بڑا ادب وہ ہے جس کو بار بار پڑھنے سے بھی طبیعت سیر نہ ہو
46ء کا الیکشن اچھی طرح یاد ہے، امرتسر میں کبھی پاکستان کا مطلب کیا،لاالہ الااللّٰہ کا نعرہ نہیں سنا
وہ قسمت کے دھنی ان افراد میں سے ہیں جن کا شوق ہی ان کا وسیلہ روزگار بن جاتا ہے۔انھیں بچپن سے ادب میں شغف تھا۔ انٹر میں استاد بننے کا ارادہ باندھ لیا۔
پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے اردو کے بعد ادب کے استاد بنے تو ادب سے ناتا برقرار رہنے کی راہ بھی نکل آئی اور غم روزگار کا درماں بھی ہوگیا ۔ پنجاب یونیورسٹی سے ان کا دیرینہ تعلق ہے۔ وہ اس درس گاہ میں پڑھے۔ طویل عرصہ پڑھایا۔ شعبہ اردو کے سربراہ رہے۔ ڈین آف فیکلٹی بنے۔اورینٹل کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 2000ء میں اس باوقار علمی ادارے سے ریٹائرڈ ہوئے۔اسی یونیورسٹی سے انھوں نے ''اکبرالہ آبادی تحقیقی و تنقیدی مطالعہ'' کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
گذشتہ پانچ برس سے پنجاب یونیورسٹی میں ''تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند'' کے وقیع ترعلمی منصوبے کی تدوین نو کا جو کام ہو رہا ہے، اس کے نگران ہیں۔ اس سلسلے کی پانچ جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں ان کا پہلے تمام تر عرصۂ ملازمت اولڈ کیمپس میں گزرا لیکن اب وہ نیو کیمپس میں بیٹھ کر ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں، جہاں ان سے ملنے پہنچے تو وہ لیپ ٹاپ پرگوگل سرچ انجن کھولے بیٹھے تھے۔ آئی پیڈ بھی ان کے استعمال میں رہتا ہے۔ موبائل فون کی گھنٹی برابربجتی رہی۔ عہد جدید سے انھوں نے خود کو ہم آہنگ ضرور کرلیا ہے لیکن عشق اولین کا درجہ اب بھی کتاب کو حاصل ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے بعد بھی انھیں فراغت کہاں کہ اس کے بعد گاڑی کا رخ مغربی پاکستان اکیڈمی کی طرف موڑ دیتے ہیں، جہاں وہ اعزازی حیثیت سے وابستہ ہیں، اور پٹرول کا خرچہ بھی پلے سے برداشت کرتے ہیں۔
ساتھ میں لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان دنوں اپنی یادداشتیں سپرد قلم کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں وہ دوبارہ سے شاعری میں رواں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ''آشوب'' کے نام سے مجموعہ چھپا۔ خواجہ محمد زکریا نے یادداشت کمال کی پائی ہے۔ برسوں پہلے کے واقعات یوں بیان کرتے ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ حافظے میں اردو شاعری کا خاصا ذخیرہ محفوظ ہے۔ بات دو ٹوک اور کھری کرتے ہیں۔ ساری عمردشت تنقید کی سیاحی میں گزری لیکن اس کے باوصف یہ کہنے میں باک نہیں کہ تخلیق کا درجہ تنقید سے بہت اوپر ہے اور لکھنے والے اور قاری کے بیچ میں نقاد نہ بھی ہو تو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے حضرات سیاست پر رائے زنی سے عموماً گریزاں رہتے ہیں لیکن یہ محترم ایسے نہیں۔
وژنری قیادت کے فقدان کا رونا روتے ہیں، بات یہیں تک رہتی تب بھی ٹھیک تھا کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کے لیے وژنری ہونا کون ساکوئی معنے رکھتا ہے لیکن عمران خان کو باقی سیاسی رہنماؤں کے مقابلے میں بہترچوائس قرار دینا بہرحال آسان بات نہیں۔ زندگی کے تجربات و مشاہدات کے بیان میں بھی کسی نوع کی مصلحت آڑے نہیں آنے دیتے۔ بڑے تیقن سے بتاتے ہیں کہ بچپن میں تحریک پاکستان کے عروج کے زمانے میں جب 1946ء کے الیکشن کی مہم چل رہی تھی تو انھوں نے امرتسر میں ''لے کر رہیں گے پاکستان، بن کر رہے گا پاکستان ، بٹ کر رہے گا ہندوستان ''کا نعرہ سنا بھی اور خود بلند بھی کیا مگر ان کے بقول ''میں نے امرتسر میں کبھی پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ ،کا نعرہ نہیں سنا۔'' خواجہ محمد زکریا ایف اے تک جھنگ میں رہے، اس دوران انھوں نے اس شہر میں جن شخصیات کو قریب سے دیکھا ان میں نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بھی شامل ہیں۔ وہ ان کی شخصیت کے بارے میں تاثرات بڑے کھلے ذہن سے بیان کرتے ہیں۔
