میٹھا زہر

بھارت کی فلم نگری کا ان کے معاشرے پر جو اثر پڑا ہے وہ واضح طور پر دیکھنے میں نظر آتا ہے۔

لاہور:
کچھ عرصہ قبل بھارت کے مشہور شاعر جاوید اختر کے صاحبزادے فرحان اختر جو ایک اداکار اور ہدایت کار بھی ہیں نے ٹوئٹر پر بھارت کے ہی ایک صوبے میں اسکول کی بچیوں کے اسکرٹ پہننے پر حکومتی سطح پر پابندی کے فیصلے کے خلاف انتہائی تضحیک آمیز الفاظ میں اپنے بے باک خیالات کا اظہار کیا تھا۔ اسی طرح بھارتی فلم انڈسٹری کے بہت سے ستاروں نے بھی کچھ اسی طرح کے کمنٹس دیے ان کے خیال میں بھارت میں خواتین اور بچیوں کے ساتھ ہونے والے مجرمانہ واقعات کا تعلق بھارت میں بننے والی فلموں سے کسی طرح بھی نہیں ہے۔ جب کہ بھارت کی فلم نگری کا ان کے معاشرے پر جو اثر پڑا ہے وہ واضح طور پر دیکھنے میں نظر آتا ہے وہاں ایک عام شہری لڑکی جس انداز کے کپڑے زیب تن کرتی ہے وہ کسی فلمی اداکارہ کے کپڑوں کی طرح انتہائی جدید اور بے باک ہوتے ہیں، صرف یہی نہیں کسی ایکشن سے بھرپور فلم کی طرح واقعات بھی اب عام زندگی کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔

کچھ عرصہ قبل میڈیکل کی طالبہ دامنی کے ساتھ ہونے والے واقعے نے پورے بھارتی معاشرے کو ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن یہ ہونے والا کوئی پہلا واقعہ نہ تھا اس سے پہلے بھی ایسے کئی واقعات پولیس ریکارڈ کی زینت بن چکے ہیں۔ حال ہی میں ایک تئیس سالہ خاتون صحافی کو بھی اسی طرح دست درازی کا نشانہ بنایا گیا جو ممبئی شہر میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ پرانی عمارتوں کی تصاویر بنا رہی تھی، شکتی ملز کمپاؤنڈ جو ایک قدیم مشہور اسٹوڈیو کے نزدیک ہے اس بھیانک واقعے کا مقام ہے۔ شکتی ملز کمپاؤنڈ میں نشئی لوگوں کی آمد و رفت رہتی ہے، بتایا گیا ہے کہ جب وہ خاتون اپنے ساتھی کے ساتھ وہاں تصاویر بنانے لگی تو کچھ لوگ وہاں آ گئے انھوں نے ان سے بحث و تکرار کی ان کا کہنا تھا کہ یہ زمین ریلوے کی ہے اور یہاں تصاویر بنانے کی اجازت نہیں ہے۔

بحث و تکرار تو دراصل ایک بہانہ تھی ساتھی رپورٹر کو وہیں رسیوں سے جکڑ دیا گیا اور صحافی کو برابر کمپاؤنڈ میں لے جا کر زیادتی کا نشانہ بنایا گیا ان پانچوں افراد کی تصاویر کا خاکہ پولیس نے تیار کروا لیا ہے لیکن یہ بھی ایسے ہی بہت سے واقعات کی طرح کہیں گم ہو کر سرد فائلوں کی زینت نہ بن جائے۔ ایک بار پھر بھارتی معاشرہ اس واقعے کے خلاف سراپا احتجاج بن گیا ہے۔ نوجوان صحافت کے طالب علم اس حادثے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ بھارتی پولیس ادھر ادھر گرفتاریاں عمل میں لا رہی ہے لیکن نہ تو یہ کوئی دہشت گردی کی واردات ہے اور نہ ہی کوئی قاتلانہ حملہ۔ یہ سوال ہے معاشرے کے اپنے بنائے نئے اصولوں کا۔۔۔۔؟ کیا مغربی تہذیب کے رنگ ڈھنگ مشرقی تہذیب پر اپنی چھاپ کے مثبت اثرات چھوڑ رہے ہیں؟

پاکستان میں بھی آئے دن خواتین اور بچیوں کے ساتھ ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں حال ہی میں کراچی کے ایک پسماندہ علاقے میں پولیس نے ایک سات آٹھ برس کے بچے کی گمشدگی کی رپورٹ درج کی کچھ عرصہ پہلے ہی جس کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے بوری میں بند ملی۔ پولیس نے تحقیقات کی تو ایک رکشے والے کے ذریعے اس معصوم بچے کے قاتل تک آسانی سے رسائی ہو سکی۔ اس بچے کو زیادتی کے بعد گلے پر چھری پھیر کر قتل کیا گیا تھا۔ اس معصوم سے بچے کا قاتل کوئی اور نہیں ایک پندرہ سولہ سالہ بچہ تھا جس نے زیادتی کے بعد بچے کو قتل کر دیا تھا بچے کو پانی بھرنے کے بہانہ گھر میں بلانے والے پندرہ سولہ سالہ بچے نے ایسی قبیح حرکت کیوں کی؟ اس سوال کے پیچھے ہمارے ہی معاشرے کی وہ کالی بھیڑیں ہیں جو اپنے پیسے بنانے کے چکر میں معاشرے کے معصوم بچوں کو غلط قسم کی فلمیں دکھا کر ان کے معصوم ذہنوں کو آلودہ کر رہے ہیں۔ اس سولہ سترہ سال کے بچے نے ہی اس چھپے ہوئے منی سینما گھر کی نشاندہی کرائی جس پر پولیس نے چھاپا مارکر گندی فلموں کا ڈھیر برآمد کیا۔


