرادی قوت ہے اس میں سے ستر فیصد کی ماہانہ آمدن بارہ ہزار روپے سے پچاس ہزار روپے کے بریکٹ میں ہے۔جو لوگ اس قوم کو خیرات کے ذریعے بھکاری بنائے جانے اور غیرت ختم کرنے کی سازش کے غم میں دانشورانہ جلق میں مبتلا ہے۔ان میں سے بیشتر کی آمدن پچاس ہزار سے اوپر ہے۔ان کے بچے موسم کا پھل کھا سکتے ہیں اور تازہ کھانے کے مزے لوٹ سکتے ہیں ، گھریلو کام کاج کے لیے چھ ہزار روپے ماہانہ پر صبر کرنے والی ماسی افورڈ کر سکتے ہیں اور مہینے میں کم ازکم ایک بار اپنے بچوں کو باہر لے جا کر آئس کریم بھی چکھوا سکتے ہیں۔
انھیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ خوش قسمتوں میں شامل ہیں۔انھیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ بارہ ہزار روپے میں کنبہ پالنے والے نجی سیکیورٹی گارڈ کا آج کے دن تک رزقِ حلال پر ایمان ہے اور اس کے دل میں یہ خیال نہیں آ رہا کہ اس کو جو بندوق تھمائی گئی ہے اس کا کوئی دوسرا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔
ملک کے طول و عرض میں پھیلے مزارات پر جاری لنگر ، سفید پوشوں کی پوشیدہ امداد کرنے والے گمنام مخیروں اور بہانے بہانے سے خیراتی دستر خوان دراز کرنے والی چھوٹی بڑی فلاحی تنظیموں نے ہی دراصل بائیس کروڑ عوام کی بدحال اکثریت اور انارکی و طوائف الملوکی کے درمیان حد بندی کر رکھی ہے۔آج یہ ڈھانچہ غائب کر دیں کل سے محروموں کے غول کے غول اگر سڑکوں، گلیوں محلوں میں دندناتے نظر نہ آئیں تو بتائیے گا۔
یقیناً یہ خیراتی مظاہر مسئلے کا حل نہیں۔یقیناً مچھلی دینے سے کہیں بہتر ہے کہ مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھا دیا جائے اور اس کے لیے ڈور اور کانٹا بھی فراہم کیا جائے۔لیکن کیا کسی کو لگتا ہے کہ اگلے دس برس چھوڑ بیس برس میں بھی ریاستِ پاکستان جس چال سے چل رہی ہے وہ اپنی رعایا کو خوشحالی درکنار زندہ رہنے کی بنیادی سہولتیں بھی فراہم کر پائے گی۔ ایسے میں جو بھی تھوڑی بہت ریاستِ مدینہ عام آدمی نے عام آدمی کے لیے بنا رکھی ہے اسے کیوں نہ غنیمت سمجھا جائے ؟ گڑ نہ دے گڑ جیسی بات تو کہہ...
