وہ عشق جو ہم سے روٹھ گیا
کوئی بھی کام اس وقت تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا جب تک اس میں جوش، جذبہ و جنون شامل نہ ہو۔
KARACHI:
کوئی بھی کام اس وقت تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا جب تک اس میں جوش، جذبہ و جنون شامل نہ ہو۔ یہ عشق کی خوبیاں کہلاتی ہیں۔ عشق ذات کی نفی ہے۔ جس میں جذبے کی شدت یاد رہ جاتی ہے۔ تا حد نظر پھیلے ہوئے راستے جوش و جنوں کے زاویوں میں سمٹتے چلے جاتے ہیں۔ جذبے کی سچائی مشکل راہوں سے نبرد آزما ہوتی ہے اور راستے کے کانٹے بھی پھول بن جاتے ہیں۔ عشق کی منزلیں کٹھن ہوتی ہیں۔
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
درحقیقت عشق انسان کے ظرف کے پرکھنے کا پیمانہ ہے۔ کسی بھی کیفیت کی شدت انسان کی حسوں کو جلا بخشتی ہے۔ اور محسوس کرنے کی حس میں اضافہ ہوتا ہے۔ عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کائنات کے گراں قدر راز منکشف ہوتے رہتے ہیں۔ یہ جذبہ ثابت قدمی و مستقل مزاجی کا متقاضی ہے جب کہ انسان کی نفسیات اس کے برعکس ہے۔ انسان تبدیلی کا متلاشی ہے۔ عشق ارتکاز کی صورت ہے جو وجدان کی کیفیت کے زیر اثر رہتا ہے۔ خیال کی یکسوئی تحت الشعور کی طاقت بنتی ہے۔ تمام تر روحانی فکر کا محور یہ عشق ہی ہے۔ ذات کا عرفان، خود آگہی، فطرت سے قربت، زندگی و کائنات سے ہم آہنگی اور نور ازل کا ادراک بھی محبت کے جذبے سے متصل ہے۔ محبت انکساری اور نفرت کرختگی، غرور و بدمزاجی کا اظہار ہے۔ بقول کسی دانا کے ''اگر دانش حاصل کرنا چاہتے ہو تو انکسار پیدا کرو، اور اگر حاصل کر چکے ہو تو اور زیادہ خاکسار بنو'' یہی وجہ ہے کہ محبت جیسا مثبت جذبہ اور اس کے اثرات موجودہ معاشرتی زندگی میں کم دکھائی دیتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ عشق بھی ہم سے روٹھ گیا ہے۔ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک پرانی دوست فاطمہ سے ملاقات ہوئی۔
اس کی طبیعت ناساز تھی۔ چہرے پر صدیوں کی تھکن عیاں تھی۔ کوئی زمانہ تھا جب اس کی خوبصورتی و خوش سخنی کے ہر طرف چرچے ہوا کرتے تھے۔ آج وہ بہت مختلف نظر آ رہی تھی۔ ان کی باتوں سے پتہ چلا کہ ان کے شوہر بہت مصروف رہتے ہیں، ملازمت کے ساتھ وہ گھر اور بچے بھی سنبھالتی ہیں۔ فاطمہ کے شوہر نے کسی تقریب میں اسے دیکھا تھا، جب رشتہ بھیجا تو فاطمہ کے گھر والوں نے یہ کہہ کر رشتہ مسترد کر دیا کہ وہ خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے۔ افتخار نے فاطمہ کو دوستوں سے کہلوایا اور ہر ممکن کوشش کر ڈالی۔ اس زمانے میں وہ دیوانگی کی حدود سے بھی تجاوز کر چکے تھے۔ ایک طویل انتظار اور بہت کوششوں کے بعد ان کی شادی فاطمہ سے قرار پائی۔ لیکن وہ شدید جذبہ وقت کے ساتھ ختم ہو گیا۔ چہرے بھی بعض اوقات آئینہ بن جاتے ہیں۔ چہرے کی تھکن اور آنکھوں کی اداسی حال دل بتا دیتی ہے۔ خوابوں کی دنیا اور حقیقی زندگی بہت مختلف ہیں۔ ایک خوبصورت احساس روزمرہ کی زندگی کے مسائل، بے جا الجھنوں اور دور کی بدصورتیوں کے نذر ہو جاتا ہے۔ پھر چہروں سے شادابی رخصت ہو جاتی ہے۔ بقول غالب:
ہے سبزہ زارِ ہر در و دیوار غم کدہ
جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ
اگر دیکھا جائے تو عشق کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کو شعور و آگہی کا عرفان عطا کرتا ہے۔ سنوارتا، نکھارتا اور زندگی ودیعت کرتا ہے۔ یہ چہروں کی شادابی، روح کی طراوت چھین کیسے سکتا ہے۔ بقول شاہ لطیف:
''نہ وہ محبت ہے، نہ محبت کی باتیں، نہ طلب رہی، محبت کے طالب نہ رہے ورنہ محبت تو ہے، طالبوں کا قحط ہے، جو محبت کے طالب ہیں محبت ان کے پاس ہوتی ہے۔''
شاید انسان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ وہ میسر آ جانے والی راحت کو زیادہ دیر محسوس نہیں کر سکتا۔ انسان کی زندگی اسی المیے کے گرد گھومتی ہے کہ جو خوشی اس کے دائرہ اختیار میں ہے وہ اس سے غافل ہو جاتا ہے اور لاحاصل کا خبط اسے بے چین کیے رکھتا ہے۔ پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ عشاق اپنی کوتاہی پر فیض کے اس شعر کا پردہ ڈالنے لگے:
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
لیکن سچ تو یہ ہے کہ جیسے ہی عشق انسان کی زندگی سے منہ موڑ لیتا ہے زندگی بے معنی ہو کے رہ جاتی ہے۔ روح کاغذی پھولوں کی طرح فطری خوشبو سے محروم ہو جاتی ہے۔
بہت سال پہلے کی بات ہے جب پاکستان بننے کے نعرے ہر طرف سنائی دے رہے تھے، دیوانگی کا عجیب عالم تھا۔ عشق کی خاص بات یہ ہے کہ یہ خیال کی یکجہتی عطا کرتا ہے۔ لہٰذا یہ جوش، جذبہ و جنون ایک خواب سے تعبیر میں ڈھل گیا۔ خیال کی شدت حقیقت میں بدل جاتی ہے۔ عشق ذہن، جسم و روح کی اکائی ہے۔ اس وقت سب متحد تھے، ہم قدم، ہم آواز عشق کے پرچم تلے مجتمع۔ جذبے کی انتہا میں زخم بھی پھول بن کر مہک اٹھے تھے۔ خون کے چراغوں سے ہر طرف روشنی پھیلی تھی۔
اک حرف سبز شاخ بدن پر چمک اٹھا
میری زمین پر اپنے لہو کا ہنر کھلا
لیکن عشق کی شدت کو قائم و دائم رکھنا بھی مشکل طلب مرحلہ ہے۔ عشق کے سرور کو جسم میں محسوس کرتے رہنا، اس سے زندگی حاصل کرتے رہنے کی کوشش قوموں کو وقت کی تاریخ میں امر کر دیتی ہے۔ مٹی کی خوشبو سے رابطہ اور اس مہک کو پہنچانے کا ہنر اہل زمین کو لازوال طاقت بخشتا ہے۔ عشق فرد واحد کی زندگی سے روٹھ جائے یا اجتماعی طور پر یہ جذبہ قوم سے چھن جائے تو زندگی کی سچی خوشیاں بھی روٹھ جاتی ہیں۔