ان کے بقول: ''وہ نہایت لائق آدمی تھے۔ ہمارے ہاں وہ اپنے مذہب کی وجہ سے جس تنگ نظری کا شکار ہوئے افسوس ناک ہے۔ میں لوگوں سے کہتا ہوں اپنے عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہیں لیکن دوسرے عقیدے کے کسی شخص کو حقارت سے دیکھنا اچھا رویہ نہیں۔'' یوں تو یہ معمولی سی باتیں ہیں لیکن ہمارے ہاں رائج تصورات سے ہٹ کرموقف اختیار کرنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے، اس لیے فی زمانہ ایسی جرأت بھی کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔ وہ فطری طور پر بڑے رجائیت پسند انسان ہیں لیکن پاکستان کے حالات نے انھیں مایوس کردیا ہے، جن کے سدھار کی اُمید بھی انھیں نہیں نظر آرہی ۔کہتے ہیں: '' میرے والدین کا تصور پاکستان ہرگز یہ نہیں تھا کہ نئے ملک میں وہ بہت زیادہ امیر اور خوشحال ہوجائیں گے بلکہ سمجھتے تھے کہ یہاں انصاف ملے گا اور لوگوں کی عزت نفس کا پاس ہوگا لیکن افسوس! ایسا نہ ہو سکا۔''
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریاکے رویے اور فکر میں اگر کشادگی اور نیا پن ہے تو اس کی بنیادی وجہ مطالعہ اور پھر اس کی بنیاد پر غور و فکرکا عمل ہوگا لیکن ان کی سوچ میں گہرائی اور گیرائی کا تعلق دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی تہذیب کے قریب سے مشاہدہ سے بھی ہے، جس سے بہتر زندگی اور معاشرے کے تصور سے وہ آشنا ہوئے۔ جاپان میں چار سال اردو پڑھانے والے خواجہ محمد زکریا جاپانی معاشرے کی خصوصیات کا اجمالاً ذکر یوں کرتے ہیں: ''جاپانی معاشرے میں چند چیزیں بہت اچھی ہیں۔ بہت متحمل معاشرہ ہے۔ جاپان کی زبان میں سب سے زیادہ ایکسپریشنز جس لفظ کے ہیں، وہ معافی ہے۔
وہاں لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی ایسی بات یا عمل انھوں نے کردیاجو کسی ساتھی کے لیے ذرابھی تکلیف کا باعث ہوسکتا ہے تو ان کی زبان پر معذرت کا لفظ آتا ہے۔ سڑک پر چلتے ہوئے اگر کسی کی قمیص بھی آپ کو چھوجائے تو وہ آپ سے معافی مانگے گا۔ جاپان میں چار برسوں میں میں نے کسی کو چیختے نہیں دیکھا۔ جن افرادسے میرا واسطہ رہا انھوں نے مجھ سے جھوٹ نہیں بولا۔ محنتی لوگ ہیں، جس طالب علم کو اسائنمنٹ دی، اس نے متعین کردہ وقت میں اسے پورا کیا۔ ایک برس پیکنگ یونیورسٹی چین میں بھی پڑھایا۔ چین نے معاشی ترقی بہت کی ہے لیکن ان کے بعض رویے اب بھی پاکستانیوں جیسے ہیں۔ مثلاً میں نے انھیں دھینگا مشتی کرتے دیکھا۔ چیختے دیکھا۔ بسوں میں لڑتے دیکھا ۔''
23مارچ1940ء کے تاریخی دن خواجہ غلام نبی کے ہاں امرتسر میں آنکھ کھولنے والے خواجہ محمد زکریا کے بچپن کی حسین یادیں اسی شہر سے وابستہ ہیں۔ تین بھائیوں میں منجھلے خواجہ زکریاکی چار بہنیں تھیں۔ اسکول جانے سے انھیں ڈرلگتا، جس کی بنیادی وجہ یہ بنی کہ پہلے دن اسکول گئے تو ماسٹرصاحب کے ہاتھوں بچوں کی درگت بنتے دیکھ کر ان کا دل دہل گیا نتیجتاً دوسرے دن اسکول جانے سے انکاری ہوگئے۔ اس پر والدہ نے جو خود ایک اسکول میں پڑھاتی تھیں، انھیں گھر میں پڑھایا۔ اس کے بعد ایک اور پرائمری اسکول میں داخل کرا دیا، جو گھر سے قریب واقع تھا، دربار صاحب بھی یہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔
وہ یہاں سے یاتریوں کو گزرتے معصومانہ حیرت سے دیکھا کرتے۔ شام کو گھر سے باہر آزاد فضا میں گھومتے پھرتے کہ ان کے بقول ابھی بچوں کے اغوا کا زمانہ نہیں آیا تھا۔ تیسری جماعت میں پہنچے تو اس وقت تک شہر کی سیاسی فضا تقسیم کا وقت قریب آنے کے باعث سخت تناؤ میں تھی۔ شہر میں ہونے والے جلسے جلوسوں میں مقررین خوب شعلہ بیانی کرتے۔ 1946ء کا الیکشن ان کے حافظے کی لوح پر اچھی طرح محفوظ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے باعث معاشی کساد بازاری عام تھی، جس کے اثرات سے ان کا گھرانہ بھی محفوظ نہ تھا۔ ان کے ہاں غربت کا ڈیرا تھا۔ والد امرتسر میں ڈرائی کلینر تھے۔ تقسیم سے کچھ پہلے لاہور میں بیڈن روڈپر ڈرائی کلیننگ کی دکان پر انھیں ملازمت مل گئی۔ ایک روز وہ معمول سے ہٹ کر اچانک گھر پہنچے۔
بیوی اور بیٹیوں سے کہا کہ جلدی سے زیور اور ضروری کپڑے سمیٹ لیں، فوراً یہاں سے نکلنا ہے۔ وہ جس علاقے میں قیام پذیر تھے ادھر حملے کا امکان اس لیے بھی زیادہ تھا کہ یہ سکھوں اور ہندوؤں میں گِھرا تھا۔ اب سارا خانوادہ تانگے میں سوار ہو کر شریف پورہ کی بستی میں پہنچا جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، اور دوسرے علاقوں سے مسلمان اسے محفوظ ٹھکانہ خیال کرکے یہاں کا رخ کررہے تھے۔ ان کے بقول ''ہماری نقل مکانی کے دوگھنٹے بعد ہمارے محلے پر حملہ ہوگیا۔ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہم بچ گئے۔'' اس داروگیر میں ان کا خاندان خوف کے عالم میں ٹرین کے ذریعے پاکستان پہنچ گیا۔ لاہور میں تین چار ماہ گوالمنڈی میں قیام کیا جہاں امرتسر سے آنے والے مہاجرین کی بڑی تعداد ٹھہری تھی لیکن پھران کا خاندان جھنگ اُٹھ آیا جہاں پر کچھ رشتے دار پہلے سے آن بسے تھے۔ بتاتے ہیں کہ اس وقت آبادی دوسری شہروں کے مقابلے میں زیادہ نہیں تھی اور تعمیر و ترقی کا معاملہ بھی پتلا تھا اور سالہا سال گزرنے کے بعد بھی باقی جگہوں کے مقابلے میں ان دو اعتبارات سے زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔