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)
ماہِ رمضان اختتامی عشرے میں داخل ہو گیا ہے۔ہر برس کی طرح اس بار بھی دو پاکستان دیکھنے کو ملے۔ایک وہ جس میں خشک اجناس ، سبزیوں اور پھلوں کے آڑھتیوں اور ذخیرہ اندوزوں نے بچت بازار ، سستا بازار اور قیمتوں پر کنٹرول کے سرکاری ہدایت ناموں کو اڑا کے پھینک دیا۔ دوسرا پاکستان وہ جس نے افطار و سحری کے دوران اپنا دل کھول کے اسے دسترخوان میں بدل دیا۔
حکومت تو جب ریاستِ مدینہ کی جھلک دکھائے گی تب دکھلائے گی مگر آج اگر ریاستِ مدینہ کا نظارہ دیکھنا ہو تو فجر اور مغرب سے ذرا پہلے اس ملک کے شہروں، قصبات بالخصوص سب سے بڑے شہر کراچی کی سڑکوں پر ملاحظہ ہو سکتا ہے۔
کل سحری کے وقت کراچی کی معروف نمائش چورنگی کی طرف جانا ہوا جہاں دسترِ خوان ِ امام حسین کے تحت معمول کا سحری لنگر رواں تھا۔قریباً دس ہزار مرد ، خواتین اور بچے نہایت ترتیب کے ساتھ بیٹھے سحری تناول کر رہے تھے۔ڈسپلن اس لیے تھا کہ ان سب کو یقین تھا کہ یہاں سے کوئی بھوکا نہیں اٹھے گا۔
جب سے رمضان شروع ہوا ہے، یہ دسترخوان جاری ہے۔مینیو میں شتر مرغ ، سیخ کباب ، روسٹ سمیت وہ تمام ڈشز ایک ایک کر کے ہفتے کے ساتوں دن تیار ہوتی ہیں۔ اس مینیو کے پیچھے فلسفہ یہ ہے کہ جو لوگ زندگی میں شائد ہی کبھی ایسے کھانے خریدنا یا کھانا افورڈ کر سکتے ہیں اور جو صرف خواب میں ہی یہ کھانے چکھ سکتے ہوں، ان نعمتوں اور ذائقوں پر زندگی میں کم ازکم ایک بار ان افتادگانِ خاک کا بھی حق ہے۔جو تنظیم یہ دسترخوان منظم کر رہی ہے اس کے ناظم ظفر عباس کا کہنا ہے کہ بارہ سو رضاکار یہ سیٹ اپ چلا رہے ہیں۔
ظاہر ہے اتنے بڑے دستر خوان کا خرچہ بھی لاکھوں روپے میں ہے۔مگر اس کے لیے چندہ جمع نہیں کیا جاتا۔ روزانہ کسی ایک صاحبِ حیثیت کی جانب سے ہزاروں مہمانوں کی خدمت کی جاتی ہے۔ان صاحبانِ حیثیت میں شیعہ ، بریلوی ، دیوبندی ، غیر مسلم پاکستانی ، دیارِ غیر میں مقیم پاکستانی سب ہی شامل ہیں۔کچھ اپنا نام خفیہ رکھنا چاہتے ہیں، کچھ تنظیم کی ویب سائٹ پر اپنا نام ڈالنے کی اجازت دے دیتے ہیں۔اس تنظیم کے تحت اندرونِ سندھ ، لاہور اور پشاور میں بھی حسینی دسترخوان بچھائے جاتے ہیں مگر سب سے بڑی سرگرمی کراچی میں ہی ہے۔
جہاں تک افطار کا معاملہ ہے تو چند برس پہلے تک کراچی میں صرف مساجد ، بڑی خیراتی تنظیمیں ، جماعتِ اسلامی کی فلاحی شاخ الخدمت ، سیلانی دسترخوان ، اسٹاک ایکسچینج کے سیٹھ لوگ اور چند سرکردہ تجار ہی شاہراہوں ، محلوں ، گلیوں میں اجتماعی افطار کا اہتمام کرتے تھے۔مگر تین چار برس سے یہ دائرہ پھیلتا جا رہا ہے۔اب نسبتاً آسودہ حال علاقوں سے لے کر متوسط اور نچلے متوسط محلوں تک جس خاندان میں جتنی سکت ہے وہ اپنے طور پر راہگیروں کی افطاری کا اہتمام کرتا ہے۔اور نہیں تو گھر کے باہر ایک میز ہی لگا دیتا ہے جس پر شربت ، فروٹ چاٹ اور نمکیات پروسے جاتے ہیں۔
مگر وہ کون سا کام ہے جس پر نکتہ چینی نہ ہو۔مثلاً یہی کہ لوگوں کو اس طرح سے بھکاری ، ہڈ حرام اور نکما بنایا جا رہا ہے اور ان کی خودداری برباد کی جارہی ہے۔ اس دلیل میں بھی سو فیصد جان ہے۔