کوئی بھی کام اس وقت تک پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پاتا جب تک اس میں جوش، جذبہ و جنون شامل نہ ہو۔ یہ عشق کی خوبیاں کہلاتی ہیں۔ عشق ذات کی نفی ہے۔ جس میں جذبے کی شدت یاد رہ جاتی ہے۔ تا حد نظر پھیلے ہوئے راستے جوش و جنوں کے زاویوں میں سمٹتے چلے جاتے ہیں۔ جذبے کی سچائی مشکل راہوں سے نبرد آزما ہوتی ہے اور راستے کے کانٹے بھی پھول بن جاتے ہیں۔ عشق کی منزلیں کٹھن ہوتی ہیں۔
یہ عشق نہیں آساں بس اتنا سمجھ لیجیے
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
درحقیقت عشق انسان کے ظرف کے پرکھنے کا پیمانہ ہے۔ کسی بھی کیفیت کی شدت انسان کی حسوں کو جلا بخشتی ہے۔ اور محسوس کرنے کی حس میں اضافہ ہوتا ہے۔ عشق مجازی سے عشق حقیقی تک کائنات کے گراں قدر راز منکشف ہوتے رہتے ہیں۔ یہ جذبہ ثابت قدمی و مستقل مزاجی کا متقاضی ہے جب کہ انسان کی نفسیات اس کے برعکس ہے۔ انسان تبدیلی کا متلاشی ہے۔ عشق ارتکاز کی صورت ہے جو وجدان کی کیفیت کے زیر اثر رہتا ہے۔ خیال کی یکسوئی تحت الشعور کی طاقت بنتی ہے۔ تمام تر روحانی فکر کا محور یہ عشق ہی ہے۔ ذات کا عرفان، خود آگہی، فطرت سے قربت، زندگی و کائنات سے ہم آہنگی اور نور ازل کا ادراک بھی محبت کے جذبے سے متصل ہے۔ محبت انکساری اور نفرت کرختگی، غرور و بدمزاجی کا اظہار ہے۔ بقول کسی دانا کے ''اگر دانش حاصل کرنا چاہتے ہو تو انکسار پیدا کرو، اور اگر حاصل کر چکے ہو تو اور زیادہ خاکسار بنو'' یہی وجہ ہے کہ محبت جیسا مثبت جذبہ اور اس کے اثرات موجودہ معاشرتی زندگی میں کم دکھائی دیتے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ عشق بھی ہم سے روٹھ گیا ہے۔ بہت عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک پرانی دوست فاطمہ سے ملاقات ہوئی۔
اس کی طبیعت ناساز تھی۔ چہرے پر صدیوں کی تھکن عیاں تھی۔ کوئی زمانہ تھا جب اس کی خوبصورتی و خوش سخنی کے ہر طرف چرچے ہوا کرتے تھے۔ آج وہ بہت مختلف نظر آ رہی تھی۔ ان کی باتوں سے پتہ چلا کہ ان کے شوہر بہت مصروف رہتے ہیں، ملازمت کے ساتھ وہ گھر اور بچے بھی سنبھالتی ہیں۔ فاطمہ کے شوہر نے کسی تقریب میں اسے دیکھا تھا، جب رشتہ بھیجا تو فاطمہ کے گھر والوں نے یہ کہہ کر رشتہ مسترد کر دیا کہ وہ خاندان سے باہر شادی نہیں کرتے۔ افتخار نے فاطمہ کو دوستوں سے کہلوایا اور ہر ممکن کوشش کر ڈالی۔ اس زمانے میں وہ دیوانگی کی حدود سے بھی تجاوز کر چکے تھے۔ ایک طویل انتظار اور بہت کوششوں کے بعد ان کی شادی فاطمہ سے قرار پائی۔ لیکن وہ شدید جذبہ وقت کے ساتھ ختم ہو گیا۔ چہرے بھی بعض اوقات آئینہ بن جاتے ہیں۔ چہرے کی تھکن اور آنکھوں کی اداسی حال دل بتا دیتی ہے۔ خوابوں کی دنیا اور حقیقی زندگی بہت مختلف ہیں۔ ایک خوبصورت احساس روزمرہ کی زندگی کے مسائل، بے جا الجھنوں اور دور کی بدصورتیوں کے نذر ہو جاتا ہے۔ پھر چہروں سے شادابی رخصت ہو جاتی ہے۔ بقول غالب:
ہے سبزہ زارِ ہر در و دیوار غم کدہ
جس کی بہار یہ ہو پھر اس کی خزاں نہ پوچھ
اگر دیکھا جائے تو عشق کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہ انسان کو شعور و آگہی کا عرفان عطا کرتا ہے۔ سنوارتا، نکھارتا اور زندگی ودیعت کرتا ہے۔ یہ چہروں کی شادابی، روح کی طراوت چھین کیسے سکتا ہے۔ بقول شاہ لطیف:
''نہ وہ محبت ہے، نہ محبت کی باتیں، نہ طلب رہی، محبت کے طالب نہ رہے ورنہ محبت تو ہے، طالبوں کا قحط ہے، جو محبت کے طالب ہیں محبت ان کے پاس ہوتی ہے۔''
شاید انسان کی ترجیحات بدل جاتی ہیں۔ وہ میسر آ جانے والی راحت کو زیادہ دیر محسوس نہیں کر سکتا۔ انسان کی زندگی اسی المیے کے گرد گھومتی ہے کہ جو خوشی اس کے دائرہ اختیار میں ہے وہ اس سے غافل ہو جاتا ہے اور لاحاصل کا خبط اسے بے چین کیے رکھتا ہے۔ پھر ایک وقت یہ بھی آیا کہ عشاق اپنی کوتاہی پر فیض کے اس شعر کا پردہ ڈالنے لگے:
دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کردیا
تجھ سے بھی دلفریب ہیں غم روزگار کے
لیکن سچ تو یہ ہے کہ جیسے ہی عشق انسان کی زندگی سے منہ موڑ لیتا ہے زندگی بے معنی ہو کے رہ جاتی ہے۔ روح کاغذی پھولوں کی طرح فطری خوشبو سے محروم ہو جاتی ہے۔
بہت سال پہلے کی بات ہے جب پاکستان بننے کے نعرے ہر طرف سنائی دے رہے تھے، دیوانگی کا عجیب عالم تھا۔ عشق کی خاص بات یہ ہے کہ یہ خیال کی یکجہتی عطا کرتا ہے۔ لہٰذا یہ جوش، جذبہ و جنون ایک خواب سے تعبیر میں ڈھل گیا۔ خیال کی شدت حقیقت میں بدل جاتی ہے۔ عشق ذہن، جسم و روح کی اکائی ہے۔ اس وقت سب متحد تھے، ہم قدم، ہم آواز عشق کے پرچم تلے مجتمع۔ جذبے کی انتہا میں زخم بھی پھول بن کر مہک اٹھے تھے۔ خون کے چراغوں سے ہر طرف روشنی پھیلی تھی۔
اک حرف سبز شاخ بدن پر چمک اٹھا
میری زمین پر اپنے لہو کا ہنر کھلا
لیکن عشق کی شدت کو قائم و دائم رکھنا بھی مشکل طلب مرحلہ ہے۔ عشق کے سرور کو جسم میں محسوس کرتے رہنا، اس سے زندگی حاصل کرتے رہنے کی کوشش قوموں کو وقت کی تاریخ میں امر کر دیتی ہے۔ مٹی کی خوشبو سے رابطہ اور اس مہک کو پہنچانے کا ہنر اہل زمین کو لازوال طاقت بخشتا ہے۔ عشق فرد واحد کی زندگی سے روٹھ جائے یا اجتماعی طور پر یہ جذبہ قوم سے چھن جائے تو زندگی کی سچی خوشیاں بھی روٹھ جاتی ہیں۔