آنے والے برسوں میں نجانے اس شہر کو کس کی نظر کھاگئی اور وہ فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے پہچانا جانے لگا۔ ہم نے ان سے پوچھا ''جب تقسیم کے بعد آپ اس شہر میں آئے تب بھی یہاں کی مذہبی فضا میں تناؤ تھا؟'' ان کا کہنا تھا ''یہ فضااس زمانے میں بھی موجود تھی۔ جھنگ میں شیعہ اور سنّی دونوں قدیم سے ہیں۔ شہر میں دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے جاگیردار ہیں۔ ان لوگوں کے مزاج میں دوسروں کا احترام بہت کم ہوتا ہے۔ انا اور ضد ہوتی ہے۔ سپاہ صحابہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ کہنے کا مقصد ہے کہ چنگاریاں موجود تھیں، بس انھیں ہوا دینے کی ضرورت تھی، اور پھر لوگوں نے اپنے مقاصد کے لیے ادھر فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی۔ جھنگ میں بے شمار مہاجرین پانی پت سے آئے اور پانی پت میں بڑی مذہبی فضا تھی۔ خاص طور سے حفظ قرآن پانی پت کی بڑی مضبوط روایت کی تھی، اور جھنگ میں بھی یہ بڑی مضبوط روایت بنی۔ مہاجرین اور انصار دونوں کو مذہب سے شدید لگاؤ تھا۔''
جھنگ میں قیام کے دوران انھوں نے ادبی محفلوں میں ڈاکٹر عبدالسلام کو بھی دیکھا۔ ان کے بقول: '' ڈاکٹر عبدالسلام کا ادبی ذوق بہت اچھا تھا ۔ انگریزی ادب سے بھی انھیں گہرا شغف تھا اور ایک زمانے تک وہ انگریزی میں ایم اے کرنا چاہتے تھے۔ اردو ادب میں بھی توجہ رہی۔ اسکول کے زمانے میں وہ مجید امجد کی زیرادارت نکلنے والے مقامی اخبار ''عروج'' میں بھی لکھتے رہے۔'' ممتاز شاعر مجید امجد کی شخصیت اور شاعری سے تو انھیں گویا عشق ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید قدرت انھیں مجید امجد سے ملانا چاہتی تھی، اس لیے انھیں کھینچ کرجھنگ لے آئی۔ ان کے بقول: '' مجید امجد کا تعلق جھنگ سے تھا لیکن وہ نوکری کی سلسلے میں ساہی وال میں مقیم تھے۔ شاعر ادیب عموماً کسی کی تعریف نہیں کرتے لیکن ان کی ہرکوئی تعریف کرتا، جس سے مجھے تعجب ہوتا۔ جھنگ میں مشاعروں میں شریک ہوتاتھا۔ا یک دن پتا چلا کہ وہ آئے ہیں اور اپنے دوست شیر محمد شعری کے ہاں ہونے والی شعری نشست میں بھی شرکت کریں گے۔
مجھے ان سے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا، اس لیے میں ادھر پہنچ گیا۔ اس دن میری ان سے پہلی ملاقات 57ء میں ہوئی۔اس کے بعد وہ جب بھی جھنگ آتے ان سے ملنا رہتا۔ 58ء میں ''شب رفتہ'' چھپی ، جس کے بعد جھنگ آئے توکتاب پران سے آٹوگراف مانگا تو انھوں نے غالب کا فارسی شعرلکھ کر نیچے امجد لکھا۔ کہنے لگے: ''غالب کا فارسی کلام پڑھا ہے؟'' میں نے نفی میں جواب دیا تو کہا کہ ''وہ فارسی کا بہت اچھا شاعر ہے، اسے پڑھنا چاہیے۔'' مجید امجد کے کلیات کی تدوین کرنے والے خواجہ محمد زکریا نے ان کی شاعری کے باب میں جو گفتگو کی اس کا لب لباب کچھ یوں ہے: ''مجید امجد اس لیے مجھے پسند ہے کہ ان کے ہاں قطعاً تکرار نہیں۔ وہ اپنے آپ کو دہراتے نہیں۔ اتنا بڑا کلیات ہے ان کا اس میں قریب قریب ہرنظم مختلف موضوع پر ہے۔ قریب قریب ہرنظم مختلف اسلوب میں ہے۔ وہ واحد شاعرہیں، جنھیں عربی فارسی اسلوب، ہندی اسلوب اور اردو اسلوب پر عبور ہے۔ میراجی ہندی آمیز اردو بہت اچھی لکھتے ہیں۔
راشد فارسی آمیزترکیبیں بہت اچھی لکھتے ہیں۔ یہ دونوں اگر اس میدان سے نکلیں گے تو اتنا اثر ان میں نہیں۔ مجید امجد ہر اسلوب میں بڑے کامیاب ہیں۔ اردو میں کوئی ایسا شاعر نظرنہیں آئے گا جو باقاعدہ کائنات کے جدید ترین نظریات سے واقف ہو، اور اسے اپنے لہو میں ملا کر شاعری بنا دے۔ ایک طرف تو اس کے ہاں مقامی رنگ اس قدر ہیں، دوسری طرف وہ کائناتی موضوعات کو شاعری میں لاتے ہیں۔ ہمارے ہاں شاعر حیات اسے سمجھا جاتا ہے جو زندگی کی کشمکش میں شریک ہو لیکن میں شاعر حیات اسے سمجھتا ہوں جس کی شاعری میں نظریہ ارتقاء نظرآئے۔ ان جتنی وسعت اور تنوع ان کے کسی ہم عصر میں نہیں۔ بار بار پڑھتا ہوں۔ اگرآپ ایک ادب پارے کو بار بار پڑھیں تو پھر بھی آپ سیر نہ ہوں تووہ عظیم ادب ہے۔ ''