بظاہر نظر آنے والی ایک عام سی سی ڈیز کی دکان کے پیچھے کیا کچھ زہریلا مواد دکھایا جاتا تھا جسے نو دس برس سے لے کر سترہ اٹھارہ سال تک کے معصوم بچے میٹھا سمجھ کر اپنے معصوم ذہنوں میں اتار رہے تھے۔ کیا یہ ایک پہلی دکان تھی جس میں ایک کالے پردے کے پیچھے چور منی سینما تھا؟ ایسا ہرگز نہیں ہے۔ کسی زمانے میں اسی طرح کے منی سینما گھروں میں چوری چھپے انگریزی بے ہودہ فلمیں دکھائی جاتی تھیں اور کبھی کبھار یہ پولیس چھاپوں کی نذر بھی ہو جاتے تھے لیکن آج کے اس منی سینما گھر کے تماشائی جوان یا بڑی پکی عمر کے حضرات نہیں ہیں سانحہ تو یہ ہے کہ ہماری نئی پود جسے ابھی بہت آگے جانا ہے ان کی کونپلوں میں چپکے چپکے زہر پرویا جا رہا ہے جس نے ایک معصوم بچے سے اپنے ہی جیسے ایک معصوم کم عمر بچے کا خون کروا دیا، اپنا گناہ افشا ہونے کے خوف نے تمام ڈر کہیں گم کر دیے معاشرے کے سامنے نظر آنے والے سڑکوں پر گھومتے پھرتے، گاڑیوں کے شیشے صاف کرتے، موٹر سائیکلوں، گاڑیوں کے پرزے اپنے استاد مستریوں کے لیے مرمت کرتے یہ کم عمر بچے اندر سے کس خوف ناک حد تک پستی میں گرتے جا رہے ہیں یہ ایک بھیانک حقیقت ہے۔

معاشرے میں پھیلنے والی برائیوں پر سب شور تو بہت مچاتے ہیں۔ این جی اوز اور بڑے بڑے مفکر اپنے بیانات داغتے ہیں لیکن مسئلے کو جڑ سے پکڑنے کی کوشش نہیں کی جاتی نہ صرف پاکستان بلکہ بھارت میں بھی بے راہ روی جس انداز سے منفی اثرات ظاہر کر رہی ہے اس سے قومیں کس حد تک متاثر ہو سکتی ہیں ہمیں ابھی اس کا اندازہ ہی نہیں۔

اچھے گھروں کے پڑھے لکھے لوگ اپنے گھروں میں کمپیوٹر رکھ کر بچوں کی طرف سے غافل ہو جاتے ہیں، انٹرنیٹ کے ذریعے بچے کس انداز میں اس ہیجان خیزی کا شکار ہو رہے ہیں کم لوگ ہی توجہ دیتے ہیں۔ فضول قسم کی فلمیں، تصاویر اور بہت کچھ تاروں کے جنگل سے ملک کے کونے کونے میں پھیل چکا ہے۔

حال ہی میں بچوں کے کھلونے سپلائی کرنے والے ایک بہت بڑے بیوپاری کے مطابق بچوں میں آج کل گاڑیوں کی مانگ میں اضافہ ہو گیا ہے گاڑیاں، اسکوٹر اور امیر حضرات کے لیے ہیلی کاپٹر تک اس مانگ میں شامل ہیں، ٹوائے گنز اب آؤٹ ڈیٹڈ ہو چکی ہیں لہٰذا بچے ان بندوقوں کو کسی بھی دام مانگتے ہیں تو ہم بیچ دیتے ہیں بچوں میں گاڑیوں کا یہ رجحان نت نئی سی ڈیز کے ان ایکشن گیمز کے ذریعے مقبول ہو رہے ہیں جن کو کھیل کر بچے آسانی سے اپنے آپ کو ایک دہشت گرد محسوس کرتے ہیں جو پولیس اور عام لوگوں کو اپنی گاڑی سے روندتا ٹکراتا اپنے مقصد کے حصول کے لیے دوڑتا چلا جاتا ہے۔

کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ اگر اپنے اردگرد کی خبر رکھنا چاہتے ہو تو اپنے بچوں پر نظر رکھو کیونکہ یہ بچے جو من کے سچے ہوتے ہیں جو دیکھتے ہیں بس کر ڈالتے ہیں۔ نہ صرف بچے بلکہ بڑے بھی جو دیکھتے ہیں دیکھ کر خوش ہی نہیں ہوتے اپنے آپ کو اسی فلم کا ایک حصہ سمجھتے ہیں لیکن اس کے بعد کے اثرات کتنے زہر آلود ہوتے ہیں جانتے ہوئے بھی نظرانداز کر دیتے ہیں۔
Load Next Story