میں بھی اس دلیل سے مکمل طور پر قائل ہونا چاہتا ہوں۔اگر مجھے کوئی بتا دے کہ اس ملک میں بے روزگاری کی ٹھیک ٹھیک شرح کیا ہے ؟ کتنی آبادی واقعی خطِ غربت سے نیچے جوج رہی ہے۔کتنے پاکستانی گھرانے ہفتے میں ایک بار نہ سہی ، مہینے میں ہی ایک بار بکرے کا گوشت نہ سہی ، گائے کا یا گائے کا نہ سہی مرغی کا گوشت ہی خرید کر پکانے کی استطاعت رکھتے ہوں۔
کہنے کو کم سے کم تنخواہ کا سرکاری معیار سولہ تا اٹھارہ ہزار روپے ماہانہ ہے۔اس کم از کم تنخواہ میں کوئی اسد عمر ، کوئی حفیظ شیخ ، کوئی آئی ایم ایف مجھے آج کے پاکستان میں چار سے پانچ افراد پر مشتمل کنبے کا ماہانہ بجٹ کچھ اس طرح بنا کے دکھا دے کہ جس میں دو وقت کا کھانا ، دوا دارو، بچوں کی تعلیم ، ایک کمرے کے گھر اور کام پر آنے جانے کا کرایہ نکل آوے۔
اس ملک کے سرکاری و نجی شعبوں میں جتنی بھی افرادی قوت ہے اس میں سے ستر فیصد کی ماہانہ آمدن بارہ ہزار روپے سے پچاس ہزار روپے کے بریکٹ میں ہے۔جو لوگ اس قوم کو خیرات کے ذریعے بھکاری بنائے جانے اور غیرت ختم کرنے کی سازش کے غم میں دانشورانہ جلق میں مبتلا ہے۔ان میں سے بیشتر کی آمدن پچاس ہزار سے اوپر ہے۔ان کے بچے موسم کا پھل کھا سکتے ہیں اور تازہ کھانے کے مزے لوٹ سکتے ہیں ، گھریلو کام کاج کے لیے چھ ہزار روپے ماہانہ پر صبر کرنے والی ماسی افورڈ کر سکتے ہیں اور مہینے میں کم ازکم ایک بار اپنے بچوں کو باہر لے جا کر آئس کریم بھی چکھوا سکتے ہیں۔
انھیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ خوش قسمتوں میں شامل ہیں۔انھیں شکر ادا کرنا چاہیے کہ بارہ ہزار روپے میں کنبہ پالنے والے نجی سیکیورٹی گارڈ کا آج کے دن تک رزقِ حلال پر ایمان ہے اور اس کے دل میں یہ خیال نہیں آ رہا کہ اس کو جو بندوق تھمائی گئی ہے اس کا کوئی دوسرا استعمال بھی ہو سکتا ہے۔
ملک کے طول و عرض میں پھیلے مزارات پر جاری لنگر ، سفید پوشوں کی پوشیدہ امداد کرنے والے گمنام مخیروں اور بہانے بہانے سے خیراتی دستر خوان دراز کرنے والی چھوٹی بڑی فلاحی تنظیموں نے ہی دراصل بائیس کروڑ عوام کی بدحال اکثریت اور انارکی و طوائف الملوکی کے درمیان حد بندی کر رکھی ہے۔آج یہ ڈھانچہ غائب کر دیں کل سے محروموں کے غول کے غول اگر سڑکوں، گلیوں محلوں میں دندناتے نظر نہ آئیں تو بتائیے گا۔
یقیناً یہ خیراتی مظاہر مسئلے کا حل نہیں۔یقیناً مچھلی دینے سے کہیں بہتر ہے کہ مچھلی پکڑنے کا طریقہ سکھا دیا جائے اور اس کے لیے ڈور اور کانٹا بھی فراہم کیا جائے۔لیکن کیا کسی کو لگتا ہے کہ اگلے دس برس چھوڑ بیس برس میں بھی ریاستِ پاکستان جس چال سے چل رہی ہے وہ اپنی رعایا کو خوشحالی درکنار زندہ رہنے کی بنیادی سہولتیں بھی فراہم کر پائے گی۔ ایسے میں جو بھی تھوڑی بہت ریاستِ مدینہ عام آدمی نے عام آدمی کے لیے بنا رکھی ہے اسے کیوں نہ غنیمت سمجھا جائے ؟ گڑ نہ دے گڑ جیسی بات تو کہہ...
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com پر کلک کیجیے)