''اقبال: چند نئی جہات''کے مصنف اور''بال جبریل'' کی شرح کرنے والے خواجہ محمد زکریاکا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی مجید امجد کو اقبال سے بڑا شاعر قرار نہیں دیا، اور وہ ادب میں ایسے موازنوں کے قائل بھی نہیں۔ اقبال سے ان کا تعارف بچپن میں ہوگیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کلام سے ان کا شغف بڑھتا چلا گیا۔ معروف دانشوراحمد جاوید نے ان کی ''بال جبریل'' کی تفہیم پرمبنی تصنیف ''تفہیم بال جبریل'' پر خاصے اعتراضات کئے تھے، جن کے بارے میں پوچھے گئے سوال پران کا جواب تھا '' احمد جاوید نے میری کتاب میں ایک بھی غلطی نہیں نکالی۔ کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ میری شرح غلط ہے۔ انھیں اعتراض میرے اسلوب پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقبال اتنا بڑا شاعر اور اس قدر سادہ زبان میں آپ نے اسے سمجھایا ہے۔
اس کامیرے پاس کوئی علاج نہیں۔ شرحیں عام آدمی کے لیے ہوتی ہے۔ انھوں نے ایک مشکل اسلوب میں میرے الفاظ کو منتقل کردیا ہے، اور کچھ نہیں کیا۔ میرا ارادہ تھا جواب لکھنے کا۔ دوستوں اور شاگردوں نے کہا بھی لیکن میں نے جواب لکھا نہیں، سوچا میں کیوں اس میں اپنی توانائی ضائع کروں۔ یہ مضمون انھوں نے کسی کے کہنے پرلکھا تھا۔'' ''نئے پرانے خیالات'' اور ''چند اہم جدید شاعر'' کے نام سے تنقیدی کتابیں لکھنے والے اس نقاد نے فیض احمد فیض کی شاعری کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر بتایا: ''میں فیض کو اچھا شاعر نہیں مانتا یا انھیں انڈرریٹ کرتا ہوں یہ بات بالکل غلط فہمی پرمبنی ہے۔ فیض احمد فیض بہت اچھے شاعر ہیں۔ بعض لحاظ سے معاصرین پرفائق ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ Quotable ہیں۔ ان کی 30سے 40نظمیں نہایت اچھی ہیں اور یہ کوئی معمولی تعداد نہیں۔ جتنے بڑے غزل گو ہیں، اتنے بڑے نظم گو، یہ خوبی کسی دوسرے معاصر میں نہیں۔ '' خواجہ محمد زکریا سے ہم نے پوچھاکہ اردو تنقیدشاعری سے زیادہ اعتنا کرتی ہے اور فکشن پرزیادہ کیوں نہیں لکھا جاتا۔
آپ کا تنقیدی کام بھی زیادہ تر شاعری پرہے؟ ''یہ بات درست ہے کہ شاعری پر فکشن کے مقابلے میں زیادہ لکھا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شاعری کی تاریخ زیادہ باثروت اور پرانی ہے۔ متمدن شاعری کی تاریخ اگر ولی سے شروع کردیں ، حالانکہ اس سے قبل تین سو سال کا دکنی دور ہے پھر بھی یہ عرصہ 1650ء سے شروع ہوتا ہے۔ نثر ہمارے ہاں فورٹ ولیم کالج کے ترجموں سے شروع ہوئی اور یہ عرصہ بھی ولی سے ڈیڑھ سو برس بعد کا ہے۔ پھر وقفے بھی آتے رہے۔ دہلی کالج کے بعد غالب کے خطوط ہیں۔ پھر سرسید کی نثر ہے۔ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ بنتی ہے۔ نثر میں زیادہ توانائی بیسویں صدی میں آئی۔ نثرکی تاریخ چھوٹی ہے۔ کچھ وجہ یہ بھی ہے کہ شاعری پر تنقید فکشن پر تنقید سے آسان ہے، تو سہل انگاری بھی ایک وجہ ہے ۔'' نقادوں میں انھیں سب سے بڑھ کر کلیم الدین احمد کاکام پسند ہے۔
اردو فکشن میں وہ غلام عباس کو بے نظیر لکھنے والا قرار دیتے ہیں، جن کا افسانہ حشو و زوائد سے پاک ہوتا ہے اور انھیں معلوم ہے اسے شروع کیسے کرنا ہے، ختم کیسے کرنا ہے۔ قرۃالعین حیدرکے بھی بہت قائل ہیں۔ ''آخرشب کے ہمسفر''کے موضوع کو یونیورسل قرار دیتے ہیں، جس میں جوانی میں دنیا کو تبدیل کرنے کا خواب دیکھنے والے رفتہ رفتہ خود بدل جاتے ہیں۔ اس موضوع کی مناسبت سے اپنا یہ شعر سنایا:
سوچا تھا جوانی میں دنیا کو بدل دیں گے
دنیا نے مگر ہم کوچپ چاپ بدل ڈالا
نامور ترقی پسند ادیب اور صحافی مرحوم حمید اختر کو یہ شعر اس قدر پسند آیا کہ انھوں نے اس پر کالم لکھ ڈالا۔
'' گردش رنگ چمن'' بھی انھیں بہت پسند ہے۔ ''چاندنی بیگم'' کے بارے میں کہتے ہیں ''مجھے یہ ناول بھی پسند ہے،اگرچہ لوگوں کی اس کے بارے میں رائے زیادہ اچھی نہیں، کیوں کہ غیرروایتی ناول لوگوں کو پسند نہیں آتا۔اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ چاندنی بیگم مرگئی تو اسے آگے کیوں چلایاحالانکہ میرے خیال میں ناول آگے چلا ہے اور کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی۔نچلے طبقے کو انھوں نے بڑی گہرائی سے دکھایا ہے۔''قرۃ العین حیدر کے ناولٹ بھی انھیں بہت پسند ہیں۔رفیق حسین اور بلونت سنگھ کا فکشن بھی اچھا لگتا ہے۔مشتاق احمد یوسفی کو باکمال لکھنے والوں میں شمار کرتے ہیں۔ ان کے بقول: ''یوسفی صاحب کے ہاںپیغام بھی ہوتا ہے۔ وہ رلانے اور ہنسانے دونوں پرقادر ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے بعض جگہ تو واقعی آنسو نکل آتے ہیں۔
مزاح بھی اعلیٰ درجے کا ہے۔ ان جیسی زبان بھی بہت کم لوگ لکھتے ہیں۔ زندگی سے انھیں جو کچھ ملا اس پرراضی برضا ہیں۔''ذاتی زندگی میںجو کچھ میں چاہتاتھا وہ مجھے حاصل ہوا۔گھریلو زندگی انتہائی پرسکون گزری۔ صرف اس ملک کے حالات کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہے۔'' ان کی بیوی ڈاکٹرشگفتہ زکریا جن کے رفاقت میں وہ 45برس گزار چکے ہیں، لاہور کالج برائے خواتین میں شعبہ اردو کی سربراہ رہیں۔دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ان کے لیے اولاد کے حوالے سے سب سے اطمینان بخش بات ان کا مادیت پسند نہ ہونا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج سے ایم اے اردو کے بعد ادب کے استاد بنے تو ادب سے ناتا برقرار رہنے کی راہ بھی نکل آئی اور غم روزگار کا درماں بھی ہوگیا ۔ پنجاب یونیورسٹی سے ان کا دیرینہ تعلق ہے۔ وہ اس درس گاہ میں پڑھے۔ طویل عرصہ پڑھایا۔ شعبہ اردو کے سربراہ رہے۔ ڈین آف فیکلٹی بنے۔اورینٹل کالج کے پرنسپل کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔ 2000ء میں اس باوقار علمی ادارے سے ریٹائرڈ ہوئے۔اسی یونیورسٹی سے انھوں نے ''اکبرالہ آبادی تحقیقی و تنقیدی مطالعہ'' کے موضوع پر ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔
گذشتہ پانچ برس سے پنجاب یونیورسٹی میں ''تاریخ ادبیات مسلمانان پاکستان و ہند'' کے وقیع ترعلمی منصوبے کی تدوین نو کا جو کام ہو رہا ہے، اس کے نگران ہیں۔ اس سلسلے کی پانچ جلدیں شائع ہو چکی ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی میں ان کا پہلے تمام تر عرصۂ ملازمت اولڈ کیمپس میں گزرا لیکن اب وہ نیو کیمپس میں بیٹھ کر ذمہ داریاں انجام دیتے ہیں، جہاں ان سے ملنے پہنچے تو وہ لیپ ٹاپ پرگوگل سرچ انجن کھولے بیٹھے تھے۔ آئی پیڈ بھی ان کے استعمال میں رہتا ہے۔ موبائل فون کی گھنٹی برابربجتی رہی۔ عہد جدید سے انھوں نے خود کو ہم آہنگ ضرور کرلیا ہے لیکن عشق اولین کا درجہ اب بھی کتاب کو حاصل ہے۔ پنجاب یونیورسٹی کے بعد بھی انھیں فراغت کہاں کہ اس کے بعد گاڑی کا رخ مغربی پاکستان اکیڈمی کی طرف موڑ دیتے ہیں، جہاں وہ اعزازی حیثیت سے وابستہ ہیں، اور پٹرول کا خرچہ بھی پلے سے برداشت کرتے ہیں۔
ساتھ میں لکھنے کا سلسلہ جاری ہے۔ ان دنوں اپنی یادداشتیں سپرد قلم کر رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں وہ دوبارہ سے شاعری میں رواں ہیں۔ کچھ عرصہ قبل ''آشوب'' کے نام سے مجموعہ چھپا۔ خواجہ محمد زکریا نے یادداشت کمال کی پائی ہے۔ برسوں پہلے کے واقعات یوں بیان کرتے ہیں جیسے کل کی بات ہو۔ حافظے میں اردو شاعری کا خاصا ذخیرہ محفوظ ہے۔ بات دو ٹوک اور کھری کرتے ہیں۔ ساری عمردشت تنقید کی سیاحی میں گزری لیکن اس کے باوصف یہ کہنے میں باک نہیں کہ تخلیق کا درجہ تنقید سے بہت اوپر ہے اور لکھنے والے اور قاری کے بیچ میں نقاد نہ بھی ہو تو اس سے فرق نہیں پڑتا۔ سرکاری اداروں میں کام کرنے والے حضرات سیاست پر رائے زنی سے عموماً گریزاں رہتے ہیں لیکن یہ محترم ایسے نہیں۔
وژنری قیادت کے فقدان کا رونا روتے ہیں، بات یہیں تک رہتی تب بھی ٹھیک تھا کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں کے لیے وژنری ہونا کون ساکوئی معنے رکھتا ہے لیکن عمران خان کو باقی سیاسی رہنماؤں کے مقابلے میں بہترچوائس قرار دینا بہرحال آسان بات نہیں۔ زندگی کے تجربات و مشاہدات کے بیان میں بھی کسی نوع کی مصلحت آڑے نہیں آنے دیتے۔ بڑے تیقن سے بتاتے ہیں کہ بچپن میں تحریک پاکستان کے عروج کے زمانے میں جب 1946ء کے الیکشن کی مہم چل رہی تھی تو انھوں نے امرتسر میں ''لے کر رہیں گے پاکستان، بن کر رہے گا پاکستان ، بٹ کر رہے گا ہندوستان ''کا نعرہ سنا بھی اور خود بلند بھی کیا مگر ان کے بقول ''میں نے امرتسر میں کبھی پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الااللہ ،کا نعرہ نہیں سنا۔'' خواجہ محمد زکریا ایف اے تک جھنگ میں رہے، اس دوران انھوں نے اس شہر میں جن شخصیات کو قریب سے دیکھا ان میں نوبل انعام یافتہ پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر عبدالسلام بھی شامل ہیں۔ وہ ان کی شخصیت کے بارے میں تاثرات بڑے کھلے ذہن سے بیان کرتے ہیں۔
ان کے بقول: ''وہ نہایت لائق آدمی تھے۔ ہمارے ہاں وہ اپنے مذہب کی وجہ سے جس تنگ نظری کا شکار ہوئے افسوس ناک ہے۔ میں لوگوں سے کہتا ہوں اپنے عقیدے پر مضبوطی سے قائم رہیں لیکن دوسرے عقیدے کے کسی شخص کو حقارت سے دیکھنا اچھا رویہ نہیں۔'' یوں تو یہ معمولی سی باتیں ہیں لیکن ہمارے ہاں رائج تصورات سے ہٹ کرموقف اختیار کرنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے، اس لیے فی زمانہ ایسی جرأت بھی کم ہی لوگ کر پاتے ہیں۔ وہ فطری طور پر بڑے رجائیت پسند انسان ہیں لیکن پاکستان کے حالات نے انھیں مایوس کردیا ہے، جن کے سدھار کی اُمید بھی انھیں نہیں نظر آرہی ۔کہتے ہیں: '' میرے والدین کا تصور پاکستان ہرگز یہ نہیں تھا کہ نئے ملک میں وہ بہت زیادہ امیر اور خوشحال ہوجائیں گے بلکہ سمجھتے تھے کہ یہاں انصاف ملے گا اور لوگوں کی عزت نفس کا پاس ہوگا لیکن افسوس! ایسا نہ ہو سکا۔''
ڈاکٹر خواجہ محمد زکریاکے رویے اور فکر میں اگر کشادگی اور نیا پن ہے تو اس کی بنیادی وجہ مطالعہ اور پھر اس کی بنیاد پر غور و فکرکا عمل ہوگا لیکن ان کی سوچ میں گہرائی اور گیرائی کا تعلق دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کی تہذیب کے قریب سے مشاہدہ سے بھی ہے، جس سے بہتر زندگی اور معاشرے کے تصور سے وہ آشنا ہوئے۔ جاپان میں چار سال اردو پڑھانے والے خواجہ محمد زکریا جاپانی معاشرے کی خصوصیات کا اجمالاً ذکر یوں کرتے ہیں: ''جاپانی معاشرے میں چند چیزیں بہت اچھی ہیں۔ بہت متحمل معاشرہ ہے۔ جاپان کی زبان میں سب سے زیادہ ایکسپریشنز جس لفظ کے ہیں، وہ معافی ہے۔
وہاں لوگ سمجھتے ہیں کہ کوئی ایسی بات یا عمل انھوں نے کردیاجو کسی ساتھی کے لیے ذرابھی تکلیف کا باعث ہوسکتا ہے تو ان کی زبان پر معذرت کا لفظ آتا ہے۔ سڑک پر چلتے ہوئے اگر کسی کی قمیص بھی آپ کو چھوجائے تو وہ آپ سے معافی مانگے گا۔ جاپان میں چار برسوں میں میں نے کسی کو چیختے نہیں دیکھا۔ جن افرادسے میرا واسطہ رہا انھوں نے مجھ سے جھوٹ نہیں بولا۔ محنتی لوگ ہیں، جس طالب علم کو اسائنمنٹ دی، اس نے متعین کردہ وقت میں اسے پورا کیا۔ ایک برس پیکنگ یونیورسٹی چین میں بھی پڑھایا۔ چین نے معاشی ترقی بہت کی ہے لیکن ان کے بعض رویے اب بھی پاکستانیوں جیسے ہیں۔ مثلاً میں نے انھیں دھینگا مشتی کرتے دیکھا۔ چیختے دیکھا۔ بسوں میں لڑتے دیکھا ۔''
23مارچ1940ء کے تاریخی دن خواجہ غلام نبی کے ہاں امرتسر میں آنکھ کھولنے والے خواجہ محمد زکریا کے بچپن کی حسین یادیں اسی شہر سے وابستہ ہیں۔ تین بھائیوں میں منجھلے خواجہ زکریاکی چار بہنیں تھیں۔ اسکول جانے سے انھیں ڈرلگتا، جس کی بنیادی وجہ یہ بنی کہ پہلے دن اسکول گئے تو ماسٹرصاحب کے ہاتھوں بچوں کی درگت بنتے دیکھ کر ان کا دل دہل گیا نتیجتاً دوسرے دن اسکول جانے سے انکاری ہوگئے۔ اس پر والدہ نے جو خود ایک اسکول میں پڑھاتی تھیں، انھیں گھر میں پڑھایا۔ اس کے بعد ایک اور پرائمری اسکول میں داخل کرا دیا، جو گھر سے قریب واقع تھا، دربار صاحب بھی یہاں سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔
وہ یہاں سے یاتریوں کو گزرتے معصومانہ حیرت سے دیکھا کرتے۔ شام کو گھر سے باہر آزاد فضا میں گھومتے پھرتے کہ ان کے بقول ابھی بچوں کے اغوا کا زمانہ نہیں آیا تھا۔ تیسری جماعت میں پہنچے تو اس وقت تک شہر کی سیاسی فضا تقسیم کا وقت قریب آنے کے باعث سخت تناؤ میں تھی۔ شہر میں ہونے والے جلسے جلوسوں میں مقررین خوب شعلہ بیانی کرتے۔ 1946ء کا الیکشن ان کے حافظے کی لوح پر اچھی طرح محفوظ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے باعث معاشی کساد بازاری عام تھی، جس کے اثرات سے ان کا گھرانہ بھی محفوظ نہ تھا۔ ان کے ہاں غربت کا ڈیرا تھا۔ والد امرتسر میں ڈرائی کلینر تھے۔ تقسیم سے کچھ پہلے لاہور میں بیڈن روڈپر ڈرائی کلیننگ کی دکان پر انھیں ملازمت مل گئی۔ ایک روز وہ معمول سے ہٹ کر اچانک گھر پہنچے۔
بیوی اور بیٹیوں سے کہا کہ جلدی سے زیور اور ضروری کپڑے سمیٹ لیں، فوراً یہاں سے نکلنا ہے۔ وہ جس علاقے میں قیام پذیر تھے ادھر حملے کا امکان اس لیے بھی زیادہ تھا کہ یہ سکھوں اور ہندوؤں میں گِھرا تھا۔ اب سارا خانوادہ تانگے میں سوار ہو کر شریف پورہ کی بستی میں پہنچا جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی، اور دوسرے علاقوں سے مسلمان اسے محفوظ ٹھکانہ خیال کرکے یہاں کا رخ کررہے تھے۔ ان کے بقول ''ہماری نقل مکانی کے دوگھنٹے بعد ہمارے محلے پر حملہ ہوگیا۔ہماری خوش قسمتی تھی کہ ہم بچ گئے۔'' اس داروگیر میں ان کا خاندان خوف کے عالم میں ٹرین کے ذریعے پاکستان پہنچ گیا۔ لاہور میں تین چار ماہ گوالمنڈی میں قیام کیا جہاں امرتسر سے آنے والے مہاجرین کی بڑی تعداد ٹھہری تھی لیکن پھران کا خاندان جھنگ اُٹھ آیا جہاں پر کچھ رشتے دار پہلے سے آن بسے تھے۔ بتاتے ہیں کہ اس وقت آبادی دوسری شہروں کے مقابلے میں زیادہ نہیں تھی اور تعمیر و ترقی کا معاملہ بھی پتلا تھا اور سالہا سال گزرنے کے بعد بھی باقی جگہوں کے مقابلے میں ان دو اعتبارات سے زیادہ تبدیلی نہیں آئی۔
آنے والے برسوں میں نجانے اس شہر کو کس کی نظر کھاگئی اور وہ فرقہ وارانہ فسادات کے حوالے سے پہچانا جانے لگا۔ ہم نے ان سے پوچھا ''جب تقسیم کے بعد آپ اس شہر میں آئے تب بھی یہاں کی مذہبی فضا میں تناؤ تھا؟'' ان کا کہنا تھا ''یہ فضااس زمانے میں بھی موجود تھی۔ جھنگ میں شیعہ اور سنّی دونوں قدیم سے ہیں۔ شہر میں دونوں فرقوں سے تعلق رکھنے والے جاگیردار ہیں۔ ان لوگوں کے مزاج میں دوسروں کا احترام بہت کم ہوتا ہے۔ انا اور ضد ہوتی ہے۔ سپاہ صحابہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ کہنے کا مقصد ہے کہ چنگاریاں موجود تھیں، بس انھیں ہوا دینے کی ضرورت تھی، اور پھر لوگوں نے اپنے مقاصد کے لیے ادھر فرقہ واریت کی آگ بھڑکائی۔ جھنگ میں بے شمار مہاجرین پانی پت سے آئے اور پانی پت میں بڑی مذہبی فضا تھی۔ خاص طور سے حفظ قرآن پانی پت کی بڑی مضبوط روایت کی تھی، اور جھنگ میں بھی یہ بڑی مضبوط روایت بنی۔ مہاجرین اور انصار دونوں کو مذہب سے شدید لگاؤ تھا۔''
جھنگ میں قیام کے دوران انھوں نے ادبی محفلوں میں ڈاکٹر عبدالسلام کو بھی دیکھا۔ ان کے بقول: '' ڈاکٹر عبدالسلام کا ادبی ذوق بہت اچھا تھا ۔ انگریزی ادب سے بھی انھیں گہرا شغف تھا اور ایک زمانے تک وہ انگریزی میں ایم اے کرنا چاہتے تھے۔ اردو ادب میں بھی توجہ رہی۔ اسکول کے زمانے میں وہ مجید امجد کی زیرادارت نکلنے والے مقامی اخبار ''عروج'' میں بھی لکھتے رہے۔'' ممتاز شاعر مجید امجد کی شخصیت اور شاعری سے تو انھیں گویا عشق ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ شاید قدرت انھیں مجید امجد سے ملانا چاہتی تھی، اس لیے انھیں کھینچ کرجھنگ لے آئی۔ ان کے بقول: '' مجید امجد کا تعلق جھنگ سے تھا لیکن وہ نوکری کی سلسلے میں ساہی وال میں مقیم تھے۔ شاعر ادیب عموماً کسی کی تعریف نہیں کرتے لیکن ان کی ہرکوئی تعریف کرتا، جس سے مجھے تعجب ہوتا۔ جھنگ میں مشاعروں میں شریک ہوتاتھا۔ا یک دن پتا چلا کہ وہ آئے ہیں اور اپنے دوست شیر محمد شعری کے ہاں ہونے والی شعری نشست میں بھی شرکت کریں گے۔
مجھے ان سے ملنے کا بڑا اشتیاق تھا، اس لیے میں ادھر پہنچ گیا۔ اس دن میری ان سے پہلی ملاقات 57ء میں ہوئی۔اس کے بعد وہ جب بھی جھنگ آتے ان سے ملنا رہتا۔ 58ء میں ''شب رفتہ'' چھپی ، جس کے بعد جھنگ آئے توکتاب پران سے آٹوگراف مانگا تو انھوں نے غالب کا فارسی شعرلکھ کر نیچے امجد لکھا۔ کہنے لگے: ''غالب کا فارسی کلام پڑھا ہے؟'' میں نے نفی میں جواب دیا تو کہا کہ ''وہ فارسی کا بہت اچھا شاعر ہے، اسے پڑھنا چاہیے۔'' مجید امجد کے کلیات کی تدوین کرنے والے خواجہ محمد زکریا نے ان کی شاعری کے باب میں جو گفتگو کی اس کا لب لباب کچھ یوں ہے: ''مجید امجد اس لیے مجھے پسند ہے کہ ان کے ہاں قطعاً تکرار نہیں۔ وہ اپنے آپ کو دہراتے نہیں۔ اتنا بڑا کلیات ہے ان کا اس میں قریب قریب ہرنظم مختلف موضوع پر ہے۔ قریب قریب ہرنظم مختلف اسلوب میں ہے۔ وہ واحد شاعرہیں، جنھیں عربی فارسی اسلوب، ہندی اسلوب اور اردو اسلوب پر عبور ہے۔ میراجی ہندی آمیز اردو بہت اچھی لکھتے ہیں۔
راشد فارسی آمیزترکیبیں بہت اچھی لکھتے ہیں۔ یہ دونوں اگر اس میدان سے نکلیں گے تو اتنا اثر ان میں نہیں۔ مجید امجد ہر اسلوب میں بڑے کامیاب ہیں۔ اردو میں کوئی ایسا شاعر نظرنہیں آئے گا جو باقاعدہ کائنات کے جدید ترین نظریات سے واقف ہو، اور اسے اپنے لہو میں ملا کر شاعری بنا دے۔ ایک طرف تو اس کے ہاں مقامی رنگ اس قدر ہیں، دوسری طرف وہ کائناتی موضوعات کو شاعری میں لاتے ہیں۔ ہمارے ہاں شاعر حیات اسے سمجھا جاتا ہے جو زندگی کی کشمکش میں شریک ہو لیکن میں شاعر حیات اسے سمجھتا ہوں جس کی شاعری میں نظریہ ارتقاء نظرآئے۔ ان جتنی وسعت اور تنوع ان کے کسی ہم عصر میں نہیں۔ بار بار پڑھتا ہوں۔ اگرآپ ایک ادب پارے کو بار بار پڑھیں تو پھر بھی آپ سیر نہ ہوں تووہ عظیم ادب ہے۔ ''
''اقبال: چند نئی جہات''کے مصنف اور''بال جبریل'' کی شرح کرنے والے خواجہ محمد زکریاکا کہنا ہے کہ انھوں نے کبھی مجید امجد کو اقبال سے بڑا شاعر قرار نہیں دیا، اور وہ ادب میں ایسے موازنوں کے قائل بھی نہیں۔ اقبال سے ان کا تعارف بچپن میں ہوگیا اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کلام سے ان کا شغف بڑھتا چلا گیا۔ معروف دانشوراحمد جاوید نے ان کی ''بال جبریل'' کی تفہیم پرمبنی تصنیف ''تفہیم بال جبریل'' پر خاصے اعتراضات کئے تھے، جن کے بارے میں پوچھے گئے سوال پران کا جواب تھا '' احمد جاوید نے میری کتاب میں ایک بھی غلطی نہیں نکالی۔ کہیں بھی یہ نہیں کہا کہ میری شرح غلط ہے۔ انھیں اعتراض میرے اسلوب پر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقبال اتنا بڑا شاعر اور اس قدر سادہ زبان میں آپ نے اسے سمجھایا ہے۔
اس کامیرے پاس کوئی علاج نہیں۔ شرحیں عام آدمی کے لیے ہوتی ہے۔ انھوں نے ایک مشکل اسلوب میں میرے الفاظ کو منتقل کردیا ہے، اور کچھ نہیں کیا۔ میرا ارادہ تھا جواب لکھنے کا۔ دوستوں اور شاگردوں نے کہا بھی لیکن میں نے جواب لکھا نہیں، سوچا میں کیوں اس میں اپنی توانائی ضائع کروں۔ یہ مضمون انھوں نے کسی کے کہنے پرلکھا تھا۔'' ''نئے پرانے خیالات'' اور ''چند اہم جدید شاعر'' کے نام سے تنقیدی کتابیں لکھنے والے اس نقاد نے فیض احمد فیض کی شاعری کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر بتایا: ''میں فیض کو اچھا شاعر نہیں مانتا یا انھیں انڈرریٹ کرتا ہوں یہ بات بالکل غلط فہمی پرمبنی ہے۔ فیض احمد فیض بہت اچھے شاعر ہیں۔ بعض لحاظ سے معاصرین پرفائق ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ Quotable ہیں۔ ان کی 30سے 40نظمیں نہایت اچھی ہیں اور یہ کوئی معمولی تعداد نہیں۔ جتنے بڑے غزل گو ہیں، اتنے بڑے نظم گو، یہ خوبی کسی دوسرے معاصر میں نہیں۔ '' خواجہ محمد زکریا سے ہم نے پوچھاکہ اردو تنقیدشاعری سے زیادہ اعتنا کرتی ہے اور فکشن پرزیادہ کیوں نہیں لکھا جاتا۔
آپ کا تنقیدی کام بھی زیادہ تر شاعری پرہے؟ ''یہ بات درست ہے کہ شاعری پر فکشن کے مقابلے میں زیادہ لکھا گیا ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ شاعری کی تاریخ زیادہ باثروت اور پرانی ہے۔ متمدن شاعری کی تاریخ اگر ولی سے شروع کردیں ، حالانکہ اس سے قبل تین سو سال کا دکنی دور ہے پھر بھی یہ عرصہ 1650ء سے شروع ہوتا ہے۔ نثر ہمارے ہاں فورٹ ولیم کالج کے ترجموں سے شروع ہوئی اور یہ عرصہ بھی ولی سے ڈیڑھ سو برس بعد کا ہے۔ پھر وقفے بھی آتے رہے۔ دہلی کالج کے بعد غالب کے خطوط ہیں۔ پھر سرسید کی نثر ہے۔ ڈیڑھ سو سال کی تاریخ بنتی ہے۔ نثر میں زیادہ توانائی بیسویں صدی میں آئی۔ نثرکی تاریخ چھوٹی ہے۔ کچھ وجہ یہ بھی ہے کہ شاعری پر تنقید فکشن پر تنقید سے آسان ہے، تو سہل انگاری بھی ایک وجہ ہے ۔'' نقادوں میں انھیں سب سے بڑھ کر کلیم الدین احمد کاکام پسند ہے۔
اردو فکشن میں وہ غلام عباس کو بے نظیر لکھنے والا قرار دیتے ہیں، جن کا افسانہ حشو و زوائد سے پاک ہوتا ہے اور انھیں معلوم ہے اسے شروع کیسے کرنا ہے، ختم کیسے کرنا ہے۔ قرۃالعین حیدرکے بھی بہت قائل ہیں۔ ''آخرشب کے ہمسفر''کے موضوع کو یونیورسل قرار دیتے ہیں، جس میں جوانی میں دنیا کو تبدیل کرنے کا خواب دیکھنے والے رفتہ رفتہ خود بدل جاتے ہیں۔ اس موضوع کی مناسبت سے اپنا یہ شعر سنایا:
سوچا تھا جوانی میں دنیا کو بدل دیں گے
دنیا نے مگر ہم کوچپ چاپ بدل ڈالا
نامور ترقی پسند ادیب اور صحافی مرحوم حمید اختر کو یہ شعر اس قدر پسند آیا کہ انھوں نے اس پر کالم لکھ ڈالا۔
'' گردش رنگ چمن'' بھی انھیں بہت پسند ہے۔ ''چاندنی بیگم'' کے بارے میں کہتے ہیں ''مجھے یہ ناول بھی پسند ہے،اگرچہ لوگوں کی اس کے بارے میں رائے زیادہ اچھی نہیں، کیوں کہ غیرروایتی ناول لوگوں کو پسند نہیں آتا۔اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ چاندنی بیگم مرگئی تو اسے آگے کیوں چلایاحالانکہ میرے خیال میں ناول آگے چلا ہے اور کوئی کمی محسوس نہیں ہوئی۔نچلے طبقے کو انھوں نے بڑی گہرائی سے دکھایا ہے۔''قرۃ العین حیدر کے ناولٹ بھی انھیں بہت پسند ہیں۔رفیق حسین اور بلونت سنگھ کا فکشن بھی اچھا لگتا ہے۔مشتاق احمد یوسفی کو باکمال لکھنے والوں میں شمار کرتے ہیں۔ ان کے بقول: ''یوسفی صاحب کے ہاںپیغام بھی ہوتا ہے۔ وہ رلانے اور ہنسانے دونوں پرقادر ہیں۔ انھیں پڑھتے ہوئے بعض جگہ تو واقعی آنسو نکل آتے ہیں۔
مزاح بھی اعلیٰ درجے کا ہے۔ ان جیسی زبان بھی بہت کم لوگ لکھتے ہیں۔ زندگی سے انھیں جو کچھ ملا اس پرراضی برضا ہیں۔''ذاتی زندگی میںجو کچھ میں چاہتاتھا وہ مجھے حاصل ہوا۔گھریلو زندگی انتہائی پرسکون گزری۔ صرف اس ملک کے حالات کی وجہ سے پریشانی ہوتی ہے۔'' ان کی بیوی ڈاکٹرشگفتہ زکریا جن کے رفاقت میں وہ 45برس گزار چکے ہیں، لاہور کالج برائے خواتین میں شعبہ اردو کی سربراہ رہیں۔دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔ ان کے لیے اولاد کے حوالے سے سب سے اطمینان بخش بات ان کا مادیت پسند نہ ہونا ہے۔